مندرجات کا رخ کریں

عیسی ابن مریم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسلام میں انبیاء اور رسول
(عربی میں: عيسى ابن مريم ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش ت 4 قبل مسیح
ہیرودیسی مملکت یہودیہ، رومی سلطنت
تاريخ غائب ت 33 قبل مسیح
مقامِ غائب گتسمنی، اسلام کے مقدس ترین مقامات، یہودا (رومی صوبہ)
والدین مریم بنت عمران (والدہ)
والدہ مریم بنت عمران [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ واعظ ،  مبلغ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت Being the مسیح
مخالف دجال (ضد مسیح)

عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔

قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی مُقتَدِرَہ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔

قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ وہ مصلوب کیے گئے تھے۔

قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ علیہ السلام کی نبوت ہے اور محمد ﷺ کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔

یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیا کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔

روایتی اسلامی تعلیمات میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے. ان مخلوقات کے معجزانہ طور پر فنا ہونے کے بعد، امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام پوری دنیا پر حکومت کریں گے، امن و انصاف قائم کریں گے اور 40 سال کی حکومت کے بعد وفات پا جائیں گے۔ کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ پھر انھیں مدینہ میں سبز گنبد کے چوتھے محفوظ مقبرے میں محمد ﷺ کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔ یہ احادیث پر مبنی روایات سے متعلق غیر مستند روایات ہیں۔ [3]

[4] [5] [6] [7] [8] [9] [10] [11]

عمران و حنہ

[ترمیم]

حضرت زکریااور یحییٰ (علیہما السلام) کے حالات میں گذر چکا ہے کہ بنی اسرائیل میں عمران (مسیحیت کے مطابق مریم کے والد کا نام یہویاقیم تھا) ایک عابد و زاہد شخص تھے اور اسی زہد و عبادت کی وجہ سے نماز کی امامت بھی انھی کے سپرد تھی اور ان کی بیوی حنہ بھی بہت پارسا اور عابدہ تھیں اور اپنی نیکی کی وجہ سے وہ دونوں بنی اسرائیل میں بہت محبوب و مقبول تھے۔ [12]
محمد بن اسحاقؒ صاحب مغازی نے عمران کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے :
عمران بن یاشم بن میشا بن حزقیا بن احریق بن موثم بن عزازیا بن امصیا بن یاوش بن احریہو بن یازم بن یہفاشاط بن ایشا بن ایان بن رحبعم (رحبعام) بن سلیمان بن داؤد (علیہما السلام)۔
اور حافظ ابن عساکر نے ان ناموں کے علاوہ دوسرے نام بیان کیے ہیں اور ان دونوں بیانات میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اس پر تمام علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ عمران حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں اور حنہ بنت فاقوذ بن قبیل بھی داؤد (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ [13]
عمران صاحب اولاد نہیں تھے اور ان کی بیوی حنہ بہت زیادہ متمنی تھیں کہ ان کے اولاد ہو ‘ وہ اس کے لیے درگاہ الٰہی میں دست بدعا اور قبولیت دعا کے لیے ہر وقت منتظر رہتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حنہ صحن مکان میں چہل قدمی کر رہی تھیں ‘ دیکھا کہ ایک پرندہ اپنے بچہ کو بھرا رہا ہے ‘ حنہ کے دل پر یہ دیکھ کر سخت چوٹ لگی اور اولاد کی تمنا نے بہت جوش مارا اور حالت اضطراب میں بارگاہ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور عرض کیا :
” پروردگار ! اسی طرح مجھ کو بھی اولاد عطا کر کہ وہ ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنے۔ “
دل سے نکلی ہوئی دعا نے قبولیت کا جامہ پہنا اور حنہ نے چند روز بعد محسوس کیا کہ وہ حاملہ ہے حنہ کو اس احساس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ انھوں نے نذر مان لی کہ جو بچہ پیدا ہوگا اس کو ہیکل (مسجد اقصیٰ ) کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گی۔ بنی اسرائیل کی مذہبی رسوم میں سے یہ رسم بہت مقدس سمجھی جاتی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کریں۔ [14] بہرحال اللہ تعالیٰ نے عمران کی بیوی حنہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور وہ مسرت و شادمانی کے ساتھ امید بر آنے کی گھڑی کا انتظار کرنے لگیں۔بشر بن اسحاق کہتے ہیں کہ حنہ ابھی حاملہ ہی تھیں کہ ان کے شوہر عمران کا انتقال ہو گیا۔ [15]

مریم (علیہا السلام) کی ولادت

[ترمیم]
مریم کا کنواں یا چشمہ ہے جو ناصرہ شہر کے العین چوک میں واقع ہے۔ یہ چشمہ کنواری مریم سے منسوب کیا گیا تھا کیونکہ وہ پینے کے لیے پانی نکالتی تھیں۔

جب مدت حمل پوری ہو گئی اور ولادت کا وقت آپہنچا تو حنہ کو معلوم ہوا کہ ان کے بطن سے لڑکی پیدا ہوئی ہے ‘جہاں تک اولاد کا تعلق ہے حنہ کے لیے یہ لڑکی بھی لڑکے سے کم نہ تھی مگر ان کو یہ افسوس ضرور ہوا کہ میں نے جو نذر مانی تھی وہ پوری نہیں ہو سکے گی ‘اس لیے کہ لڑکی کس طرح مقدس ہیکل کی خدمت کرسکے گی ؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے افسوس کو یہ کہہ کر بدل دیا کہ ہم نے تیری لڑکی کو ہی قبول کیا اور اس کی وجہ سے تمھارا خاندان بھی معزز اور مبارک قرار پایا ‘ حنہ نے لڑکی کا نام مریم رکھا ‘ سریانی میں اس کے معنی خادم کے ہیں ‘ چونکہ یہ ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کردی گئیں اس لیے یہ نام موزوں سمجھا گیا۔ [16] قرآن عزیز نے اس واقعہ کو معجزانہ اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے :
{ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔ ذُرِّیَّۃً بَعْضُھَا مِنْم بَعْضٍ وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْھَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَ لَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی وَ اِنِّیْ سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ وَ اِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّ کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا } [17]
” بے شک اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو کو (اپنے اپنے زمانہ میں) جہان والوں پر بزرگی عطا فرمائی (ان میں سے ) بعض بعض کی ذریت ہیں اور اللہ سننے والا ‘ جاننے والا ہے۔ (وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا ” خدایا ! میں نے نذر مان لی ہے کہ میرے پیٹ میں جو (بچہ) ہے۔ وہ تیری راہ میں آزاد ہے پس تو اس کو میری جانب سے قبول فرما۔ بے شک تو سننے والا ‘ جاننے والا ہے۔ “ پھر جب اس نے جنا تو کہنے لگی ” پروردگار ! میرے لڑکی پیدا ہوئی ہے اللہ خوب جانتا ہے جو اس نے جنا ہے اور لڑکا اور لڑکی یکساں نہیں ہیں (یعنی ہیکل کی خدمت لڑکی نہیں کرسکتی لڑکا کرسکتا ہے) اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے ‘اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان الرجیم کے فتنہ سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ پس مریم کو اس کے پروردگار نے بہت اچھی طرح قبول فرمایا اور اس کی نشو و نما اچھے طریق پر کی اور زکریاکو اس کا نگران کار بنایا۔ “
عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام بھی ہے اور حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد کا بھی ‘ یہاں والد مریم (علیہا السلام) مراد ہیں۔
حضرت مریم (علیہا السلام) جب سن شعور کو پہنچیں اور یہ سوال پیدا ہوا کہ مقدس ہیکل کی یہ امانت کس کے سپرد کی جائے تو کاہنوں 2 ؎ میں سے ہر ایک نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اس مقدس امانت کا کفیل مجھ کو بنایا جائے مگر اس امانت کی نگرانی کا اہل حضرت زکریاسے زیادہ کوئی نہ تھا ‘ اس لیے کہ وہ مریم (علیہا السلام) کی خالہ ایشاع (الیشیع) کے شوہر بھی تھے اور مقدس ہیکل کے معزز کاہن اور خدائے برتر کے نبی بھی تھے ‘ اس لیے سب سے پہلے انھوں نے اپنا نام پیش کیا مگر جب سب کاہنوں نے یہی خواہش ظاہر کی اور باہمی کشمکش کا اندیشہ ہونے لگا تو آپس میں طے پایا کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ اس کا فیصلہ کر لیا جائے۔ اور بقول روایات بنی اسرائیل تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی وہ دریا میں اپنے (پورے) ڈالتے مگر قرعہ کی شرط کے مطابق ہر مرتبہ زکریا(علیہ السلام) ہی کا نام نکلتا ‘ کاہنوں نے جب یہ دیکھا کہ اس معاملہ میں زکریا(علیہ السلام) کے ساتھ تائید غیبی ہے تو انھوں نے بخوشی اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور اس طرح یہ ” سعید امانت “ حضرت زکریا(علیہ السلام) کے سپرد کردی گئی۔
کاہن سے وہ مقدس ہستیاں مراد ہیں جو ہیکل میں مذہبی رسوم ادا کرتی اور خدمت ہیکل پر مامور تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ مریم (علیہا السلام) کی کفالت کا یہ معاملہ اس لیے پیش آیا کہ وہ یتیم تھیں اور مردوں میں سے کوئی ان کا کفیل نہیں تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں قحط کا بہت زور تھا اس لیے کفالت کا سوال پیدا ہوا۔ لیکن یہ دونوں باتیں اگر نہ بھی ہوتیں تب بھی کفالت کا سوال اپنی جگہ پھر بھی باقی رہتا۔اس لیے کہ مریم (علیہا السلام) اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ” نذر ہیکل “ ہو چکی تھیں اور چونکہ لڑکی تھیں اس لیے از بس ضروری تھا کہ وہ کسی مرد نیک کی کفالت میں اس خدمت کو انجام دیتیں۔ غرض زکریا(علیہ السلام) نے حضرت مریم (علیہا السلام) کے صنفی احترامات کا لحاظ رکھتے ہوئے ہیکل کے قریب ایک حجرہ ان کے لیے مخصوص کر دیا تاکہ وہ دن میں وہاں رہ کر عبادت الٰہی سے بہرہ ور ہوں اور جب رات آتی تو ان کو اپنے مکان پر ان کی خالہ ایشاع کے پاس لے جاتے اور وہ وہیں شب بسر کرتیں۔[18][19]
مولانا آزاد ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں : ” قرآن میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ظہور کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ دو جگہ کیا گیا ہے ‘ یہاں اور سورة آل عمران کی آیات 35۔ 63 میں ‘ یہاں یہ ذکر حضرت زکریا(علیہ السلام) کی دعا اور حضرت یحییٰ کی پیدائش کے بیان سے شروع ہوا ہے اور انا جیل اربعہ میں سے سینٹ لوقا کی انجیل ٹھیک ٹھیک اسی طرح یہ تذکرہ شروع کرتی ہے۔ لیکن سورة آل عمران میں یہ تذکرہ اس سے بھی پیشتر کے ایک واقعہ سے شروع ہوتا ہے ‘ یعنی حضرت مریم کی پیدائش اور ہیکل میں پرورش پانے کے واقعہ سے اور اس بارہ میں چاروں انجیلیں خاموش ہیں لیکن انیسویں صدی میں متروک اناجیل کا جو نسخہ ویٹیکان کے کتب خانہ سے برآمد ہوااس نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی پیدائش کا یہ مفقود ٹکڑا مہیا کر دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم چوتھی صدی کے اوائل تک سرگزشت کا یہ ٹکڑا بھی اسی طرح الہامی یقین کیا جاتا تھا جس طرح بقیہ ٹکڑے یقین کیے جاتے ہیں۔ “ [20]

ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول یہ ہے کہ ایشاع (الیشیع) مریم (علیہا السلام) کی ہمشیرہ تھیں اور حدیث معراج میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیسیٰ اور یحییٰ (علیہما السلام) کے متعلق یہ فرما کر ” وَھُمَا اِبْنَا خَالَۃٍ “ جو رشتہ ظاہر فرمایا ہے اس سے بھی جمہور کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
لیکن جمہور کا یہ قول قرآن عزیز اور تاریخ دونوں کے خلاف ہے اس لیے کہ قرآن نے مریم (علیہا السلام) کی ولادت کے واقعہ کو جس اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے وہ صاف بتارہا ہے کہ عمران اور حنہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی ولادت سے قبل اولاد سے قطعاً محروم تھیں یہی وجہ ہے کہ حنہ نے مریم (علیہا السلام) کی ولادت پر یہ نہیں کہا ” خدایا ! میرے تو پہلے بھی ایک لڑکی موجود تھی ‘ اب تونے دوبارہ بھی لڑکی ہی عطا فرمائی “ بلکہ درگاہ الٰہی میں یہ عرض کیا جس شکل میں میری دعا تونے قبول فرمائی ہے اس کو حسب وعدہ تیری نذر کیسے کروں نیز توراۃ اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی کہیں یہ ثابت نہیں کہ عمران اور حنہ کے مریم (علیہا السلام) کے ماسوا کوئی اور اولاد بھی تھی بلکہ اس کے برعکس تاریخ یہود اور اسرائیلیات کا مشہور قول یہ ہے کہ الیشاع مریم (علیہا السلام) کی خالہ تھیں۔ دراصل جمہور کی جانب منسوب یہ قول صرف حدیث معراج کے مسطورہ بالا جملہ کے پیش نظر ظہور میں آیا ہے حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ” وَھُمَا اِبْنَا خَالَۃٍ “ ” وہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں “ مجاز متعارف کی شکل میں ہے یعنی آپ نے بہ طریق توسع والدہ کی خالہ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی خالہ فرمایا ہے اور اس قسم کا توسع عام بول چال میں شائع و ذائع ہے۔ علاوہ ازیں ابن کثیر ؒ کا اس کو ” قول جمہور “ کہنا بھی محل نظر ہے اس لیے کہ محمد بن اسحاق ‘ اسحاق بن بشر ‘ ابن عساکر ‘ ابن جریر اور ابن حجر رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر اصحاب حدیث و سیر کا رجحان اس جانب ہے کہ ایشاع حنہ کی ہمشیرہ اور مریم (علیہا السلام) کی خالہ ہیں ‘ حنہ کی بیٹی نہیں ہیں۔

مریم (علیہا السلام) کا زہد وتقویٰ

[ترمیم]

مریم (علیہا السلام) شب و روز عبادت الٰہی میں رہتیں اور جب خدمت ہیکل کے لیے ان کی نوبت آتی تو اس کو بھی بخوبی انجام دیتی تھیں حتیٰ کہ ان کا زہد وتقویٰ بنی اسرائیل میں ضرب المثل بن گیا اور ان کی زہادت و عبادت کی مثالیں دی جانے لگیں۔

مقبولیت خداوندی

[ترمیم]

