مندرجات کا رخ کریں

سورہ النصر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(النصر سے رجوع مکرر)
النصر
سورة النصر
دور نزولمکی
نام کے معنیمدد
اعداد و شمار
عددِ سورت110
عددِ پارہ30
تعداد آیات3
گذشتہالکافرون
آئندہاللھب
سورہ النصر

ترجمہ جالندھری

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

جب خدا کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی) (1)

اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں (2)

تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے (3)

ترجمہ اشرف علی تھانوی

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

اے محمد جب خدا کی مدد اور (مکہ کی) فتح (مع اپنے آثار کے ) آ پہنچے (یعنی واقع ہو جائے)۔ (1)

اور( آثار جو اس پر متفرع ہونے والے ہیں کہ) آپ لوگوں کو الله کے دین (یعنی اسلام) میں جوق جوق داخل ہوتا ہوا دیکھ لیں۔ (2)

تو اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیجیے اور اس سے استغفار کی درخواست کیجیے وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (3)

ترجمہ احمد علی

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

جب الله کی مدد اور فتح آ چکی (1)

اورآپ نے لوگوں کو الله کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھ لیا (2)

تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے معافی مانگیئے بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے (3)

شماریات

سورہ النصر میں 3 آیات، 17 کلمات اور 77 حروف موجود ہیں۔[1] 1 رکوع ہے۔

نام و تاریخ

پہلی آیت اذا جآءَ نصر اللہ کے لفظ نصر کو اِس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول حضرت عبد اللہ بن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے، یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل نہیں ہوئی حوالہ: مسلم، نسائی، طبرانی، ابن ابی شیبہ، ابن مردویہ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر ایامِ تشریق کے وسط میں بمقامِ منٰی نازل ہوئی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا حوالہ: ترمذی، بزار، بیہقی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو یعلٰی، ابن مردویہ۔ بیہقی نے کتاب الحج میں حضرت سراء بن بنہان کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ خطبہ نقل کیا ہے جو آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ:

میں نے حجۃ الوداع میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ لوگو جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ ایامِ تشریق کے بیچ کا دن ہے۔ پھر آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ مشعرِ حرام ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا، شاید اس کے بعد میں تم سے نہ مل سکوں۔ خبردار رہو، تمھارے خون اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے پر اُسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مقام حرام ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اور وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں سوال کرے۔ سنو، یہ بات تم میں سے قریب والا دور والے تک پہنچا دے۔ سنو، کیا میں نے تمھیں پہنچا دیا؟ اس کے بعد جب ہم لوگ مدینہ واپس ہوئے تو کچھ زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہو گیا

