سید بن طاووس
اس مضمون یا قطعے کو سید بن طاؤس میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
سید | |
---|---|
سید بن طاووس | |
(عربی میں: علي بن موسى بن جعفر بن طاووس الحلّي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 21 جنوری 1193ء [1] حلہ |
وفات | 9 اگست 1266ء (73 سال)[1] حلہ |
مدفن | امام علی مسجد |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | علامہ حلی ، عبد الکریم ابن طاؤس |
پیشہ | عالم ، مورخ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
کارہائے نمایاں | الملہوف علی قتلی الطفوف |
درستی - ترمیم |
سید ابن طاووس یا سید رضی الدین علی بن موسیٰ بن جعفر بن طاؤس (پیدائش: 21 جنوری 1193ء —وفات: 9 اگست 1266ء) اہل تشیع کے معروف عالم دین اور محدث تھے۔ شیعہ مسلمانوں کے ہاں ایک قابل احترام، متقی اور پرہیزگار شخصیت معروف تھے۔ ان کے بڑے بھائی سید احمد بن موسی بن طاووس بھی مشہور فقیہ اور محدث تھے۔ان کی بہت سی کتابیں مشہور ہیں۔ جن میں سے ایک کتاب منقولہ دعاؤں پر مشتمل ہے۔ اس کا نام اقبال الاعمال ہے جو بہت سی دعاؤں کا بنیادی منبع و ماخذ ہے۔
سفر اور تعلیم
[ترمیم]ان کا اصل نام سید علی بن موسی طاؤوس ہے سید طاووس بروز جمعرات 15 محرم الحرام 589ھ مطابق 21 جنوری 1193ء کو حلہ میں پیدا ہوئے۔سید ابن طاؤوس نے ابتدا میں اپنی زادگاہ حلہ میں اپنے والد گرامی اور نانا ورام بن ابی فراس سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی، پھر مزید پڑھائی کی خاطر حلہ کے کاظمین کوچ کر گئے۔ اپنی جوانی میں پڑھائی میں تمام دیگر طالب علموں سے سبقت لے گئے۔ اس بارے میں خود فرماتے ہیں: کہ جب کلاس میں گیا تو میرے ہم کلاس میرے سے کئی سال آگے تھے لیکن میں نے ایک ہی سال میں سارے مضمون پڑھنے کے بعد ان سے سبقت لے گیا۔ اس کے بعد ڈھائی سال تک فقہ پڑھی اور مزید پڑھائی کے لیے اب ان کو استاد کی ضرورت نہ رہی اور دیگر فقہی کتب کا خود ہی مطالعہ کر لیا۔625 ہجری میں شادی کرنے کے بعد بغداد نقل مکانی کی اور 15 سال تک درس وتدریس میں مشغول رہے۔ عباسی خلفاء کی جانب بار بار حکومتی عہدے کے قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا، اسی لیے وہاں پرمزید قیام پزیر ہونا ممکن نہ تھا اور واپس حلہ کی پلٹ آئے۔ اس کے بعد طوس میں 3 سال قیام پزیر رہے۔ اسی طرح 3 3 سال نجف اور کربلا میں گزارے۔ کربلا میں قیام کے دوران میں کتاب کشف المحجہ لکھی۔ سید ابن طاؤوس کا آخری سفر بغداد تھا، جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو آپ بغداد میں قیام پزیر تھے۔ سید ابن طاؤوس درس وتدریس اور تالیف کے علاوہ معنویت اور سیر وسلوک میں بہت معروف ہیں۔
شاگرد
[ترمیم]
ان کے بہت سارے شاگردوں میں سے معروف شاگرد
یوسف بن علی بن مطہر، علامہ حلی کے والد
حسن بن یوسف معروف بہ علامہ حلی
شیخ یوسف بن حاتم شامی
سید عبد الکریم بن احمد بن موسی، احمد بن موسی، سید علی بن طاؤوس کے بڑے بھائی تھے۔
شیخ تقی الدین حسن بن داؤود حلی
شیخ محمد بن احمد بن صالح القسینی
شیخ ابراہیم بن محمد بن احمد القسینی
شیخ جعفر بن محمد بن احمد القسینی
شیخ علی بن محمد بن احمد القسینی ہیں
مولفات
[ترمیم]