زکریا(علیہ السلام) مریم (علیہا السلام) کی ضروری نگہداشت کے سلسلہ میں کبھی کبھی ان کے حجرہ میں تشریف لے جایا کرتے تھے لیکن ان کو یہ بات عجیب نظر آتی کہ جب وہ خلوت کدہ میں داخل ہوتے تو مریم (علیہا السلام) کے پاس اکثر بے موسم کے تازہ پھل موجود پاتے۔ یہ تفصیل اگرچہ تفسیری روایات سے ماخوذ ہے اور آیت میں صرف لفظ ” رِزِق “ آیا ہے لیکن آیت سے بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ مریم کا یہ رزق انسانی دادودہش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ بطور کرامت من جانب اللہ تھا۔ آخر زکریا(علیہ السلام) سے رہا نہ گیا اور انھوں نے دریافت کیا : مریم تیرے پاس یہ بے موسم پھل کہاں سے آتے ہیں ؟ مریم (علیہا السلام) نے فرمایا : ” یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے ‘ وہ جس کو چاہتا ہے بے گمان رزق پہنچاتا ہے۔“ حضرت زکریا(علیہ السلام) نے یہ سنا تو سمجھ گئے کہ خدا کے یہاں مریم (علیہا السلام) کا خاص مقام اور مرتبہ ہے اور ساتھ ہی بے موسم تازہ پھلوں کے واقعہ نے دل میں تمنا پیدا کردی جس خدا برتر نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ پھل بے موسم پیدا کر دیے ‘وہ میرے بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود مجھ کو بے موسم پھل (بیٹا) عطا نہ کرے گا ؟ یہ سوچ کر انھوں نے خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ ربانی میں دعا کی اور وہاں سے شرف قبولیت کا مژدہ عطا ہوا :
{ وَ کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ } [21]
” اور اس (مریم) کی کفالت زکریانے کی ‘ جب اس (مریم) کے پاس زکریاداخل ہوتے تو اس کے پاس کھانے کی چیزیں رکھی پاتے۔ زکریانے کہا : ” اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں “ مریم نے کہا ” یہ اللہ کے پاس سے آئی ہیں ‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بے گمان رزق دیتا ہے۔ “
مریم (علیہا السلام) اسی طرح ایک عرصہ تک اپنے مقدس مشاغل کے ساتھ پاک زندگی بسر کرتی رہیں اور مقدس ہیکل کا سب سے مقدس مجاور حضرت زکریا(علیہ السلام) بھی ان کے زہد وتقویٰ سے بے حد متاثر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت اور جلالت قدر کو اور زیادہ بلند کیا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کو برگزیدہ بارگاہ الٰہی ہونے کی یہ بشارت سنائی :
{ وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَ طَھَّرَکِ وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ۔ یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِیْ وَ ارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ } [22]
” (اے پیغمبر وہ وقت یاد کیجئے) جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بزرگی دی اور پاک کیا اور دنیا کی عورتوں پر تجھ کو برگزیدہ کیا ‘ اے مریم ! اپنے پروردگار کے سامنے جھک جا اور سجدہ ریز ہوجا اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز ادا کر۔ “
{ وَ مَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَ مَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ } [23]
” اور تم اس وقت ان کاہنوں کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنی قلموں (پوروں) کو قرعہ اندازی کے لیے ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے اور تم اس وقت (بھی) موجود نہ تھے جب وہ اس کی کفالت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ “
حضرت مریم (علیہا السلام) جبکہ نہایت مرتاض ‘ عابد و زاہد اور تقویٰ و طہارت میں ضرب المثل تھیں اور جبکہ عنقریب ان کو جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہونے والا تھا تو من جانب اللہ ان کی تقدیس و تطہیر کا یہ اعلان بلاشبہ حق بہ حقدار رسید کا مصداق ہے ‘تاہم علمی اور تاریخی اعتبار سے بلکہ خود قرآن و حدیث کے مفہوم کے لحاظ سے یہ مسئلہ قابل توجہ ہے کہ آیت { وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ } [24] کی مراد کیا ہے اور کیا درحقیقت حضرت مریم (علیہا السلام) کو بغیر کسی استثناء کے کائنات کی تمام عورتوں پر برتری اور فضیلت حاصل ہے ؟ اور یہی نہیں بلکہ اس آیت فضیلت نے مریم (علیہا السلام) کی ذات سے متعلق علمائے سلف میں چند اہم مسائل کو زیر بحث بنادیا ہے مثلاً کیا عورت نبی ہو سکتی ہے ؟ ! کیا حضرت مریم (علیہا السلام) نبی تھیں ؟ " اگر نبی نہیں تھیں تو آیت کے جملہ { وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ } [25] کا مطلب کیا ہے ؟

کیا عورت نبی ہو سکتی ہے،

[ترمیم]

محمد بن اسحاق شیخ ابو الحسن اشعریؒ ‘ قرطبی ؒ‘ ابن حزم ؒ(نور اللہ مرقدہم) اس جانب مائل ہیں کہ عورت نبی ہو سکتی ہے بلکہ ابن حزم ؒتو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت حواؑ ‘ سارہؑ ‘ ہاجرہ ؑ‘ ام موسیٰ ؑ‘ آسیہ اور مریم (علیہن السلام) یہ سب نبی تھیں ‘ اور محمد بن اسحاقؒ کہتے ہیں کہ اکثر فقہا اس کے قائل ہیں کہ عورت نبی ہو سکتی ہے اور قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ مریم (علیہا السلام) نبی تھیں۔ ان حضرات کے اقوال کے برعکس خواجہ حسن بصری ‘ امام الحرمین شیخ عبد العزیز اور قاضی عیاض (نور اللہ مرقدہم) کا رجحان اس جانب ہے کہ عورت نبی نہیں ہو سکتی اور اس لیے مریم (علیہا السلام) بھی نبی نہیں تھیں۔ قاضی عیاض اور ابن کثیر یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہور کا مسلک یہی ہے اور امام الحرمین تو اجماع تک دعویٰ کرتے ہیں۔ جو علما یہ فرماتے ہیں کہ عورت نبی نہیں بن سکتی وہ اپنی دلیل میں اس آیت کو پیش کرتے ہیں : { وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ } [26]
” اور تم سے پہلے ہم نے نہیں بھیجے مگر مرد کہ وحی بھیجتے تھے ہم ان کی طرف “
اور خصوصیت کے ساتھ حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے انکار پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ قرآن عزیز نے ان کو ” صِدِّیْقَہ “ کہا ہے ‘ سورة مائدہ میں ہے :
{ مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّارَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَ اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ} [27]
” بس ابن مریم تو ایک پیغمبر ہیں جن سے پہلے اور بھی پیغمبر گذر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ تھیں۔
“ اور سورة نساء میں قرآن عزیز نے ” مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ “ کی جو فہرست دی ہے وہ اس کے لیے نص قطعی ہے کہ ” صِدِّیْقِیَتْ “ کا درجہ ” نبوت “ سے کم اور نازل ہے۔اور جو حضرات عورت کے نبی ہونے کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن عزیز نے حضرت سارہ ‘ ام موسیٰ اور حضرت مریم علیہن السلام کے متعلق جن واقعات کا اظہار کیا ہے ان میں بصراحت موجود ہے کہ ان پر خدا کے فرشتے وحی لے کر نازل ہوئے اور ان کو منجانب اللہ بشارات سے سرفراز فرمایا اور ان تک اپنی معرفت اور عبادت کا حکم پہنچایا ‘ چنانچہ حضرت سارہ کے لیے سورة ہود اور سورة الذاریات میں اور ام موسیٰ کے لیے سورة قصص میں اور مریم (علیہا السلام) کے لیے آل عمران اور سورة مریم میں بواسطہ ملائکہ اور بلاواسطہ خطاب الٰہی موجود ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان مقامات پر وحی کے لغوی معنی (وجدانی ہدایت یا مخفی اشارہ) کے نہیں ہیں جیسا کہ آیت :
{ وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ } [28] میں شہد کی مکھی کے لیے وحی کا اطلاق کیا گیا ہے۔
اور خصوصیت کے ساتھ حضرت مریم (علیہا السلام) کے نبی ہونے کی یہ واضح دلیل ہے کہ سورة مریم میں ان کا ذکر اسی اسلوب کے ساتھ کیا گیا ہے جس طریقہ پر دیگر انبیا و رسل کا تذکرہ کیا ہے ‘ مثلاً :
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مُوْسٰٓی } (مریم : 19/51)
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ } (مریم : 19/54)
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ } (مریم : 19/16)
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ } (مریم : 19/56)
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ } (مریم : 19/41)
{ فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْحَنَا } (مریم : 19/17)
ہم نے مریم ؑ کی جانب اپنے فرشتہ جبرائیل کو بھیجا “ یا مثلاً
{ قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ } [29]
” میں بلاشبہ تیرے پروردگار کی جانب سے پیغامبر ہوں “
نیز آل عمران میں مریم (علیہا السلام) کو ملائکۃ اللہ نے جس طرح خدا کی جناب سے پیغامبر بن کر خطاب کیا ہے وہ بھی اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے۔ اور مریم (علیہا السلام) کے ” صدیقہ “ ہونے سے متعلق جو سوال ہے اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر قرآن نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو ” صدیقہ “ کہا ہے تو یہ لقب ان کی شان نبوت کے اسی طرح منافی نہیں ہے جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مسلم نبی ہونے کے باوجود آیت یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ میں ان کا صدیق ہونا ان کے نبی ہونے کو مانع نہیں ہے بلکہ ذکرپاک مقامی خصوصیت کی بنا پر مذکور ہوا ہے ‘ کیونکہ جو ” نبی “ ہے وہ بہرحال ” صدیق “ ضرور ہے البتہ اس کا عکس ضروری نہیں ہے۔
ان علمائے اسلام کی ترجمانی جس تفصیل کے ساتھ ” کتاب الفصل “ میں مشہور محدث ابن حزم ؒ نے کی ہے اس تفصیل و قوت کے ساتھ دوسری جگہ نظر سے نہیں گذری اس لیے سطور ذیل میں اس پورے مضمون کا ترجمہ لائق مطالعہ ہے :

نبوۃ النساء اور ابن حزمؒ

[ترمیم]

