مندرجات کا رخ کریں

"دین" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Robot: Cosmetic changes
م ربط ساز کی مدد سے علم کلام کا ربط شامل کیا
 
(19 صارفین 37 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{حوالہ دیں}}
لغوی تعریف: [[عربی]] میں [[دین]] کے معنی، اطاعت اور جزا کے ہیں۔ قرآنی ڈکشنری مفردات میں [[راغب اصفھانی]] لکھتے ہیں:”دین ، اطاعت اور جزا کے معنی میں ہے۔ [[شریعت]] کو اس لیئے دین کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی اطاعت کی جانی چاہئے ۔“
اسلام نے [[مذہب]] کے لیے دین کا لفظ استعمال کیا ہے۔ {{قرآن|إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ|سورہ=3|آیت=19}}، {{قرآن|هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّالصف|سورہ=|آیت=6}} لغوی تعریف: [[عربی زبان|عربی]] میں [https://www.mazhab.pk/دین-اور-مذہب-میں-فرق/ '''دین''' کے معنی]، اطاعت اور جزا کے ہیں۔ [[راغب اصفہانی]] لکھتے ہیں: الطاعۃ والجزاء ”دین، اطاعت اور جزا کے معنی میں ہے۔<ref>راغب اصفہانی، مفردات قرآن</ref> [[شریعت]] کو اس لیے دین کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی اطاعت کی جانی چاہیے۔“


== علمی اصطلاح : ==
عقائد اور احکامات عملی کا وہ مجموعہ جو اس مجموعے کے لانے والے کے ذریعےخالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔


== علمی اصطلاح ==
عقائد اور احکامات عملی کا وہ مجموعہ جو اس مجموعے کے لانے والے کے ذریعے خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔
دینِ حق، صرف وہی دین ہو سکتا ہے جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہو۔ اس صورت میں ایسا الہی دین حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوئے یقینی طور پرانسانی سعادت کاضامن ہو سکتا ہے
دینِ حق، صرف وہی دین ہو سکتا ہے جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہو۔ اس صورت میں ایسا الہی دین حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوئے یقینی طور پرانسانی سعادت کاضامن ہو سکتا ہے



== قرآن کریم میں ”دین“ کا استعمال ==
== قرآن کریم میں ”دین“ کا استعمال ==
قرآن کریم میں دین، مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔


== دین کی مختلف جہات ==

قرآن کریم میں دین، مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔

== دین کی مختلف جھات ==

مسلم دانشمندوں نے اسلامی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
مسلم دانشمندوں نے اسلامی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

=== عقائد ===
=== عقائد ===
یہ حصہ، دین کی ان تعلیمات پر مشتمل ہے جو ہمیں جہان ،خداوند اور ازل اور ابد کی صحیح اور حقیقی شناخت سے روشناس کراتا ہے لہذا ہر وہ دینی تفسیر جو مخلوقات کے اوصاف کو بیان کرتی ہو اس حصے میں آجاتی ہے یہیں سے یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ عقائد دین، اصول دین سے وسیع ہیں۔ اصول دین میں عقائد دین کا فقط وہی حصہ شامل ہوتا ہے جس کا جاننا اور اس پر اعتقاد و یقین رکھنا مسلمان ہونے کی شرط ہوتی ہے مثلاً توحید، نبوت اور قیامت۔ وہ علم جو دینی عقائدکو بطور عام بیان کرتاہے وہ [[علم کلام]] ہے اور اسی وجہ سے اس کو علم عقائد بھی کہا جاتا ہے۔

