ذکات
ذکات وہ عمل جس کے ذریعے خشکی کے جانور حلال ہوتے ہیں۔[1] اسے تذکیہ بھی کہتے ہیں۔
ذکات قرآن میں
[ترمیم]ذبیحہ میں ذکاۃ اس کا پاک کرنا ہے۔ اسی معنی میں سورہ المائدہ کی آیت نمبر 3میں ذکر ہے اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ مگر جسے تم ذبح کر لو۔
ذکات حدیث میں
[ترمیم]- صحاح میں ہے ذَکَّیْتُ الشَّاۃ میں نے بکری کو ذبح کر دیا۔
- محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ماں کو ذبح کرنا جنین کو ذبح کرنا ہے "ذَكَاةُ الجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ۔"(سنن الترمذی) امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اس حدیث کا مفہوم یہی متعین کرتے ہیں کہ ماں کے ذبح کیے جانے کی طرح جنین کو بھی ذبح کیا جانا چاہیے ۔
- عن أبي جعفر قال: ذکاۃ الأرض یبسہا۔[2]
- اگر ناپاک زمین خشک ہو جائے اور اس پر نجاست کا اثر اور بدبو ظاہر نہ ہو تو اس پر نماز پڑھنا جائز ہے۔
تذکیہ کی حقیقت
[ترمیم]تذکیہ کی حقیقت صرف یہ ہے کہ جانور کی طبعی حرارت کو بدن سے نکال دیا جائے لیکن شریعت میں (ہر طریقہ سے ازالۂ حرارت کو تذکیہ نہیں کہا جاتا بلکہ ایک خاص طریقہ سے ابطال حیات کا نام تذکیہ ہے)یعنی بالارادہ اللہ کا نام لے کر حلق و لبہ کو کاٹ کر یا چھید کر ابطال حیات کرنے کا نام شرعاً تذکیہ ہے۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدیل بن ورقاء خزاعی کو اونٹ پر سوار کر کے منیٰ کی گھاٹیوں میں (تمام حاجیوں کی تعلیم کے لیے) یہ ندا کرنے کے لیے بھیجا کہ ذکات (ذبح اور نحر) حلق اور لبہ میں ہونا چاہیے۔ ۔[3]
دو قسمیں
[ترمیم]امام شافعی اپنی بے نظیر کتاب ’’الام‘‘ میں فرماتے ہیں۔ ’’ذکوٰۃ کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو ذکاۃ اختیاری کا ہے اور وہ ذبح یا نحر ہے۔ دوسرا طریقہ ذکاۃ غیر اختیاری کا ہے۔ اس میں اپنے ہاتھ سے تیر مارنا یا کسی ہتھیار سے کام لینا یا شکاری جانوروں سے شکار کرنا وغیرہ صورتیں داخل ہیں اور ان سب میں انسانی فعل و عمل کو دخل ہے۔ گڑھا کھود کر کسی جانور کو اس میں گرا کر ماردینا ذکاۃ شرعی کے طریقوں میں داخل نہیں ہے۔ خواہ گڑھے میں ہتھیار ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح اگر ایک شخص نے تلوار یا نیزہ گاڑ لیا، پھر کسی جانور کو اس کی طرف بھگایا اور اس سے ذبح ہو گیا تو اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بلا کسی شخص کے ذبح کرنے کے ذبح ہوا۔‘‘[4]