مندرجات کا رخ کریں

کائٹ رنر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کائٹ رنر
(انگریزی میں: The kite runner)[1]،(جرمنی میں: Drachenläufer ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مصنف خالد حسینی   ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع افغانستان ،  دوستی ،  سماجی طبقہ ،  ہزارہ برادری ،  تقصیر ،  کابل ،  تحریک الاسلامی طالبان ،  بچوں کا جنسی استحصال   ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ اشاعت 29 مئی 2003  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 
اے تھاؤزنڈ سپلنڈڈ سنز   ویکی ڈیٹا پر (P156) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

دی کائٹ رنر افغانی نژاد امریکی ناول نگار خالد حسینی[2] کا پہلا ناول ہے جسے ریورہیڈ بکز نے 2003ء میں شائع کیا۔ خالد حسینی کے ناول دی کائٹ رنر افغانستان میں سوویت یونین کے حملوں، طالبانی حکومت، بدلتی سیاست میں برباد ہوتے افغانستان کے پس منظر میں لکھا گیا عمدہ ناول ہے۔ یہ ناول کئی ہفتوں تک بیسٹ سیلر بنا رہا۔ کہانی کی بنت، جاندار منظر نگاری اور کردار قاری کی دلچسپی قائم رکھتے ہیں، اس ناول پر فلم بھی بن چکی ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے قاری کو کئی بار محسوس ہوگا کہ شاید یہ مصنف کی اپنی کہانی ہے۔ مصنف کے مطابق یہ کہانی باپ اور بیٹے کے رشتے پر مبنی ہے [3]۔

کردار

[ترمیم]

عامر،حسن، آصف، بابا، علی، رحیم خان، ثریا، سہراب، صنوبر، فرید۔

کہانی

[ترمیم]

یہ کہانی ہے وزیر اکبر خان ضلع کابل میں رہنے والے دو دوستوں عامر اور حسن کی۔ عامر جو پشتون ہے جس کے بابا وزیر اکبر خان کے عزت دار اور دولت مند شخص ہیں ، حسن جو ہزارہ ہے نوکر علی کا بیٹا ہے۔ عامر اور حسن میں دوستی تو ہے مگر نوکر اور ملک کا رشتا بھی حائل ہے۔ عامر ایک ڈرپوک اور بزدل بچہ ہے اُسکے بابا چاہتے ہیں کہ عامر اُنکی طرح نڈر بہادر بنے اور ہر فیلڈ میں چیمپیئن رہے۔ عامر کے بنا جب حسن کو پیار کرتے ہیں تب عامر کو حسن سے جلن محسوس ہوتی ہے اُسے لگتا ہے کہ اُسکے بابا صرف اُس سے پیار کریں۔ باپ بیٹے کے درمیان میں تہذیب اور روایات کی ایک دیوار کھڑی ہوتی ہے جسے پھلانگنے کی کوشش میں کئی بار عامر عجیب و غریب حرکتیں بھی کرتا ہے۔

وزیر اکبر خان میں ہر سال سردیوں میں پتنگ بازی کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں عامرحصّہ لیتا ہے۔ عامر پتنگ اڑاتا ہے اور حسن اُسکے لیے کٹی ہوئی پتنگ لوٹ کرلاتا ہے۔ جب عامر پوچھتا ہے "کیا تم میرے لیے پتنگ لوٹ کر لاؤ گے؟" تب حسن کا جواب ہوتا ہے "آپ کے لیے ہزار بار"

آخر جب عامر پتنگ بازی میں حصّہ لیتا ہے تو کہتا ہے کہ وہ پتنگ بازی کا مقابلہ بھی جیتے گا اور پتنگ بھی لوٹ کر لائے گا اور اپنے بابا کو دکھائے گا کہ وہ کتنا قابل ہے۔ وہ پتنگ لوٹنے کے لیے حسن کو بھیجتا ہے جب حسن کو دیر ہو جاتی ہے آنے میں تب عامر اُسے ڈھونڈھنے نکلتا ہے اور پھر حسن کے ساتھ کچھ ایسا غلط ہوتے دیکھتا ہے کہ ڈر جاتا ہے مگر اُسے بچانے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ اُسکا یہ احساسِ جرم اُسے ملامت کرتا رہتا ہے۔ اس احساسِ جرم سے نکلنے کے لیے وہ ایک اور جرم کرتا ہے حسن اور اُسکے باپ علی پر چوری کا جھوٹا الزام لگا کر نکلوا دیتا ہے۔اُسکے بعد عامر کبھی بھی حسن کو دیکھ نہیں پاتا ہے۔ پھر روسی فوجوں کا افغانستان آنا ،عامر اور اُسکے بابا کا پاکستان اور پھر امریکا جانا، عامر کا رائٹر بننا ایک لمبی جدّوجہد بھری داستان ہے۔