یہ حصہ، دین کی ان تعلیمات پر مشتمل ہے جو ہمیں جھان ،خداوند اور اذل اور ابد کی صحیح اور حقیقی شناخت سے روشناس کراتا ہے لہذا ہر وہ دینی تفسیر جو مخلوقات کے اوصاف کو بیان کرتی ہو اس حصے میں آجاتی ہے یہیں سے یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ عقائد دین، اصول دین سے وسیع ہیں۔ اصول دین میں عقائد دین کا فقط وہی حصہ شامل ہوتا ہے جس کا جاننا اور اس پر اعتقاد و یقین رکھنا مسلمان ہونے کی شرط ہوتی ہے مثلا توحید، نبوت اور قیامت۔ وہ علم جو دینی عقائدکوبطورعام بیان کرتاہے وہ علم کلام ہے اور اسی وجہ سے اس کو علم عقائد بھی کہا جاتا ہے۔


=== علم اخلاق ===
=== علم اخلاق ===
علم اخلاق تعلیمات اسلامی کا وہ حصہ ہے جو اچھی اور بری بشری عادتوں، انسانی نیک صفات اور ان کے حصول نیز ان سے مزین و آراستہ ہونے کو بیان کرتا ہے مثلا تقوی، عدالت، صداقت اور امانت وغیرہ۔


مشھور اسلامی فلاسفر شہید استاد مطھری کے الفاظ میں: " اخلاق یعنی روحانی صفات اور معنوی خصلت و عادات کی رو سے وہ مسائل،احکام اور قوانین جن کے ذریعے سے ایک اچھا انسان بنا جا سکتا ہے۔
علم اخلاق تعلیمات اسلامی کا وہ حصہ ہے جو اچھی اور بری بشری عادتوں، انسانی نیک صفات اور ان کے حصول نیز ان سے مزین و آراستہ ہونے کو بیان کرتا ہے مثلا تقوی، عدالت، صداقت اور امانت وغیرہ۔ مشہور اسلامی فلاسفر شہید استاد مطہری کے الفاظ میں: " اخلاق یعنی روحانی صفات اور معنوی خصلت و عادات کی رو سے وہ مسائل،احکام اور قوانین جن کے ذریعے سے ایک اچھا انسان بنا جا سکتا ہے۔ علم اخلاق اسلامی تعلیمات کے اس حصے کی تشریح و تفسیر کرتا ہے۔{{حوالہ درکار}}

علم اخلاق اسلامی تعلیمات کے اس حصے کی تشریح و تفسیر کرتا ہے۔


=== فقہ ===
=== فقہ ===


ہر وہ عمل جس کا ہم آغاز کرنے جارہے ہوتے ہیں اسکے بارے میں خدا کی رضا جاننا ضروری ہے۔ پس ہم جو اعمال انجام دیتے ہیں یا تو انکا انجام دینا خداوند کی طرف سےضروری ہے( واجبات) ، یا انکا انجام دینا بھتر ہے (مستحبات) یا انکو قطعاً انجام نھیں دنیا چاھئے (حرام) ، یا انکا انجام نہ دینا بہتر ہے(مکروہ) یا ایسے امور اور اعمال جنکا انجام دینا یا نہ دینا مساوی ہے (مباحات) ۔ دینی تعلیمات کے اس حصہ کی وضاحت، علم فقہ میں کی جاتی ہے۔
ہر وہ عمل جس کا ہم آغاز کرنے جا رہے ہوتے ہیں اس کے بارے میں خدا کی رضا جاننا ضروری ہے۔ پس ہم جو اعمال انجام دیتے ہیں یا تو انکا انجام دینا خداوند کی طرف سے ضروری ہے( واجبات) یا انکا انجام دینا بہتر ہے (مستحبات) یا ان کو قطعاً انجام نہیں دنیا چاہیے (حرام) یا انکا انجام نہ دینا بہتر ہے(مکروہ) یا ایسے امور اور اعمال جن کا انجام دینا یا نہ دینا مساوی ہے (مباحات)۔ دینی تعلیمات کے اس حصہ کی وضاحت، علم فقہ میں کی جاتی ہے۔


