مندرجات کا رخ کریں

علقمہ بن قیس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
علقمہ بن قیس
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 591ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 681ء (89–90 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ عبد اللہ بن مسعود   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد بن سیرین ،  ابراہیم بن یزید النخعی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  محدث ،  مفسر قرآن ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

علقمہ بن قیس زہد و ورع کے لحاظ سے ممتاز تابعین میں سے تھے۔آپ نے 83ھ میں وفات پائی۔

نام ونسب

[ترمیم]

علقمہ نام، ابو شبلی کنیت، مشہور محدث ابراہیم نخعی کے ماموں اور اسود بن یزید کے چچا تھے، نسب نامہ یہ ہے، علقمہ بن قیس بن عبد اللہ بن مالک بن علقمہ بن سلامان بن کہیل بن بکر بن عوف بن نخع نخعی۔

پیدائش

[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوئے۔

فضل وکمال

[ترمیم]

فضل وکمال اور زہد و ورع کے لحاظ سے ممتاز تابعین میں تھے۔ انھوں نے زمانہ ایسا پایا کہ بہت سے اکابر صحابہ سے استفادہ کا موقع ملا حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعودؓ، حذیفہ بن یمانؓ، سلمان فارسی، ابی مسعود بدریؓ ، ابودرداء انصاریؓ، وغیرہ اکابر صحابہؓ موجود تھے، ان سے انھوں نے روایتیں کی ہیں، لیکن فقیہ الامت عبداللہ بن مسعودؓ کے سرچشمہ فیض سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ مستفید ہوئے تھے، انھوں نے ان کو ابتدائے انتہا تک تعلیم دی،اسود کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ علقمہ کو جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے، اسی طرح تشہد کی تعلیم دیتے تھے [1]ان کی اس توجہ اور فیض بخشی سے علقمہ، ابن مسعودؓ کا مثنیٰ بن گئے تھے، ابن مسعودؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں جو کچھ پڑھتا اور جانتا ہوں وہ سب علقمہ پڑھتے اور جانتے ہیں [2] ان کے علمی کمالات پر تمام علما ومحدثین کا اتفاق ہے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ فقیہ اور امام بارع تھے[3] علامہ نووی لکھتے ہیں کہ علقمہ بلند مرتبہ، جلیل القدر اور صاحب کمال فقیہ تھے۔ [4]

قرآن

[ترمیم]

علقمہ کو قرآن، حدیث اور فقہ جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا، قرآن کی تعلیم عبداللہ ابن مسعودؓ سے حاصل کی تھی کان جودالقرآن علی ابن مسعود’ [5] ابن مسعود کبھی کبھی اپنی قرأت کی صحت کے لیے خود علقمہ کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے، علقمہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن مسعودؓ نے مجھ سے کہا کہ تم سورہ بقرہ میں میری گرفت کرو؛ چنانچہ اسے سنا کر مجھ سے پوچھا، میں نے کچھ چھوڑا تو نہیں ہیں میں نے کہا ایک حرف چھوٹ گیا ہے، انھوں نے خود ہی کہا فلاں حرف میں نے کہا ہاں۔ [6]

نہایت خوش گلو اور شیریں آواز تھے،اس لیے ابن مسعود رضی اللہ عنہ انھیں ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے، اس کا خود بیان ہے کہ خدانے مجھے خوش آواز ی عطا فرمائی تھی، عبد اللہ بن مسعودؓ مجھ سے قرآن پڑھوا کر سنتے اور فرماتے، میرے مان باپ تم پر فدا ہوں، خوش آوازی کے ساتھ پڑھا کرو، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ حسن صوت قرآن کی زینت ہے۔ [7]

حدیث

[ترمیم]

حدیث کے وہ نہایت ممتاز حفاظ میں تھے، حافظہ نہایت قوی تھا، جو چیز ایک دفعہ یاد کرلی وہ گویا کتاب میں محفوظ ہو گئی، ان کا بیان ہے کہ میں نے جو چیز جوانی کے زمانہ میں یاد کی اس کو اس طرح پڑھتا ہوں گویا ورق میں لکھی ہوئی تحریر کو پڑھتا ہوں، اس حافظہ کے ساتھ انھیں حضرت عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، سعدؓ، حذیفہؓ بن یمان ،ابودرداء، ابو مسعودؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، خباب بن ارتؓ، خالد بن ولیدؓ، معقل بن سنانؓ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ بن مسعودؓ ، جیسے اکابر اور علما صحابہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ [8] ان بزرگوں کے فیض نے انھیں حدیث کا بڑا حافظ بنادیا، علامہ ابن سعد ان کو کثیر الحدیث [9] اور حافظ ذہبی امام بارع لکھتے ہیں [10] عبد اللہ بن مسعود کی احادیث کا بیشتر حصہ ؛بلکہ قریب قریب کل علقمہ کے سینہ میں محفوظ تھا۔

روایت حدیث میں احتیاط

[ترمیم]

