لال بہادر شاستری
لال بہادر شاستری | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(ہندی میں: लालबहादुर शास्त्री) | |||||||
دوسرے وزیراعظم بھارت | |||||||
مدت منصب 9 جون 1964ء – 11 جنوری 1966ء | |||||||
صدر | سروے پلی رادھاکرشنن | ||||||
| |||||||
وزیر برائے امور خارجہ | |||||||
مدت منصب 9 جون 1964ء – 18 جولائی 1964ء | |||||||
| |||||||
وزیر داضلہ | |||||||
مدت منصب 4 اپریل 1961 – 29 اگست 1963 | |||||||
وزیر اعظم | جواہر لعل نہرو | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 2 اکتوبر 1904ء [1][2][3][4][5][6][7] مغل سرائے |
||||||
وفات | 11 جنوری 1966ء (62 سال)[2][3][4][5][6][8][7] تاشقند [9][8] |
||||||
وجہ وفات | دورۂ قلب | ||||||
مدفن | راج گھاٹ | ||||||
طرز وفات | طبعی موت | ||||||
رہائش | نئی دہلی | ||||||
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
||||||
مذہب | ہندو مت | ||||||
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس | ||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان [10] | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | ہندی [11] | ||||||
اعزازات | |||||||
بھارت رتن (1966) |
|||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
لال بہادر شاستری (پیدائش:2 اکتوبر، 1904ء |وفات: 11 جنوری، 1966ء)، بھارت کے تیسرے اور مجموعی طور پر دوسرے مستقل وزیر اعظم تھے۔ وہ 1963ء-1965ء کے درمیان میں بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ ان کی پیدائش مغل سرائے، اتر پردیش میں ہوئی۔ بچپن میں ان کا نام لال بہادر شریواستو تھا۔ ان کے والد شاردا پرساد ایک غریب استاد تھے، جو بعد میں محکمہ مال کے دفتر میں کلرک بنے۔ بھارت کی آزادی کے بعد لال بہادر شاستری کو اترپردیش کے پارلیمانی سیکریٹری کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ گووند بلبھ پت کی صوبائی حکومت کے دور میں مشیر اور ٹریفک وزیر بنے۔ ان کے مشورے پر بھارت میں پہلی بار بھیڑ کو قابو میں رکھنے کے لیے لاٹھی کی جگہ پانی کی بوچھاڑ کا استعمال شروع کیا گیا ۔ 1951ء میں، جواہر لال نہرو کی قیادت میں وہ کل بھارت کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری مقرر کیے گئے۔ انھوں نے 1952ء، 1957ء اور 1962ء کے انتخابات میں کانگریسی جماعت کو بھاری اکثریت سے جتوانے کے لیے بہت محنت کی۔ جواہر لال نہرو کا وزیر اعظم کی مدت کے دوران میں 27 مئی، 1964ء کو انتقال ہو جانے کے بعد، لال بہادر شاستری نے 9 جون 1964ء کو وزیراعظم کا عہدہ قبول کیا۔
جب امریکی صدر کی دعوت مسترد کر دی
[ترمیم]ایک مرتبہ لال بہادر شاستری کے قاہرہ جانے سے پہلے امریکی سفیر چیسٹر بولس نے ان سے مل کر امریکی صدر لنڈن جانسن کی طرف سے انھیں امریکا آنے کی دعوت دی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ شاستری اس بارے میں کوئی فیصلہ کر پاتے جانسن نے اپنی دعوت واپس لے لی تھی۔ اس کی وجہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرف سے امریکا پر ڈالے جانے والا دباؤ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب وہ انڈیا کے ساتھ نئے تعلقات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں امریکا کو اس تصویر میں نہیں آنا چاہیے۔ سینئیر صحافی کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ شاستری نے اس بے عزتی کے لیے جانسن کو کبھی معاف نہیں کیا۔ کچھ ماہ بعد جب وہ کینیڈا جا رہے تھے تو امریکی صدر جانسن نے انھیں راستے میں واشنگٹن میں رکنے کی دعوت دی لیکن شاستری نے اسے قبول نہیں کیا۔
ایک آواز پر لاکھوں شہریوں نے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا
[ترمیم]لال بہادر شاستری کے بیٹے انیل شاستری کہتے ہیں کہ ’سنہ 1965ء کی جنگ کے دوران امریکی صدر لنڈن جانسن نے لال بہادر شاستری کو دھمکی دی تھی کہ اگر آپ نے پاکستان کے خلاف جنگ بند نہیں کی تو ہم آپ کو پی ایل 480 کے تحت جو لال گندم بھیجتے ہیں، اسے بند کر دیں گے۔‘ اس وقت انڈیا گندم کی پیداوار کے حوالے سے خود کفیل نہیں تھا۔ شاستری کو یہ بات بہت بری لگی اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچی۔ انھوں نے عوام سے کہا کہ ہم ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیں گے۔ انیل شاستری کہتے ہیں،’لیکن اس اپیل سے پہلے انھوں نے میری ماں للیتا شاستری سے کہا کہ کیا آپ ایسا کر سکتی ہیں کہ آج شام ہمارے ہاں کھانا نہ بنے۔ میں کل پورے ملک سے ایک وقت کا کھانا نہ کھانے کی اپیل کرنے جا رہا ہوں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرے بچے بھوکے رہ سکتے ہیں یا نہیں۔‘ انیل شاستری کہتے ہیں کہ ’جب انھوں نے دیکھ لیا کہ ہم لوگ ایک وقت بنا کھانا کھائے رہ سکتے ہیں تو انھوں نے تمام شہریوں سے بھی ایسا کرنے کے لیے کہا۔‘
جب خرچہ چلانے کے لیے اخباروں کے لیے لکھا
[ترمیم]سنہ 1963ء میں کامراج منصوبے کے تحت شاستری کو نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس وقت وہ وزیر داخلہ تھے۔ کلدیپ نیر کہتے ہیں، ’اس شام میں شاستری کے گھر گیا۔ پورے گھر میں ڈرائینگ روم کو چھوڑ کر ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ شاستری وہاں اکیلے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ باہر بجلی کیوں نہیں جل رہی؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اب سے مجھے گھر کا بجلی کا بل اپنی جیب سے دینا پڑے گا۔ اس لیے میں فضول بجلی استعمال کرنا برداشت نہیں کر سکتا۔‘ شاستری کے لیے رکن پارلیمان کی حیثیت سے پانچ سو روپے ماہانہ کی تنخواہ پر اپنے خاندان کا خرچہ چلانا مشکل پڑ رہا تھا۔ کلدیپ نیر نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے ’میں نے انھیں اخباروں میں لکھنے کے لیے راضی کر لیا تھا۔ میں نے ان کے لیے ایک سنڈیکیٹ سروس شروع کی جس کی وجہ سے ان کے مضامین دی ہندو، امرت بازار پتریکا، ہندوستان ٹائمز اور ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے لگے۔ ہر اخبار انھیں ایک مضمون کے 500 روپے دیتا تھا۔‘اس طرح ان کی 2000 روپے کی اضافی کمائی ہونے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے پہلا مضمون جواہر لعل نہرو اور دوسرا لالہ لاجپت رائے پر لکھا تھا۔‘
جونئیر افسروں کو چائے پیش کرنے والے شاستری
[ترمیم]لال بہادر ساشتری کے ساتھ کام کرنے والے تمام افسران کا کہنا ہے کہ ان کا برتاؤ انتہائی شائستہ تھا۔ ان کے نجی سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والے سی پی شری واستو ان کی سوانح حیات ’لال بہادر شاستری اے لائف آف ٹروتھ ان پالیٹکس‘ میں لکھتے ہیں، ’شاستری کی عادت تھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے پیالے میں ہمارے لیے چائے نکالتے اور ہمیں پیش کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ ان کا کمرہ ہے اس لیے پیالے میں چائے ڈالنے کا فرض ان کا بنتا ہے۔‘ شری واستو لکھتے ہیں کہ ’کبھی کبھی وہ باتیں کرتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوتے اور کمرے میں چہل قدمی کرتے ہوئے ہم سے باتیں کرتے تھے۔ کبھی کمرے میں زیادہ روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ شاستری اکثر خود جا کر بجلی کا بٹن بند کرتے تھے۔ ان کو یہ منظور نہیں تھا کہ عوامی پیسے کا کسی بھی صورت ضیاع ہو۔‘
روسی وزیر اعظم نے شاستری کو ’سوپر کمیونسٹ‘ کہا