ان سوالات پر غور کریں
ان سوالات پر غور کریں

* آخر دین کی طرف توجہ کرنے اور درد سر میں پڑنے کی کیاضرورت ہے؟
* آخر دین کی طرف توجہ کرنے اور درد سر میں پڑنے کی کیاضرورت ہے؟
* بے دین ہونے سے کیا نقصان ہوگا؟
* بے دین ہونے سے کیا نقصان ہوگا؟
* دیندار ہونے کا کیا فائدہ ہے؟
* دیندار ہونے کا کیا فائدہ ہے؟
* انبیاء کیوں آئے اورکیا انکے آنے کا انکارکیا جاسکتا ہے؟
* انبیا کیوں آئے اورکیا ان کے آنے کا انکارکیا جا سکتا ہے؟


== دین کی ضرورت ==
== دین کی ضرورت ==

سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سا عامل یا عوامل ادیان کے صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دین حق کو پہچاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا کیوں ضروری ہے؟
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاھیے کہ کون سا عامل یا عوامل ادیان کے صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دین حق کو پہچاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا کیوں ضروری ہے؟


ایک آزاد فکر و نظر کے حامل شخص کی عقل اس سلسلے میں تحقیق و جستجو کو لازم اور ضروری شمار کرتی ہے اور اس کی مخالفت کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتی۔
ایک آزاد فکر و نظر کے حامل شخص کی عقل اس سلسلے میں تحقیق و جستجو کو لازم اور ضروری شمار کرتی ہے اور اس کی مخالفت کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتی۔
ایک انسان کے ليے ضروری ہے کہ وہ عقلی حکم کی بنا پر تحقیق کرے کہ نبوت اور رسالت کا دعوی کرنے والے واقعی خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے یا نھیں؟ اور اس تحقیق و جستجو کے سفر میں وہاں تک بڑھتا چلا جائے کہ اس کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہ سب کے سب غلط اور جھوٹے تھے یا پھر اگر برحق تھے تو ان کی تعلیمات کو سمجھے اوران پر عمل پیرا ہوجائے کیونکہ:
ایک انسان کے ليے ضروری ہے کہ وہ عقلی حکم کی بنا پر تحقیق کرے کہ نبوت اور رسالت کا دعوی کرنے والے واقعی خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے یا نہیں؟ اور اس تحقیق و جستجو کے سفر میں وہاں تک بڑھتا چلا جائے کہ اس کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہ سب کے سب غلط اور جھوٹے تھے یا پھر اگر برحق تھے تو ان کی تعلیمات کو سمجھے اوران پر عمل پیرا ہو جائے کیونکہ:
# انسان ذاتاً اپنی سعادت، ترقی اور کمال کا طالب ہے اور یہ کمال و سعادت کی کشش اس کی خود پسندی سے سرچشمہ حاصل کرتی ہے۔ یہی خودپسندی انسانی کا رگزاریوں اور فعالیتوں کی اصلی محرک ہوتی ہے۔
# پیغمبری کا دعوی کرنے والا یہ وعوی کرتا ہے کہ: ”اگرکوئی میری تعلیمات کو قبول کرلے اور ان پر عمل پیرا ہو جائے تو ابدی سعادت حاصل کرلے گا اوراگر قبول نہ کرے تو ہمیشہ کے ليے عذاب و سزا کا حقدار ہو جائے گا۔“
# اس دعوے کی صحت کا احتمال ہے کیونکہ انسان نبوت کے مدعی کے دعوے کے باطل ہونے کا یقین نہیں رکھتا۔
# کیونکہ انسان کی ابدی سعادت و شقاوت کا مُحتَمَل (Chance) بہت زیادہ ہے اور اس سے اہم مسئلہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نابینا شخص کہیں جاتے ہوئے کسی ایسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے یہ کہے کہ اگر تم دس قدم بھی آگے بڑھے تو ایسے کنویں میں جا گرو گے کہ پھر کبھی اس سے باھر نہ نکل سکوگے اور اگر داہنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ایسے باغ میں داخل ھو جاؤ گے کہ ھمیشہ اس باغ میں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو گے۔ نابینا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحیح ہونے کا احتمال دے تو اس کی عقل اس سے کہے گی کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے یا کم از کم احتیاطاً اپنا راستہ موڑدے۔


