مندرجات کا رخ کریں

حیدرآباد، سندھ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حیدرآباد، سندھ
 

تاریخ تاسیس 1768  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1][2]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ ضلع حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 25°22′45″N 68°22′06″E / 25.379166666667°N 68.368333333333°E / 25.379166666667; 68.368333333333   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقبہ 319 مربع کلومیٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2046) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی 13 میٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2044) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
کل آبادی 1732693 (مردم شماری ) (2017)  ویکی ڈیٹا پر (P1082) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزید معلومات
اوقات متناسق عالمی وقت+05:00   ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فون کوڈ 022  ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جیو رمز 1176734  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

حیدرآباد ، پاکستان کے صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے صوبہ سندھ کا داراحکومت تھا۔ اب انتظامی اعتبار سے سندھ کا ایک ڈویژن کی حیثیت رکھتا ہے۔ حیدرآباد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا آٹھواں بڑا شہر ہے ۔

تقسیم ہند سے قبل، حیدرآباد ایک نہایت خوبصورت شہر تھا اور اِس کی سڑکیں روز گلاب کے عرق سے نہلائی جاتی تھیں۔ بعد از برطانوی راج، یہ اپنی پہچان کھوتا رہا اور اب اِس کی تاریخی عمارات کھنڈر میں تبدیل ہو گئیں ہیں۔

سیاسی اعتبار سے حیدرآباد کو ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ شہری اور دیہاتی سندھ کے درمیان ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کئی عالم اور صوفی درویشوں کی پیدائش ہوئی ہے اور اس شہر کی ثقافت اس بات کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد دنیا کی سب سے بڑی چوڑیوں کی صنعت گاہ ہے۔ یہ شہر پاکستان کے کچھ اہم ترین تاریخی و تہذیبی عناصر کے پاس وقوع ہے۔ تقریباً 110 کلومیٹر کی دوری پر امری ہے جہاں ہڑپہ کی ثقافت سے بھی قبل ایک قدیم تہذیب کی دریافت کی گئی ہے۔ جہاں یہ شہر اپنی تہذیب و تمدن کے لیے جانا جاتا ہے وہاں اس کے میڈیکل اور تعلیمی ادارے بھی بہت جانے مانے ہیں۔ حیدرآباد میں تقسیم ہند کے بعد بنائ گئی سب سے پہلی یونیورسٹی کا قیام ہے۔

تاریخ

[ترمیم]

حیدرآباد پاکستان کے صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ 1935ء تک سندھ کا دارالخلافہ تھا اور اب ایک ضلع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنی موجودہ شکل میں اِس شہر کی بُنیاد میان غلام شاہ کلہوڑو نے 1768ء میں رکھی۔ اِس سے قبل، یہ شہر مچھیروں کی ایک بستی تھی جس کا نام نیرون کوٹ تھا۔

تقسیمِ ہند سے قبل، حیدرآباد ایک نہایت خوبصورت شہر تھا اور اِس کی سڑکیں روز گلاب کے عرق سے نہلائی جاتی تھیں۔[حوالہ درکار] بعد از برطانوی راج، یہ اپنی پہچان کھوتا رہا اور اب اِس کی تاریخی عمارات کھنڈر میں تبدیل ہو گئیں ہیں۔

سیاسی اعتبار سے حیدرآباد کو ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہ شہری اور دیہاتی سندھ کے درمیان ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کئی عالم اور صوفی درویشوں کی پیدائش ہوئی ہے اور اس شہر کی ثقافت اس بات کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد دنیا کی سب سے بڑی چوڑیوں کی صنعت گاہ ہے۔

نیرون کوٹ(حیدرآباد، سندھ کا قدیم نام )

[ترمیم]

موجودہ حیدرآباد شہر کی جگہ پہلے نیرون کوٹ نامی ایک بستی قائم تھی؛ یہ سندھوُ دریا (اب دریائے سندھ) کے کنارے مچھیروں کی ایک چھوٹی بستی تھی۔ اِس کا نام اِس کے سردار نیرون کے نام سے اخذ کیا جاتا تھا۔ دریائے سندھ کے متوازن میں ایک پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے گنجو ٹاکر کہتے ہیں۔ یہ بستی جوں جوں ترقی کرتی گئی ویسے ہی دریائے سندھ اور اِن پہاڑوں کے درمیان بڑھنے لگی۔ چچ نامہ میں ایک سردار کا اکثر ذکر ملتا ہے جس کا نام آغم لوہانہ تھا۔ یہ برہمن آباد شہر کا سردار تھا اور اِس کی ملکیت میں دو علاقے آتے تھے — لوہانہ اور ساما۔ 636ء میں لوہانہ کے جنوب میں ایک بستی کا ذکر ملتا ہے جسے نارائن کوٹ کہا گیا ہے۔ تاریخ نویسوں کا ماننا ہے کہ نارائن کوٹ اور نیرون کوٹ ایک ہی بستی کا نام تھا۔

