مندرجات کا رخ کریں

نذیر احمد کی کہانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

”نذیر احمد کی کہانی“مرزا فرحت اللہ بیگ

[ترمیم]

اردو ادب میں بہت سے باکمال خاکہ نگار گذرے ہیں لیکن جو خاکہ نگاری کا تاج مرزا فرحت اللہ بیگ کے سر ہے وہ تاج انھیں ہی ججتا ہے ڈاکٹر سلمان اطہر جاوید اپنی کتاب ،” اسلوب اور انتقاد“ میں اس طرح رقمطراز ہیں
” مرزا فرحت نے نذیر احمد کا حلیہ، چال ڈھال، کردار و گفتار، کھانا پینا، با ت چیت، نشست و برخاست، علم سے اُن کی وابستگی ان کے کاروبار غرض اُن کی ہر ادا، ہر حرکت اور ہر معاملہ کو اتنی شگفتگی کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا ہے کہ ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ یہاں مزاح نذیر احمد کے حلیہ سے نہیں برستا بلکہ مرزا فرحت کے اسلوب سے مزاح جھلکتا ہے۔ جس کے باعث ڈپٹی صاحب کا حلیہ بھی مزاح پارہ بن جاتا ہے۔“
”نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی “1927ءکی تحریر ہے۔ مرزا فرحت اُس وقت تک عموماً ”الم نشرح“ کے فرضی نام سے لکھتے تھے۔ یہ پہلا خاکہ ہے جو آپ کے اصلی او ر معروف نام سے چھپا۔ آپ نے یہ خاکہ مولوی عبد الحق کے بے حد اصرار پر لکھا اور پہلی مرتبہ انجمن پنجاب ترقی اردو کے رسالے” اردو“ میں شائع ہوا۔ آپ کی یہ تحریر نذیر احمد کی کہانی اردو زبان کا پہلا کامیاب اور مکمل خاکہ ہے۔ یہ ایک ایسی شخصیت کا مرقع ہے جو اپنی شخصیت اور عالمانہ وقار کے لیے ایک زمانے میں شہرت رکھتی تھی۔ اگرچہ ڈپٹی نذیر احمد کا طنز و مزاح سے کوئی گہرا تعلق نہیں تھا۔ لیکن فر حت کا مرقع پڑھنے کے بعد ڈپٹی نذیر احمد کی مزاح سے بھر پور شخصیت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ بعض نقادوں نے کہا ہے کہ اگر فرحت اور کچھ بھی نہ لکھتے تو صرف یہ مضمون ہی انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ آئیے ان خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بدولت اس خاکے کو شہرت عام نصیب ہوا۔

مزاح نگاری:۔

[ترمیم]

مزاح کا عنصر فرحت کے تمام مضامین میں اپنے عروج پر ہے لیکن ”نذیر احمد کی کہانی“ میں مزاح کا عنصر انتہائے کمال پر ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مرزا فرحت فطرتاً پر مزاح طبیعت کے مالک تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے مضامین میں قریب قریب صرف اُن لوگوں کو موضوع بنایا جو خود اعلیٰ درجے کے مزاح کے علمبردار تھے۔ مولوی نذیر احمد بھی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے اور شائد مزاح کے اس قدرِ مشترک نے فرحت کو اپنے استاد مولوی نذیر احمد پر اپنی شگفتہ قلم اُٹھانے کی توفیق بخشی۔ اس کہانی میں مولوی صاحب پر لکھا ہوا ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ خوش مذاقی کا آئینہ دار ہے۔ اس کی اولین وجہ یہ ہے کہ دونوں استاد اور شاگرد خوش مذاق تھے۔ دراصل نذیر احمد سے فرحت کی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ اُن کی ہم مذاقی تھی۔ چنانچہ کہانی کے آغاز میں اس طبعی یگانگت کا خوشگوار تذکرہ کرتے ہیں۔
” میں متانت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہوں کیونکہ مولوی صاحب جیسے خوش مذاق آدمی کے حالات لکھنے میں متانت کو دخل دینا اُن کا منہ چڑھانا ہی نہیں اُن کی توہین کرنا ہے۔
اس خاکے کا ایک ایک لفظ اپنے اندر مزاح کا ایک سمندر لیے ہوئے ہے۔ مرزا فرحت نے نہ صرف نذیر احمد کا حلیہ، چال ڈھال بلکہ اُن کی ہر حرکت اور ادا کو شگفتگی سے بیان کیا ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے۔ لیکن فرحت کی مزاح نگاری میں چھڑنے اور شرارت کرنے کا انداز ہر گز نہیں ان کی درد مندی پر وضعداری کا رویہ چھایا رہتا ہے۔ فرحت ہنساتے ہیں لیکن بے ادبانہ نہیں۔ ایک اچھے مزاح نگار کی طرح ان کے تبسم کے پیچھے درمندی کے آنسو چھپے ہوتے ہیں۔