لیکن اس وسعتِ علم کے باوجود وہ محدث بننا اور اس کے ذریعہ عظمت وجاہ حاصل کرنا پسند نہ کرتے تھے، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد وہ لوگوں سے چاہتے ہوں کہ لوگ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔[11]

تلامذہ

[ترمیم]

حدیث میں ان کے تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع تھا، عبد الرحمن بن یزید، ابراہیم ابن سعید، امام شعبی، ابوقاد نخعی، شقیق بن سلمہ بن کہیل، قیس بن رومی، قاسم بن مخمیرہ، ابو اسحٰق سبیعی وغیرہ ان کے تلامذہ میں سے ہیں، ان میں ان کے بھانجے ابراہیم نخعی اور بھتیجے اسود بن یزید خصوصیت کے ساتھ لائقِ ذکر ہیں۔[12]

فقہ

[ترمیم]

فقہ کا فن بھی انھوں نے فقیہ الامت عبداللہ ابن مسعودؓ سے حاصل کیا تھا، اس لیے اس میں امامت و اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے ‘کان فقیھا اماما بارعا ’ [13]امام نووی صاحب کمال فقیہ لکھتے ہیں۔[14]

وسعت علم

[ترمیم]

وسعتِ علم کے اعتبار سے علقمہ ، عبداللہ ابن مسعودؓ کے ممتاز اصحاب میں سے تھے، ابن مدائنی کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ کے علم کے بڑے حاملین علقمہ، اسود ، عبیدہ اور حارث تھے۔[15] ان میں علقمہ سب پر فائق تھے، ابراہیم نخعی کا بیان ہے کہ ابن مسعود کے چھ اصحاب لوگوں کو درس اور سنت کی تعلیم دیتے تھے،ان میں دو علقمہ اور اسود تھے، ابو ہذیل نے پوچھا ان دونوں میں کون افضل تھا، انھوں نے علقمہ کا نام لیا۔[16] عبد اللہ بن مسعود کی یہ سند کہ جو کچھ میں پڑھتا اور جانتا ہوں وہ سب علقمہ پڑھتے اور جانتے ہیں ان کے وسعت علم کے لیے کافی ہے۔

صحابہ کا استفادہ

[ترمیم]

ان کا علمی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ رسول تک ان سے استفادہ کرتے تھے،جو ایک تابعی کے لیے بہت بڑا طغرائے امتیاز ہے،ابو ظبیان کا بیان ہے کہ میں نے متعدد صحابہ رسول کو دیکھا ہے کہ وہ علقمہ سے مسائل پوچھتے تھے اور استفتاء کرتے تھے ۔ [17]

فضائل اخلاق

[ترمیم]

عادات وخصائل اور اخلاق میں علقمہ ذات نبوی کا نمونہ تھے،ابراہیم نخعی کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ طور طریق اور عادات و خصائل میں نبی ﷺ کے مشابہ تھے اور علقمہ عبداللہ بن مسعود کے مشابہ تھے، اس طرح گویا علقمہ رسول اللہ ﷺ کے شمابہ تھے، علقمہ عادات وخصائل میں ابن مسعودؓ سے اس درجہ مشابہ تھے کہ جن لوگوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا،وہ علقمہ کے آئینہ عمل میں ان کی تصویر دیکھ سکتے تھے۔

زہد وعبادت

[ترمیم]

یہ مشابہت محض علم اور ظاہری خصائل تک محدود نہ تھی ؛بلکہ عمل میں بھی وہ عبداللہ ابن مسعودؓ کے ساتھ کامل مشابہت رکھتے تھے،ان کا شمار علمائے ربانیت میں تھا۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ صاحب خیر و ورع تھے۔

تلاوت قرآن

[ترمیم]

قرآن کے ساتھ ان کو غیر معمولی شغفت وانہماک تھا، معمولا چھ دن میں ایک قرآن ختم کرتے تھے [18]کبھی کبھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے، ابراہیم نخعی کا بیان ہے کہ علقمہ ایک مرتبہ مکہ گئے،شب کے وقت انھوں نے طواف شروع کیا پہلے سات پھیروں میں مثانی اور چوتھے میں بقیہ سورتیں ختم کیں اس طرح انھوں نے ایک شب میں طواف کی حالت میں پورا قرآن تمام کر دیا۔ [19]

قرآن کے ساتھ اس شیفتگی کا یہ نتیجہ تھا کہ آیات قرآنی ان کی زبان پر اس قدر جاری ہوگئ تھیں کہ عموما ہر کام آیت قرآنی کے اشارے سے شروع کرتے تھے، کھانے کے وقت قرآن کی اس آیت فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا کی طرف اشارہ کرکے بیوی سے کھانا مانگتے کہ مجھے ان لذیذ اور خوشگوار کھانوں میں سے کھلاؤ۔ [20] الحمد للہ:سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ [21]

جہاد فی سبیل اللہ

[ترمیم]