[ترمیم]جب لال بہادر شاستری تاشقند کے اجلاس میں شرکت کے لیے روس گئے تو اپنا کھادی کا اونی کوٹ پہن کر گئے۔ روس کے وزیر اعظم ایلکسی کوسیگین کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ اس کوٹ سے تاشقند کی سردی کا مقابلہ نہیں ہو سکے گا۔ اگلے دن انھوں نے شاستری کو یہ سوچ کر ایک اور کوٹ تحفے کے طور پر دیا کہ وہ اسے تاشقند کی سردی میں پہنیں گے۔ انیل شاستری کہتے ہیں کہ اگلے دن کوسیگین نے دیکھا کہ شاستری پھر وہی پرانا کھادی کا کوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بہت جھجھکتے ہوئے شاستری سے پوچھا کہ کیا آپ کو کوٹ پسند نہیں آیا؟ تو شاستری نے جواب دیا وہ کوٹ واقعی بہت گرم ہے لیکن میں اسے اپنے وفد کے ایک رکن کو کچھ دنوں کے لیے پہننے کے لیے دے دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھ اس موسم میں پہننے کے لیے کوٹ نہیں لا پایا ہے۔ کوسیگین نے انڈین وزیر اعظم اور پاکستانی صدر کے اعزاز میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ تو کمیونسٹ ہیں لیکن وزیر اعظم شاستری ’سوپر کمیونسٹ‘ ہیں۔
سرکاری گاڑی کا کرایہ ادا کرنے کا قصہ
[ترمیم]لال بہادر شاستری کے دوسرے بیٹے سنیل شاستری بھی ان کے بارے میں ایک قصہ سناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’جب شاستری وزیر اعظم بنے تو ان کے استعمال کے لیے انھیں ایک سرکاری شیورلے امپالا گاڑی دی گئی۔ ایک دن میں نے بابو جی کے نجی سیکرٹری سے کہا کہ وہ ڈرائیور کو امپالا کے ساتھ گھر بھیج دیں۔ ہم نے ڈرائیور سے کار کی چابی لی اور دوستوں کے ساتھ ڈرائیو پر چلے گئے۔‘ دیر رات جب ہم گھر لوٹے تو ہم نے کار گیٹ پر ہی چھوڑ دی اور گھر کے پیچھے سے کچن کے راستے سے گھر میں داخل ہوئے۔ میں جا کر اپنے کمرے میں سو گیا۔ اگلے دن صبح ساڑھے چھ بجے میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے سوچا کی کوئی نوکر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ میں نے چلا کر کہا کہ ابھی مجھے تنگ نہ کریں کیوںکہ میں رات دیر سے سویا ہوں۔‘
’دروازے پر پھر دستک ہوئی اور میں نے دیکھا کہ بابوجی سامنے کھڑے ہیں۔ انھوں نے مجھے میز تک آنے کے لیے کہا، جہاں سب لوگ چائے پی رہے تھے۔ وہاں اماں نے مجھ سے پوچھا کہ کل رات تم کہاں گئے تھے اور اتنی دیر سے واپس کیوں آئے؟ بابوجی نے پوچھا کہ تم گئے کیسے تھے کیونکہ جب میں واپس آیا تو تمھاری فی ایٹ کار تو پیڑ کے نیچے کھڑی تھی۔‘
سنیل شاستری کہتے ہیں کہ ’مجھے سچ بتانا پڑا کہ ہم ان کی سرکاری امپالا میں گھومنے نکلے تھے۔ بابوجی اس گاڑی کا تبھی استعمال کرتے تھے جب کوئی غیر ملکی مہمان دلی آتا تھا۔ چائے پینے کے بعد انھوں نے مجھ سے کار کے ڈرائیور کو بلانے کے لیے کہا۔ انھوں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی کار میں کوئی لاگ بک رکھتے ہیں؟ جب ڈرائیور نے ہاں میں جواب دیا تو انھوں نے پوچھا کہ کل اپمالا کار کل کتنے کلومیٹر چلی ہے؟‘
’ڈرائیور نے کہا 14 کلومیٹر، تو انھوں نے کہا کہ اسے نجی استعمال کی مد میں داخل کیا جائے،اور اماں سے کہا کہ فی کلومیٹر کے حساب سے 14 کلومیٹر کے لیے جتنا پیسے بنتے ہیں وہ ان کے نجی سیکرٹری کو دے دیں تاکہ وہ سرکاری کھاتے میں جمع کروائے جائے۔ تب سے لے کر آج تک میں نے یا میرے بھائی نے کبھی کسی ذاتی کام کے لیے سرکاری کار کا استعمال نہیں کیا۔‘
بہار کے لوگوں کو لینے بس سٹاپ پہنچے
[ترمیم]ایک بار وزیر اعظم شاستری نے بہار کے کچھ لوگوں کو اپنے گھر پر ملنے کا وقت دیا۔ اسی دن اتفاق سے ایک غیر ملکی مہمان کے اعزاز میں ایک تقریب بھی منعقد کی جا رہی تھی جہان شاستری جی کا پہنچنا بہت ضروری تھا۔ وہاں سے واپسی میں انھیں دیر ہو گئی۔ تب تک بہار سے ان سے ملنے آئے لوگ ناامید ہو کر جا چکے تھے۔
انیل شاستری کہتے ہیں کہ ’جب شاستری جی کو پتا چلا کہ وہ لوگ بہت دیر تک انتظار کرنے کے بعد ابھی ابھی نکلے ہیں تو انھوں نے اپنے سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا انھیں پتا ہے کہ وہ کہاں گئے ہوں گے؟ انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر والے بس سٹاپ سے کہیں جانے کی بات کر رہے تھے۔‘
’شاستری جی فوراً اپنے گھر سے نکل کر بس سٹاپ پہنچے۔ ان کے سیکرٹری کہتے ہی رہ گئے کہ لوگوں کو جب پتا چلے گا تو وہ کیا کہیں گے؟ شاستری جی نے جواب دیا اور تب کیا کہیں گے جب انھیں پتا چلے گا کہ میں لوگوں کو گھر بلانے کے بعد بھی ان سے نہیں ملا۔‘