لہذا، اگر انسان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طویل تاریخ میں ایسے والا صفات افراد آئے ہیں جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے اس ليے بھیجے گئے ہیں تاکہ انسانوں کو ابدی سعادت سے ہمکنار کرسکیں اور دوسری طرف اس بات کا بھی مشاھدہ کرے کہ ان عظیم افراد نے اپنے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے نیز ھدایت انسان میں کوئی کوتاھی نہیں کی ہے ساتھ ہی ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کیا ہے حتی اپنی جان تک دے دی ہے تو عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ان عظیم افراد کے دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے۔
(1) انسان ذاتاً اپنی سعادت ، ترقی اور کمال کا طالب ہے اور یہ کمال و سعادت کی کشش اسکی خود پسندی سے سرچشمہ حاصل کرتی ہے۔ یہی خودپسندی انسانی کا رگزاریوں اور فعالیتوں کی اصلی محرک ہوتی ہے۔
(2) پیغمبری کا دعوی کرنے والا یہ وعوی کرتا ہے کہ: ”اگرکوئی میری تعلیمات کو قبول کرلے اور ان پر عمل پیرا ہوجائے تو ابدی سعادت حاصل کرلے گا اوراگر قبول نہ کرے تو ہمیشہ کے ليے عذاب و سزا کا حقدار ہو جائے گا۔“
(3) اس دعوے کی صحت کا احتمال ہے کیونکہ انسان نبوت کے مدعی کے دعوے کے باطل ہونے کا یقین نھیں رکھتا۔
(4) کیونکہ انسان کی ابدی سعادت و شقاوت کا مُحتَمَل (Chance) بہت زیادہ ہے اور اس سے اہم مسئلہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نابینا شخص کہیں جاتے ہوئے کسی ایسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے یہ کہے کہ اگر تم دس قدم بھی آگے بڑھے تو ایسے کنویں میں جا گرو گے کہ پھر کبھی اس سے باھر نہ نکل سکوگے اور اگر داہنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ایسے باغ میں داخل ھو جاؤ گے کہ ھمیشہ اس باغ میں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ھوتے رھو گے۔ نابینا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحیح ھونے کا احتمال دے تو اس کی عقل اس سے کہے گی کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے یا کم از کم احتیاطاً اپنا راستہ موڑدے۔


دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نقصان یا ضرر سے بچنا، عقل کے مسلم احکامات میں سے ہے اور یہ حکم، احتمال اور محتمل کے شدید یا ضعیف ھونے کی بنا پر، شدید یا ضعیف ہو جاتا ہے جتنا انسان کے ليے اس نقصان کے پہنچنے کا احتمال زیادہ ہو گا اور جتنا محتمل شدید ہو گا اتنا ہی اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھی شدید اور سخت ہو جائے گا۔
لہذا ، اگر انسان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طویل تاریخ میں ایسے والا صفات افراد آئے ھیں جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے اس ليے بھیجے گئے ھیں تاکہ انسانوں کو ابدی سعادت سے ھمکنار کرسکیں اور دوسری طرف اس بات کا بھی مشاھدہ کرے کہ ان عظیم افراد نے اپنے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے نیز ھدایت انسان میں کوئی کوتاھی نہیں کی ہے ساتھ ہی ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کیا ہے حتی اپنی جان تک دے دی ہے تو عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ان عظیم افراد کے دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے۔
دین کو قبول اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا پڑے گا کیونکہ یہ نقصان (محتمل) بہت عظیم اور خطرناک ہے لہذا احتمالی نقصان سے بچنے کے لیے عقل کا حکم بہت شدید ہوگا۔
# اپنی ذات سے محبت کے علاوہ ایک دوسرا سبب انسان کو ہمیشہ اس بات کے ليے اکساتا رھتا ہے کہ وہ دین سے متعلق تحقیق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرنا ہے۔ انسان فطرتاً حقیقت کا متلاشی ہے یہ حس ہمیشہ اس کی جان سے چمٹی رہتی ہے۔ یہی وہ حس ہے جو آدمی کو اس بات پر اکساتی رہتی ہے کہ وہ مسائل دینی کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے۔


کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟اگر ہے تو وہ خالق کون ہے؟ اس کے صفات کیا ہیں؟ خدا سے انسان کا رابطہ کس طرح کا ہے؟ کیا انسان مادی بدن کے علاوہ غیر مادی روح بھی رکھتا ہے؟ کیا اس دنیوی زندگی کے علاوہ بھی دوسری کوئی زندگی ہے اگر ہاں تو اِس زندگی سے اُس زندگی کا کیا رابطہ ہے؟
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ نقصان یا ضرر سے بچنا ، عقل کے مسلم احکامات میں سے ہے اور یہ حکم، احتمال اور محتمل کے شدید یا ضعیف ھونے کی بنا پر، شدید یا ضعیف ھوجاتا ہے جتنا انسان کے ليے اس نقصان کے پہنچنے کا احتمال زیادہ ھوگا اور جتنا محتمل شدید ھوگا اتنا ھی اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھی شدید اور سخت ھوجائے گا۔
دین کو قبول اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے جھنم میں رہنا پڑے گا کیونکہ یہ نقصان ( محتمل) بھت عظیم اور خطرناک ہےلہذا احتمالی نقصان سے بچنے کے لیئے عقل کا حکم بہت شدید ہوگا ۔


یہ سوالات اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایک حقیقت کے متلاشی انسان کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے اور اس وقت تک چمٹے رھتے ہیں جب تک اسے ایسے جوابات نہ مل جائیں جو اس کو مطمئن کرسکیں۔
(6) اپنی ذات سے محبت کے علاوہ ایک دوسرا سبب انسان کو ھمیشہ اس بات کے ليے اکساتا رھتا ہے کہ وہ دین سے متعلق تحقیق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرنا ہے ۔ انسان فطرتاً حقیقت کا متلاشی ہے یہ حس ھمیشہ اس کی جان سے چمٹی رہتی ہے۔ یہی وہ حس ہے جو آدمی کو اس بات پر اکساتی رہتی ہے کہ وہ مسائل دینی کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے۔


ہر دین کا عقائد پر مبنی حصہ درحقیقت اس طرح کے سوالوں سے متعلق اس دین کے جوابات ہی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ اس کورس کے اختتام پر دینی تعلیمات کو سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تاکہ اپنی اس فطری خواہش کو بجھا سکیں جو خداوند نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔
کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟اگر ہے تو وہ خالق کون ہے؟ اس کے صفات کیا ھیں؟ خدا سے انسان کا رابطہ کس طرح کا ہے؟ کیا انسان مادی بدن کے علاوہ غیر مادی روح بھی رکھتا ہے؟ کیا اس دنیوی زندگی کے علاوہ بھی دوسری کوئی زندگی ہے اگر ہاں تو اِس زندگی سے اُس زندگی کا کیا رابطہ ہے؟
ان سوالات پر غور کریں۔
* اصول دین کیا کیا مطلب ہے؟
* درخت کے کتنے اجزاء ہوتے ہیں، غور کریں!
* اگر بیج بونے کے بعد درخت کو پانی، ہوا اور روشنی نہ ملے تو کیا ہوگا؟
* اگر کوئی دین قبول کرنے کے بعد عمل نہ کرے تو کیا ہوگا؟
* دنیا میں مختلف مذاہب اور ادیان ہیں ایساکیوں ہے؟


