ہود
پیغمبر | |
---|---|
ہود علیہ السلام | |
(عربی میں: هود) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2500 ق م حضرموت |
والدین | سلح |
عملی زندگی | |
پیشہ | واعظ ، تاجر |
وجہ شہرت | نبی ، قوم عاد کے پیغمبر |
درستی - ترمیم |
مضامین بسلسلہ انبیائے اسلام |
---|
معلومات |
آدم علیہ السلام -
ادریس علیہ السلام - نوح علیہ السلام - ہود علیہ السلام - صالح علیہ السلام - ابراہیم علیہ السلام - لوط علیہ السلام - اسماعیل علیہ السلام - اسحاق علیہ السلام - یعقوب علیہ السلام - یوسف علیہ السلام - ایوب علیہ السلام - ذو الکفل علیہ السلام - شعيب علیہ السلام - موسیٰ علیہ السلام - ہارون علیہ السلام - داؤد علیہ السلام - سلیمان علیہ السلام - یونس علیہ السلام - الیاس علیہ السلام - الیسع علیہ السلام - زکریا علیہ السلام - یحییٰ علیہ السلام - عیسیٰ علیہ السلام - محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم - |
منسوب معجزات |
نظریات |
◈ ◈ |
حضرت ہود علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے۔ قرآن پاک کی گیارویں سورہ آپ علیہ السلام کے نام پر ہے۔
یمن اور عمان کے درمیان "احقاف" نامی سرزمین پر قوم عاد رہتے تھے اوروہاں پر نعمات کی فراوانی کے سبب خوش حال اور آرم دہ زندگي بسر کر رہے تھے، آہستہ آہستہ توحید کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کی اور فسق و فجور میں غرق ہو گئے اور ان کے ظالم اور وڑیرے مستضعف لوگوں پر ستم ڑھاتے تھے ۔ اللہ تعالٰی نے ان کے درمیان حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث بہ رسالت کیا۔
و اِلي عادٍ اَخا ہمْ ھوداً، قالَ يا قَومِ اعْبُدُو اللہ ما لَكُمْ مِنْ اِلہ غَيْرُ ہ [1]
- ترجمہ:اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (کو بھیجا) انھوں نے کہا کہ میری قوم! خدا ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ تم (شرک کرکے خدا پر) محض بہتان باندھتے ہو۔[2]
حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کی ھدایت کے لیے نہایت کوشش کی مگر چند افراد کو چھوڑ کر کسی نے ان کی تصدیق نہیں کی اور ان کی نصیحتوں پر یقین نہیں کیا اور اسے خود سے دور کیا۔ قوم عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی نصیحتوں کو قبول کرنے کی بجائے بت پرستی اختیار کی اور خدا پرستی چھوڑ دی اور اس الہی پیغمبر کو انکارا اور ہر دن اسے اذیت آزار پہنچاتے تھے۔ یہاں تک کہ آسمان پر کالے بادل چھاگئے اور قوم عاد کے جاہل لوگ کہنے لگے اس سے ہمارے لیے مفید بارش برسے گی۔ مگر ہود علیہ السلام نے ان سے کہا کہ : یہ بادل رحمت کے نہیں بلکہ غضب کے ہیں۔ مگر انھوں نے آنحضرت کی ایک بھی نہ سنی ۔ کچھ دیر بعد ہود علیہ السلام کا کہا سچائی میں بدلتا گيااور تیز ہوائيں چلنی لگی جن کی رفتار انتی زیادہ تھی کہ گھوڑوں، مال مویشیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ دے مارتی تھی۔
سات دن رات یہ تیز ہوائيں چلتی رہی اور اس دوران ریت کا طوفان اٹھا اور تمام مکانوں اور انسانوں پر گرا اور سب لوگ ہلاک ہو گئے صرف حضرت ہود اور ان کے چند اصحاب جنھوں نے امن کی جگہ پناہ لی تھی بچ گئے۔
اس واقعے کے بعد حضرت ہود علیہ السلام سرزمین " حضرموت" چلے گئے اور وہاں باقی عمر گزاری ۔[3] اس واقعہ کی تاریخ کے بارے میں مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ واقع شوال کے مہینے میں رونما ہوا البتہ اس کے دن کے بارے میں اختلاف ہے کہ کس دن رونما ہوا۔ بعض نے پہلی شوال اور بعض نے تیس شوال ذکر کیاہے۔
جنھوں نے پہلی شوال اختیار کیاہے وہ شوال کے پہلے ہفتے کو " برد العجوز " کہتے ہیں۔ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ عجوزی اس مہینے میں ایک گھر میں چھپ گيا جو زیر زمین میں تھا اور ریت کے طوفان سے امان میں رہا، یہاں تک کہ چھٹے دن طوفان نے اس کے گھر بھی متاثر کیا اور وہ بھی ہلاک ہوا۔[4]
قرآن عزیز میں ہود (علیہ السلام) کا ذکر
[ترمیم]قرآن عزیز میں ہود (علیہ السلام) کا سات جگہ ذکر آیا ہے جو ذیل کے نقشہ سے ظاہر ہوتا ہے :
اعراف
٦٥
ہود
٥٠‘ ٥٣‘ ٥٨‘ ٦٠‘ ٨٩
شعرا
١٢٤
قرآن عزیز میں عاد کا ذکر
[ترمیم]اور عاد کا ذکر نو سورتوں میں ہوا ہے یعنی :
اعراف ‘ ہود ‘ مومنون ‘ شعرا ‘ فصلت ‘ احقاف ‘ الذاریات ‘ القمر اور الحاقہ میں۔
حضرت ہود (علیہ السلام) کا نسب
[ترمیم]حضرت ہود (علیہ السلام) کا نسب نامہ یوں ہے : ہود بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح (علیہ السلام) ۔ ایک قول کے مطابق ہود (علیہ السلام) کا نام عابر ہے جو شالخ کے بیٹے تھے۔ ١ ؎
قوم عاد
[ترمیم]اس سے قبل کہ ہم عاد کے متعلق تفصیلی بحث کریں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرآن عزیز کے علاوہ کوئی تاریخ کی کتاب یا تورات عاد کے متعلق روشنی نہیں ڈالتی ‘اس لیے اس قوم کے حالات کا نقشہ یا قرآن عزیز کے ذریعہ بن سکتا ہے اور یا پھر ان اثریات کے ذریعہ جو محققین علم الآثار نے اس راہ میں حاصل کی ہیں۔
پہلا ذریعہ چونکہ قطعی اور یقینی ہے۔اس لیے اس کے بیان کردہ حقائق کو بھی بلاشبہ قطعیت حاصل ہے اور دوسرا ذریعہ تخمینی اور قیاسی ‘ اس لیے اس کے بیان کردہ واقعات کی حیثیت ظن وتخمین سے آگے نہیں جاتی۔عاد ‘ عرب کے قدیم قبیلہ یا امم سامیہ کے صاحب قوت و اقتدار افرادِ جماعت کا نام ہے ‘تاریخ قدیم کے بعض یورپی مصنفین عاد کو ایک فرضی کہانی (میتھالوجی) یقین کرتے ہیں ‘مگر ان کا یہ یقین بالکل غلط اور سراسر وہم ہے ‘اس لیے کہ جدید تحقیقات کا یہ مسلم فیصلہ ہے کہ عرب کے قدیم باشندے کثرت افراد و قبائل کے اعتبار سے ایک باعظمت و سطوت جماعت کی حیثیت میں تھے۔ جو عرب سے نکل کر شام ‘ مصر اور بابل کی طرف بڑھے اور
وہاں زبردست حکومتوں کی بنیادیں قائم کیں ‘اب فرق صرف اس قدر ہے کہ عرب ان باشندوں کو امم بائدہ (ہلاک ہوجانے والی قومیں) یا عرب عاربہ (خالص عرب) اور ان کی مختلف جماعتوں کے افراد کو عاد ‘ ثمود ‘ طسم اور جدیس ١ ؎ کہتے ہیں۔ اور مستشرقین یورپ امم سامیہ نام رکھتے ہیں ‘پس اصطلاحات و تعبیرات کے فرق سے حقیقت و واقعہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوجاتی ‘اس لیے قرآن عزیز نے ان کو عاد اولیٰ کہا ہے کہ یہ واضح ہوجائے کہ عرب کی قدیم قوم بنو سام اور عاد اولیٰ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔
اہل جغرافیہ کا قول ہے کہ لفظ عرب دراصل عربہ تھا۔جس کے معنی صحرا اور بادیہ کے ہیں خود عربی زبان میں اعراب اہل بادیہ کو کہتے ہیں۔ اور عرابہ کے معنی بدویت کے آتے ہیں۔
اور بعض اہل تحقیق کی رائے یہ ہے کہ عرب اصل میں غرب (غین معجمہ کے ساتھ) تھا اور چونکہ اس کا جائے وقوع فرات کے غرب میں ہے۔ اس لیے وہ آرامی قومیں (امم سامیہ ) جو فرات غربی پر آباد تھیں ‘اول غرب اور پھر غین کے نقطہ کے سقوط کے بعد عرب کہ لائیں۔
ان میں سے عرب کی وجہ تسمیہ جو بھی صحیح ہو یہ حقیقت ہے کہ یہ مقام قدیم امم سامیہ یا بدوی جماعتوں یا عاد کا مسکن تھا۔ اس لیے عاد بغیر کسی اختلاف کے عرب نژاد تھے ‘اور لفظ عاد عربی ہے نہ کہ عجمی جس کے معنی عبرانی میں ” بلندو مشہور “ کے ہیں ‘قرآن عزیز میں عاد کے ساتھ ارم کا لفظ لگا ہوا ہے۔اور ارم (سام) کے معنی بھی ” بلندو مشہور “ ہی کے ہیں ‘انہی عاد کو تورات کی غلط پیروی میں کہیں کہیں عمالقہ بھی کہا گیا ہے۔
عاد کا زمانہ
[ترمیم]عاد کا زمانہ تقریباً ٢٠٠٠ ق م مانا جاتا ہے ‘اور قرآن عزیز میں عاد کو مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ کہہ کر قوم نوح کے خلفاء میں سے شمار کیا ہے ‘اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ شام کی دوبارہ آبادی کے بعد امم سامیہ کی ترقی عاد ہی سے شروع ہوتی ہے۔
عاد کا مسکن
[ترمیم]عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے۔یہ حضر موت کے شمال ٢ ؎ میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخالی ‘ مگر آج یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے ‘اور بعض مورخین کہتے ہیں کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین حصہ حضر موت اور یمن میں خلیج فارس کے سوا حل سے حدود عراق تک وسیع تھی اور یمن ان کا دار الحکومت تھا۔
عاد کا مذہب
[ترمیم]عاد بت پرست تھے اور اپنے پیشرو قوم نوح (علیہ السلام) کی طرح صنم پرستی اور صنم تراشی میں ماہر تھے ‘تاریخ قدیم کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے معبودان باطل بھی قوم نوح (علیہ السلام) کی طرح وَدّ ‘ سُوَاع ‘ یغوث ‘ یعوق اور نسر ہی تھے ‘ اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے ایک اثر منقول ہے ‘اس میں ہے کہ ان کے ایک صنم کا نام صمود اور ایک کا نام ہتار تھا۔ ١ ؎
حضرت ہود (علیہ السلام)
[ترمیم]عاد اپنی مملکت کی سطوت و جبروت ‘جسمانی قوت و صولت کے غرور میں ایسے چمکے کہ انھوں نے خدائے واحد کو بالکل بھلا دیا اور اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود مان کر ہر قسم کے شیطانی اعمال بے خوف و خطر کرنے لگے۔تب اللہ تعالیٰ نے انہی میں ایک پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ‘حضرت ہود (علیہ السلام) عاد کی سب سے زیادہ معزز شاخ خلود کے ایک فرد تھے ‘سرخ و سپید رنگ اور وجیہ تھے۔ان کی داڑھی بڑی تھی۔[5]
تبلیغ اسلام
[ترمیم]انھوں نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دی اور لوگوں پر ظلم وجور کرنے سے منع فرمایا مگر عاد نے ایک نہ مانی اور
ان کو سختی کے ساتھ جھٹلایا اور غرور وتکبر کے ساتھ کہنے لگے۔مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً [6] ”
آج دنیا میں ہم سے زیادہ شوکت و جبروت کا کون مالک ہے ؟ “مگر حضرت ہود (علیہ السلام) مسلسل اسلام کی تبلیغ میں لگے رہے ‘وہ اپنی قوم کو عذاب الٰہی سے ڈراتے اور غرور و سرکشی کے نتائج بتا کر قوم نوح کے واقعات یاد دلاتے اور کبھی ارشاد فرماتے :
” اے قوم ۔ اپنی جسمانی طاقت اور حکومت کے جبروت پر گھمنڈ نہ کر بلکہ خدا کا شکر ادا کر کہ اس نے تجھ کو یہ دولت بخشی ‘قوم نوح کی تباہی کے بعد تجھ کو زمین کا مالک بنایا ‘ خوش عیشی ‘فارغ البالی اور خوش حالی عطا کی لہٰذا اس کی نعمتوں کو نہ بھول اور خود ساختہ بتوں کی پرستش سے باز آ ‘جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ دکھ دے سکتے ہیں ‘موت و زیست ‘ نفع و ضرر سب ایک اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ‘اے افرادِ قوم۔ مانا کہ تم عرصہ تک سرکشی اور اس کی نافرمانی میں مبتلا رہے ہو ‘مگر آج بھی اگر توبہ کرلو ‘اور باز آجاؤ تو اس کی رحمت وسیع ہے اور دروازہ توبہ بند نہیں ہوا ‘اس سے مغفرت چاہو وہ بخش دے گا ‘اس کی طرف رجوع ہو جاؤ وہ معاف کر دے گا ‘ تقویٰ و طہارت کی زندگی اختیار کرلو ‘وہ تم کو دن دوگنی ‘ رات چوگنی ترقی عطا کرے گا ‘بیش از بیش عزت دے گا ‘ اور مال و عزت میں سرفرازی بخشے گا “
حضرت ہود (علیہ السلام) اپنی تبلیغ اور پیغام حق کے ساتھ ساتھ بار بار یہ بھی دہراتے کہ میں تم سے کسی اجرو عوض کا خواہاں نہیں ‘میرا اجر تو خدا ہی کے پاس ہے اور یہ نبی کی زندگی کا طغرائے امتیاز ہے ‘ان کو کوئی یہ تہمت نہیں لگا سکتا کہ وہ مال کی طلب میں ایسا کرتے ہیں ‘یا عزت و جاہ اور ریاست کے طالب ہیں ‘وہ نہ قوم سے اپنی ریاست و عزت کے طالب ہوتے ہیں ‘اور نہ مال و منال کے ‘ان کے سامنے تو صرف ایک ہی نقطہ ہوتا ہے اور وہ ادائے فرض اور اپنے مالک حقیقی کے احکام کی پیغامبری ہے۔
عاد میں ایمان دار تو چند ہی تھے۔باقی تمام سرکش اور متمرد انسانوں کا گروہ تھا ‘ان کو حضرت ہود (علیہ السلام) کی یہ نصائح سخت شاق گذرتی تھیں ‘اور وہ یہ نہیں برداشت کرسکتے تھے کہ ان کے خیالات ‘ ان کے عقائد و اعمال ‘غرض ان کے کسی ارادہ میں بھی کوئی شخص حائل ہو ‘ان کے لیے ناصحِ مشفق بنے ‘اس لیے انھوں نے یہ روش اختیار کی کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا ‘ان کو بیوقوف گردانا اور ان کی معصومانہ حقانیتوں اور صداقتوں کی تمام یقینی دلائل وبراہین کو جھٹلانا شروع کر دیا۔اور حضرت ہود (علیہ السلام) سے کہنے لگے :
{ یٰھُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰ لِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَ مَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ } [7]
