Ad

قصیدے کی قسمیں اور موضوعات

 

قصیدے کی قسمیں اور موضوعات


قصیدے کی اقسام

      قصیدہ نگاری میں ممدوح کے کارناموں کی تفصیل اور اوصاف کا ذکر کیا جاتا ہے۔ بعض قصیدہ نگاروں نے اخلاق ، حکمت اور انقلابِ زمانہ کے علاوہ رثائیہ جذباتکا اظہار بھی کیا ہے اور بعض قصیدوں میں ہجویہ انداز بھی اختیار کیا ہے ۔قصیدے کا موضوع مدح یا تعریف اور ذم ہیں اس بارے میں پروفیسر گیان چند جین اپنی کتاب " ادبی اصناف " میں لکھا ہے کہ ؛ ہئیت کے لحاظ سے قصیدے کی دو قسمیں ہیں۔ خطابیہ اور تمہیدیہ خطابیہ کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ خطابیہ میں تمہید ناپید ہوتی ہے اور شاعر ابتدائی اشعار ہی سے اپنے ممدوح کی ستائش اور توصیف کرنے لگتا ہے ایسے قصیدے کی تعداد نسبتاً کم ہے اور فنی نقطۂ نظر سے تشبیب کے بغیر مدح کو مستحکم تصور نہیں کیا جاتا صفحہ 35

      خطابیہ قصیدے میں تشبیب کا لزوم نہیں ہوتا اور تمہیدیہ میں شاعر اپنے فن کے جوہر دکھاتا ہے ۔ تمہیدیہ میں طربیہ اور نشاطیہ انداز کے مضامین کی گنجائش ہے ۔ اس میں شاعرانہ تخلیقی صلاحیت کا اظہار ہوگا ۔شوکت لفظی ، تراکیب نیز ، بندشوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کے دلی جذبات و احساسات کا کس حد تک دخل ہے ، چنا نچہ سودا نے قصائد میں اپنے انداز نگارش کی یوں وضاحت کی ہے۔

جس جا کہ میں لغات فراہم کروں تو واں 

ذرہ رکھے نہ صاحب فرہنگ رنگ ڈھنگ


آئینہ سخن پہ معانی کے ڈھنگ کا

 رکھتے ہیں جن کے لفظ تہِ رنگ رنگ ڈھنگ 


مجھ کو نہنگِ بحر معانی سے کام ہے

سمجے سخن کو کیا کوئی فرہنگ رنگ ڈھنگ


قصیدے کے موضوعات

قصیدوں کے موضوعات بالعموم مداحی ، داد و تحسین ، حصول جاہ و منصب ، انعام و اکرام سے جدا نہیں ۔ تاہم قصیدے کے موضوعات محدود بھی نہیں ہیں اجزائے قصیدہ کی مقررہ ترتیب کی پابندی کے بغیر بھی بعض قصیدے ادبی اور علمی نقطۂ نظر سے اہم سمجھ گئے ۔ابتدائی دور میں قصائد مثنویوں میں شامل رہتے تھے ۔ دکنی شعرا میں مثنوی نگاری سے خاص شغف ملتا ہے انھوں نے مثنوی کے عنوانات میں قصیدے کو بھی شامل کرلیا اور ان قصائد میں موضوعات کا تنوع بھی دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ عادل شاہی اور قطب شاہی حکومتوں میں جہاں دیگر اصنافِ شاعری یعنی غزل ، مثنوی ، رباعی اور مرثیہ کو عروج حاصل تھا وہیں قصیدہ مقبول عام تھا ۔ قصیدے کی مضامین میں ندرتِ جذبات و رفعت تخیل اور نازک خیالی کا اہتمام ملتا ہے ۔ دکن کے شعرانے عقیدت و محبت میں مبالغہ آرائی ، تصنع اور تکلف کے بر عکس برجستگی ، بے ساختگی اور جذباتی وابستگی کا برملا اظہار کیا ۔ تشبیب میں بھی خوبی و کمال پیدا کیا ، بزرگانِ دین کی شان میں لکھے گئے قصائد میں ان کا احترام اور تعظیم کی صورتیں باقی رکھیں چنانچہ کلیات محمد قلی قطب شاہ میں عید میلادالنبی ﷺ کے موضوع پر قصید ملتا ہے۔ اس میں محمد قلی نے قصیدے کی روایت کی تقلید نہ کی یعنی تشبیب کے بغیر ہی یہ قصیدہ لکھا اور پروفیسر سیدہ جعفر ، دکنی ادب میں قصیدے کی روایت میں لکھتی ہیں :

        " اس میں شاعر نے ایک نئی روش اور آزادانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے عید میلادالنبی ﷺ کے بارے میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ قصیدے کا ہر شعر معنوی ربط کے ایک سلسلے کا ترجمان ہے اور قصیدے کے تمام اشعار سلکِ گوہر معلوم ہوتے ہیں " صفحہ 195

       قصیدے میں بہاریہ یا عشقیہ مضامین کے علاوہ مختلف موضوعات سے متعلق خیالات کو رقم کیا جاتا ہے ۔ یہ قصیدہ نگاری کی روایات سے انحراف نہیں بلکہ جدت طرازی ، تازگی فکر اور اختراع پسندی کا رجحان تھا۔

