خالق دینا ہال
1906ءمیں شہر کراچی کی سماجی اور ثقافتی تقاریب کے انعقاد کے لیے بندر روڈ (اب ایم اے جناح روڈ)پر ایک ہال تعمیر کیا گیا جس پر تقریباً 33000 روپیہ لاگت آئی اس میں 18000 روپیہ کی رقم سندھ کی ایک مخیر شخصیت غلام حسین خالق دینا کے لواحقین کی جانب سے عطیہ تھا جبکہ بقیہ 15000 روپیہ کی رقم کراچی میونسپلٹی نے خرچ کی بعد ازاں اس ہال کو مرحوم غلام حسین خالقدینا کے لواحقین کی خواہش پر جنا ب غلام حسین خالق دینا کے نام پر خالق دینا ہال رکھا گیا۔ 26 اگست 1984ءکو اس تاریخی اور یادگار عمارت کا عقبی چھت کا ایک حصہ اچانک گرگیا تھا جسے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے میسرز ایس وائی کنسٹرکشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے بعوض رقمی 13655137/= روپے میں مرمت و تجدید) Renovate (کرنے کے بعد دوبارہ درست حالت میں کر دیا ہے۔ اس ہال میں حکومت برطانیہ نے مورخہ 26 دسمبر 1921ءکو مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی، مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد کانپوری، پیر غلام مجدد سرہندی اور سوامی شنکر اچاریہ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا تھا اور انھیں دو دو سال کی سزا سنائی گئی۔
بیرونی روابط
[ترمیم]ویکی ذخائر پر خالق دینا ہال سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |