جمہوریہ مہاباد
جمہوریہ مہاباد Republic of Mahabad کۆماری مەهاباد Komarî Mehabad | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1946–1947 | |||||||||
ترانہ: | |||||||||
دار الحکومت | مہاباد | ||||||||
عمومی زبانیں | کردی سورانی کرمانجی زازاکی | ||||||||
مذہب | کوئی نہیں | ||||||||
حکومت | اشتمالی ریاست | ||||||||
صدر | |||||||||
وزیر اعظم | |||||||||
تاریخی دور | سرد جنگ | ||||||||
• | جنوری 22 1946 | ||||||||
• سوویت واپسی | جون 1946 | ||||||||
• ایرانی کنٹرول قائم | دسمبر 15, 1946 | ||||||||
• | مارچ 30 1947 | ||||||||
رقبہ | |||||||||
1946 | 37,437 کلومیٹر2 (14,455 مربع میل) | ||||||||
کرنسی | ایرانی قیران | ||||||||
|
جمہوریہ مہاباد (Republic of Mahabad) ( کردی : کوماری مھاباد، فارسی : حمہوری مھاباد) سرکاری طور پر جمہوریہ کردستان، 20ویں صدی کی ایک کم مدتی کرد ریاست تھی، جو ترکی میں قائم ہوئی کرد ریاست جمہوریہ ارارات کے بعد ایرانی کردستان میں قائم ہوئی۔ اس کا دار الحکومت شمال مغربی ایران کا شہر مھاباد تھا۔ جمہوریہ کا قیام ایران کے اندرونی مسائل اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سویت اتحاد کے درمیان ایک تنازع کے باعث ہوا جو سرد جنگ کی وجہ بنا ۔
پس منظر
[ترمیم]اگست 1941ء میں ایک بغاوت میں ایرانی کرد علاقوں کا کنٹرول مرکزی ایرانی حکومت سے چھین لیا گیا۔ کرد اکثرتی شہر مھاباد میں مقامی انتظام، قبائلی سرداروں کی حمایت سے مڈل کلاس لوگوں کی ایک کمیٹی نے، سنبھال لیا۔ ایک سیاسی جماعت "کردستان احیائے نو سوسائٹی" کا قیام عمل میں لایاگیا۔ قاصی محمد کو پارٹی کا چیئرمین چنا گیا۔ اگرچہ جمہوریہ کا رسمی اعلان دسمبر 1945ء تک نہیں کیا گیا تھا، قاضی کی زیر قیادت کمیٹی نے جمہوریہ کے سقوط تک 5 سال تک اس علاقے کا انتظام کامیابی سے چلایا ۔
سویت رویہ
[ترمیم]سویت اور برطانوی فوجوں نے اگست 1941ء کے آخر میں ایران پر قبضہ کیا، سویتوں کے پاس شمالی علاقے کا کنٹرول تھا۔ سویت، کرد انتظامیہ کے ساتھ تعاون میں تھے۔ انھوں نے ناہی مھاباد کے نزدیک گیریژن کو برقرار رکھا اور ناہی کوئی اختیارات اور اثر رسوخ والا سول ایجینٹ مقرر کیا۔ انھوں نے قاضی انتظامیہ کی عملی حوصلہ افزائی کی، جیسے کہ انھوں نے موٹر ٹرانسپورٹ مہیا کی، ایرانی فوج کو باہر رکھا اور مالی مدد کے لیے ساری کی ساری تمباکو کی فصل خرید لی۔ دوسری طرف سویتوں نے کرد انتظامیہ کے ڈیموکریٹک جمہوریہ (ایرانی ) آذربائیجان میں شمولیت سے انکار کا بہت برا منایا ۔
انھوں نے علاحدہ آزاد کرد جمہوریہ کے اعلان کی بھی مخالفت کی ۔
جمہوریہ کی بنیاد
[ترمیم]ستمبر 1945ء میں قاضی محمد اور دوسرے کرد رہنماؤں نے نئی جمہوریہ کی حمایت میں سویت رویہ چآنجنے کے لیے تبریز کا دورہ کیا، ان کو تب باکو، آذربائیجان سویت خودمختار جمہوریہ بھیج دیا گیا۔ یہاں انھیں بتایا گیا کہ آذربائیجان ڈیموکریٹک پارٹی ایرانی آذربائیجان کا کنٹرول سنبھالنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ 10 دسمبر کو آذوبائیجان ڈیموریٹک پارٹی نے مشرقی آذربائیجان صوبے کا کنٹرول ایرانی حکومتی فوجوں سے لے لیا۔ قاضی محمد نے بھی ایسا ہی کرنے کا سوچا اور 15 دسمبر کو، کرد عوامی حکومت کی مھاباد میں بنیاد رکھی گئی۔ 22 جنوری 1946ء کو قاضی محمد نے جمہوریہ مھاباد کے قیام کا اعلان کیا ۔
منشور میں درج ان کے چند مقاصد درج ذیل ہیں ۔
1۔ ایرانی ریاست کے اندر ایرانی کردوں کی خود مختاری ۔