” اے ہود۔ تو ہمارے پاس ایک دلیل بھی نہیں لایا ‘اور تیرے کہنے سے ہم اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں ‘اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں۔ “
ہم اس ڈھونگ میں آنے والے نہیں کہ تجھ کو خدا کا رسول مان لیں اور اپنے خداؤں کی عبادت چھوڑ کے یہ یقین کر لیں کہ وہ خدائے اکبر کے سامنے ہمارے سفارشی نہیں ہوں گے۔
حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ نہ میں بیوقوف ہوں اور نہ پاگل ‘بلاشبہ خدا کا رسول اور پیغمبر ہوں ‘اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے بیوقوف کو منتخب نہیں کیا کرتا کہ اس کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ جائے اور ہدایت کی جگہ گمراہی آجائے ‘وہ اس عظیم الشان خدمت کے لیے اپنے بندوں میں سے ایسے شخص کو چنتا ہے۔جو ہر طرح اس کا اہل ہو ‘اور اس خدمت حق کو بخوبی انجام دے سکے۔
{ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } [8]
” اور اللہ خوب جاننے والا ہے کہ اپنے منصب رسالت کو کس جگہ رکھے۔ “
مگر قوم کی سرکشی اور مخالفت بڑھتی ہی رہی اور ان پر آفتاب سے زیادہ روشن دلائل و نصائح کا مطلق اثر نہ ہوا ‘اور وہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی تکذیب و تذلیل کے اور زیادہ درپے ہو گئے اور (العیاذ باللّٰہ) مجنوں اور خبطی کہہ کر اور زیادہ مذاق اڑانے لگے ‘ اور کہنے لگے اے ہود ۔ جب سے تو نے ہمارے معبودوں کو بُرا کہنا اور ہم کو ان کی عبادت سے باز رہنے کے لیے تلقین کرنا شروع کیا ہے۔ہم دیکھتے ہیں اس وقت سے تیرا حال خراب ہو گیا ہے اور ہمارے خداؤں کی بددعا سے تو پاگل و مجنون ہو گیا ہے تو اب ہم اس کے علاوہ تجھ کو اور کیا سمجھیں ؟
ان کو اپنی اس گستاخانہ جرأت و تہمت سے یہ خیال ہو چلا تھا کہ اب کوئی شخص حضرت ہود (علیہ السلام) کی طرف دھیان نہ دے گا ‘اور ان کی باتوں کو توجہ سے نہ سنے گا۔
حضرت ہود (علیہ السلام) نے یہ سب کچھ نہایت ضبط و صبر سے سنا اور پھر ان سے یوں مخاطب ہوئے :
” میں خدا کو اور تم سب کو گواہ بنا کر سب سے پہلے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں اس اعتقاد سے قطعاً بری ہوں کہ ان بتوں میں یہ قدرت ہے کہ مجھ کو یا کسی کو کسی قسم کی بھی کوئی برائی پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے بعد تم کو اور تمھارے ان معبودانِ باطل کو تحدی (چیلنج) کرتا ہوں کہ اگر ان میں ایسی قدرت ہے تو وہ مجھ کو نقصان پہنچانے میں جلدی سے اقدام کریں ‘میں اپنے اللہ کے فضل و کرم سے صاحب عقل و خرد ہوں ‘فراست و کیا ست کا مالک ہوں اور حکمت و دانائی کا حامل۔میں تو صرف اپنے اس خدا ہی پر بھروسا کرتا اور اسی پر وثوق رکھتا ہوں۔جس کے قبضہ وقدرت میں کائنات کے تمام جانداروں کی پیشانیاں ہیں اور جو حیات و ممات کا مالک ہے ‘وہ ضرور میری مدد کرے گا اور ہر نقصان پہنچانے والے کے نقصان سے محفوظ رکھے گا۔ “
آخر حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کی مسلسل بغاوت و سرکشی کے خلاف یہ اعلان کر دیا کہ اگر عاد کا رویہ یہی رہا اور حق سے اعراض و روگردانی کی روش میں انھوں نے کوئی تبدیلی نہ کی ‘اور میری پند و نصائح کو گوش دل سے نہ سنا تو میں اگرچہ اپنی مفوضہ خدمت کے لیے ہر وقت چست کمر اور باہمت ہوں۔مگر ان کے لیے ہلاکت یقینی ہے ‘اللہ تعالیٰ عنقریب ان کو ہلاک کر دے گا ‘اور ایک دوسری قوم کو زمین کا مالک بنا کر ان کی جگہ قائم کر دے گا ‘اور بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کو زرّہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ‘وہ تو ہر شے پر قادر و مسلط اور ہر شے کا حافظ و نگہبان ہے ‘اور تمام کائنات اس کے یدقدرت میں مسخر ہے۔
اے قوم ۔ اب بھی سمجھ اور عقل و ہوش سے کام لے ‘قوم نوح کے حالات سے عبرت حاصل کر اور خدا کے پیغام کے سامنے سرِ نیاز جھکا دے ‘ ورنہ قضاء و قدر کا ہاتھ ظاہر ہو چکا ہے اور بہت قریب ہے وہ زمانہ کہ تیر ایہ سارا غرور و گھمنڈ خاک میں مل جائے گا ‘اور اس وقت ندامت سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
حضرت ہود (علیہ السلام) نے بار بار ان کو یہ بھی باور کرایا کہ میں تمھارا دشمن نہیں ہوں دوست ہوں ‘تم سے زرو سیم اور ریاست کا طالب نہیں ہوں۔بلکہ تمھاری فلاح و نجاح چاہتا ہوں ‘میں اللہ تعالیٰ کے پیغام کے بارے میں خائن نہیں بلکہ امین ہوں ‘وہی کہتا ہوں جو مجھ سے کہا جاتا ہے۔جو کچھ کہتا ہوں قوم کی سعادت اور حسن حال و مآل کے لیے کہتا ہوں ‘بلکہ دائمی و سرمدی نجات کے لیے کہتا ہوں۔
تم کو اپنی ہی قوم کے ایک انسان پر خدا کے پیغام نازل ہونے سے اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔
کیونکہ یہ قدیم سے خدا کی سنت جاریہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت وسعادت کے لیے انھی میں سے ایک شخص کو چن لیتا اور اپنا رسول بنا کر اس سے خطاب کرتا ہے اور اپنی مرضیات و نامرضیات سے اس کی معرفت اپنے بندوں کو مطلع کرتا رہتا ہے ‘اور فطرت کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ کسی قوم کی رشد و ہدایت کے لیے ایسے شخص کا ہی انتخاب کیا جائے جو بول چال میں انھی کی طرح ہو ‘ان کے اخلاق و عادات کا واقف و دانا ہو ‘ان کے خصوصی امتیازات سے آشنا ‘اور انھی کے ساتھ زندگی گزارتا رہا ہو کہ اسی سے قوم مانوس ہو سکتی ہے اور وہی ان کا صحیح ہادی مشفق بن سکتا ہے۔
عاد نے جب یہ سنا تو وہ عجیب حیرت میں پڑ گئے ‘ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ ایک خدا کی پرستش کے کیا معنی ہیں ؟ وہ غم و غصہ میں آگئے کہ کس طرح ہم باپ دادا کی ریت ” اصنام پرستی “ کو چھوڑدیں ؟ یہ تو ہماری اور ہمارے باپ دادا کی سخت توہین ہے ‘ان کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا کہ ان کو کافر اور مشرک کیوں کہا جاتا ہے جبکہ وہ بتوں کو خدا کے سامنے اپنا شفیع مانتے ہیں ؟
ان کے نزدیک ہود (علیہ السلام) کی بات مان لینے میں ان کے معبودوں اور بزرگوں کی توہین و تحقیر تھی۔جن کو وہ خدائے اکبر کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ اور شفیع مانتے تھے اور اسی کے لیے ان تصویروں اور مجسّموں کو پوجتے تھے کہ وہ خوش ہو کر ہماری سفارش کریں گے اور عذاب الٰہی سے نجات دلائیں گے۔