یہ فصل ایسے مسئلہ کے متعلق ہے جس پر ہمارے زمانہ میں قرطبہ (اندلس) میں شدید اختلاف بپا ہوا ‘ علما کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت نبی نہیں ہو سکتی اور جو ایسا کہتا ہے کہ عورت نبی نہیں ہو سکتی ہے وہ ایک نئی بدعت ایجاد کرتا ہے اور دوسری جماعت قائل ہے کہ عورت نبی ہو سکتی ہے اور نبی ہوئی ہیں ‘ اور ان دونوں سے الگ تیسری جماعت کا مسلک توقف ہے اور وہ اثبات و نفی دونوں باتوں میں سکوت کو پسند کرتے ہیں۔ مگر جو حضرات عورت سے متعلق منصب نبوت کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس اس انکار کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی البتہ بعض حضرات نے اپنے اختلاف کی بنیاد اس آیت کو بنایا ہے :
{ وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ } [30]
میں کہتاہوں کہ اس بارے میں کس کو اختلاف ہے اور کس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عورت کو ہدایت خلق کے لیے رسول بناکر بھیجتا ہے یا اس نے کسی عورت کو ” رسول “ بنایا ہے ‘ بحث رسالت کے مسئلہ میں نہیں ہے بلکہ نبوت میں ہے ‘ پس طلب حق کے لیے ضروری ہے کہ اول یہ غور کیا جائے کہ لغت عرب میں لفظ ” نبوت “ کے کیا معنی ہیں ؟ تو ہم اس لفظ کو ” اِنْبَائِ “ سے ماخوذ پاتے ہیں جس کے معنی ” اطلاع دینا “ ہیں ‘پس نتیجہ یہ نکلتا ہے جس شخص کو اللہ تعالیٰ کسی معاملہ کے ہونے سے قبل بذریعہ وحی اطلاع دے یا کسی بھی بات کے لیے اس کی جانب وحی نازل فرمائے وہ شخص مذہبی اصطلاح میں بلاشبہ ” نبی “ ہے۔ آپ اس مقام پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وحی کے معنی اس الہام کے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کی سرشت میں ودیعت کر دیا ہے جیسا کہ شہد کی مکھی کے متعلق خدائے برحق کا ارشاد ہے۔ { وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ } [31]