== مزید دیکھیے ==
یہ سوالات اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایک حقیقت کے متلاشی انسان کا دامن کبھی نھیں چھوڑتے اور اس وقت تک چمٹے رھتے ھیں جب تک اسے ایسے جوابات نہ مل جائیں جو اس کو مطمئن کرسکیں۔
* [[دنیا]]
* [[اسلام]]
* [https://www.sunnism.com/founder-of-islam/ اسلام کے بانی]


== حوالہ جات ==
ھر دین کا عقائد پر مبنی حصہ درحقیقت اس طرح کے سوالوں سے متعلق اس دین کے جوابات ھی ھیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ اس کورس کے اختتام پر دینی تعلیمات کو سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تاکہ اپنی اس فطری خواہش کو بجھا سکیں جو خداوند نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔
{{حوالہ جات}}
ان سوالات پر غور کریں

* اصول دین کیا کیا مطلب ہے؟
* درخت کے کتنے اجزاء ہوتے ہیں، غور کریں!
* اگر بیج بونے کے بعد درخت کو پانی ، ہوا اور روشنی نہ ملے تو کیا ہوگا؟
* اگر کوئی دین قبول کرنے کے بعد عمل نہ کرے تو کیا ہوگا ؟
* دنیا میں مخلف مذاھب اور ادیان ہیں ایساکیوں ہے؟


[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
[[زمرہ:دلائل و مباحثے]]
[[زمرہ:دلائل و مباحثے]]
[[زمرہ:عربی الفاظ اور جملے]]
[[زمرہ:مذہبی اصطلاحات]]
[[زمرہ:مذہبی اصطلاحات]]
[[زمرہ:ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل]]

[[en:Ad-Din]]
[[de:Din (Islam)]]
[[fr:Dîn]]
[[it:Dîn]]

حالیہ نسخہ بمطابق 00:53، 11 مارچ 2024ء

اسلام نے مذہب کے لیے دین کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ﴾، ﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّالصف﴾ لغوی تعریف: عربی میں دین کے معنی، اطاعت اور جزا کے ہیں۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: الطاعۃ والجزاء ”دین، اطاعت اور جزا کے معنی میں ہے۔[1] شریعت کو اس لیے دین کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی اطاعت کی جانی چاہیے۔“

علمی اصطلاح

[ترمیم]

عقائد اور احکامات عملی کا وہ مجموعہ جو اس مجموعے کے لانے والے کے ذریعے خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ دینِ حق، صرف وہی دین ہو سکتا ہے جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہو۔ اس صورت میں ایسا الہی دین حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوئے یقینی طور پرانسانی سعادت کاضامن ہو سکتا ہے

قرآن کریم میں ”دین“ کا استعمال

[ترمیم]

قرآن کریم میں دین، مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔

دین کی مختلف جہات

[ترمیم]

مسلم دانشمندوں نے اسلامی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

عقائد

[ترمیم]

یہ حصہ، دین کی ان تعلیمات پر مشتمل ہے جو ہمیں جہان ،خداوند اور ازل اور ابد کی صحیح اور حقیقی شناخت سے روشناس کراتا ہے لہذا ہر وہ دینی تفسیر جو مخلوقات کے اوصاف کو بیان کرتی ہو اس حصے میں آجاتی ہے یہیں سے یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ عقائد دین، اصول دین سے وسیع ہیں۔ اصول دین میں عقائد دین کا فقط وہی حصہ شامل ہوتا ہے جس کا جاننا اور اس پر اعتقاد و یقین رکھنا مسلمان ہونے کی شرط ہوتی ہے مثلاً توحید، نبوت اور قیامت۔ وہ علم جو دینی عقائدکو بطور عام بیان کرتاہے وہ علم کلام ہے اور اسی وجہ سے اس کو علم عقائد بھی کہا جاتا ہے۔

علم اخلاق

[ترمیم]