مرقع نگاری:۔

[ترمیم]

مرقع نگاری سے مراد قلمی تصویریں بنانا ہے فرحت اللہ بیگ اردو کے صف اول کے مرقع نگار ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد کے بعدان کا نام اس صنف میں لیا جاتا ہے۔ فرحت اللہ بیگ شخصیت نگاری و مرقع کشی کا وہ فطری ذوق رکھتے ہیں کہ ان کی خیالی تصویریں بھی ان کے قلم کی معجز بیانی کے باعث زندہ اور جیتی جاگتی حقیقت کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ فرحت اللہ بیگ ظرافت اور قصہ نگاری کو آپس میں ملا کر شخصیت نگاری کا خمیر اُٹھاتے ہیں جس سے ان کے شخصی مرقعوں میں ادبی حسن اور فنی عظمت آجاتی ہے۔ فرحت اللہ بیگ کی تمام تحریروں مثلاً دہلی کا یادگار مشاعرہ”پھول والوں کی سیر“ وغیر ہ میں مرقع نگاری کے بہترین نمونے ہمیں ملتے ہیں لیکن ”نذیر احمد کی کہانی“ بلحاظ مرقع نگاری ایک جدگانہ چیز ہے۔ نذیر احمد کی کہانی مرقع کی تعریف پر پوری اُترتی ہے۔ کیونکہ اس میں ایک شخص کی شخصیت کے جملہ اوصاف کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جو شخصیت نگاری اور مرقع نگاری کی مکمل مثال ہے۔

توازن:۔

[ترمیم]

نذیر احمد، مرزافرحت اللہ بیگ کے محسن اور استاد تھے۔ مگر مرزا نے انھیں ہیرو یا فرشتہ بنا کر پیش نہیں کیا اور نہ ہی ہماری ملاقات جبہ پہننے والے ایک ماہرخطیب اور عالم بے بد ل سے کرائی ہے۔ بلکہ ہمیں ایک ایسے خوش مذاق انسان سے ملوایا ہے جواپنے خوش ذوق شاگردوں کی ظریفانہ ادائوں کی داد دینے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے کسی طرح کی لگی لپٹی کے بغیر نہایت بے تکلفی سے اپنے استاد کی شخصیت کو متعارف کروایا ہے۔ نذیر احمد کی کہانی کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔ ” اب جو کچھ کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے وہ لکھو ں گا۔ اور بے دھڑک لکھوں گا۔ خواہ کوئی برا مانے یا بھلا۔ جہاں مولوی صاحب مرحوم کی خوبیاں دکھائوں گا وہاں اُن کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کر دوں گا تاکہ اس مرحوم کی اصلی اور جیتی جاگتی تصویر کھینچ جائے اور یہ چند صفحات ایسی سوانح عمری نہ بن جائیں جو کسی کو خوش کرنے یا جلانے کے لیے لکھی گئی ہو۔“
یہ خاکہ ان کی چشم دید اور First hand knowledgeپر مبنی معلومات کا بے با کانہ دیانتدارانہ اور معروضی اظہار ہے۔ فرحت اللہ بے گ نے نذیر احمد کی شخصی کمزوریوں کو بھی بلا جھجک بیا ن کیا ہے۔ انھوں نے نذیر احمد کو نہ فرشتہ بنا کر دکھایا ہے اور نہ شیطان اور نہ ملائے مسجدی۔

تصویر کے دونوں رخ:۔

[ترمیم]

