شام میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد شدت پسندی کے نئے خدشات
شام میں بشار الاسد حکومت کے زوال نے انتہاپسند گروہوں کو ابھرنے کا موقع دیا ہے، جس سے شدت پسندی کے عالمی خطرات اور علاقائی افراتفری کا امکان بڑھ گیا ہے۔ پراکسی جنگیں مزید انتشار پیدا کر سکتی ہیں
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے نے مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی و سیاسی حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر کئی افراد اس تبدیلی کا جشن منا رہے ہیں لیکن شام کا مستقبل اب غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک مضبوط حکومت کے خلاف غیر ملکی حمایت یافتہ ملیشیا کے ذریعے شروع ہونے والی جدوجہد نے شام کو داخلی طور پر تقسیم کر دیا ہے اور شدت پسندی کے فروغ کی راہیں ہموار کر دی ہیں۔
الاسد حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک میں وہ مرکزیت بھی ختم ہو گئی جو حالات کو قابو میں رکھنے کی ضامن تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) جیسے شدت پسند گروہوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا۔ ان حالات میں شام کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے کہ آیا یہ ملک عالمی سطح پر ایک اور غیر مستحکم علاقہ بننے جا رہا ہے۔
مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ، شام میں اس تبدیلی کو روس اور ایران پر اسٹریٹیجک کامیابی کے طور پر دیکھ سکتی ہے لیکن زمینی حقائق یہ اشارہ کرتے ہیں کہ شام جلد ہی سیکیورٹی کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
شام کی موجودہ غیر یقینی صورتحال کی بنیاد بشار الاسد حکومت کے اچانک زوال میں رکھی گئی ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی خونریز خانہ جنگی کے بعد الاسد حکومت چند ہفتوں میں گر گئی۔ اس کی وجوہات میں بین الاقوامی حمایت کا فقدان، اندرونی بدعنوانی اور مسلسل جنگ کی تھکن شامل ہیں۔ روس اور ایران، جو بشار الاسد کے سب سے بڑے حامی تھے، اپنی اپنی جغرافیائی و سیاسی مشکلات میں الجھے ہوئے تھے۔ روس یوکرین کی جنگ میں مصروف تھا، جبکہ ایران اندرونی بے چینی اور اسرائیل کے ساتھ تنازعات میں الجھا ہوا تھا۔
وہیں، بدعنوانی، نااہلی اور مسلسل جنگ کی تھکن نے اسد کی حکومت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ فوج کو طویل عرصے سے تنخواہیں نہیں ملی تھیں اور ناقص قیادت نے اسے مزید کمزور کر دیا تھا۔ ایسی فوج جب ایچ ٹی ایس کے سوچے سمجھے اور منصوبہ بند حملے سے دوچار ہوئی تو تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔
اسرائیل کے لبنان کے خلاف جنگ کے سبب انہیں حزب اللہ کی حمایت بھی حاصل نہ ہو سکی۔ ان حالات میں ایچ ٹی ایس، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ سے منسلک ہے، ایک زبردست فوجی اور سیاسی قوت کے طور پر ابھری جو ایک ایسی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوئی جو کبھی ناقابل شکست سمجھی جاتی تھی۔
حالانکہ، الاسد کے جانے سے استحکام کا نیا دور شروع نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس، ان کے زوال نے شام کو تباہ کر دیا ہے اور اس کے لیے ایسے متعدد خطرات پیدا کر دیے ہیں جو اسے شدت پسندی کے لیے افزائش گاہ میں بدل سکتے ہیں۔ ایچ ٹی ایس اب ملک کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اور اپنی طاقت کا استعمال فوجی طاقت اور ادلب علاقے پر برسوں کے قبضے کے دوران تیار کردہ انتظامی نظام کے ذریعے کرتا ہے۔ شام کے مرکزی باغی رہنما ابو محمد الجولانی شمالی شام پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر پائے ہیں جہاں ترکی کی حمایت یافتہ سیریئن نیشنل آرمی (ایس این اے)، سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) اور دیگر گروہ سرگرم ہیں۔ جنوبی جانب اسرائیل کی طرف سے فوجی خطرہ موجود ہے جبکہ داعش باغی شام کے مشرقی بدیعہ ریگستان میں سرگرم ہیں۔ اسرائیل نے شام کی بچی کھچی فضائی اور بحری صلاحیتوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا ہے۔
شام میں باغیوں نے محمد البشیر کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا ہے، جو اس سے قبل بشار الاسد حکومت کے تحت ایک باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقے کی قیادت کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی نے قطر، سعودی عرب اور مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ بشار الاسد کے زوال کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے شام میں غیر عسکری بفر زون کو پار کرتے ہوئے کارروائیوں کی تصدیق کی ہے۔