آخر وہ شعلہ کی طرح بھڑک اٹھے اور حضرت ہود (علیہ السلام) سے بگڑ کر کہنے لگے ”
تو نے ہم کو اپنے خدا کے عذاب کی دھمکی دی اور ہم کو اس سے یہ کہہ کر ڈرایا :
{ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ } [9]
” میں تمھارے اوپر بڑے دن کے عذاب آنے سے ڈرتا ہوں(کہ کہیں تم اس کے مستحق نہ ٹھہر جاؤ) “
تو اے ہود ۔ اب ہم سے تیری روز روز کی نصیحتیں نہیں سنی جاتیں ‘ہم ایسے ناصح مشفق سے باز آئے ‘اگر تو واقعی اپنے قول میں سچا ہے۔تو وہ عذاب جلد لے آ کہ ہمارا تیرا قصہ پاک ہو :
{ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ } [10]
” پس لا تو ہمارے پاس اس شے کو جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اگر تو واقعی سچوں میں سے ہے۔ “
حضرت ہود (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ اگر میری مخلصانہ اور صادقانہ نصائح کا یہی جواب ہے تو بسم اللہ اور تم کو عذاب کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو بھی کچھ دور نہیں۔
{ قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌ} [11]
” بلاشبہ تمھارے پروردگار کی جانب سے تم پر عذاب و غضب آپہنچا۔ “
تم کو شرم نہیں آتی کہ تم چند خود ساختہ بتوں کو ان کے نام گھڑ کر پکارتے ہو اور تم اور تمھارے آباؤاجداد ان کو خدا کی دی ہوئی دلیل کے بغیر من گھڑت طریقہ پر ان کو اپنا شفیع اور سفارشی مانتے ہو ‘اور میری روشن دلائل سے انحراف
اور سرکشی کرکے عذاب کے طالب ہوتے ہو ‘اگر ایسا ہی شوق ہے تو اب تم بھی انتظار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ وقت قریب آپہنچا۔
{ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَآئٍ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍط فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ }[12]
” کیا تم مجھ سے ان من گھڑت ناموں (بتوں) کے بارے میں جھگڑتے ہو جس کو تم نے اور تمھارے باپ دادوں نے گھڑ لیا ہے جس کے متعلق تمھارے پاس خدا کی کوئی حجت نہیں آئی پس اب تم (عذاب الٰہی کا) انتظار کرو ‘ میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ “
الحاصل قوم ہود (عاد) کی انتہائی شرارت و بغاوت اور اپنے پیغمبر کی تعلیم سے بے پناہ بغض وعناد کی پاداش عمل اور قانون جزاء کا وقت آپہنچا اور غیرت حق حرکت میں آئی اور عذاب الٰہی نے سب سے پہلے خشک سالی کی شکل اختیار کی ‘عاد سخت گھبرائے پریشان ہوئے اور عاجز و درمانندہ نظر آنے لگے تو حضرت ہود (علیہ السلام) کو جوشِ ہمدردی نے اکسایا اور مایوسی کے بعد پھر ایک مرتبہ ان کو سمجھایا کہ راہ حق اختیار کرلو ‘میری نصائح پر ایمان لے آؤ کہ یہی نجات کی راہ ہے ‘دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ورنہ پچھتاؤ گے ‘لیکن بدبخت و بدنصیب قوم پر کوئی اثر نہ ہوا ‘بلکہ بغض وعناد اور دوبالا ہو گیا۔تب ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا ‘آٹھ دن اور سات راتیں پیہم تیز و تند ہوا کے طوفان اٹھے اور
ان کو اور ان کی آبادی کو تہ وبالا کرکے رکھ دیا ‘تنومند اور قوی ہیکل انسان جو اپنی جسمانی قوتوں کے گھمنڈ میں سر مست سرکش تھے۔ اس طرح بے حس و حرکت پڑے نظر آتے تھے جس طرح آندھی سے تناور درخت بے جان ہو کر گر جاتا ہے ‘غرض ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بنیں اور دنیا و آخرت کی لعنت اور عذاب ان پر مسلط کر دیا گیا کہ وہ اس کے مستحق تھے اور حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کے مخلص پیروان اسلام خدا کی رحمت و نعمت میں عذاب الٰہی سے محفوظ رہے اور سرکش قوم کی سرکشی و بغاوت سے مامون ہو گئے۔
یہ ہے عاد اولیٰ کی وہ داستان عبرت جو اپنے اندر چشم عبرت بیں کے لیے بیشمار پند و نصائح رکھتی اور خدائے برتر کے احکام کی تعمیل اور تقویٰ و طہارت کی زندگی کی جانب دعوت دیتی ہے ‘ شرارت ‘ سرکشی اور خدا کے احکام سے بغاوت کے انجام بد سے آگاہ کرتی اور وقتی خوش عیشی پر گھمنڈ کرکے نتیجہ کی بدبختی پر مذاق اڑانے سے ڈراتی اور باز رکھتی ہے۔
غرض حضرت ہود (علیہ السلام) کے اس واقعہ کا تفصیلی ذکر قرآن عزیز نے جس عبرت آموز طریقہ پر کیا ہے اس کو پڑھیے اور موعظت و عبرت ‘ اور گراں مایہ پند و نصائح کا سامان فراہم کیجئے کہ دنیا و آخرت کی سعادت و فلاح کا یہی بہترین ذخیرہ ہے۔
{ وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ۔ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاھَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ ۔ اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآئَکُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْم بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃًج فَاذْکُرُوْٓا اٰ لَآئَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰہَ وَحْدَہٗ وَ نَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاج فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌط اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَآئٍ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍط فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ۔ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ } [13]