قصیدے کو مضامین اور موضوعات کے لحاظ سے چار اقسام میں منقسم کیا گیا ہے (ا) مدحیہ۔(۲) ہجویہ۔ (۳) وعظیہ اور (۴) بیانیہ 

قصیدہ کی پہلی قسم مدحیہ

      مدحیہ قصائد جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس میں مداح اپنے ممدوح کی تعریف و توصیف میں صرف قافیہ پیمائی ہی نہیں کرتا بلکہ شوکت لفظی ، لہجۂ طمطراق نت نئی تشبیہات ، استعارات سے کام لیتا ہے ۔ اس کا مقصود داد و تحسین ، صلہ و ستائش، انعام و اکرام،  عت و تقرب کا حصول ہوگا۔ اس میں طربیہ اور نشاطیہ طرز بھی اختیار کیا جاتا ہے ۔ اسی کے ذریعے شاعر کی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی اظہارمکن ہے ۔ 

قصیدہ کی دوسری قسم ہجویہ

     قصیدے کی دوسری قسم ہجویہ ہے ۔ اس میں معاصرانہ چشمک ، اہانت اور تضحیک کے پہلو نمایاں ہوں گے ۔ ہجویہ قصائد میں شاعرانہ تعلیوں کو ارادتاً اختیار کیا جا تا ہے ۔ تاریخی لحاظ سے عر بی شاعری میں اس کو معیوب سمجھا گیا۔ فارسی میں بھی اس اسلوب کو احسن نہیں سمجھا گیا اور قال قال ہی ہجویہ قصیدہ لکھے گئے ۔ اس طرح اردو میں بھی اس کا چلن عام نہ ہوسکا۔ دراصل یہ ہجویہ اشعار آپسی بغض و عناد، عیب جوئی اور دشمنی کے جذبے سے لکھے جاتے تھے ۔ان میں اخلاقی پستی کا مظاہرہ ہوتا تھا ۔ اردو کے ابتدائی دور میں دکنی زبان میں نصرتی پہلا شاعر تھا جس نے اپنے ایک ہم عصر شاعر ہاشمی کی ہجو کی۔ بعد ازاں سودا کے پاس یہ رنگ ملتا ہے ۔

قصیدہ کی تیسری قسم وعظیہ

      قصیدے کی تیسری قسم وعظیہ کہلاتی ہے جس کا بنیادی مقصد پند و نصیحت ، اخلاق و آداب کی تبلیغ ہوگی ۔ اسیے قصائد میں شاعر دانستہ اور شعوری طور سے ابتدا ہی سے بصیرت افروز مضامین کا اندراج کرتا ہے گو اس کا اسلوب خالصتاً شاعرانہ ہوتا ہے۔ اردو میں سودا کا ایک قصیدہ " در نصائح فن شعر و طعن بر شاعری و در مدح مہربان خاں " اسی ذیل میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔

قصیدہ کی چوتھی قسم بیانیہ

     قصیدے کی چوتھی قسم بیانیہ ہے۔ اس طرح کے قصائد میں شاعرانہ حالاتِ حاضرہ ، سماجی ، تہذیبی اور معاشرتی زندگی کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے۔ بیانیہ قصیدے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر سیدہ جعفر اپنی کتاب " دکنی ادب میں قصیدے کی روایت " میں لکھتی ہیں : 

    " ان قصائد میں عصری حسیت کی روح جاری و ساری ہوتی ہے ۔ آلام حیات اور مصائب روزگار کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور ایسے قصائد شہر آشوب کی یاد دلاتے ہیں " صفحہ 13

     قصیدے کی ان چار قسموں کے علاوہ ایک اور طرح سے قصیدہ لکھا جاتا ہے جسے دعائیہ قصیدہ کہتے ہیں ۔ اس میں ابتدا ہی شاعر اپنے ممدوح کے حق میں دعائیہ انداز اختیار کرتا ہے اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہتا ہے ۔ اس میں تشبیب و گریز کی چنداں پابندی نہیں کی جاتی ۔ ممدوح کے لئے دعائیہ اشعار سے قصیدے کی تزئین کی جاتی ہے ۔

      قصیدے کو عام طور پر اس کے ثانی مصرعے کے قافیے کی نسبت سے یاد رکھا جاتا ہے جیسے اگر کسی قصیدہ کا قافیہ کام پر ختم ہو تو وہ قصیدہ لامیہ کہلائے گا اس طرح قصیدہ کافیہ ، قصیدہ میمیہ وغیرہ۔

      اردو کے ابتدائی دور میں شخصی قصیدوں کے ساتھ ساتھ اس طرح کے قصائد ملتے ہیں لیکن بعد کے زمانوں میں قصائد کا یہ رنگ ڈھنگ باقی نہ رہا تاہم چند ایک شعرا نے دیگر موضوعات پر بھی قصیدے تحریر کیے جس میں قصیدے کی دلفریبی باقی رہی۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے