زیاد بن لبید
زیاد بن لبید | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | زِیَاد بن لَبِید |
اولاد | عبد اللہ |
والدہ | عمرہ بنت عبید بن مطروف |
عملی زندگی | |
طبقہ | صحابہ |
نسب | الانصاری الخزرجی البیاضی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ بدر غزوہ احد غزوہ خندق باقی تمام |
درستی - ترمیم |
زیاد بن لبید غزوہ بدر میں شامل فقہا صحابہ میں تھے۔
نام ونسب
[ترمیم]زیاد نام ،ابو عبد اللہ کنیت،قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلہ نسب یہ ہے،زیاد بن لبید بن ثعلبہ بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔
اسلام
[ترمیم]بیعتِ عقبہ میں شریک تھے،جب مدینہ میں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو انصار کی ایک جماعت جو چار آدمیوں پر مشتمل تھی،مکہ پہنچی جس میں ایک زیادتھے،وہاں سے بہت سے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس آئے،اس بنا پر یہ لوگ انصاری بھی تھے اور مہاجر بھی۔
غزوات
[ترمیم]غزوات ،بدر،احد،خندق،اورتمام غزوات میں شریک تھے۔9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا [1] حضرت زیادؓ حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو حضرت ابوبکرؓ نے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انھوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا،حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: وکان لہ بلاء حسن فی قتال اھل الردۃ [2] یعنی انھوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔ خلافت صدیقی [3] اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، [4] اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔
یمن کے حاکم
[ترمیم]9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا [5] زیاد حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو ابوبکرنے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انھوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا، انھوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔ خلافت صدیقی اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔
وفات
[ترمیم]41ھ میں انتقال ہوا، یہ امیر معاویہ کی حکومت کا پہلا سال تھا۔[6][7]
فضل وکمال
[ترمیم]زیادؓ فقہائے صحابہؓ میں تھے، [8] صحیح ترمذی میں ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺنے فعمایا کہ اب علم کے اٹھنے کا وقت آپہنچا،زیادؓ نے عرض کیا یہ کیسے ہو سکتا ہے،اب تو علم لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کر چکا ارشاد ہوا: ثکلتک امک یا زیاد !ان کنت لا راک من افقہ رجل بالمدینۃ اولیس الیھود والنصاریٰ یقرؤن التوراۃ والانجیل ولا ینغعون بشئی یعنی اے زیاد تیری ماں تجھ کو روئے میں تجھ کو نہایت سمجھ دار شخص خیال کرتا تھا کیا دیکھتے نہیں کہ یہودو نصاریٰ تورات وانجیل پڑہتے ہیں،لیکن ان سے کچھ نفع نہیں اٹھاتے۔ حضرت عبادہؓ نے اس حدیث کو سنا تو فرمایا سچ ہے، سب سے پہلے خشوع اٹھ رہا ہے۔ [9] آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں روایت کیں، حلقہ روایت میں عوف بن مالک، جبیر بن نفیر، سالم بن ابی الجعدان کی مسند فضل و کمال کے حاشیہ نشین ہیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ (استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل)
- ↑ (تہذیب التہذیب :3/383)
- ↑ (طبری:4/136)
- ↑ (یعقوبی:2/186)
- ↑ استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل
- ↑ اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 844حصہ چہارم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ اصحاب بدر،صفحہ 144،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
- ↑ (تہذیب :3/383)
- ↑ (اصابہ:2/3)