یہ خاکہ اردو خاکہ نویسی کے اس مروجہ ڈھب سے مختلف ہے جس میں خاکے یک طرفہ ہوتے ہیں اور زندگی کا بس ایک رخ ہی سامنے آپاتا ہے۔ یا پھر صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ خاکہ لکھنے والا کوشش کرکے ایسے پہلو سامنے لانا چاہتا ہے جن سے ایک خاص طرح کی شخصیت ابھر کر سامنے آئے گی۔ فرحت اللہ بیگ کے اس خاکے کی غیر معمولی خوبی یہ ہے کہ یہ تصویر کے دونوں رخ پیش کرتا ہے۔ مولوی صاحب کی تما م تر خوبیوں اور اوصاف کے ساتھ ان کی سخت اور کڑی طبیعت اور بخل اور ُن کی سود خوری کے ذکر سے گریز نہیں کیا۔ چنانچہ کنجوسی کے متعلق یوں لکھتے ہیں۔
” وقت بے وقت کے لیے دو انگریزی جوڑے لگا رکھے تھے جن پر میری یاد میں کبھی پالش ہونے کی نوبت نہ آئی تھی۔ یہاں تک کے دونوں سوکھ کر کھڑنک ہو گئے تھے۔“
فرحت نے بڑی خوبصورتی سے نذیر احمد کی سود خوری پر طنز کیا ہے۔ کہ مولوی صاحب بلا دردریغ مسلمانوں کو تجارت کے لیے روپیہ قرض دیتے مگر ان سے سود درسود وصول کرتے۔ مفسر قرآن اور عالم دین نذیر احمد سود خوری میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ فرحت نے ایک جگہ لکھا ہے۔ ” میں اپنے استاد کے حالا ت لکھ رہا ہوں اگر سچ ہیں تو میں اپنا فرض پورا کر تا ہوں اگر جھوٹ ہیں تو وہ خود میدان ِ حشر سود در سود لگا کر تاوان وصول کریں گے۔“

کردار نویسی:۔

[ترمیم]

ہمدردانہ عنصر اچھے اور معیاری ادب کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس کے بغیر کوئی معیار ی اور بلند پایہ تخلیق ممکن نہیں ہو سکتی۔ نذیر احمد کے خاکے میں یہ جوہر موجود ہے۔ اس لیے مرزا فرحت اللہ بیگ نذیر احمد کی دلچسپ اور انوکھی مگر حقیقت پر مبنی تصویر بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بلا شبہ نذیر احمد والے مضمون میں فرحت نے عقیدت اور طنز کو سمو کر اردو ادب میں سمو کر کردار نویسی کے نئے ڈھنگ کی بنیاد ڈالی ہے۔ بعض نقادوں نے اسے سوانحی خاکہ قرار دیا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے نذیر احمد کی زندگی کی ساری تفصیلات جمع نہیں کیں اور نہ جملہ مشاہدات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا ضروری سمجھا۔ بلکہ اپنے انتخابی ذہنی کو کام میں لا کر محض چند مخصوص احوال و واقعات اور مشاہدات و تاثرات کے بیان پر اکتفا ءکیا ہے۔ جن سے نذیر احمد کی دلکش اور فطری تصویر اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

جزئیات نگاری:۔

[ترمیم]

مولوی نذیر احمد کے حلیے، لباس، خوش خوراکی، ان کے مکان، حقے، کمروں کا نقشہ، انداز نشست و برخاست، شاگردوں کی آمد، درس و تدریس، باہر جانے کے لیے تیاری اور کتنے ہی دوسرے پہلوئوں کی جزئیات نگاری کا بیان مرزا فرحت اللہ بیگ کے عمیق مشاہدے کا ثبوت ہے۔ فرحت کی تیز نگاہی اور حسن خیال نے ایسے مرقعے تشکیل دیے ہیں جو تخیل، حسن و جمال اور رنگینی کے حامل ہیں۔ مثلا ً مولوی صاحب کے گھریلو لباس کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
” اب ہمارے مولوی صاحب کو دیکھیے ۔۔۔۔ میں کیا تصویر دکھانا چاہتا تھا؟ مولوی صاحب کا لباس مگر خدا کے فضل سے اُن کے جسم پر کوئی لباس ہی نہیں ہے۔ جس کا تذکرہ کیاجائے۔ نہ کرتا ہے نہ ٹوپی نہ پاجامہ ایک چھوٹی سی تہ بند برائے نام کمر سے بندھی ہوئی ہے۔ بندھی ہوئی نہیں محض لپٹی ہوئی ہے۔ لیکن گرہ کے جنجال سے بے نیاز ہے۔“
نذیر احمد کو گھر میں حقہ پینے کا شوق تھا۔ جب تک گھر میں رہتے حقہ گرم رہتا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے نذیر احمد کی حقہ پینے کی ا س طرح تصویر کشی کی ہے۔
” مولوی صاحب کو حقہ کا بہت شوق تھا۔ مگر تمباکو کو ایسا کڑوا پیتے تھے کہ اس کے دھوئیں کی کڑواہٹ بیٹھنے والوں کے حلق میں پھندا ڈال دیتی تھی۔ فرشی قیمتی تھی مگر چلم پیسے کی دو والی اور نیچہ تو خدا کی پناہ۔“