اور نہ وحی کے معنی ظن اور وہم کے لے سکتے ہیں اس لیے کہ ان دونوں کو ” علم یقین “ سمجھنا (جو وحی کا قدرتی نتیجہ ہے) مجنوں کے سوا اور کسی کا کام نہیں ہے۔ نہ یہاں وہ معنی مراد ہو سکتے ہیں جو ” باب کہانت “ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی یہ کہ شیاطین آسمانی باتوں کو سننے اور چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر شہاب ثاقب کے ذریعہ رجم کیا جاتا ہے اور جس کے متعلق قرآن یہ کہتا ہے : { شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا } [32] کیونکہ یہ ” باب کہانت “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کے وقت سے مسدود ہو گیا۔ اور نہ اس جگہ وحی کے معنی نجوم کے تجربات علمیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو خود انسانوں کے باہم سیکھنے اور سکھانے سے حاصل ہوجایا کرتے ہیں اور نہ اس کے معنی رؤیا (خواب) کے ہو سکتے ہیں۔جن کے سچ یا جھوٹ ہونے کا کوئی علم نہیں ہے بلکہ ان تمام معانی سے جدا ” وحی بمعنی نبوت “ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے قصد اور ارادہ سے ایک شخص کو ایسے امور کی اطلاع دے جن کو وہ پہلے سے نہیں جانتا اور مسطورہ بالا ذرائع علم سے الگ یہ امور حقیقت ثابتہ بن کر اس شخص پر اس طرح منکشف ہوجائیں گویا آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس علم خاص کے ذریعہ اس شخص کو بغیر کسی محنت و کسب کے بداہۃً ایسا صحیح یقین عطا کر دے کہ وہ ان امور کو اس طرح معلوم کرلے جس طرح وہ حواس اور بداہت عقل کے ذریعہ حاصل کر لیا کرتا ہے اور اس کو کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اور خدا کی یہ وحی یا تو اس طرح ہوتی ہے کہ فرشتہ آ کر اس شخص کو خدا کا پیغام سناتا ہے اور یا اس طرح کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اس سے خطاب کرتا ہے۔ پس اگر ان حضرات کے نزدیک جو عورت کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں ‘ تو وہ ہم کو سمجھائیں کہ آخر نبوت کے معنی ہیں کیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے ماسوا اور کوئی معنی بیان ہی نہیں کرسکتے۔ اور جب کہ نبوت کے معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کیے۔ تو اب قرآن کے ان مقامات کو بغور مطالعہ کیجئے جہاں یہ مذکور ہے کہ اللہ عزوجل نے عورتوں کے پاس فرشتوں کو بھیجا اور فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان عورتوں کو ” وحی حق “ سے مطلع کیا چنانچہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ام اسحاق (سارہ ؑ) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی بشارت سنائی ‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
{ وَ امْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِاِسْحٰقَلا وَ مِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۔ قَالَتْ یٰوَیْلَتٰٓی ئَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عَجِیْبٌ۔ قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ } [33] ان آیات میں فرشتوں نے ام اسحاق کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسحاق اور ان کے بعد یعقوب (علیہما السلام) کی بشارت سنائی ہے اور سارہ [ کے تعجب پر یہ کہہ کر دوبارہ خطاب کیا ہے { اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ } [34] تو یہ کیسے ممکن ہے کہ والدہ اسحاق (سارہ [) نبی تو نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ اس طرح ان سے خطاب کرے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جبرائیل فرشتہ کو مریم (ام عیسیٰ ) کے پاس بھیجتا ہے اور ان کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے :
{ قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا } [35]
تو یہ ” وحی حقیقی “ کے ذریعہ نبوت نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور کیا اس آیت میں صاف طور پر نہیں کہا گیا ہے کہ مریم (علیہا السلام) کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیامبر بن کر آئے ؟ نیز زکریا(علیہ السلام) جب مریم (علیہا السلام) کے حجرہ میں آئے تو ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا غیب سے دیا ہوا رزق پاتے تھے۔ اور انھوں نے اسی رزق کو دیکھ کر بارگاہ الٰہی میں صاحب فضیلت لڑکا پیدا ہونے کی دعا کی تھی ‘ اسی طرح ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے معاملہ میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل فرمائی کہ تم اپنے اس بچہ کو دریا میں ڈال دو اور ساتھ ہی ان کو اطلاع دی کہ میں اس کو تمھاری جانب واپس کروں گا اور اس کو ” نبی مرسل “ بناؤں گا ‘ پس کون شک کرسکتا ہے کہ یہ ” نبوت “ کا معاملہ نہیں ہے۔معمولی عقل و شعور رکھنے والا آدمی بھی بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا یہ عمل اللہ کے عطاکردہ شرف نبوت سے وابستہ نہ ہوتا اور محض خواب کی بنا پر یا دل میں پیدا شدہ وسوسہ کی وجہ سے وہ ایسا کرتیں تو ان کا یہ عمل نہایت ہی مجنونانہ اور متہورانہ ہوتا اور اگر آج ہم میں سے کوئی ایسا کر بیٹھے تو ہمارا یہ عمل یا گناہ قرار پائے گا اور یا ہم کو مجنوں اور پاگل کہا جائے گا اور علاج کے لیے پاگل خانہ بھیج دیا جائے گا ‘ یہ ایک ایسی صاف اور واضح بات ہے جس میں شک و شبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تب یہ کہنا قطعاً درست ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دینا اسی طرح وحی الٰہی کی بنا پر تھا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے رویا (خواب) میں اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کا ذبح کرنا بذریعہ وحی معلوم کر لیا تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبی نہ ہوتے اور ان کے ساتھ وحی الٰہی کا سلسلہ وابستہ نہ ہوتا اور پھر وہ یہ عمل محض ایک خواب یا نفس میں پیدا شدہ ظن کی وجہ سے کر گزرتے تو ہر شخص ان کے اس عمل کو یا گناہ سمجھتا یا انتہائی جنون یقین کرتا تو اب بغیر کسی تردد کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ام موسیٰ ؑ نبی تھیں۔
علاوہ ازیں حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت پر ایک یہ دلیل بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورة مریم میں ان کا ذکرانبیاء (علیہم السلام) کے زمرہ میں کیا ہے اور اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے : { اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَق وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ } [36]
” یہی ہیں وہ انبیا آدم کی نسل سے اور ان میں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا جن پر اللہ کا انعام و اکرام ہوا۔ “
تو آیت کے اس عموم میں مریم (علیہا السلام) کی تخصیص کرکے ان کو انبیا کی فہرست میں سے الگ کرلینا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ رہی یہ بات کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مریم (علیہا السلام) کے لیے یہ کہا ” وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ“ تو یہ لقب ان کی نبوت کے لیے اسی طرح مانع نہیں جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے نبی اور رسول ہونے کے لیے یہ آیت مانع نہیں ” یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ “ اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ (وباللّٰہ التوفیق) اب حضرت سارہ ‘ حضرت مریم ‘ حضرت ام موسیٰ علیہن السلام کے مسئلہ نبوت کے ساتھ فرعون کی بیوی (آسیہ) کو بھی شامل کرلیجئے ‘ اس لیے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
( (کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَائِ اِلَّا مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آِسَیُۃ بِنْتُ مَزَاحِمٍ اِمْرَائَۃُ فِرْعَوْنَ (اَوْکَمَا قَالَ (علیہ السلام))
بخاری میں الفاظ حدیث یہ ہیں : ( (قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا آسیۃ امرأۃ فرعون و مریم بنت عمران وان فضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی سائر الطعام)) [37] ” یعنی مردوں میں سے تو بہت آدمی کامل ہوئے ہیں مگر عورتوں میں سے صرف دو ہی کامل ہوئیں : مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون۔ “
اور واضح رہے کہ مردوں میں یہ درجہ کمال بعض رسولوں ہی کو حاصل ہوا ہے اور اگرچہ ان کے علاوہ انبیا و رسل بھی درجہ نبوت و رسالت پر مامور ہیں لیکن ان مرسلین کاملین کے درجہ سے نازل ہیں ‘ اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن عورتوں کو منصب نبوت سے سرفراز فرمایا ہے۔ ان میں صرف دو عورتوں کو ہی درجہ کمال تک پہنچنے کی فضیلت حاصل ہے کیونکہ حدیث میں جس درجہ کمال کا ذکر ہو رہا ہے جو ہستی بھی اس درجہ سے نازل ہے وہ کامل نہیں ہے۔ بہرحال اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ بعض عورتیں بہ نص قرآن نبی ہیں لیکن ان میں سے ان دو عورتوں کو بھی درجہ کمال حاصل ہوا ہے۔ درجات کے اس فرق کو خود قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے : { تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ } [38] نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایک حدیث میں ایسا ہی فرمایا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کامل اس کو کہا جاتا ہے جس کی نوع میں سے کوئی دوسرا اس کا ہمسر نہ ہو ‘ پس مردوں میں سے ایسے کامل خدا کے چند ہی رسول ہوئے ہیں جن کی ہمسری دوسرے انبیا و رسل کو عطا نہیں ہوئی اور بلاشبہ انھی کاملین میں سے ہمارے پیغمبر ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اور ” ابراہیم ؑ “ ہیں۔جن کے متعلق نصوص (قرآن و حدیث) نے ان فضائل کمال کا اظہار کیا ہے جو دوسرے انبیا و رسل کو حاصل نہیں ہیں ‘ البتہ اسی طرح عورتوں میں سے وہی درجہ کمال کو پہنچی ہیں جن کا ذکر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں کیا ہے۔ “ [39] ابن حزم ؒ کے اس طویل مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر وحی کے ان معانی کو نظر انداز کرکے ” جن کا اطلاق بلحاظ عموم لغت جبلت یا نفس میں ظن و وہم کے درجہ کا القاء والہام پر ہوتا ہے “ وہ اصطلاحی معنی لیے ہیں جن کو قرآن نے انبیا و رسل کے لیے مخصوص کیا ہے۔ تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک وہ (وحی) جس کا منشا مخلوق خدا کی رشد و ہدایت اور تعلیم اوامرو نواہی سے ہو۔ اور دوسری یہ کہ خدائے تعالیٰ کسی شخص سے براہ راست یا فرشتہ کے واسطہ سے اس قسم کا خطاب کرے جس سے بشارات دینا ‘ کسی ہونے والے واقعہ کی ہونے سے قبل اطلاع دینا ‘ یا خاص اس کی ذات کے لیے کوئی امر و نہی فرمانا مقصود ہو ‘اب اگر پہلی صورت ہے تو یہ ” نبوۃ مع الرسالۃ “ ہے۔( یہاں نبی اور رسول کے اس فرق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ‘ جو علم کلام کی خاص اصطلاح ہے کیونکہ قرآن کثرت کے ساتھ نبی اور رسول کو مرادف معنی میں استعمال کرتا ہے۔) اور بالاتفاق سب کے نزدیک یہ درجہ صرف مردوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے جیسا کہ سورة النحل کی آیت سے واضح ہے اور اس مسئلہ میں قطعاً دورائے نہیں ہیں۔ اور اگر وحی الٰہی کی دوسری شکل ہے تو ابن حزم اور ان کے مویدین علما کی رائے میں یہ بھی نبوت ہی کی ایک قسم ہے۔
کیونکہ قرآن عزیز نے سورة شورٰی میں انبیا (علیہم السلام) پر نزول وحی کے جو طریقے بیان کیے ہیں وہ اس وحی پر بھی صادق آتے ہیں۔ سورة شورٰی میں ہے :
{ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَایِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَائُط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ} [40]
” اور کسی انسان کے لیے یہ صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے (بالمُشافہ) گفتگو کرے مگر یا وحی کے ذریعہ یا پس پردہ کلام کے ذریعہ اور یا اس صورت سے کہ اللہ کسی فرشتہ کو پیغامبر بنا کر بھیجے ! اور اس کی اجازت سے جس کو کہ وہ چاہے اس بشر کو وحی لا کر سنا دے بلاشبہ وہ بلند وبالا حکمت والا ہے۔ “
اور جبکہ قرآن نے وحی کی اس دوسری قسم کا اطلاق بہ نص صریح حضرت مریم ‘ حضرت سارہ ‘ حضرت ام موسیٰ اور حضرت آسیہ (علیہن السلام) پر کیا ہے جیسا کہ سورة ہود ‘ قصص اور مریم سے ظاہر ہوتا ہے تو ان مقدس عورتوں پر ” نبی کا اطلاق “ قطعاًصحیح ہے اور اس کو بدعت کہنا سر تا سر غلط ہے۔ ابن حزم (رح) کے مؤید علما نے اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے اس شبہ کا جواب بھی دیا ہے کہ قرآن نے جس طرح صاف الفاظ میں مرد انبیا کو نبی اور رسول کہا ہے اس طرح ان عورتوں میں سے کسی کو نہیں کہا “ جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبکہ ” نبوۃ مع الرسالۃ “ جو مردوں کے لیے ہی مخصوص ہے کائنات انسانی کی رشد و ہدایت اور تعلیم و تبلیغ نوع انسانی سے متعلق ہوتی ہے۔ تو اس کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو اس شرف سے ممتاز فرمایا ہے اس کے متعلق وہ صاف صاف اعلان کرے کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا نبی اور رسول ہے ‘ تاکہ امت پر اس کی دعوت و تبلیغ کا قبول کرنا لازم ہوجائے اور خدا کی حجت پوری ہو اور چونکہ نبوت کی وہ قسم جس کا اطلاق عورتوں پر بھی ہوتا ہے خاص اس ہستی سے وابستہ ہوتی ہے جس کو یہ شرف ملا ہے تو اس کے متعلق صرف یہی اظہار کردینا کافی ہے کہ جو ” وحی من اللہ “ انبیا و رسل کے لیے ہی مخصوص ہے اس سے ان چند عورتوں کو بھی مشرف کیا گیا ہے۔
عورتوں کی نبوت کے اثبات و انکار کے علاوہ تیسری رائے ان علما کی ہے جو اس مسئلہ میں ” سکوت اور توقف “ کو ترجیح دیتے ہیں ان میں شیخ تقی الدین سبکی ؒ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ‘ فتح الباری میں ان کا یہ قول مذکور ہے :
( (قَالَ السَّبُکِیُّ اُخْتُلِفَ فِیْ ھَذِہٖ الْمَسْئَلَۃِ وَلَمْ یَصِحَّ عِنْدِیْ فِیْ ذَلِکَ شَیْئٌ الخ) )
[41] ” سبکی فرماتے ہیں اس مسئلہ میں علما کی آراء مختلف ہیں اور میرے نزدیک اس بارے میں اثباتاً یانفیاً کوئی بات ثابت نہیں ہے۔ “

کیا حضرت مریم (علیہا السلام) نبی ہیں ؟

[ترمیم]