اس علم کے ساتھ جہاد کا بھی ولولہ رکھتے تھے؛چنانچہ 32ھ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قسطنطنیہ کی مہم میں شریک ہوئے، اس مہم کے اکثر شرکاء آنحضرتﷺ کی ایک پیشین گوئی کا مصداق بننے کے لیے جذبۂ شہادت سے مخمور تھے، ایک مجاہد معضد نے ایک برج پر حملہ کرتے وقت سر پر باندھنے کے لیے علقمہ سے چادر مستعار لی تھی، وہ خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے،علقمہ کی چادر ان کے خون سے تر بتر تھی ،علقمہ اس چادر کو بہت متبرک سمجھتے تھے اور اس کو اوڑھ کو جمعہ میں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اس کو اس لیے اوڑھتا ہوں کہ اس میں معضد کا خون ہے۔ [22]

شہرت سے نفرت

[ترمیم]

شہرت سے بہت گھبراتے تھے،اس سے بچنے کے لیے تعلیم و تعلم کے سلسلہ میں کسی خاص مقام میں بیٹھنا پسند نہ کرتے تھے، عبد الرحمن بن یزید کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے علقمہ سے درخواست کی کہ آپ مسجد میں نماز پڑھتے اور بعد نماز وہاں بیٹھتے تاکہ لوگ آپ سے مسائل پوچھا کرتے ،فرمایا میں یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اشارہ کریں کہ یہ علقمہ ہیں۔ [23]

امرائے دولت سے دامن کشی

[ترمیم]

امرا اور ارباب دول سے نہ صرف بے نیاز تھے اور ان سے دامن بچاتے تھے؛بلکہ ان سے میل جول اور آمد و رفت رکھنا، اخلاقی نقصان تصور کرتے تھے،ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ آپ امرا کے یہاں جایا کیجئے کہ وہ آپ کی حقیقت سے آگاہ ہوں اورآپ کا مرتبہ پہچانیں،فرمایا میں ان سے جتنی باتیں دور کروں گا اور جتنی چیزیں کم کروں گا، اس سے زیادہ چیزیں وہ مجھ سے گھٹادیں گے [24]یعنی میں جتنی ان کی برائیاں دور کروں گا ،اتنی وہ میری بھلائیاں دور کر دیں گے،وہ نہ صرف خود امرا سے نہیں ملتے تھے ؛بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتے تھے، ابووائل کا بیان ہے کہ جب کوفہ اور بصرہ دونوں کی ولایت ابن زیاد سے متعلق ہوئی تو اس نے مجھ سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلنا،میں نے جاکر علقمہ سے پوچھا،انھوں نے کہا ان لوگوں (امرا) سے تم کو جو حاصل ہوگا، اس سے زیادہ بہتر چیز وہ تم سے لیں گے [25]وفود وغیرہ کے سلسلہ میں بھی وہ امرا کے دربار میں جانا پسند نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک وفد میں جو امیر معاویہ کے پاس جانے والا تھا، ان کا نام لکھ دیا گیا، انھیں معلوم ہوا تو فوراً ابوبردہ کو لکھا کہ میرا نام کاٹ دو۔ [26]

وفات

[ترمیم]

62ھ میں کوفہ میں وفات پائی، مرض الموت میں وصیت کی تھی کہ دم آخرت کلمۂ طیبہ کی تلقین کی جائے،تاکہ میری زبان سے آخری کلمہ "لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ "نکلے کسی کو موت کی خبر نہ دی جائے ،ورنہ وہ زمانہ جاہلیت کا اشتہار بن جائے گا، دفن کرنے میں جلدی کی جائے، بین کرنے والی عورتیں ساتھ نہ ہوں۔ ۔[27]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (طبقات ابن سعد:6/59)
  2. (تذکرہ الحفاظ:1/141)
  3. (تذکرۃ الحفااظ:1/41)
  4. (تہذیب الاسماء:1/342)
  5. (تہذیب الاسماء:1/342)
  6. (تذکرہ الحفاظ:1/41)
  7. (ایضاً)
  8. (ابن سعد:6/62)
  9. (ایضاً)
  10. (تذکرۃ الحفاظ :1/41)
  11. (ابن سعد:6/60)
  12. (تہذیب التہذیب:7/277)
  13. (تذکرۃ الحفاظ:1/41)
  14. (تہذیب الاسماء،ج1،ق1،ص 341)
  15. (تہذیب التہذیب:7/277)
  16. (تہذیب التہذیب:7/277)
  17. (تہذیب التہذیب :7/278)
  18. (ابن سعد:6/60)
  19. (ایضاً:55)
  20. (ایضاً:59)
  21. (ایضاً:55)
  22. (ابن اثیر:3/104)
  23. (ابن سعد:6/59)
  24. (ابن سعد:6/59)
  25. (ابن سعد ایضاً:59)
  26. (ابن سعد ایضاً:59)
  27. طبقات ابن سعد:6/59