اسی دوران، حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے رہنما ابومحمد الجولانی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسد حکومت کے ان اہلکاروں کو بے نقاب کریں گے جو سیاسی قیدیوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے ایچ ٹی ایس کو عالمی شدت پسندی کے بجائے ایک قومی تنظیم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس تنظیم کے شدت پسند نظریات اب بھی ایک سنگین تشویش کا باعث ہیں۔ یہ تنظیم القاعدہ کی ایک شاخ رہی ہے اور اس کے موجودہ معتدل رویے کو ایک حکمتِ عملی قرار دیا جا رہا ہے نہ کہ نظریاتی تبدیلی۔
شام کی سیاسی تقسیم نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بشار الاسد حکومت کے خاتمے نے ایک ایسا خلا پیدا کر دیا ہے جس کی مثال 2003 میں عراق پر حملے کے بعد دیکھنے کو ملی تھی، جب عراقی فوج کے بکھرنے سے داعش کے ابھرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ شام میں ایک مضبوط مرکزی حکومت اور منظم مسلح افواج کی عدم موجودگی نے مختلف مسلح گروہوں کے درمیان شدید تصادم کو جنم دیا ہے۔ شام کے حالات مزید اس وقت سنگین ہو جاتے ہیں جب مختلف مسلح گروہوں کی موجودگی، غیر محفوظ سرحدی نظام، اور ملک کے کمزور ادارے شدت پسند گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے، نئی بھرتیاں کرنے اور اپنے اثر و رسوخ کو پھیلانے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ان ہزاروں غیر ملکی جنگجوؤں کی واپسی کا امکان ہے جو اسلامی ریاست کے عروج کے دوران شام آئے تھے۔ یہ جنگجو شدید جنگی تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر شدت پسند نیٹ ورک بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب، شام کے وہ نوجوان جو جنگ کی وجہ سے بے گھر اور متاثر ہوئے ہیں، شدت پسندی کی طرف مائل ہونے کے لیے زیادہ حساس ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی برقرار رہے تو شام شدت پسندوں کو پروان چڑھانے کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک مرکز میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
شام میں بشار الاسد حکومت کے زوال کو بظاہر امریکی جغرافیائی مفادات کی فتح سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ اس سے ایران اور روس کی قوت کمزور ہوئی اور خطے میں امریکی اثر و رسوخ بڑھا۔ تاہم، یہ فتح عارضی ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ واشنگٹن شام میں ابھرتے ہوئے خطرات کا ادراک اور ان سے نمٹنے میں ناکام رہا تو یہ صورتحال بوجھ بن سکتی ہے۔
شام کی موجودہ عدم استحکام کئی خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ پہلا، شام میں شدت پسندوں کا کنٹرول یورپ اور مشرق وسطیٰ میں مغربی اتحادیوں پر حملوں کے لیے پلیٹ فارم کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ 2015 کے یورپی مہاجر بحران نے، جو جزوی طور پر شامی خانہ جنگی کا نتیجہ تھا، یہ ظاہر کیا کہ شام کی عدم استحکام عالمی سطح پر پھیل سکتی ہے۔ دوسرا، اگرچہ داعش کمزور ہو چکی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوئی۔ حالیہ دنوں میں داعش کے جنگجو وسطی شام میں حملے کر چکے ہیں، جو ان کی مسلسل موجودگی کا اشارہ ہیں اور یہ کسی بھی وقت اپنی طاقت دوبارہ بڑھا سکتے ہیں۔ تیسرا، ترکی، سعودی عرب، اور ایران جیسے علاقائی حریف مختلف گروہوں کی حمایت کر کے اس افراتفری کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس سے نہ ختم ہونے والی پراکسی جنگیں اور شام کی تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔
یہ اثرات صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہیں گے۔ شام میں شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے عالمی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں افغانستان، 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد یا 2011 میں لیبیا میں قذافی کے زوال کی طرح، شام بھی عالمی شدت پسند تحریکوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ ترکی، عراق، اردن، اور لبنان کی سرحدوں کے ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے شام شدت پسند گروہوں کو اسمگلنگ کے راستوں، بین الاقوامی سپلائی چینز اور علاقائی اہداف تک آسان رسائی فراہم کرتا ہے۔
الاسد حکومت کے زوال نے شام کی تاریک تاریخ کے ایک باب کو ختم ضرور کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک نیا اور ممکنہ طور پر زیادہ خطرناک باب کھل گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی عدم موجودگی شدت پسند گروہوں کا عروج اور مسلسل پراکسی جنگیں شام کو عالمی شدت پسندی کے اگلے مرکز میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ الاسد کا زوال شام کے المیہ کا اختتام نہیں بلکہ اس کے اب تک کے سب سے خطرناک باب کا آغاز ہے!
(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن و تنازعات کے ریسرچ پروفیسر ہیں)