اس تفصیل سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نبوت کے انکار پر امام الحرمین کا دعوائے اجماع صحیح نہیں ہے نیز یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فہرست انبیا میں مسطورہ بالا دوسری مقدس عورتوں کے مقابلہ میں حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے متعلق قرآنی نصوص زیادہ واضح ہیں ‘یہی وجہ ہے کہ امام شعرانی ‘ ابن حزم اور قرطبی (رحمہم اللہ) کے درمیان مریم (علیہا السلام) کے علاوہ نبی ات کی فہرست کے بارے میں خاصہ اختلاف نظر آتا ہے اور حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے متعلق تمام مثبتین نبوت کا اتفاق ہے۔[42] ہم کو ابن کثیر ؒ کے اس دعویٰ سے بھی اختلاف ہے کہ جمہور انکار کی جانب ہیں ‘ البتہ اکثریت غالباً سکوت اور توقف کو پسند کرتی ہے۔ آیت { وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ } [43] کا مطلب جو علما عورتوں میں نبوت کے قائل ہیں اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو نبی تسلیم کرتے ہیں ‘ ان کے مسلک کے مطابق تو آیت { وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ } کا مطلب صاف اور واضح ہے وہ یہ کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو کائنات کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ‘جو عورتیں نبی نہیں ہیں ان پر اس لیے کہ مریم (علیہا السلام) نبی ہیں اور جو عورتیں نبی ہیں ان پر اس لیے کہ وہ ان قرآنی نصوص کے پیش نظر جو ان کے فضائل و کمالات سے تعلق رکھتی ہیں باقی نبی اس پر برتری رکھتی ہیں۔ لیکن جو علما عورتوں کی نبوت کا انکار فرماتے ہیں اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو ” نبیہ “ نہیں تسلیم کرتے وہ اس آیت کی مراد میں دو جدا جدا خیال رکھتے ہیں ‘ بعض کہتے ہیں کہ آیت کا جملہ نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ عام ہے اور ماضی ‘ حال اور مستقبل کی تمام عورتوں کو شامل ہے۔ اس لیے بلاشبہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو بغیر کسی استثناء کے کائنات انسانی کی تمام عورتوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے اور اکثر کا قول یہ ہے کہ آیت کے لفظ ” العالمین “ سے کائنات کی وہ تمام عورتیں مراد ہیں جو حضرت مریم (علیہا السلام) کی معاصر تھیں۔یعنی قرآن عزیز حضرت مریم (علیہا السلام) کے زمانہ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بشارت دی کہ وہ اپنے زمانہ کی تمام عورتوں میں برگزیدہ اور صاحب کمال ہیں اور ہم نے ان سب میں سے ان کو چن لیا ہے اور ” العٰلمین “ کا یہ اطلاق وہی حیثیت رکھتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت (بنی اسرائیل) کے لیے اس آیت میں اختیار کی گئی ہے :
{ وَلَقَدِ اخْتَرْنَاہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } [44]
” اور بلاشبہ ہم نے اپنے علم سے ان (بنی اسرائیل) کو جہان والوں کے مقابلہ میں پسند کر لیا ہے “
اور جبکہ باتفاق آراء بنی اسرائیل کی فضیلت کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ” العٰلمین “ سے ان کی معاصر امم و اقوام مراد ہیں کہ ان میں سے امت موسیٰ (علیہ السلام) کو فضیلت حاصل ہے تو حضرت مریم (علیہا السلام) کی فضیلت کے باب میں بھی یہی معنی مراد لینے چاہئیں۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کا تقدس اور تقویٰ و طہارت ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر کی والدہ ہونے کا شرف ‘ مرد کے ہاتھ لگائے بغیر معجزہ کے طور پر ان کے مشکوئے معلی سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت بلاشبہ ایسے امور ہیں جن کی بدولت ان کو معاصر عورتوں پر فضیلت و برتری حاصل تھی۔ پھر یہ حقیقت بھی فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ باب فضیلت ایک وسیع باب ہے اور جس طرح کسی شے کی حقیقت بیان کرنے میں بلیغ اور عمدہ طریق بیان یہ ہے کہ وہ جامع و مانع ہو یعنی اس کی حقیقت پر اس طرح حاوی ہو کہ تمام دوسری چیزوں سے ممتاز ہوجائے ‘نہ ایسی کمی رہ جائے کہ اصل حقیقت پوری طرح بیان نہ ہو سکے اور نہ ایسا اضافہ کرے کہ بعض دوسری حقائق بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں ‘ اسی طرح اس کے برعکس بیان فضیلت کے لیے فصاحت و بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو بیان حقیقت کی طرح حدود وقیود میں نہ جکڑ دیا جائے۔کیونکہ اس مقام پر حقیقت شے نہیں بلکہ فضیلت شے کا اظہار ہو رہا ہے جو اگر اسی طرح کے دوسرے افراد پر بھی صادق آجائے تو بیان حقیقت کی طرح اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا بلکہ اس موقع پر وسعت بیان ہی از بس ضروری ہوتا ہے تاکہ مخاطب کے دل میں اظہار فضیلت سے جو نفسیاتی اثر پیدا کرنا ہے وہ دل نشین اور موثر ہو سکے۔ تو ایسی صورت میں عَلٰی نِسَائِ الْعٰلَمِیْنَ کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے علاوہ دوسری کوئی مقدس عورت اس شرف کو نہیں پہنچ سکتی یا نہیں پہنچی ‘ بلکہ یہ مطلب ہوگا کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو فضائل و کمالات میں بلند مرتبہ حاصل ہے ‘باب فضائل کی یہی وہ حقیقت ہے جس کے فراموش کردینے پر فضائل صحابہ (رض) و رضوا عنہ وغیرہ میں اکثر ہم کو لغزش ہوجاتی اور چند مقدس اشخاص سے متعلق فضائل کے مابین تضاد و تناقض نظر آنے لگتا ہے ‘ البتہ ان فضائل کی حدود سے گذر کر جب ہم صاحب فضائل افراد کے انفرادی و اجتماعی اعمال کا جائزہ لے کر فرق مراتب بیان کرتے ہیں تو وہ ضرور ایک دوسرے کے لیے حد فاصل ثابت ہوتے ہیں۔مثلاً حضرات صحابہ وصحابیات کے فضائل کے پیش نظر فرق مراتب کا صحیح فیصلہ جبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ ان کے ان فضائل کے ساتھ ساتھ جو زبان وحیٔ ترجمان سے نکلے ہیں ان سے متعلق خصوصی ارشادات قرآنی وحدیثی ‘ان کی اسلامی خدمات ‘ اسلام سے متعلق ان کی سر فروشیاں و جاں سپاریاں ‘ نصرت حق میں مالی فدا کاریاں ‘ اسلام کے نازک ترین لمحات میں ان کے علم و تدبر کی عقدہ کشائیاں اور ان کی عملی جدوجہد کی رفیع سرگرمیاں ان سب کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور بشارات کتب سابقہ

[ترمیم]

