سورہ فاتحہ
فاتحہ | |
دور نزول | مکی |
---|---|
نام کے معنی | آغاز، افتتاح |
دیگر نام | ام الکتاب، ام القرآن، کلید |
زمانۂ نزول | نبوت کے ابتدائی سال |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 1 |
عددِ پارہ | 1 |
تعداد آیات | 7 |
سجود | کوئی نہیں |
الفاظ | 27 |
حروف | 140 |
گذشتہ | |
آئندہ | البقرہ |
سورۂ فاتحہ (عربی:الْفَاتِحَة) قرآن مجید میں ترتیب کے لحاظ سے پہلی سورت ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے مکی دور میں نازل ہوئی۔ اس کی آیات کی تعداد 7 ہے۔ یہ انتہائی اہم سورت اور ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
نام
اس کا نام "الفاتحہ" اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے۔ فاتحہ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ یہ نام "دیباچہ" اور آغازِ کلام کا ہم معنی ہے۔ اسے ام الکتاب اور ام القرآن بھی کہا جاتا ہے۔ اس سورۃ کے متعدد نام ہیں۔ فاتحہ، فاتحۃ الکتاب، سورۃ الکنز، کافیۃ، وا فیۃ، شافیۃ، شفا، سبع مثانی، نور، رقیۃ، سورۃ الحمد، سورۃ الدعا، تعلیم المسئلہ، سورۃ المناجاۃ، سورۃ التفویض، سورۃ السوال، فاتحۃ القرآن، سورۃ الصلوۃ۔[1]
مختلف نام اور وجہ تسمیہ
- اس کا نام سورة فاتحہ ہے۔۔ کہ ایک روایت میں وحی کا سلسلہ اسی سے شروع ہوا ہے۔
- دوسرانام : فاتحۃ ال کتاب ہے۔۔ کیونکہ قرآن کریم اسی سے شروع کیا گیا ہے۔
- تیسرا نام : سورة کا فیہ ہے۔۔ کیونکہ سارے قرآن کے مضامین کی بنیاد اس میں لکھی گئی ہے۔
- چوتھا نام : سورة کنز ہے۔۔ کیونکہ سارے قرآن کی دولت کا خزانہ یہی ہے۔
- پانچواں نام : سورة کافیہ ہے۔۔ یعنی نماز میں دوسری سورتوں کے بدلے میں اس کو پڑھنا کافی ہے لیکن اس کے بدلے میں کسی سورة کو نہیں پڑھا جا سکتا۔
- چھٹانام : سورة وافیہ ہے۔۔ کہ جب یہ سورة نماز میں پڑھی جائے گی تو پوری پڑھی جائے گی ‘ صرف دو تین آیتوں پر اکتفا نہ کیا جائے گا۔
- ساتواں نام : سورة شافیہ ہے۔۔ کہ اس کو پڑھ کر دم کرنے سے بیماریاں دور ہوتی ہیں۔
- آٹھواں نام : سورة شفا ہے۔۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے شفا ملتی ہے۔
- نواں نام : سبع مثانی ہے۔۔ کیونکہ سات آیتیں ہیں اور نماز کی ہر رکعت میں ان کی تکرار ہوتی رہتی ہے۔
- دسواں نام : سورة نور ہے۔۔ کہ اس کے سارے مضامین نور ہی نور ہیں۔
- گیارھواں نام : سورة رقیہ ہے۔۔ کیونکہ زہر کے اتارنے میں یہ سورة کریمہ منتر کا کام کرتی ہے۔
- بارھواں نام : سورة دعا ہے۔۔ کیونکہ اس میں بہترین دعا سکھائی گئی ہے۔
- چودھواں نام : سورة تعلیم المسئلہ ہے۔۔ کیونکہ بیشمار مسائل عقائد و اعمال کے اس میں موجود ہیں ۔ اور تمامی مسائل کی اس میں بنیاد رکھی گئی ہے۔
- پندرھواں نام : سورة مناجات ہے۔۔ کیونکہ اس سورة کریمہ کا سارا مضمون بندے کی اپنے رب سے مناجات ہے۔
- سولھواں نام : سورة تفویض ہے۔۔ کیونکہ اس سورة کریمہ میں بندہ اپنے آپ کو بالکل اپنے رب کے سپرد کردیتا ہے۔
- سترھواں نام : سورة سوال ہے۔۔ کیونکہ بندہ اس سورة شریفہ کی تلاوت کے وقت پورا سائل ہوجاتا ہے۔
- اٹھارھواں نام : ام ال کتاب ہے۔۔ کیونکہ ہر آسمانی کتابوں کا جو ہر اس میں ہے۔
- انیسواں نام : فاتحۃ القرآن ہے۔۔ کیونکہ قرآن کی ابتدا اسی سے ہے۔ یہ نام اور دوسرا نام فاتحۃ ال کتاب ایک ہی وجہ سے ہے۔
- بیسواں نام : سورة صلوٰۃ ہے۔۔ کیونکہ نماز اس کے بغیر نہیں ہوتی ہے۔ [2]
زمانۂ نزول
یہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے۔ بلکہ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی وہ یہی ہے۔ اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جو سورۂ علق، سورۂ مزمل اور سورۂ مدثر وغیرہ میں شامل ہیں۔
شماریات
سورہ الفاتحہ میں 7 آیات، 27 کلمات اور 140 حروف موجود ہیں۔[3]
مضمون
دراصل یہ سورت ایک دعا ہے جو خدا نے ہر انسان کو سکھائی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ شروع کر رہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوند عالم سے یہ دعا کرو۔ انسان فطرتاً اسی چیز کی دعا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے اور اسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کر رہا ہے۔ پس قرآن کی ابتدا میں اس دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہ راست کی جستجو کے لیے پڑھے، طالبِ حق کی ذہنیت لے کر پڑھے اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوندِ عالم ہے، اس لیے اسی سے رہنمائی کی درخواست کرکے پڑھنے کا آغاز کرے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورۂ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمے کا سا نہیں بلکہ دعا اور جوابِ دعا کا سا ہے۔ سورۂ فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تونے سے مجھ سے کی تھی۔
الفاتحہ
- بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِِ
- اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ
- الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
- مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ
- إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
- أِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
- صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ
ترجمہ
- اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے
- سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے
- نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے
- روز جزا کا مالک ہے
- (اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں
- ہمیں سیدھا راستہ دکھا
- ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا
حوالہ جات
- ↑ تفسیر خزائن العرفان علامہ نعیم الدین مراد آبادی ،سورۃ الفاتحہ
- ↑ تفسیر اشرفی۔ تفسیر سورۃ فاتحہ آیت 1
- ↑ امام خازن: تفسیر الخازن، جلد 1 صفحہ 15۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1424ھ۔
ترتیب نزول دیکھنے کے لیے"ترتیب نزول" کے ساتھ علامت پر کلک کریں
|