تھوڑے ہی عرصے میں اِس پہاڑی سلسلے پر کُچھ بدھمت پجاری آ بسے۔ شہر میں اچھی تجارت کے خواہش مند لوگ اِن پجاریوں کے پاس اپنی التجائیں لے کر آتے تھے۔ یہ بستی ایک تجارتی مرکز تو بن ہی گئی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ دوسری اقوام کی نظریں اِس کی اِس بڑھتی مقبولیت کو دیکھے نہ رہ سکیں۔ نیرون کوٹ کے لوگوں کے پاس ہتھیار تو تھے نہیں، بس فصلیں کاشت کرنے کے کُچھ اوزار تھے۔ چنانچہ، جب 711ء میں مسلمان عربی افواج نے اِس بستی پر دھاوا بولا تو یہ لوگ اپنا دفاع نہ کر سکے اور یہ بستی تقریباً فنا ہو گئی: یہاں بس ایک قلعہ اور اِس کے مکین باقی رہ گئے تھے۔ بمطابق چچ نامہ، اِس قلعہ کو نیرون قلعہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ محمّد بن قاسم اپنے لشکر سمیت اِس قلعہ کے باہر آ کھڑا ہوا اور راجا داہر کو اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی۔[3] بعد از، محمّد بن قاسم نے قلعہ کو بغیر جنگ و جتن ہی فتح کر لیا۔[3]

شہر کے لوگ

[ترمیم]

حیدرآباد میں زیادہ تر لوگ سندھی ہیں، کیونکہ اکثر اشخاص جو اس شہر میں آتے ہیں وہ اندرون سندھ کی جانب سے آتے ہیں۔ یہ یہاں پاکستان کے نامور ادارے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے آتے ہیں جو حیدرآباد سے 33 کلومیٹر کی دوری پر جام شورو میں وقوع ہے۔ حیدرآباد میں اس کے علاوہبلوچ اردو، پشتو اور پنجابی بولنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ حیدرآباد شہر، قبل تقسیم، مقام پزیر سندھیوں کا رہائشی علاقہ تھا لیکن حب 1947 کے بعد ہندوستان سے مہاجر قوم ہجرت کر کے شہر میں داخل ہوئے تو سندھیوں اور مہاجرین میں فسادات چھڑ گئے۔ موجودہ حالات بہتر ہیں اور دونوں اقوام باہم خوش ہیں مگر اکثر واقعات ان علامات کا اظہار کرتے ہیں۔ مذاہب کے اعتبار سے حیدرآباد کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہیں جبکہ ایک خاثر مقدار میں سندھی ہندو بھی یہاں رہایش پزیر ہیں۔ تقریباً 2 فیصد آبادی مقامی عیسائیوں کی ہے۔

  • حیدرآباد میں اللہ کے نیک ومقبول بندوں(اولیاء اللہ)کے مزارات بھی ہیں جن میں مشہور مزارات اولیاء ہیں "عبد الوھاب شاہ جیلانی،"سید محمود شاہ الوری"ابواحمدمفتی خلیل میاں برکاتی قادری اور ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں کے نام قابل ذکر ہیں

موسم

[ترمیم]

بہار حیدرآبادکی ہرشام ٹھنڈی ہواچلنے کی وجہ سے دنیابھرمیں مشہو رہے۔موسم کیساہی گرم یاسردہوشام ہوتے ہی دریائے سندھ کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا یہاں کے شہریوں کی دن بھر کی تھکن دور کردیتی ہے۔ اسی ہوا کی وجہ سے ایک سڑک(شاہراہ)ٹھنڈی سڑک کے نام سے موسوم ہے

تعلیم

[ترمیم]

تقسیم سے قبل، حیدرآباد کے باشندوں کے لیے تعلیم کا جو نظام تھا وہ اس قابل نہ تھا کہ ہندوستان کے نامور اداروں میں اس کا شمار ہوتا۔ اب کیونکہ یہ شہر اندرون سندھ کو شہری آبادی سے جا ملاتا تھا، یہاں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت آ نکلی اور ایسے اداروں کا ہونا لازم ہو گیا۔

  • دینی علوم وفنون کو عام کرنے اور مسلمانوں کو بنیادی اسلامی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے حیدرآباد شہر کے وسط میں عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کے تحت عظیم الشان علمی ادارہ بنام "جامعۃالمدینہ" قائم ہے جو آفندی ٹاؤن میں ہے اس دینی تعلیمی ادارے میں عالم کورس"درس نظامی" کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیٹ فقہ اصول فقہ اور اسلامی معلومات کے دیگر کورسسز بھی کراوئے جاتے ہیں
  • تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیرغیرسیاسی تحریک دعوت اسلامی کے تحت"حیدرآباد"شہرمیں"مدرسۃالمدینہ" کی کئی شاخیں قائم ہیں۔ اس کی مرکزی شاخ آفنڈی ٹاؤن حیدرآباد میں ہے۔یہاں پر بچوں(مدنی منوں) اور بچیوں(مدنی منیوں) کوقرآن پاک حفظ کروانے اورناظرہ پرھانے کی تعلیم"فی سبیل اللہ"(مفت)دی جاتی ہے نیز اخلاقی اور اسلامی تربیت کا بھی خصوصی اہتمام ہے۔