کئی سال گزرنے کے بعد عامر کو ایک خط موصول ہوتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا آخری موقع ہے تمھارے پاس اگر چاہتے ہو تو واپس آ جاؤں۔ عامر ایک بار پھر پاکستان واپس آتا ہے جہاں اُسے اپنے اور حسن کے رشتے کا پتہ چلتا ہے لیکن حسن اب اس دنیا میں نہیں تھا مگر اُسکا ایک بیٹا افغانستان کے یتیم خانے میں ہے۔ ڈرپوک اور بزدل عامر حسن کے بیٹے کو لینے افغانستان واپس جاتا ہے جہاں سب کچھ تحس نحس ہو چکا ہے۔ حسن کا بیٹا اُسے ملتا تو ہے مگر بہت بری حالات میں۔

کہانی میں ہزارہ کمیونٹی کا درد بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ کہانی دوستی پر بھی مبنی ہے۔ کہانی کا انت ایک خوشنما اُداسی کے ساتھ ہوتا ہے۔

جب عامر، حسن کے بیٹے کے لیے پتنگ لوٹنے جاتا ہے یہ بولتے ہوئے 'تمھارے لیے ہزار بار' تب قاری کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر مسکراہٹ ہوگی۔ دل کو چھو لینے والی کہانی ہے۔ ناول کی کُچھ اچھے لائنز۔

گناہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے چوری۔
جب تم جھوٹ بولتے ہو تو کسی سے اس کا سچ "چرا" لیتے ہو۔
کسی کو قتل کرتے ہو تو اس کی زندگی چرا لیتے ہو۔
کسی کو دھوکا دیتے ہو تو ایمانداری چرا لیتے ہو۔
اچھا بننے کے لیے ایک راستہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔
افغانستان میں بچے بہت ہیں لیکن بچپن (یا بچپنا) نہیں ہے۔
آنکھیں۔۔۔ روح کا روشندان ہیں۔
سچائی سے زخم کھانا بہتر ہے بہ نسبت جھوٹ کے ساتھ آرام دہ رہنے سےـ
"اداس کہانیاں" ایک اچھی کتاب کی نشانی ہوتی ہیں۔
افغانی لوگ آزاد لوگ ہیں وہ رواجوں پر چلتے ہیں لیکن قانون سے نفرت کرتے ہیں۔

کہانی کا عنصر

[ترمیم]

حسینی بذاتِ خود اِس ناول کو باپ بیٹے کی کہانی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کہانی میں ایک عنصر پہ بہت توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے کنبہ۔ اسی عنصر کو انھوں نے اپنی بعد کی تحریروں میں بھی استعمال کیا ہے۔ حسن پہ تشدد کے عمل کے منظر کو دکھایا گیا ہے کہ عامر جسے روکنے میں ناکام رہتا ہے اور اسی لیے اُس کا احساسِ جُرم اور اِس سے چھُٹکارا نمایاں طور پہ اِس ناول کے موضوعات ہیں۔ کتاب کا آخری نصف حصہ عامر کی اُن کوششوں پہ مبنی ہے جو اُس نے اپنی خطا کی تلافی کے طور پہ دو دہائیوں کے بعد عامر کے بیٹے کو طالبان سے بچانے کے لیے کی ہیں۔

کتاب کی شہرت

[ترمیم]

دی کائٹ رنر نے کاغذی پشتہ میں چھپنے کے بعد فروخت کا ریکارڈ قائم کر دیا اور کتابوں کے کلب میں بہت مشہور ہوئی۔ یہ دو سالوں تک نیویارک ٹائمز کی بہترین فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک رہی۔ اِس ناول کی ستر لاکھ کاپیاں متحدہ امریکا میں فروخت ہوئیں۔ جائزے عام طور پر مثبت رہے گو کہ کہانی کے کچھ حصے افغانستان کے لوگوں میں تنازعات کا سبب بنے۔

فلم

[ترمیم]

اشاعت کے بعد کتاب میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ "دی کائٹ رنر" ناول اسی نام سے 2007ء میں فلمایا بھی گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ربط: https://d-nb.info/gnd/7725227-5 — اجازت نامہ: CC0
  2. R. Noor، Khaled Hosseini (September–December 2004)۔ "The Kite Runner"۔ World Literature Today۔ 78 (3/4): 148۔ ISSN 0196-3570۔ JSTOR 40158636۔ doi:10.2307/40158636 
  3. "An interview with Khaled Hosseini"۔ Book Browse۔ 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ July 31, 2013