ادیان و ملل کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین حق اور ملت بیضاء کی تبلیغ و دعوت کا سلسلہ اگرچہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک برابر جاری رہا ہے لیکن اس سلسلہ کو مزید قوت پہنچانے اور سر بلند کرنے کے لیے سنت اللہ یہ رہی ہے کہ صدیوں بعد ایک ایسے اولوالعزم اور جلیل القدر پیغمبر کو بھیجے جو امتداد زمانہ کی وجہ سے پیدا شدہ عام روحانی اضمحلال کو دور کرکے قبول حق کے افسردہ رجحانات میں تازگی بخشے اور ضعیف روحانی عواطف کو قوی سے قوی تر بنادے ‘گویا مذہب کی خوابیدہ دنیا میں حق و صداقت کا صور پھونک کر ایک انقلاب عظیم بپا کر دے اور مردہ دلوں میں نئی روح ڈال دے اور اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ جن اقوام و امم میں اس عظیم المرتبہ پیغمبر کی بعثت ہونے والی ہوتی ہے۔صدیوں پہلے ان کے ہادیان ملت اور داعیان حق (انبیا (علیہم السلام)) اس مقدس رسول کی آمد کی بشارات وحی الٰہی کے ذریعہ سناتے رہتے ہیں تاکہ اس کی دعوت حق کے لیے زمین ہموار رہے اور جب اس نور حق کے روشن ہونے کا وقت آجائے تو ان اقوام و امم کے لیے اس کی آمد غیر متوقع حادثہ نہ بن جائے۔حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان چند اولوالعزم ‘ جلیل القدر اور مقدس رسولوں میں سے ایک ہیں اور اسی بنا پر انبیا بنی اسرائیل میں سے متعدد انبیا (علیہم السلام) ان کی آمد سے قبل ان کے حق میں منادی کرتے اور آمد کی بشارت سناتے نظر آتے ہیں اور انھی بشارات کی وجہ سے بنی اسرائیل مدت مدید سے منتظر تھے کہ مسیح موعود کا ظہور ہو تو ایک مرتبہ وہ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی طرح اقوام عالم میں معزز و ممتاز ہوں گے اور رشد و ہدایت کی خشک کھیتی میں روح تازہ پیدا ہوگی اور خدا کے جاہ و جلال سے ان کے قلوب ایک مرتبہ پھر چمک اٹھیں گے۔بائبل ( توراۃ و انجیل) اپنی لفظی و معنوی تحریفات کے باوجود آج بھی ان چند بشارات کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتی ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی آمد سے تعلق رکھتی ہیں۔ توراۃ استثناء میں ہے :
” اور اس موسیٰ نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر (ساعیر) سے ان پر طلوع ہوا ‘ اور فاران کے پہاڑوں سے جلوہ گر ہوا۔ “ [45]
اس بشارت میں ” سینا سے خدا کی آمد “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی جانب اشارہ ہے اور ” ساعیر سے طلوع ہونا “ سے نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہے ‘ کیونکہ ان کی ولادت باسعادت اسی پہاڑ کے ایک مقام ” بیت اللحم “ میں ہوئی ہے۔اور یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں سے نور حق طلوع ہوا اور ” فاران پر جلوہ گر ہونا “ آفتاب رسالت کی بعثت کا اعلان ہے کیونکہ فاران حجاز کے مشہور پہاڑی سلسلہ کا نام ہے۔ مرقس کی انجیل میں ہے :
” جیسا یسعیاہ نبی کی کتاب میں لکھا ہے دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا ‘ بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو ‘ اس کے راستے سیدھے بناؤ۔ “ [46]
اس بشارت میں ” پیغمبر “ سے عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں اور بیابان میں پکارنے والے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مناد تھے اور ان کی بعثت سے قبل بنی اسرائیل میں ان کی بعثت و رسالت کا مژدہ جانفزا سناتے تھے۔ اور متی کی انجیل میں ہے : ” جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت اللحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوس پورب سے یروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے ؟ یہ سن کر ہیرودیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلم کے سب لوگ گھبرا گئے اور اس نے قوم کے سب سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چاہیے ؟ انھوں نے اس سے کہا کہ یہودیہ کے بیت لحم میں کیونکہ نبی (یسعیاہ (علیہ السلام)) کی معرفت یوں لکھا گیا ہے ‘ اے بیت لحم یہوداہ کے علاقے ! تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا جو میری امت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا۔ “ [47]
اور دوسری جگہ ہے : ” اور جب وہ یروشلم کے نزدیک پہنچے اور زیتون کے پہاڑ پر بیت فگے کے پاس آئے تو یسوع نے دو شاگردوں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے سامنے کے گاؤں میں جاؤ وہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی ہوئی اور اس کے ساتھ بچہ پاؤ گے ‘ انھیں کھول کر میرے پاس لے آؤ اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ خداوند کو ان کی ضرورت ہے وہ فی الفور انھیں بھیج دے گا۔یہ اس لیے ہوا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ ” صیہوں کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے بلکہ لا دو کے بچہ پر۔ “ [48]
اور یوحنا کی انجیل میں ہے : ” اور یوحنا (یحییٰ (علیہ السلام)) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس (یحییٰ (علیہ السلام) کے پاس) بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ‘ انھوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ‘ اس نے کہا میں نہیں ہوں ‘ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پس انھوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں کہ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا ہے بیابان میں پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو۔ “ [49]
اور مرقس اور لوقا کی انجیلوں میں ہے : ” وہ لوگ منتظر تھے اور سب اپنے اپنے دل میں یوحنا (یحییٰ (علیہ السلام)) کی بابت سوچتے تھے کہ آیا وہ مسیح تھے یا نہیں تو یوحنا (یحییٰ (علیہ السلام)) نے ان سب کے جواب میں کہا : میں تو تمھیں بپتسمہ دیتا ہوں مگر جو مجھ سے زور آور ہے وہ آنے والا ہے۔میں اس کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہیں ‘ وہ تمھیں روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔ “ [50] ان ہر دو بشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود اپنی مذہبی روایات کی بنا پر جن اولو العزم پیغمبروں کی بعثت کے منتظر تھے ان میں مسیح (علیہ السلام) بھی تھے اور حضرت یحییٰ 1 ؎ (علیہ السلام) نے ان کو بتایا کہ وہ نہ ایلیاہ ہیں نہ وہ نبی اور نہ مسیح ( ) بلکہ مسیح (علیہ السلام) کی بعثت کے مناد اور مبشر ہیں۔ (1 ؎ عہد نامہ جدید (انجیل) میں یوحنا دو جدا جدا شخصیتیں ہیں ‘ ایک یحییٰ (علیہ السلام) اور دوسری عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری اور شاگرد۔ )
قرآن عزیز نے بھی حضرت زکریااور حضرت یحییٰ (علیہما السلام) کے واقعہ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کی تمہید قرار دیا ہے اور یحییٰ (علیہ السلام) کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مبشر اور مناد بتایا ہے۔ سورة آل عمران میں ہے :
{ فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ } [51]
” پس جب فرشتوں نے اس (زکریا) کو اس وقت پکارا جبکہ وہ حجرہ میں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا تھا ‘ بے شک اللہ تعالیٰ تجھ کو یحییٰ (فرزند) کی بشارت دیتا ہے ‘ جو اللہ کے کلمہ (عیسیٰ (علیہ السلام)) کی تصدیق کرے گا۔ “

ولادت مبارک

[ترمیم]
یسوع کے وقت یہودیہ، گلیل اور پڑوسی علاقے
مختلف روایات کے مطابق عیسی ابن مریم کی ولادت بیت لحم میں کنیسہ ولادت کے مقام پر پوئی

