غیر علامتی
طبی نقطۂ نظر کسی بھی مرض کو غیر علامتی (انگریزی: Asymptomatic) کے زمرے میں اس وقت ڈال دیا جاتا ہے اگر مریض اس انفیکشن کا حامل رہے مگر وہ کچھ بھی علامات کا تجربہ نہیں کرے۔ جب بھی کوئی طبی کیفیت ایسی ہو کہ کوئی قابل ذکر علامات ظاہر نہ ہوں، لیکن تشخیص پھر بھی مرض کی نشان دہی کرے، ایسی صورت میں مرض غیر علامتی ہے۔
غیر علامتی کیفیت اور مہلک امراض
[ترمیم]غیر علامتی کیفیت کئی مہلک امراض کو جان لیوا شکل اختیار کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ مثلًا کینسر کا مرض اپنے شروعاتی دور میں قابل علاج ہے، تاہم اس وقت بہت سے لوگ اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔ جب علامات ظاہر ہوتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور بہت سے مریض علاج کے مرحلوں سے تو گزرتے ہیں، مگر انھیں شفا نہیں ملتی۔ کئی لوگوں کی زندگی کا وقت کم ہوتا ہے۔ پستان کا سرطان اسی کی ایک شکل ہے۔ کئی بار اس کینسر کو جسم کے دوسرے حصے میں پھیلنے سے روکنے کے لیے عورتیں پستانوں سے محروم ہو جاتی ہیں، جو کئی اور مسائل کے ساتھ ساتھ نسوانی ساخت اور زنانہ خوبصورتی کے نقصان پر بھی نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔
2020ء میں جب کورونا وائرس عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا اور زیادہ تر غیر علامتی صرف مطبی جانچ سے پتہ چلایا جا سکا، تب شروع شروع میں اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ کووڈ-19 کے علاج کے طریقہ کار بہت حد تک غیر علامتی اور معاون نگہداشت پر مبنی قرار دی گئی۔ کیون کہ اس وقت تک اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ جسم میں پانی کی ضروری مقدار (ہائیڈریشن) کو برقراررکھنا بھی ضروری قرار دیا گیا۔ علامات کی شدت کی بنیاد پر کووڈ-19 کو ہلکا، درمیانہ اور شدید زمروں میں تقسیم کیا گیا۔ بھارت 10 جولائی 2020ء کو ریاستوں کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس اور ریاستوں /مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ایکسلنس (عمدہ کار کردگی) کے مراکز کے ذریعہ کووڈ معاملوں کا علاج موضوع پر ایک مجازی(ورچول) میپنگ میں انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) اور آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز (ایمس) نئی دہلی نے اس بات پر زور دیا کہ علاج نہ ہونے کی صورت میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت (ایم او ایچ ایف ڈبلیو) کے کلینکل منجمنٹ پروٹوکول میں مذکورہ ہلکے، اعتدال پسند اور شدید معاملوں کے لیے نگہداشت کا معیار سب سے موثر ہوگا۔[1] بعد میں دواؤں کے طے ہونے کے بعد یہ صورت حال میں تبدیلی لائی گئی۔ مختلف جانچوں جیسے کہ سواب ٹیسٹ اور کووڈ - 19کے مریضوں کے پائخانے میں ایس اے آر –سی او وی-2 کا اثر پایا گیا ہے۔ علامتی افراد کے علاوہ غیر علامتی افراد کے پائخانے میں بھی وائرس موجود ہوتا ہوا پایا گیا ہے۔[2]