مندرجات کا رخ کریں

الآمدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امام   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الآمدی
(عربی میں: علي بن أبي علي بن مُحمَّد بن سالم بن مُحمَّد الآمدي التغلبي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1156ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1233ء (76–77 سال)[4][5][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق [6]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نمایاں شاگرد عز بن عبد السلام   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلسفی ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الآمدی
معروفیتالآمدی
پیدائش1156
دیار بکر
وفات1233
دمشق
نسلکرد
شعبۂ زندگیایوبی سلطنت
مذہباسلام
فرقہاہل سنت
فقہشافعی
مکتب فکراشعری
شعبۂ عملاسلامی الہیات کے مکاتب فکر، حدیث، فقہ

علی بن ابی علی بن محمد الثغلبی بن سیف الدين الآمدی (پیدائش1157 - وفات 1233 عیسوی ) بنیادی طور پر ایک عالم دین تھا، جب کہ طبعاً عقلیت پسند اور فلسفی تھے۔ الآمدی عراق کے شہر آمد میں 551ھ مطابق 1157ء کو پیدا ہوا اور اسی نسبت سے آمدی کہلایا۔ پہلے حنبلی مسلک سے تعلق رکھتا تھا، بعد ازاں امام شافعی کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا۔ اور فلسفے اور علوم عقلیہ کے ذریعے تحقیق و تعلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ مصر کے علمی مرکز قاہرہ شہر میں القرافتہ الصغری کے بڑے مدرسے میں رہا جو امام شافعی کے اپنے مدرسے سے متصل ہے۔ 591ھ بمطابق 1295ء میں وہیں ایک اور مدرسے جامع الظافری میں صدرمعلم ہو گیا۔ وہ علوم عقلیہ اور فلسفے کا اس قدر مداح تھا کہ دیگر علما اور مفتیوں نے اس کے خلاف فتوے کفر و الحاد دے دیا عموما ایسے مواقع پر بدعت اور سنت سے انحراف کا فتوی دیا جاتا ہے ، چنانچہ وہ وہاں سے ملک شام کے شہرحماۃ چلا گیا، جہاں 1218ء میں ایوبی سلطان الملوک المنصور کی ملازمت اختیار کر لی۔ 1220ء میں المعظم عیسی شرف الدین نے اسے ملک شام کے مرکز علم ہنر دمشق بلا کر مدرستہ العزیزیہ کا صدر بنا دیا مگر بعد ازاں 1232ء میں اپنے سابقہ الزام کے پیش نظرمعزول کر دیا گیا۔ وہیں صفر 631 ھ مطابق نومبر 1233ء میں وفات پائی۔

طب کی کتاب “عیون الانباء فی طبقات الاطباء” کا مصنف موفق الدین ابو العباس احمد بن سدید الدین القاسم ابن ابی اصیبعہ اسی کاشاگرد تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ الآمدی اپنے زمانے کا ذہین ترین انسان تھا۔ تیرہویں صدی کے شافعی عالم دین اور تاریخی کتاب "وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان " کے مصنف ابن خلکان بھی اسی کا معترف ہے۔ اس نے اپنے آثار میں تقریباً بیس تصانیف چھوڑیں۔ اصول دین پر اس نے ایک کتاب “احکام الحکام” لکھی تھی، جو شرف الدین کے نام معنون کی، اس کی دیگر تصانیف کتابی مخطوطوں کی شکل میں ملتی ہیں۔[7]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ربط: https://d-nb.info/gnd/119161036 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مارچ 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb145103327 — بنام: ʿAlī ibn Abī ʿAlī ibn Muḥammad al- Āmidī — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب Vatican Library VcBA ID: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=8034&url_prefix=https://opac.vatlib.it/auth/detail/&id=495/340916 — بنام: ʻAlī ibn Abī ʻAlī Āmidī
  4. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119161036 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  5. بنام: ʻAlī ibn Abī ʻAlī Āmidī — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/176091 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. ربط: https://d-nb.info/gnd/119161036 — اخذ شدہ بتاریخ: 26 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
  7. شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا، جلد اوّل، صفحہ 33،34