حلیہ نگاری:۔

[ترمیم]

نذیر احمد کی کہانی میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے اتنی خوبصورتی سے حلیہ نگاری کہ ہے کہ قاری ایسا محسوس کرتا ہے کہ جیسے زندہ اور متحرک مولوی نذیر احمد اُس کے سامنے اُٹھتا بیٹھتا کھاتا پیتا ہے۔ نذیر احمد کی کہانی میں مرزافرحت نے اپنے شوخ لفظوں کے ذریعے نذیر احمد کی ایسی خوبصورت اور متحرک تصویر کشی کی کہ قاری نذیر احمد کو اپنے سامنے بیٹھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مثلاًایک جگہ نذیر احمد کی داڑھی کے متعلق اس طرح رقم طرا ز ہیں،
” داڑھی بہت چھدری تھی ایک ایک بال با آسانی گنا جا سکتا تھا۔“
ایک دوسری جگہ جہاں نذیر احمد چلتے پھرتے، ہنستے بولتے اور اُٹھتے بیٹھتے دکھائی دیتے ہیں۔
”رنگ سانولا مگر روکھا، قد خاصہ اونچا تھا مگر چوڑائی نے لمبائی کو دبا دیا تھا۔ کمر کا پھیر ضرورت سے زیادہ تھا۔ توند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ گھر میں آزار بند باندھنا بے ضرورت ہی نہیں تکلیف دہ سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔۔ سر بہت بڑا تھا مگر بڑی حد تک اُس کی صفائی کا انتظام قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔
مرزا فرحت کے پیش کردہ حلیے کو پڑھ کر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لکھنے والا کس قدر ذہانت کا مالک تھا۔ اُس کا مشاہدہ کتنا عمیق تھا اور موضوع کی زندگی کے معمولی معمولی جزئیات پڑھنے میں اس کی آنکھیں کس قدر تیز تھیں۔

طرز نگارش:۔

[ترمیم]

نقادوں کی یہ بات درست ہے کہ فرحت افراد کی کمزوریوں اور خامیوں کو ہمدردی اور محبت کے ساتھ اسلوب کی ظرافت میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ خاکہ نویسی میں فرحت کی انفرادیت وکامیابی میں دوسرے عناصر کے ساتھ ان کے اسلوب یا مخصوص اسٹائل کو بھی دخل ہے۔ یہ اسلوب ان کی ذہانت، خوش مذاقی، ظرافت ِ طبع اور شگفتہ بیانی سے مرکب ہے۔ اگر کہا جائے کہ وہ اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں خوش مذاقی کے بانی تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ، ” وہ الفاظ اور جملوں کو ایسی شگفتہ کیفیت میں سمو کر پیش کرتے ہیں کہ دل و دماغ انبساط میں ڈوب جاتے ہیں اور انسان خود کو بشاش اور تازہ دم محسوس کرنے لگتا ہے۔“
با محاورہ خوبصورت اور دل آویز زبا ن ہی ان کا اصل فن ہے۔ بالعموم وہ مختصر اور نپے تلے جملے لکھتے ہیں۔ برجستہ مکالموں میں انھیں ملکہ خدادا د حاصل ہے۔
فرحت اول تو نذیر احمد کے شاگردتھے۔ دوسرے وہ دہلی کے مخصوص ماحول میں پلے بڑھے۔ اور ایک اعتبار سے ”دلی کے روڑے “تھے۔ چنانچہ ان کی زبان پر نذیر احمد کا اثر بھی موجود ہے۔ خصوصاً محاورات کی ”ٹھونس ٹھانس “ کے ضمن میں، پھر ُان کے ہاں دہلی کے بعض خاص طبقوں کا لب و لہجہ بھی ملتا ہے۔
فرحت کا اسلوب خوش طبعی، متانت و سنجیدگی کے ساتھ ظرافت کی آمیزش، اردو فارسی کے محاورات، ضرب الامثال کے ساتھ اردو ہندی کے مانوس محاوروں اور کہاوتوں کے برمحل استعمال اور دہلی کی ٹکسالی زبان سے تشکیل پاتا ہے۔ مولوی عنایت اللہ نے بجا کہا ہے کہ ان کے کسی ایک فقرے کی نسبت بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ پھیکا، بے لطف اور ڈل ہے۔ انھوں نے توازن سے کام لیتے ہوئے نشاطیہ پہلوئوں کے ساتھ زندگی کے حزینہ پہلو بھی بیان کیے ہیں۔ ان کے ہاں مسرتوں کے ساتھ غموں کی جھلک بھی ملتی ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ،

زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں

نذیر احمد کی کہانی میں فرحت کی اپنی شخصیت:۔

[ترمیم]

”نذیر احمد کی کہانی“ میں مصنف ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ دراصل اعلی درجے کی شخصیت نگاری کے لیے یہ بات بھی ضروری ہوتی ہے۔ کہ لکھنے والا شخصیت نگاری اپنی ذات کے حوالے سے کرتا ہے۔ فرحت کہانی کے ساتھ اپنی ذات کو بھی سموتے چلے جاتے ہیں لیکن اس طرح نہیں کہ شبلی کی طرح موضوع پر حاوی ہو جائیں اور اصل شخصیت کو کہانی کے پس منظر میں موجود رکھے تو کہانی کی دلچسپی میں اضافہ ہوتاہے اور خاص طور پر ایک ایسی کہانی جیسی فرحت اللہ بیگ نے لکھی ہے۔ اور جس انداز میں لکھی ہے۔ اس کے ساتھ مصنف کی ذات کی وابستگی ایک ادبی ضرورت بن جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ”نذیر احمد کی کہانی“ میں فرحت نے دو اسلوب پیدا کیے ہیں۔ ایک تو ان کا اپنا ہے اور دوسرے یہ کہ کہانی میں جن چیزوں کو نذیر احمد کی زبان سے کہلواتے ہیں۔ وہاں اسلوب بدل کر فرحت کی بجائے نذیر احمد کا ہو جاتا ہے۔ اس تفاوت کو برقرار رکھنا بھی فرحت کا بڑا کارنامہ ہے۔ جو ان کے آشنائے فن ہونے کا ثبوت ہے۔

مجموعی جائزہ:۔

[ترمیم]

نذیر احمد کی کہانی گلدستہ ادب ہے جس میں فرحت نے فنکاری اور حسن طبیعت سے خوب کام لیا ہے۔ اور اس میں رنگ رنگ کے پھول سجائے ہیں۔ سوانح نگاری، شخصیت نگاری، تہذیب کی تصویر کشی سبھی کچھ اس میں شامل ہے۔ اور فرحت کے حسین اور شوخ اسلوب تحریر نے اسے نہایت موثر اور جاندار بنا دیا ہے۔ اردو ادب میں یہ ادبی کوشش غیر فانی ہے۔ مولوی وحید الدین سلیم فرحت کو ان الفاظ میں تحسین پیش کرتے ہیں
” مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا۔ مرنے کے بعد اُس کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اس رنگ میں ہمارا نام بھی لکھتا۔ جبکہ محمدطفیل لکھتے ہیں،
” جو مضمون فرحت اللہ بیگ نے لکھا ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ اس سے زیادہ کسی کے خلاف نہیں لکھا جا سکتا۔ مگر اس مضمون کا کمال یہ ہے کہ لکھنے والے نے حد درجہ ذہانت کا ثبوت دیا اور قلم کو فن کی عظمتوں سے ہم کنار کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون مزے لے لے کر پڑھا جا سکتا ہے اور ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ اس دلچسپ پہلو کے علاوہ جو بات بھی ذہن میں ابھرتی ہے وہ دبی دبی سی ہے۔“