2۔ کرد زبان کا تعلیم اور انتظامیہ کی زبان کے طور پر استعمال ۔
3۔ سماجی اور ریاستی نگرانی کے لیے کردستان کی صوبائی کونسل کے انتخابات ۔
4۔ تمام سرکاری حکام مقامی آبادی سے ہونے چاہیے ۔
5۔ آذربائیجانی (آذری) لوگوں کے ساتھ اتحاد اور اخوت ۔
6۔ عام اور خاص کے لیے ایک ہی قانون کا اجرا ۔
جمہوریہ کا خاتمہ
[ترمیم]26 مارچ 1946ء میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے سویت اتحاد نے ایرانی حکومت سے وعدہ کیا کہ وہ شمال مغربی ایران سے نکل جائے گا۔ جون میں ایران نے ایرانی آذربائیجان پر اپنا کنٹرول بحال کر لیا۔ اس اقدام نے جمہوریہ مھاباد کو تنہا کر دیا، جو اس کو حاتمے کی طرف لے گیا ۔
اس موڑ پر قاضی محمد کی حمایت میں، خاص طور پر کرد قبیلوں کے درمیان جنھوں نے شروع میں اس کی حمایت کی تھی، کمی آ گئی۔ ان کی فصلیں اور اشیائے ضروریہ کم ہو گئیں اور اس تنہائی کی وجہ سے ان کی زندگی مشکل ہو گئی۔ سویت اتحاد کی طرف سے اقتصادی امداد اور فوجی اعانت بند ہو گئی، قبائلیوں کو قاضی محمد کی حمایت کرنے کی کوئی وجہ نظر نا آتی تھی۔ بہت سے قبیلوں نے علاقہ چھوڑنا شروع کر دیا۔ علاقے میں رکنے والوں نے برزانی کردوں سے آزردگی شروع کردی کیونکہ وہ ان کے وسائل میں ان کے حصہ دار بن گئے تھے۔ 5 دسمبر کو جنگی کونسل نے قاضی محمد کو بتایا کہ اگر ایرانی فوج نے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش ک تو وہ لڑیں گے اور ایرانی فوج کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ 15 دسمبر کو ایرانی فوج داخل ہوئی اور مھاباد کو محفوظ بنا لیا ۔
انھوں نے کرد پرینٹنگ پریس کو بند کر دیا، کرد زبان کی تعلیم پر پابندی لگا دی اور کرد زبان میں ملنے والی تمام کتابوں کو آگ لگا دی ۔
آخر کار 31 مارچ 1947ء میں قاضی محمد کو بغاوت کے الزام میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔
انجام
[ترمیم]عراقی کردستان سے اپنے سپاہیوں کے ساتھ مصطفی برزانی نے جمہوریہ کی فوجوں کی تشکیل کی۔ جمہوریہ کے انہدام کے بعد، زیادہ تر سپاہیوں اور عراقی فوج کی چار افسروں نے عراق واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ ان افسروں کو عراق واپس پہنچنے پر سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ اور آج کل ان کو قاضی محمد کے ساتھ ہیرو مانا جاتا ہے جو نے کردستان کے لیے شہید ہوئے۔ کئی سو سپاہیوں نے برزانی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایرانی فوج کی، ان کے پانچ ہفتوں کے مارچ میں رکاوٹیں ڈالنے کی، تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا اور سویت آذربائیجان چلے گئے ۔
اکتوبر 1958ء میں مصطفی برزانی شمالی عراق واپس آ گئے اور کردستان ڈیموریٹک پارٹی کے ذریعے آزاد کرد ریاست جدوجہد شروع کی اور مھاباد کے جھنڈے کو ہی اپنا جھنڈا بنا لیا ۔
عراقی کردستان کاموجودہ صدر مسعود برزانی، مھاباد میں پیدا ہوا، جب اس کا باپ مصطفی برزانی، ایرانی کردستان میں جمہوریہ مھاباد کی فوج کا سربراہ تھا ۔
- 1946ء میں قائم ہونے والے ممالک اور علاقے
- ایران
- ایران سوویت یونین تعلقات
- ایران میں بیسویں صدی
- ایشیا
- ایشیا کے سابقہ ممالک
- تاریخ کردستان
- سابق اشتراکی جمہوریتیں
- سابقہ غیر تسلیم شدہ ممالک
- سرد جنگ کی سابقہ سیاست
- صوبہ مغربی آذربائیجان کی تاریخ
- عراق
- کردستان
- کم مدتی ممالک
- مشرق وسطی کے سابقہ ممالک
- 1946ء میں تحلیل ہونے والی ریاستیں اور عملداریاں