علم اخلاق تعلیمات اسلامی کا وہ حصہ ہے جو اچھی اور بری بشری عادتوں، انسانی نیک صفات اور ان کے حصول نیز ان سے مزین و آراستہ ہونے کو بیان کرتا ہے مثلا تقوی، عدالت، صداقت اور امانت وغیرہ۔ مشہور اسلامی فلاسفر شہید استاد مطہری کے الفاظ میں: " اخلاق یعنی روحانی صفات اور معنوی خصلت و عادات کی رو سے وہ مسائل،احکام اور قوانین جن کے ذریعے سے ایک اچھا انسان بنا جا سکتا ہے۔ علم اخلاق اسلامی تعلیمات کے اس حصے کی تشریح و تفسیر کرتا ہے۔[حوالہ درکار]

فقہ

[ترمیم]

ہر وہ عمل جس کا ہم آغاز کرنے جا رہے ہوتے ہیں اس کے بارے میں خدا کی رضا جاننا ضروری ہے۔ پس ہم جو اعمال انجام دیتے ہیں یا تو انکا انجام دینا خداوند کی طرف سے ضروری ہے( واجبات) یا انکا انجام دینا بہتر ہے (مستحبات) یا ان کو قطعاً انجام نہیں دنیا چاہیے (حرام) یا انکا انجام نہ دینا بہتر ہے(مکروہ) یا ایسے امور اور اعمال جن کا انجام دینا یا نہ دینا مساوی ہے (مباحات)۔ دینی تعلیمات کے اس حصہ کی وضاحت، علم فقہ میں کی جاتی ہے۔

ان سوالات پر غور کریں

  • آخر دین کی طرف توجہ کرنے اور درد سر میں پڑنے کی کیاضرورت ہے؟
  • بے دین ہونے سے کیا نقصان ہوگا؟
  • دیندار ہونے کا کیا فائدہ ہے؟
  • انبیا کیوں آئے اورکیا ان کے آنے کا انکارکیا جا سکتا ہے؟

دین کی ضرورت

[ترمیم]

سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاھیے کہ کون سا عامل یا عوامل ادیان کے صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دین حق کو پہچاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا کیوں ضروری ہے؟

ایک آزاد فکر و نظر کے حامل شخص کی عقل اس سلسلے میں تحقیق و جستجو کو لازم اور ضروری شمار کرتی ہے اور اس کی مخالفت کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتی۔ ایک انسان کے ليے ضروری ہے کہ وہ عقلی حکم کی بنا پر تحقیق کرے کہ نبوت اور رسالت کا دعوی کرنے والے واقعی خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے یا نہیں؟ اور اس تحقیق و جستجو کے سفر میں وہاں تک بڑھتا چلا جائے کہ اس کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہ سب کے سب غلط اور جھوٹے تھے یا پھر اگر برحق تھے تو ان کی تعلیمات کو سمجھے اوران پر عمل پیرا ہو جائے کیونکہ:

  1. انسان ذاتاً اپنی سعادت، ترقی اور کمال کا طالب ہے اور یہ کمال و سعادت کی کشش اس کی خود پسندی سے سرچشمہ حاصل کرتی ہے۔ یہی خودپسندی انسانی کا رگزاریوں اور فعالیتوں کی اصلی محرک ہوتی ہے۔
# پیغمبری کا دعوی کرنے والا یہ وعوی کرتا ہے کہ: ”اگرکوئی میری تعلیمات کو قبول کرلے اور ان پر عمل پیرا ہو جائے تو ابدی سعادت حاصل کرلے گا اوراگر قبول نہ کرے تو ہمیشہ کے ليے عذاب و سزا کا حقدار ہو جائے گا۔“
# اس دعوے کی صحت کا احتمال ہے کیونکہ انسان نبوت کے مدعی کے دعوے کے باطل ہونے کا یقین نہیں رکھتا۔
# کیونکہ انسان کی ابدی سعادت و شقاوت کا مُحتَمَل (Chance) بہت زیادہ ہے اور اس سے اہم مسئلہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نابینا شخص کہیں جاتے ہوئے کسی ایسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے یہ کہے کہ اگر تم دس قدم بھی آگے بڑھے تو ایسے کنویں میں جا گرو گے کہ پھر کبھی اس سے باھر نہ نکل سکوگے اور اگر داہنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ایسے باغ میں داخل ھو جاؤ گے کہ ھمیشہ اس باغ میں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو گے۔ نابینا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحیح ہونے کا احتمال دے تو اس کی عقل اس سے کہے گی کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے یا کم از کم احتیاطاً اپنا راستہ موڑدے۔

لہذا، اگر انسان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طویل تاریخ میں ایسے والا صفات افراد آئے ہیں جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے اس ليے بھیجے گئے ہیں تاکہ انسانوں کو ابدی سعادت سے ہمکنار کرسکیں اور دوسری طرف اس بات کا بھی مشاھدہ کرے کہ ان عظیم افراد نے اپنے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے نیز ھدایت انسان میں کوئی کوتاھی نہیں کی ہے ساتھ ہی ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کیا ہے حتی اپنی جان تک دے دی ہے تو عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ان عظیم افراد کے دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے۔

دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نقصان یا ضرر سے بچنا، عقل کے مسلم احکامات میں سے ہے اور یہ حکم، احتمال اور محتمل کے شدید یا ضعیف ھونے کی بنا پر، شدید یا ضعیف ہو جاتا ہے جتنا انسان کے ليے اس نقصان کے پہنچنے کا احتمال زیادہ ہو گا اور جتنا محتمل شدید ہو گا اتنا ہی اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھی شدید اور سخت ہو جائے گا۔ دین کو قبول اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا پڑے گا کیونکہ یہ نقصان (محتمل) بہت عظیم اور خطرناک ہے لہذا احتمالی نقصان سے بچنے کے لیے عقل کا حکم بہت شدید ہوگا۔

  1. اپنی ذات سے محبت کے علاوہ ایک دوسرا سبب انسان کو ہمیشہ اس بات کے ليے اکساتا رھتا ہے کہ وہ دین سے متعلق تحقیق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرنا ہے۔ انسان فطرتاً حقیقت کا متلاشی ہے یہ حس ہمیشہ اس کی جان سے چمٹی رہتی ہے۔ یہی وہ حس ہے جو آدمی کو اس بات پر اکساتی رہتی ہے کہ وہ مسائل دینی کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے۔

کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟اگر ہے تو وہ خالق کون ہے؟ اس کے صفات کیا ہیں؟ خدا سے انسان کا رابطہ کس طرح کا ہے؟ کیا انسان مادی بدن کے علاوہ غیر مادی روح بھی رکھتا ہے؟ کیا اس دنیوی زندگی کے علاوہ بھی دوسری کوئی زندگی ہے اگر ہاں تو اِس زندگی سے اُس زندگی کا کیا رابطہ ہے؟

یہ سوالات اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایک حقیقت کے متلاشی انسان کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے اور اس وقت تک چمٹے رھتے ہیں جب تک اسے ایسے جوابات نہ مل جائیں جو اس کو مطمئن کرسکیں۔

ہر دین کا عقائد پر مبنی حصہ درحقیقت اس طرح کے سوالوں سے متعلق اس دین کے جوابات ہی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ اس کورس کے اختتام پر دینی تعلیمات کو سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تاکہ اپنی اس فطری خواہش کو بجھا سکیں جو خداوند نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ ان سوالات پر غور کریں۔

  • اصول دین کیا کیا مطلب ہے؟
  • درخت کے کتنے اجزاء ہوتے ہیں، غور کریں!
  • اگر بیج بونے کے بعد درخت کو پانی، ہوا اور روشنی نہ ملے تو کیا ہوگا؟
  • اگر کوئی دین قبول کرنے کے بعد عمل نہ کرے تو کیا ہوگا؟
  • دنیا میں مختلف مذاہب اور ادیان ہیں ایساکیوں ہے؟

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. راغب اصفہانی، مفردات قرآن