’سیکرٹری نے کہا کہ میں انھیں لینے چلا جاتا ہوں لیکن شاستری جی نے کہا نہیں میں انھیں لینے خود جاؤں گا اور اس غلطی کے لیے معافی مانگوں گا۔ جب وہ بس سٹاپ پہنچے تو وہاں ملاقات کرنے والے انھیں بس کا انتظار کرتے پایا۔ شاستری جی نے ان سے معافی مانگی اور انھیں اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔‘
پاکستانی صدر اور سوویت روس کے وزیر اعظم نے میت کو کندھا دیا
[ترمیم]11 جنوری 1966ء کو جب لال بہادر شاستری کا تاشقند میں انتقال ہوا تو ان کے ڈاچا (گھر) سب سے پہلے پہنچنے والے شخص پاکستان کے صدر ایوب خان تھے۔ انھوں نے شاستری کو دیکھ کر کہا تھا: یہاں ایک ایسا شخص لیٹا ہوا ہے جو انڈیا اور پاکستان کو قریب لا سکتا تھا۔‘
جب شاستری کی میت کو دلی لے جانے کے لیے تاشقند ہوائی اڈے پر پہنچایا جا رہا تھا تو راستے میں سوویت، انڈین اور پاکستانی جھنڈا سرنگوں رکھا گیا تھا۔ جب شاستری کے تابوت کو گاڑی سے اتار کر جہاز پر چڑھایا جا رہا تھا تو ان کو کندھا دینے والوں میں سوویت وزیر اعظم کوسیگین کے ساتھ ساتھ کچھ ہی دن پہلے تک شاستری کا مذاق بنانے والے صدر ایوب خان بھی شامل تھے۔
شاستری کی سوانح حیات لکھنے والے سی پی شری واستو لکھتے ہیں، ’انسانی تاریخ میں ایسی بہت کم مثالیں ہیں جن میں ایک دن پہلے تک ایک دوسرے کے سخت دشمن کہے جانے والے نہ صرف ایک دوسرے کے دوست بن گئے تھے بلکہ دوسرے کی موت پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس کی میت کو کندھا دے رہے تھے۔‘
’شاستری کی موت کے وقت ان کی زندگی کی کتاب پوری طرح سے صاف تھی۔ نہ تو وہ پیسہ چھوڑ کر گئے، نہ کوئی گھر یا زمین۔‘
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb124115526 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119177277 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Lal-Bahadur-Shastri — بنام: Lal Bahadur Shastri — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w69k6pj6 — بنام: Lal Bahadur Shastri — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/7147484 — بنام: Lal Bahadur Shastri — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب بنام: Lal Bahadur Shastri — فلم پورٹل آئی ڈی: https://www.filmportal.de/7cbc379b556b4680ab453e93c48c2afb — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/shastri-lal-bahadur — بنام: Lal Bahadur Shastri — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Шастри Лал Бахадур — بنام: Lal Bahadur Shastri — فلم پورٹل آئی ڈی: https://www.filmportal.de/7cbc379b556b4680ab453e93c48c2afb — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2015
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/119177277 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/119177277 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb124115526 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- 1904ء کی پیدائشیں
- 2 اکتوبر کی پیدائشیں
- 1966ء کی وفیات
- 11 جنوری کی وفیات
- تاشقند کی وفیات
- بھارت رتن وصول کنندگان
- اتر پردیش سے راجیہ سبھا کے ارکان
- اتر پردیش سے آزادی ہند کے فعالیت پسند
- اتر پردیش کی شخصیات
- برطانوی ہند کے قیدی اور زیر حراست افراد
- بیسویں صدی کے بھارتی سیاست دان
- بھارت کے وزرائے خارجہ
- بھارت کے وزرائے ریل
- بھارت میں ریاستی جنازے
- بھارتی وزرائے اعظم
- بھارتی ہندو
- پہلی لوک سبھا کے ارکان
- تیسری لوک سبھا کے ارکان
- دوسری لوک سبھا کے ارکان
- راجیہ سبھا کے ارکان
- شاستری انتظامیہ
- ضلع الہ آباد کی شخصیات
- ضلع چنڈولی کی شخصیات
- لوک سبھا اراکین از اترپردیش
- وارانسی کے سیاستدان
- وفیات بسبب دورہ قلب
- شخصیات جو دفتر میں انتقال کر گئے
- سازشی نظریات موت
- غیر حل شدہ اموات