الطاف علی بریلوی
الطاف علی بریلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10 جولائی 1905ء بریلی ، برطانوی ہند |
وفات | 24 ستمبر 1986ء (81 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | سخی حسن ، کراچی |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | صحافی ، ماہر تعلیم ، ادیب |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
شعبۂ عمل | پاکستان میں تعلیم ، سوانح ، ادارت ، خاکہ نگاری |
تحریک | تحریک پاکستان |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سید الطاف علی بریلوی (پیدائش: 10 جولائی، 1905ء - وفات: 24 ستمبر، 1986ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ادیب، صحافی، ماہر تعلیم اور تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ سر سید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کی پاکستان میں شاخ آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے قائم کی۔ انھوں نے نے تعلیم کے شعبے میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں اور کراچی میں سر سید گورنمنٹ گرلز کالج قائم کیا۔
حالات زندگی
[ترمیم]الطاف علی بریلوی 10 جولائی، 1905 میں بریلی، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ 1935ء میں انھوں نے سر سید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس سے بطور آفس سیکریٹری اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے کراچی میں اس ادارے کی پاکستان میں شاخ قائم کی اور اس کے زیر اہتمام سر سید گرلز کالج قائم کیا۔ انھوں نے ایک علمی اور ادبی سہ ماہی جریدہ العلم بھی جاری کیااور متعدد کتابیں بھی تحریر کیں جن میں حیات حافظ رحمت خان، چند محسن چند دوست، مقالات بریلوی،علی گڑھ تحریک: قومی نظمیں، طالب علم کی ڈائری اور مسلمانوں کی تعلیمی جدوجہد قابلِ ذکر ہیں۔[2]
تصانیف
[ترمیم]- طالب علم کی ڈائری
- حیات حافظ رحمت خاں
- مسلمانوں کی تعلیمی جدوجہد
- مسلمان کی دنیا
- چند محسن چند دوست
- تعلیم و تعلیم
- علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں
- تعلیمی مسائل-پس منظر و پیش منظر
- راہی اور راہ نما
- نامہ ہائے صدق و صَفا
- حاصل مطالعہ
- مقالات بریلوی
- تخلیقات و نگارشات
وفات
[ترمیم]الطاف علی بریلوی 24 ستمبر، 1986ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہیں۔[2]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ رؤف پاریکھ (19 ستمبر 2017ء)۔ "سید الطاف علی بریلوی: ایجوکیٹنگ دی نیشن"۔ ڈان۔ کراچی، پاکستان۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2017ء
- ^ ا ب عقیل عباس جعفری: پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 603