صنعت اور تجارت

[ترمیم]

حیدرآباد صنعت اور تجارت کے لحاظ سے پاکستان کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی اہم صنعتوں میں چوڑی، چمڑا، کپڑا اور دیگر صنعتیں شامل ہیں۔ حیدرآباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری یہاں کے تاجروں اور صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم ہے ۔

کھیل

[ترمیم]

حیدرآباد میں ایک عدد کرکٹ اسٹیڈیم ہے جس کا نام نیاز اسٹیڈیم ہے۔ اس میں 25،000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور یہاں دنیا کی سب سے پہلی ہیٹ ٹرک سن 1982ء میں بنائی گئی تھی۔ حیدرآباد میں ایک ہاکی اسٹیڈیم بھی ہے۔ آج تک پاکستان اس گراؤنڈ پر نہ کوئی ٹیسٹ میچ ہارا ہے اور نہ کوئی ایک روزہ۔ ایشیا میں کھیلے جانے والے پہلے کرکٹ ورلڈ کپ کا پہلا میچ بھی اسی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا جو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا تھا اور پاکستان کی ٹیم اس میں فتح یاب ہوئی تھی۔

ریل

[ترمیم]

حیدرآباد جنکشن ریلوے اسٹیشن شہر کے وسط میں واقع ہے۔ یہ شروع میں Scinde Railway کا حصہ تھی اور انگریزوں نے اسے خرید کر شمالی-مغربی ریل کا احتمام کیا جو اب پاکستان ریلوے ہے۔ حیدرآباد ایک بڑے ریل جنکشن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ریلوے اسٹیشن پر ملک بھر سے آنے اور جانے والی ہر ریل گاڑی رکتی اور مسافروں کو اپنی منزل مقصود پر لے جاتی ہے۔ کراچی سے ہندوستان براستہ میرپورخاص اور کھوکھراپار جانے والی ٹرین بھی اسی شہر سے گذر کر جاتی ہے۔ حیدرآبادریلوے اسٹیشن کے پیلٹ فارم نمبر1 پرنمازباجماعت اداکرنے کے لیے عظیم الشان"جامع مسجد بھی قائم ہے جہاں پنج وقتہ نمازیں ادا کی جاتی ہیں نیز ہر پلیٹ فارم پر جائے نماز بھی قائم ہے۔

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

شہر نتائج

[ترمیم]
درجہ شہر آبادی (1998 مردم شماری) آبادی (2017 مردم شماری) اضافہ صوبہ
1 کراچی 9,856,318 16,051,521 [4] 62.86% سندھ
2 لاہور 5,143,495 11,126,285  116.32% پنجاب، پاکستان
3 فیصل آباد 2,008,861 3,203,846 59.49% پنجاب، پاکستان
4 راولپنڈی 1,409,768 2,098,231 48.84% پنجاب، پاکستان
5 گوجرانوالہ 1,132,509 2,027,001 78.98% پنجاب، پاکستان
6 پشاور 982,816 1,970,042 100.45% خیبر پختونخوا
7 ملتان 1,197,384 1,871,843  56.33% پنجاب، پاکستان
8 حیدرآباد، سندھ 1,166,894 1,732,693 48.49% سندھ
9 اسلام آباد 529,180 1,014,825 91.77% اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ
10 کوئٹہ 565,137 1,001,205 77.16% بلوچستان

مشاہیر حیدرآباد

[ترمیم]
  • مولانا محمد سعید جدون رح (دینی سیاسی سماجی شخصیت مہتمم جامعہ عربیہ قوۃ الاسلام غریب آباد خلیفۂ مجاز وبیعت حضرت مولانا پیر عبد القدوس نقشبندی رح و سابق امیر اہلسنت والجماعت ضلع حیدرآباد)
  • پروفیسر عنایت علی خا ن (شاعر)
  • محمد علی بھٹی (مصور)
  • ڈاکٹر جاوید لغاری
  • عبدالوحید قریشی (دینی و سماجی رہنما)
  • میاں محمد شوکت مرحوم (سابق امیر جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد)
  • مولانا وصی مظہر ندوی مرحوم (سابق میئر حیدرآباد، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور)
  • سید افتخار علی کاظمی (ماہرِ تعلیم )
  • کنور نوید جمیل
  • م ش عالم
  • ڈاکٹر یوسف خلجی

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1.   ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"صفحہ حیدرآباد، سندھ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2024ء 
  2.   ویکی ڈیٹا پر (P982) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "صفحہ حیدرآباد، سندھ في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2024ء 
  3. ^ ا ب نبی بخش خان بلوچ (2008ء)، "فتح نامہ عرف چچ نامہ"۔ سندھی ادبی بورڈ۔ ص: 147–148۔ اخذ کردہ بتاریخ 30 نومبر 2015ء۔
  4. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 16 جون 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2022