” اور اسی طرح ہم نے قوم عاد میں اس کے بھائی بندوں میں سے ہود کو بھیجا ‘ اس نے کہا ” اے قوم اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا معبود نہیں ‘ کیا تم (انکار و بدعملی کے نتائج سے ) نہیں ڈرتے ؟ “ اس پر قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے جنھوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا تھا ‘ کہا ” ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم حماقت میں پڑ گئے ہو اور ہمارا خیال یہ ہے کہ تم جھوٹ بولنے والوں میں سے ہو “ ہود نے کہا ” بھائیو۔ میں احمق نہیں ہوں میں تو اس کی طرف سے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے فرستادہ ہوں میں اس کا پیام تمھیں پہنچاتا ہوں اور یقین کرو کہ تمھیں دیانتداری کے ساتھ نصیحت کرنے والا ہوں کیا تمھیں اس بات پر اچنبھا ہو رہا ہے کہ ایک ایسے آدمی کے ذریعہ تمھارے پروردگار کی نصیحت تم تک پہنچی جو خود تم ہی میں سے ہے ‘ خدا کا یہ احسان یاد کرو کہ قوم نوح کے بعد تمھیں اس کا جانشین بنایا اور تمھاری نسل کو زیادہ وسعت و توانائی بخشی ‘ پس چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاد سے غافل نہ ہوتا کہ ہر طرح کامیاب ہو “ انھوں نے کہا ”کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے کہ ہم صرف ایک ہی خدا کے پجاری ہوجائیں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ؟ اگر تم سچے ہو تو وہ بات لا دکھاؤ جس کا ہمیں خوف دلا رہے ہو “ ہود نے کہا ” یقین کرو تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب واقع ہو گیا ہے (کہ عقلیں ماری گئی ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی کے حوالے کر رہے ہو) کیا ہے جس کی بنا پر تم مجھ سے جھگڑ رہے ہو ؟ محض چند نام جو تم نے اور تمھارے بزرگوں نے اپنے جی سے گھڑ لیے ہیں اور جن کے لیے خدا نے کوئی سند نہیں اتاری ‘ اچھا (آنے والے وقت کا) انتظار کرو ‘ میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کروں گا “ پھر ایسا ہوا کہ ہم نے ہود کو اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور جنھوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ان کی بیخ و بنیاد تک اکھاڑ دی حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی ایمان لانے والے نہ تھے۔ “
{ وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًاط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ۔ یٰقَوْمِ لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًاط اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ ۔قَالُوْا یٰھُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَ مَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بِسُوْئٍط قَالَ اِنِّیْٓ اُشْھِدُ اللّٰہَ وَ اشْھَدُوْٓا اَنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ۔ مِنْ دُوْنِہٖ فَکِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۔اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیْ وَ رَبِّکُمْط مَا مِنْ دَآبَّۃٍ اِلَّا ھُوَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَاط اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِہٖٓ اِلَیْکُمْط وَ یَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَکُمْج وَ لَا تَضُرُّوْنَہٗ شَیْئًاط اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌ ۔ وَ لَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا ھُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّاج وَ نَجَّیْنٰھُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ ۔ وَ تِلْکَ عَادٌقف جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَہٗ وَ اتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ وَ اُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اَلَآ اِنَّ عَادًا کَفَرُوْا رَبَّھُمْط اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ ھُوْدٍ ۔ }[14]
” اور ہم نے (قوم) عاد کی طرف ان کے بھائی بندوں میں سے ہود کو بھیجا۔ ہود نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو۔ اللہ کی بندگی کرو ‘اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں یقین کرو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ (حقیقت کے خلاف) افتراء پردازیاں کر رہے ہو ‘اے میری قوم کے لوگو۔ میں اس بات کے لیے تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا ‘میرا بدلہ تو اسی پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔ پھر کیا تم (اتنی صاف بات بھی) نہیں سمجھتے ؟ اور اے میری قوم کے لوگو۔ اپنے پروردگار سے (اپنے قصوروں کی) مغفرت مانگو اور (آئندہ کے لیے)اس کی جناب میں توبہ کرو ‘ وہ تم پر برستے ہوئے بادل بھیجتا ہے (جس سے تمھارے کھیت اور باغ شاداب ہوجاتے ہیں) اور تمھاری قوتوں پر نئی نئی قوتیں بڑھاتا ہے ( کہ روز بروز گھٹنے کی جگہ بڑھتے جاتے ہو) اور (دیکھو) جرم کرتے ہوئے اس سے منہ نہ موڑو “(ان لوگوں نے ) کہا ” اے ہود۔ تو ہمارے پاس کوئی دلیل لے کے آیا نہیں (جسے ہم دلیل سمجھیں)اور ہم ایسا کرنے والے نہیں کہ تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ‘ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں ‘ ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں ‘ وہ تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی معبود کی تجھ پر مار پڑ گئی ہے (اسی لیے اس طرح کی باتیں کرنے لگا ہے) “ ہود نے کہا ” میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جن ہستیوں کو تم نے اس کا شریک بنا رکھا ہے ‘ مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں ‘تم سب مل کر میرے خلاف جو کچھ تدبیریں کرسکتے ہو ضرور کرو ‘ اور (مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو ‘ پھر دیکھ لو ‘ نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ )میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی ‘ کوئی چلنے والا وجود نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ نے اسے اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ رکھا ہے (یعنی کوئی حرکت کرنے والی ہستی نہیں کہ اس کے قبضہ سے باہر ہو)میرا پروردگار (حق و عدل کی) سیدھی راہ پر ہے (یعنی اس کی راہ ظلم کی راہ نہیں ہو سکتی) پھر اگر (اس پر بھی) تم نے روگردانی کی تو جس بات کے لیے میں بھیجا گیا تھا۔وہ میں نے پہنچا دی (اس سے زیادہ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے اور مجھے تو نظر آرہا ہے کہ) میرا پروردگار کسی دوسرے گروہ کو تمھاری جگہ دے دے گا ‘ اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے ‘ یقیناً میرا پروردگار ہر چیز کا نگران حال ہے۔ “اور (دیکھو ) جب ہماری ٹھہرائی ہوئی بات کا وقت آپہنچا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود کو بچا لیا اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ (سچائی پر) ایمان لائے تھے ‘ اور ایسے عذاب سے بچا لیا کہ بڑا ہی سخت عذاب تھا ‘یہ ہے سرگزشت عاد کی۔ انھوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں (ہٹ دھرمی اور سرکشی کرتے ہوئے) جھٹلائیں اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی ‘ اور ہر متکبر و سرکش کے حکم کی پیروی کی۔ اور ایسا ہوا کہ دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت پڑی (یعنی رحمت الٰہی کی برکتوں سے محرومی ہوئی) اور قیامت کے دن بھی۔ دیکھو عاد نے اپنے پروردگار سے کفر کیا (اور) سن رکھو ہود کی قوم عاد پر پھٹکار ہے۔ “
{ ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْم بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰ خَرِیْنَ ۔ فَاَرْسَلْنَا فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط اَفَـلَا تَتَّقُوْنَ ۔وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِلِقَائِ الْآخِرَۃِ وَاَتْرَفْنَاہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَالا مَا ہٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْلا یَاْکُلُ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ ۔ وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخَاسِرُوْنَ ۔اَیَعِدُکُمْ اَنَّکُمْ اِذَا مِتُّمْ وَکُنْتُمْ تُرَابًا وَّعِظَامًا اَنَّکُمْ مُّخْرَجُوْنَ ۔ ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۔اِنْ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ۔اِنْ ہُوَ اِلَّا رَجُلُ نِافْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا وَّمَا نَحْنُ لَہٗ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ ۔ قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نَادِمِیْنَ ۔ فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَائًج فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ }[15]
” پھر ہم نے قوم نوح کے بعد قوموں کا ایک دوسرا دور پیدا کر دیا ‘ان میں بھی اپنا رسول بھیجا جو خود انہی میں سے تھا ( اس کی پکار بھی یہی تھی) کہ ” اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ‘ کیا تم (انکار و فساد کے نتائج بد سے ) ڈرتے نہیں ؟ “اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور آخرت کے پیش آنے سے منکر تھے اور جنہیں دنیا کی زندگی میں ہم نے آسودگی دے رکھی تھی کہنے لگے ” اس سے زیادہ اس کی کیا حیثیت ہے کہ تمھارے ہی جیسا ایک آدمی ہے ‘ جو تم کھاتے ہو یہ بھی کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے ‘ اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی اطاعت کرلی تو بس سمجھ لو تم تباہ ہوئے ‘تم سنتے ہو یہ کیا کہتا ہے ؟ یہ تمھیں امید دلاتا ہے کہ جب مرنے کے بعد محض مٹی اور ہڈیوں کا چورا ہو جاؤ گے تو پھر تمھیں موت سے نکالا جائے گا کیسی اَن ہونی بات ہے جس کی تمھیں توقع باقی ہے ‘
زندگی تو بس یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں یہیں مرنا ہے یہیں جینا ہے ‘ ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مر کر پھر جی اٹھیں گے ‘ کچھ نہیں یہ ایک مفتری آدمی ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ موٹ بات بنادی ‘ہم کبھی اس پر یقین لانے والے نہیں “ اس پر اس رسول نے دعا مانگی ” خدایا ۔ انھوں نے مجھے جھٹلایا ہے ‘ پس تو میری مدد کر “ حکم ہوا ” عنقریب ایسا ہونیوالا ہے کہ یہ اپنے کیے پر شرمسار ہوں گے۔ “چنانچہ فی الحقیقت ایک ہولناک آواز نے انھیں آپکڑا اور ہم نے خس و خاشاک کی طرح انھیں پامال کر دیا ‘ تو محرومی ہو اس گروہ کے لیے کہ ظلم کرنے والا ہے۔ “
{ کَذَّبَتْ عَادُ نِالْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَ لَاتَتَّقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔وَمَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ۔ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ ۔ وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔وَاتَّقُوا الَّذِیْ اَمَدَّکُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ ۔ اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِیْنَ ۔وَجَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ۔ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔قَالُوْا سَوَائٌ عَلَیْنَا اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَکُنْ مِّنَ الْوَاعِظِیْنَ۔ اِنْ ہٰذَا اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ ۔وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ۔ فَکَذَّبُوْہُ فَاَہْلَکْنَاہُمْط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃًط وَّمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ }[16]
” عاد نے (اللہ کے ) پیغام لانے والوں کو جھٹلایا جب ان کے بھائی ہود نے ان کو کہا ” کیا تم کو (خدا کا ڈر) نہیں ؟ میں تمھارے پاس پیغام لانے والا معتبر ہوں ‘ سو ڈر واللہ سے اور میرا کہا مانو ‘ اور نہیں مانگتا میں تم سے اس پر بدلہ ‘ میرا بدلہ اس جہان کے مالک پر ہے ‘کیا بناتے ہو تم ہر اونچی زمین پر ایک نشان کھیلنے کو ‘ اور بناتے ہو کاریگریاں شاید تم ہمیشہ رہو گے اور جب ہاتھ ڈالتے ہو تو ظلم کا پنجہ ہی مارتے ہو ‘سو ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو ‘ اور ڈرو اس سے جس نے تم کو پہنچائیں وہ چیزیں جو تم جانتے ہو ‘ پہنچائے تم کو چوپائے اور بیٹے ‘ اور باغ اور چشمے ‘میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کی آفت سے۔ “ وہ بولے ” ہم کو برابر ہے تو نصیحت کرے یا نہ کرے اور کچھ نہیں ہیں یہ باتیں مگر عادت ہے اگلے لوگوں کی ‘ اور ہم پر آفت آنے والی نہیں “ پھر اس کو جھٹلانے لگے ‘تب ہم نے ان کو غارت کر دیا ‘ اس بات میں البتہ نشانی ہے اور ان میں سے بہت لوگ ماننے والے نہیں ‘ اور تیرا رب وہی ہے زبردست رحم والا۔ “
{ فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃًط اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃًط وَّکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ۔ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِیْ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَاط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزٰی وَہُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ۔ } [17]
” سو جو عاد تھے وہ تو غرور کرنے لگے ملک میں ناحق ‘ اور کہنے لگے ” کون ہے ہم سے زیادہ زور و قوت میں “ کیا دیکھتے نہیں کہ اللہ جس نے ان کو بنایا وہ زیادہ ہے ان سے زور میں ؟ اور وہ تھے ہماری نشانیوں کے منکر ‘ پھر بھیجی ہم نے ان پر ہوا بڑے زور کی کئی دن جو مصیبت کے تھے ‘تاکہ چکھائیں ان کو رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگانی میں ‘ اور آخرت کے عذاب میں تو پوری رسوائی ہے اور (اس روز) ان کو مدد بھی نہ ملے گی۔ “
{ وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍط اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ اَ لَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰہَط اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔ قَالُوْا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِکَنَا عَنْ اٰ لِہَتِنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ۔ قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَاللّٰہِزصلے وَاُبَلِّغُکُمْ مَّا اُرْسِلْتُ بِہٖ وَلٰـکِنِّیْ اَرَاکُمْ قَوْمًا تَجْہَلُوْنَ ۔ فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِہِمْلا قَالُوْا ہٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَاط بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہٖط رِیْحٌ فِیْہَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔تُدَمِّرُ کُلَّ شَیْئٍ بِاَمْرِ رَبِّہَا فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰی اِلَّا مَسَاکِنُہُمْط کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ ۔ وَلَقَدْ مَکَّنَّاہُمْ فِیْمَا اِنْ مَّکَّنَّاکُمْ فِیْہِ وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْئِدَۃًزصلے فَمَا اَغْنٰی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَا اَبْصَارُہُمْ وَلَا اَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْئٍ اِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَلا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُوْنَ ۔ }[18]
” اور یاد کر عاد کے بھائی کو جب ڈرایا اس نے اپنی قوم کو احقاف میں اور گذر چکے تھے ڈرانے والے اس کے سامنے سے اور پیچھے سے (یہ کہتے ہوئے) کہ بندگی نہ کرو کسی کی اللہ کے سوائے ‘میں ڈرتا ہوں تم پر آفت سے ایک بڑے دن کی ‘ بولے۔ کیا تو آیا ہمارے پاس کہ پھیردے ہم کو ہمارے معبودوں سے۔ سو لے آہم پر جو وعدہ کرتا ہے اگر ہے تو سچا۔ کہا یہ خبر تو اللہ ہی کو ہے اور میں تو پہنچا دیتا ہوں جو کچھ بھیج دیا ہے۔میرے ہاتھ ‘ لیکن میں دیکھتاہوں کہ تم لوگ نافرمانی کرتے ہو ‘ پھر جب دیکھا (اس عذاب کو) ابر سامنے آیا ہوا اپنی وادیوں کے ‘ بولے۔ یہ ابر ہے ہمارے اوپر برسے گا ” کوئی نہیں “یہ تو وہ چیز ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے ہوا ہے جس میں عذاب ہے دردناک ‘ اکھاڑ پھینکے ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے ‘ پھر کل کے دن رہ گئے کہ کوئی نظر نہیں آتا تھا سوائے ان کے گھروں کے ‘ یوں ہم سزا دیتے ہیں گناہ گار لوگوں کو اور ہم نے مقدور دیا تھا۔ان کو ان چیزوں کا جن کا تم کو مقدور نہیں دیا اور ہم نے ان کو دیے تھے کان اور آنکھیں اور دل ‘پھر کام نہ آئے کان ان کے اور نہ آنکھیں ان کی اور نہ دل ان کے کسی چیز میں ‘ اس لیے کہ منکر ہوتے تھے اللہ کی باتوں سے اور الٹ پڑی ان پر جس بات سے کہ وہ ٹھٹھا کرتے تھے۔ “
{ وَفِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ ۔ مَا تَذَرُ مِنْ شَیْئٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ ۔ } [19]
” اور قوم عاد (کے ہلاک ہونے میں بھی قدرت اللہ کی بہت نشانیاں ہیں) جب ہم نے ان پر ایک منحوس آندھی چلائی ‘ جس چیز سے ہو کر گزرتی اس کو بوسیدہ ہڈی کی طرح (چورا) کیے بدون نہ چھوڑتی۔ “
{ کَذَّبَتْ عَادٌ فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۔ اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ ۔ تَنْزِعُ النَّاسَلا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ ۔ } [20]
” جھٹلایا عاد نے پھر کیسا ہوا میرا عذاب اور میرا کھڑ کھڑانا ؟ ہم نے بھیجی ان پر ہوا تند ‘ ایک نحوست کے دن کو ‘ ٹلنے والی نہ تھی اکھاڑ پھینکا لوگوں کو گویا وہ جڑیں ہیں کھجور کی اکھڑی پڑی ‘ پھر کیسا رہا میرا عذاب اور میرا کھڑکھڑانا۔ “
{ وَاَمَّا عَادٌ فَاُہْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ ۔ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمَانِیَۃَ اَیَّامٍلا حُسُوْمًالا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعٰیلا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ ۔ فَہَلْ تَرٰی لَہُمْ مِّنْ بَاقِیَۃٍ۔ } [21]
” اور وہ جو عاد تھے سو برباد ہوئے ٹھنڈی سناٹے کی ہوا سے کہ نکلی جائے ہاتھوں سے ‘ مقرر کر دیا اس کو ان پر سات رات اور آٹھ دن لگاتار ‘ پھر تو دیکھے کہ وہ لوگ اس میں پچھڑ گئے گویا وہ جڑیں ہیں کھجور کی ‘ پھر تو دیکھتا ہے کوئی ان میں کا بچا ؟ “
{ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۔ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ۔ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ ۔ } [22]
” تو نے دیکھا ‘ کیسا کیا تیرے رب نے عادارم کے ساتھ جو تھے بڑے ستونوں والے کہ ان جیسی (چیز) سارے شہروں میں نہیں بنائی گئیں۔ “
حضرت ہود (علیہ السلام) کی وفات