ان دونوں روایتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نصر کے نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے درمیان تین مہینے کچھ دن کا فصل تھا، کیونکہ تاریخ کی رو سے حجۃ الوداع اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وِصال کے درمیان اتنا ہی زمانہ گذرا تھا۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اور میرا وقت آن پورا ہوا حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ دوسری روایات جو حضرت عبد اللہ بن عباس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہوئی ہیں اُن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِس سورت کے نزول سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ کو دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے حوالہ: مسند احمد، ابن جریر، نسائی ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اس سال میرا انتقال ہونے والا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا رو دیں۔ اس پر آپ نے فرمایا میرے خاندان میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی۔ یہ سن کر وہ ہنس دیں حوالہ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ۔ قریب قریب اِسی مضمون کی روایت بیہقی نے ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے نقل کی ہے۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بڑے شیوح کے ساتھ اپنی مجلس میں بلاتے تھے۔ یہ بات بعض بزرگوں کو ناگوار گذری اور انھوں نے کہا ہمارے لڑکے بھی تو اسی لڑکے جیسے ہیں، اس کو خاص طور پر کیوں ہمارے ساتھ شریکِ مجلس کیا جاتا ہے؟ (امام بخاری اور ابن جریر نے تصریح کی ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تھے) حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ علم کے لحاظ سے اس کا جو مقام ہے وہ آپ لوگ جانتے ہیں۔ پھر ایک روز انھوں نے شیوخِ بدر کو بلایا اور مجھے بھی اُن کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج مجھے یہ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہے کہ مجھ کو ان کی مجلس میں کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ دورانِ گفتگو میں حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے شیوخ بدر رضی اللہ عنہم اجمعین سے پوچھا کہ آپ حضرات اذا جآءَ نصر اللہ والفتح کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بعض نے کہا اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی نصرت آئے اور ہم کو فتح نصیب ہو تو ہم اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کریں۔ بعض نے کہا اس سے مراد شہروں اور قلعوں کی فتح ہے۔ بعض خاموش رہے۔ اس کے بعد حضرت رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے کہا ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ، کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ انھوں نے پوچھا پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجل ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دی گئی ہے جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وقت آن پورا ہوا، اس کے بعد آپ اللہ کی حمد اور استغفار کریں۔ اس پر حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا میں بھی اُس کے سوا کچھ نہیں جانتا جو تم نے کہا ہے۔ ایک روایت میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمر نے شیوخِ بدر سے فرمایا آپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں جبکہ اِس لڑکے کو اس مجلس میں شریک کرنے کی وجہ آ نے دیکھ لی حوالہ: بخاری، مسند احمد، ترمذی، ابن جریر، ابن مردویہ، بغوی، بیہقی، ابن المنذر موضوع اور مضمون جیسا کہ مندرجۂ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے، اِس سورہ میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ بتا دیا تھا کہ جب عرب میں اسلام کی فتح مکمل ہو جائے اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کام مکمل ہو گیا ہے جس کے لیے آپ دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ اس کے بعد آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ اُس کے فضل سے آپ اتنا بڑا کام انجام دینے میں کامیاب ہوئے اور اُس سے دعا کریں کہ اِس خدمت کی انجام دہی میں جو بھول چوک یا کوتاہی بھی آپ سے ہوئی ہو اُسے وہ معاف فرما دے۔ اس مقام پر آدمی غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ ایک نبی اور ایک عام دنیوی رہنما کے درمیان کتنا عظیم فرق ہے۔ کسی دنیی رہنما کو اگر اپنی زندگی ہی میں وہ انقلاب عظیم برپا کرنے میں کامیابی نصیب ہو جائے جس کے لیے وہ کام کرنے اٹھا ہو تو اس کے لیے یہ حشن منانے اور اپنی قیادت پر فخر کرنے کا موقع ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کے پیغمبر کو ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے 23 سال کی مختصر مدت میں ایک پوری قوم کے عقائد، افکار، عادات، اخلاق، تمدن، تہذیب، معاشرت، معیشت، سیاست اور حربی قابلیت کو بالکل بدل ڈالا اور جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کو اٹھا کر اس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کو مسخر کر ڈالے اور اقوامِ عالم کی امام بن جائے، مگر ایسا عظیم کارنامہ اُس کے ہاتھوں انجام پانے کے بعد اُسے جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ کی حمد اور تسبیح کرنے اور اُس سے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور وہ پوری عاجزی کے ساتھ اِس حکم کی تعمیل میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی وفات سے پہلے سبحٰنک اللھم و بحمدک استغفرک و اتوب الیک (بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ و اتوب الیہ) کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے کلمات ہیں جو آپ نے اب پڑھنے شروع کر دیے ہیں؟ فرمایا میرے لیے ایک علامت مقرر کر دی گئی ہے کہ جب میں اُسے دیکھوں تو یہ الفاظ کروں اور وہ ہے اذا جآءق نصر اللہ والفتح حوالہ مسند احمد، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ۔ اسی سے ملتی جلتی بعض روایات میں حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رکوع و سجود میں بکثرت یہ الفاظ کہتے تھے سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی۔ یہ قرآن (یعنی سورۂ نصر) کی تاویل تھی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمائی تھی حوالہ: بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر۔ حضرت ام سلمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانِ مبارک پر آپ کے آخری زمانۂ حیات میں اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے یہ الفاظ جاری رہتے : سبحان اللہ و بحمدہ میں نے ایک روز پوچھا یا رسول اللہ، آپ کثرت سے یہ ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں؟ فرمایا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپ نے یہ سورت پڑھی حوالہ ابن جریر۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کثرت سے یہ ذکر فرماتے رہتے : سبحانک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی، سبحانک ربنا و بحمدک، اللھم اغفرلی، انک انت التواب الغفور حوالہ ابن جریر، مسند احمد، ابن ابی حاتم ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا بیان ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخرت کے لیے محنت و ریاضت کرنے میں اِس قدر شدت کے ساتھ مشغول ہو گئے جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے حوالہ: نسائی، طبرانی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ۔

حوالہ جات

  1. امام خازن: تفسیر الخازن، جلد 4 صفحہ 487۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1424ھ۔