سید علی بن طاؤوس نے بہت ساری کتابیں تالیف کیں جن میں سب سے زیادہ معروف، اقبال الاعمال، مہج الدعوات، جمال الاسبوع، مقتل امام حسین کے بارے میں مشہور زمانہ کتاب مقتل لہوف بھی انھوں نے تالیف کی۔
سید علی بن طاؤوس اور دعا
[ترمیم]
سید علی بن طاؤوس اپنی دعاؤوں کے بارے میں تحریر کی گئی کتابوں کی وجہ سے شیعہ مسلمانوں میں بہت زیادہ معروف ہیں۔ انھوں نے دسیوں کتابیں دعا کے بارے میں تحریر کیں۔
سید ابن طاؤوس کو عباسی خلیفہ المستنصر باللہ کی جانب سے وزارت اور سفارت کے عہدوں کی مسلسل پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ سید ابن طاؤوس نے عباسی خلافت کے دوران میں ہرگز نقابت کے عہدے کو قبول نہیں کیا لیکن بعد ہلاکو خان کے دور میں انھوں نے نقابت کو قبول کیا۔
نقابت: علویوں کے امور کو چلانے کے لیے امارت کا عہدہ تھا ان کے امور کو منظم کرنا اور حملے کی صورت میں دفاع کرنا اس عہدے کے ذمہ تھا۔ آل طاؤوس خاندان کی پہلی شخصیت ابو عبد اللہ محمد ملقب بہ طاؤوس ہیں جو سورا نامی جگہ کے نقیب بنے جو علی بن موسی کے اجداد میں سے تھے۔ محمد طاؤوس سورا نامی جگہ کے نقیب بنے جو حلہ کے قریب بابل کے اطراف میں واقع تھا۔ ان کے بعد سید علی کے بڑے بھائی احمد بن موسی اس شہر کے نقیب بنے۔ پھر ان کے بھتیجے محمد بن عزالدین حسن بن ابی ابراہیم موسی امیر بنے۔
نقابت کے وظائف میں سے قضاوت، لڑائی جھگڑوں میں صلح کرانا، ناداروں، یتیموں اور مساکین کی سرپرستی وغیرہ کے امور شامل ہیں۔ سید ابن طاؤوس نے ایک تاریخ فتوی صادر کیا جب ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ جمایا تو مسلمان علما سے فتوی پوچھا گیا کہ آیا عادل کافر افضل ہے یا ظالم مسلمان؟ سب علما نے فتوی صادر کرنے میں انکار کر دیا جبکہ آپ نے فتوی صادر کر دیا کہ عادل کافر افضل ہے۔[2]
وفات
[ترمیم]عمر کے آخری حصے میں وہ اپنے آبائی شہر حلہ واپس چلے آئے اور یہیں 5 ذوالقعدہ 664ھ مطابق 9 اگست 1266ء کو وفات پائی۔تدفین ان کی وصیت کے مطابق نجف اشرف حرم امیر المومنین علی بن ابی طالب میں ہوئی۔
کتابیات
[ترمیم]- آقابزرگ، طبقات اعلام الشّیعہ (قرن السّابع)، بیروت، 1972م۔
- احمد بن علی بن عنبہ، جمال الدین، الفصول الفخریہ، بہ اهتمام سید جلال الدین محدث ارموی، نشر علمی و فرهنگی، ۔
- أکمونہ حسینی، عبد الرزاق؛ مواردالإتحاف فی نقباء الأشراف، نجف اشرف، نشر الآداب، 1388هجری۔
- سید بن طاووس، علی بن موسی، کشف المحجہ یا فانوس، ترجمہ اسداللہ مبشری، تهران، نشر فرهنگ اسلامی، پہلا ایڈیشن ۔
- شهیدی گلپایگانی، سید محمد باقر، راهنمای سعادت (ترجمہ کشف المحجہ)، تهران، نشر سعدی، 1382ہجری ۔
- غروی نایینی، نهلہ، محدثات شیعہ، تربیت مدرس یونیورسٹی، تهران، دوسرا ایڈیشن۔
- قمی، عباس، الکنی و الألقاب، نجف أشرف، نشرحیدریہ، 1389هجری۔
- قمی، الفوائد الرضویة فی أحوال علما المذهب الجعفریة، ترجمہ و تحقیق ناصر باقری بیدهندی، قم، نشر بوستان کتاب۔
- مجلسی، محمد باقر، کتاب الإجازات در بحار الانوار، بیروت، نشر مؤسسہ وفاء، تیسرا ایڈیشن، 1403ہجری۔
- محمدبن محمد نعمان، شیخ مفید، المقنعہ، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1410ہجری ۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب ناشر: او سی ایل سی — وی آئی اے ایف آئی ڈی: https://viaf.org/viaf/47563727/ — اخذ شدہ بتاریخ: 25 مئی 2018
- ↑ اعیان الشیعہ، جلد 8، صفحہ 360۔