[ترمیم]اہل عرب حضرت ہود (علیہ السلام) کی وفات اور ان کی قبر مبارک کے متعلق مختلف دعوے کرتے ہیں ‘ مثلاً اہل حضرموت کا دعویٰ ہے کہ عاد کی ہلاکت کے بعد وہ حضر موت کے شہروں میں ہجرت کر آئے تھے ‘ وہیں ان کی وفات ہوئی اور وادی برہوت کے قریب حضرموت کے مشرقی حصہ میں شہر تریم سے قریباً دومرحلے پر دفن ہوئے۔ اور حضرت علی ؓ سے ایک اثر منقول ہے کہ ان کی قبر حضر موت میں کثیب احمر (سرخ ٹیلہ) پر ہے اور ان کے سرہانے جھاؤ کا درخت کھڑا ہے۔ اور اہل فلسطین کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطین میں دفن ہیں ‘ اور انھوں نے وہاں ان کی قبر بھی بنا رکھی ہے اور اس کا سالانہ عرس بھی کرتے ہیں۔ [23] مگر ان تمام روایات میں سے حضر موت کی روایت صحیح اور معقول معلوم ہوتی ہے ‘ اس لیے کہ عاد کی بستیاں حضرموت ہی کے قریب تھیں۔ لہٰذا قرینہ یہی چاہتا ہے کہ ان کی تباہی کے بعد قریب ہی کی آبادیوں میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے قیام فرمایا ہوگا اور وہیں پیغام اجل کو لبیک کہا اور وہ یہی حضر موت کا مقام ہے۔
چند عبرتیں
[ترمیم]علاوہ اس خاص عبرت کے جس کا ذکر اس طویل واقعہ میں ہو چکا ہے ‘ یہ چند عبرتیں بھی قابل توجہ اور نظر التفات کے لائق ہیں :
جو شخص قوم عاد کے واقعہ کو پڑھتا ہے ‘ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسی ہستی کا تصور آجاتا ہے جو وقار اور متانت کا مکمل مجسمہ ہے اور شرافت و نجابت چہرہ سے عیاں ‘ جو کچھ کہتا ہے پہلے اس کو وزن کرلیتا ہے کہ اس کا انجام نیک ہے یا بد ‘ قوم کی درشتی ‘ تمسخر و استہزاء کا جواب ضبط و صبر سے دیتا اور پھر بھی ان کی بھلائی کا جویاں نظر آتا ہے ‘ اخلاص اور حسن نیت اس کی پیشانی سے عیاں ہے۔ اس کی قوم کہتی ہے :
{ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاھَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ } [24]
” بیشک ہم تجھ کو بیوقوف پاتے ہیں اور بیشک ہم تجھ کو جھوٹوں میں شمار کرتے ہیں۔ “
مگر وہ اس کا جواب یہ دیتا ہے :
{ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ۔ } [25]
” اے قوم۔ میں بیوقوف نہیں ہوں ‘ البتہ میں جہانوں کے پروردگار کی جانب سے رسول ہوں تم تک اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمھارے لیے امانت دار خیر خواہ ہوں۔ “
یہ سوال و جواب ہم کو توجہ دلاتے ہیں کہ خدا کے برگزیدہ انسان جب کسی کی نیک خواہی کرتے اور کج رو وں کی کجی کو سیدھا کرنے کے لیے نصیحت فرماتے ہیں تو کور چشموں اور بدباطنوں کی ہرزہ سرائی اور تمسخر و تحقیر کی پروا نہیں کرتے ‘ دلگیر و رنجیدہ ہو کر امر حق سے منہ نہیں موڑتے ‘ ناراض ہو کر خیر خواہی اور نصیحت کوشی کو نہیں چھوڑتے ‘ اور بلندی اخلاق اور نرمی و مہربانی کے ساتھ روحانی مریضوں کے علاج میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی ان تمام خصوصیات میں نمایاں امتیاز یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس نصیحت و نیک خواہی کے لیے قوم سے مطلق کسی قسم کے نفع کے خواہش مند نہیں ہوتے اور ان کی زندگی بدلہ اور عوض سے یکسر بلند اور برتر ہوتی ہے۔
{ وَمَا اَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [26]
” اور میں تم سے اس نصیحت پر اجرت نہیں مانگتا ‘ میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمہ ہے اور بس۔ “
حضرت ہود (علیہ السلام) نے لطف و مہربانی کے ساتھ اپنی قوم کو خدا کی وحدانیت پر ایمان لانے کی ترغیب دی ‘ اس کی لازوال نعمتوں کو یاد دلایا اور آئندہ کے لیے وعدہ کیا مگر بدبخت قوم نے کسی طرح مان کر نہ دیا۔ اس کا سب سے بڑا سبب وہ جاہلانہ عقیدہ تھا کہ باپ دادا کی ریت و رسم اور ان کے خود ساختہ اصنام کی قہرمانیت کے خلاف جو شخص بھی آواز اٹھائے گا وہ ان بتوں کی پھٹکار میں آجائے گا ‘ یہ مہلک عقیدہ جن قوموں کے اندر اپنے جراثیم پیدا کردیتا ہے ان قوموں کا اپنے مصلح اور اپنے پیغمبر کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو قوم ہود اور قوم نوح کے تذکروں میں نظر آتا ہے ‘ اپنے مصلحین اور انبیائے صادقین کے خلاف قوموں کا بغض وعناد اسی ایک عقیدہ پر مبنی رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا کی ریت و رسم اور ان کے خود ساختہ اصنام کی قہرمانیت کے خلاف کیوں کچھ کہا جاتا ہے ‘ یونان کے مشہور حکیم سقراط کو زہر کا پیالہ اسی لیے پینا پڑا کہ وہ اپنی قوم کے معبودانِ باطل کی قہرمانیت کا کیوں انکار کرتا اور ان کو کس لیے ان کے غلبہ و اقتدار کا مخالف بناتا ہے۔ پس یہ جرثومہ اقوام کی روحانی زندگی کے لیے ہمیشہ تباہ کن اور ان کی فلاح وسعادت ابدی کے لیے ہلاکت آفریں رہا ہے۔
" حضرت ہود اور دیگر انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کی یہ سنت بہترین اسوہ ہے کہ تبلیغ و پیغام حق کی راہ میں بدی کا بدلہ نیکی سے دیا جائے اور تلخی کا جواب شیریں کلامی سے پورا کیا جائے۔ البتہ مبلغ ان کی بدکرداری اور مسلسل سرکشی پر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون ” جزائے عمل یا پاداش عمل “ کو ضرور یاد دلائے اور آنے والے انجام بد پر یقیناً ان کو تنبیہ کرے اور یہ حقیقت باربار سامنے لائے کہ جب کوئی قوم اجتماعی سرکشی ‘ ظلم اور بغاوت پر آمادہ ہوجاتی اور اس پر پیہم اصرار کرتی رہتی ہے تو پھر خدائے تعالیٰ کا قہرو غضب اس کو صفحہ عالم سے مٹا دیا کرتا ہے اور اس کی جگہ دوسری قوم لے لیتی ہے چنانچہ قوم نوح اور قوم ہود اس کی عبرت آموز مثالیں ہیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ سورہ ھود (11)، آيہ 50
- ↑ http://hamariweb.com/islam/Surat_Hud_oq11.aspx
- ↑ قصہ ہائے قرآن (سید محمد صحفی)، ص 49
- ↑ وقایع الایام (شیخ عباس قمی)، ص 84 (اضافہ از طرف مجلس وحدت مسلمین میڈیا سنٹر)
- ↑ (عمدۃ القاری جلد ٧ کتاب الانبیاء)
- ↑ (حم سجدۃ : ٤١/١٥)
- ↑ (ھود : ١١/٥٣)
- ↑ (انعام : ٦/١٢٤)
- ↑ (شعرا : ٢٦/١٣٥)
- ↑ (الاعراف : ٧/٧٠)
- ↑ (الاعراف : ٧/٧٠)
- ↑ (الاعراف : ٧/٧١)
- ↑ (الاعراف : ٧/٥٦ تا ٧٢)
- ↑ (ھود : ١١/٥٠ تا ٦٠)
- ↑ (مومنون : ٢٣/٣١ تا ٤١)
- ↑ (الشعراء : ٢٦/١٢٣ تا ١٤٠)
- ↑ (حم السجدۃ : ٤١/١٥‘ ١٦)
- ↑ (الاحقاف : ٤٦ /٢١ تا ٢٦)
- ↑ (الذاریات : ٥١/٤١‘ ٤٢)
- ↑ (القمر : ٥٤/١٨ تا ٢٠)
- ↑ (الحاقۃ : ٦٩/٦ تا ٨)
- ↑ (الفجر : ٨٩/٦ تا ٨)
- ↑ (قصص الانبیاء ص ٧٤)
- ↑ (الاعراف : ٧/٦٦)
- ↑ (الاعراف : ٧/٦٧‘ ٦٨)
- ↑ (الشعراء : ٢٦/١٠٩)