عابد و زاہد اور عفت مآب مریم (علیہا السلام) اپنے خلوت کدہ میں مشغول عبادت رہتی اور ضروری حاجات کے علاوہ کبھی اس سے باہر نہیں نکلتی تھیں ‘ ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ (ہیکل) کے مشرقی جانب لوگوں کی نگاہوں سے دور کسی ضرورت سے ایک گوشہ میں تنہا بیٹھی تھیں کہ اچانک خدا کا فرشتہ (جبرئیل (علیہ السلام)) انسانی شکل میں ظاہر ہوا۔حضرت مریم (علیہا السلام) نے ایک اجنبی شخص کو اس طرح بے حجاب سامنے دیکھا تو گھبرا گئیں اور فرمانے لگیں ” اگر تجھ کو کچھ بھی خدا کا خوف ہے تو میں خدائے رحمان کا واسطہ دے کر تجھ سے پناہ چاہتی ہوں۔ “ فرشتے نے کہا : ” مریم ! خوف نہ کھا ‘میں انسان نہیں بلکہ خدا کا فرستادہ فرشتہ ہوں اور تجھ کو بیٹے کی بشارت دینے آیا ہوں “ حضرت مریم (علیہا السلام) نے یہ سنا تو ازراہ تعجب فرمانے لگیں : ” میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مجھ کو آج تک کسی بھی شخص نے ہاتھ نہیں لگایا۔ اس لیے کہ نہ تو میں نے نکاح کیا اور نہ میں زانیہ ہوں “ فرشتہ نے جواب دیا : میں تو تیرے پروردگار کا قاصد ہوں ‘ اس نے مجھ سے اسی طرح کہا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ میں اس لیے کروں گا کہ تجھ کو اور تیرے لڑکے کو دنیا والوں کے لیے اپنی قدرت کاملہ کے اعجاز کا ” نشان “ بنا دوں اور لڑکا میری جانب سے ” رحمت “ ثابت ہوگا اور میرا یہ فیصلہ اٹل ہے۔ مریم اللہ تعالیٰ تجھ کو ایک ایسے لڑکے کی بشارت دیتا ہے جو اس کا ” کلمہ “ 1 ؎ ہوگا ‘ اس کا لقب ” مسیح “ 2 ؎ اور اس کا نام عیسیٰ (یسوع) ہوگا اور وہ دنیا اور آخرت دونوں میں با وجاہت اور صاحب عظمت رہے گا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقربین میں سے ہوگا ‘ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان کے طور پر بحالت شیر خوارگی لوگوں سے باتیں کرے گا اور سن کہولت (بڑھاپے کا ابتدائی دور) بھی پائے گا تاکہ کائنات کی رشد و ہدایت کی خدمت کی تکمیل کرے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ضرور ہو کر رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کا محض یہ ارادہ اور حکم کہ ” ہوجا “ اس شے کو نیست سے ہست کردیتا ہے۔ لہٰذا یہ یوں ہی ہو کر رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی کتاب عطا کرے گا ‘ اس کو حکمت سکھائے گا اور اس کو بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے رسول اور اولوالعزم پیغمبر بنائے گا۔
قرآن عزیز نے ان واقعات کا معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ سورة آل عمران اور سورة مریم میں اس طرح ذکر کیا ہے : { اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ وَ یُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ۔ وَ رَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ } [52]
” (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب فرشتوں نے مریم سے کہا : ” اے مریم ! اللہ تعالیٰ تجھ کو اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا ‘ وہ دنیا و آخرت میں صاحب وجاہت اور ہمارے مقربین میں سے ہوگا اور وہ (ماں کی) گود میں اور کہولت کے زمانہ میں لوگوں سے کلام کرے گا اور وہ نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ “ مریم نے کہا : ” میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مجھ کو کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا “ فرشتہ نے کہا ” اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اسی طرح پیدا کردیتا ہے ‘ وہ جب کسی شے کے لیے حکم کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے ” ہوجا “ اور وہ ہوجاتی ہے اور اللہ اس کو کتاب و حکمت اور توراۃ و انجیل کا علم عطا کرے گا اور وہ بنی اسرائیل کی جانب اللہ کا رسول ہوگا۔ “
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا مَکَانًا شَرْقِیًّا۔ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا۔ قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّا۔ قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا۔ قَالَتْ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا۔ قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ وَّ لِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا } [53]
” اور اے پیغمبر ! کتاب میں مریم کا واقعہ ذکر کرو اس وقت کا ذکر جب وہ ایک جگہ جو پورب کی طرف تھی اپنے گھر کے آدمیوں سے الگ ہوئی پھر اس نے ان لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا ‘ پس ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا اور وہ ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہو گیا مریم اسے دیکھ کر گھبرا گئی ‘ وہ بولی ” اگر تو نیک آدمی ہے تو میں خدائے رحمان کے نام پر تجھ سے پناہ مانگتی ہوں۔ “ فرشتہ نے کہا : ” میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور اس لیے نمودار ہوا ہوں کہ تجھے ایک پاک فرزند دیدوں۔ “ مریم بولی ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے لڑکا ہو ‘ حالانکہ کسی مرد نے مجھے چھوا نہیں اور نہ میں بدچلن ہوں ؟ “ فرشتہ نے کہا : ” ہوگا ایسا ہی ‘ تیرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ میرے لیے کچھ مشکل نہیں وہ کہتا ہے یہ اس لیے ہوگا کہ اس (مسیح) کو لوگوں کے لیے ایک نشان بنا دوں اور میری رحمت کا اس میں ظہور ہو اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہونا طے ہو چکا ہے۔ “
جبرئیل امین نے مریم (علیہا السلام) کو یہ بشارات سنا کر ان کے گریبان میں پھونک دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا کلمہ ان تک پہنچ گیا۔ مریم (علیہا السلام) نے کچھ عرصہ کے بعد خود کو حاملہ محسوس کیا توبہ تقاضائے بشری ان پر ایک اضطراری کیفیت طاری ہو گئی اور اس کیفیت نے اس وقت شدید صورت اختیار کرلی ‘ جب انھوں نے دیکھا کہ مدت حمل ختم ہو کر ولادت کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے ‘ انھوں نے سوچا کہ اگر یہ واقعہ قوم کے اندر رہ کر پیش آیا تو چونکہ وہ حقیقت حال سے واقف نہیں ہے اس لیے نہیں معلوم وہ کس کس طرح بدنام اور بہتان طرازیوں کے ذریعہ کس درجہ پریشان کرے ‘ اس لیے مناسب یہ ہے کہ لوگوں سے دور کسی جگہ چلے جانا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ یروشلم (بیت المقدس) سے تقریباً نو میل دور کوہ سرات (ساعیر) کے ایک ٹیلہ پر چلی گئیں جو اب ” بیت اللحم “ کے نام سے مشہور ہے ‘ یہاں پہنچ کر چند روز بعد درد زہ شروع ہوا تو تکلیف و اضطراب کی حالت میں کھجور کے ایک درخت کے نیچے تنے کے سہارے بیٹھ گئیں اور پیش آنے والے نازک حالات کا اندازہ کرکے انتہائی قلق اور پریشانی کی حالت میں کہنے لگیں ”کاش کہ میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میری ہستی کو لوگ یک قلم فراموش کرچکے ہوتے۔ “ تب نخلستان کے نشیب سے خدا کے فرشتہ نے پھر پکارا ” مریم ! غمگین نہ ہو ‘ تیرے پروردگار نے تیرے تلے 1 ؎(” سری “ لغت عرب میں نہر کو بھی کہتے ہیں اور بلند ہستی کو بھی ‘ جمہور نے اس جگہ پہلے معنی مراد لیے ہیں ‘ اور حسن بصری ‘ ربیع بن انس اور ابن اسلم (رحمہم اللہ) سے دوسرے معنی منقول ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے تیرے تلے ایک بلند ہستی پیدا کردی ہے۔ [54] ) نہر جاری کردی ہے اور کھجور کا تنا پکڑ کر اپنی جانب ہلا تو پکے اور تازہ خوشے تجھ پر گرنے لگیں گے۔ پس تو کھا پی اور اپنے بچہ کے نظارہ سے آنکھیں ٹھنڈی کر اور رنج و غم کو بھول جا۔ “
حضرت مریم (علیہا السلام) پر تنہائی ‘ تکلیف اور نزاکت حال سے جو خوف طاری اور اضطراب پیدا ہو گیا تھا فرشتہ کی تسلی آمیز پکار اور عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ بچہ کے نظارہ سے کافور ہو گیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ دیکھ کر شاد کام ہونے لگیں۔تاہم یہ خیال پہلو میں ہر وقت کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا تھا کہ اگرچہ خاندان اور قوم میری عصمت و پاک دامنی سے ناآشنا نہیں ہے پھر بھی ان کی اس حیرت کو کس طرح مٹایا جاسکے گا کہ بن باپ کے کس طرح ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہو سکتا ہے ؟
مگر جس خدائے برتر نے ان کو یہ بزرگی اور برتری بخشی وہ کب ان کو اس کرب و بے چینی میں مبتلا رہنے دیتا ‘ اس لیے اس نے فرشتہ کے ذریعہ مریم (علیہا السلام) کے پاس پھر یہ پیغام بھیجا کہ جب تو اپنی قوم میں پہنچے اور وہ تجھ سے اس معاملہ کے متعلق سوالات کرے تو خود جواب نہ دینا بلکہ اشارہ سے ان کو بتانا کہ میں روزہ دار ہوں۔اور اس لیے آج کسی سے بات نہیں کرسکتی تم کو جو کچھ دریافت کرنا ہے ‘ اس بچہ سے دریافت کرلو ‘ تب تیرا پروردگار اپنی قدرت کاملہ کا نشان ظاہر کے ان کی حیرت کو دور اور ان کے قلوب کو مطمئن کر دے گا۔حضرت مریم (علیہا السلام) وحی الٰہی کے ان پیغامات پر مطمئن ہو کر بچہ کو گود میں لے کر بیت المقدس کو روانہ ہوئیں۔ جب شہر میں پہنچیں اور لوگوں نے اس حالت میں دیکھا تو چہار جانب سے ان کو گھیر لیا اور کہنے لگے :
” مریم ! یہ کیا ؟ تونے تو بہت ہی عجیب بات کر دکھائی اور بھاری تہمت کا کام کر لیا ‘ اے ہارون کی بہن ! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدچلن تھی پھر تو یہ کیا کر بیٹھی ؟ “ مریم (علیہا السلام) نے خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لڑکے کی جانب اشارہ کر دیا کہ جو کچھ دریافت کرنا ہے ‘ اس سے معلوم کرلو ‘ میں تو آج روزہ 2 (بنی اسرائیل کے یہاں روزہ میں خاموشی بھی داخل عبادت تھی۔) سے ہوں۔لوگوں نے یہ دیکھ کر انتہائی تعجب کے ساتھ کہا : ” ہم کس طرح ایسے شیر خوار بچہ سے باتیں کرسکتے ہیں جو ابھی ماں کی گود میں بیٹھنے والا بچہ ہے۔ “ مگر بچہ فوراً بول اٹھا :” میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اللہ نے (اپنے فیصلہ تقدیر میں) مجھ کو کتاب (انجیل) دی ہے اور نبی بنایا ہے اور اس نے مجھ کو مبارک بنایا خواہ میں کسی حال اور کسی جگہ بھی ہوں اور اس نے مجھ کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں یہی میرا شعار ہو اور اس نے مجھ کو اپنی ماں کا خدمت گزار بنایا اور خود سر اور نافرمان نہیں بنایا اور اس کی جانب سے مجھ کو سلامتی کا پیغام ہے جس دن کہ میں پیدا ہوا اور جس دن کہ میں مروں گا اور جس دن کہ پھر زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ “
اللہ تعالیٰ نے ان تفصیلات کو سورة انبیا ‘ سورة تحریم اور سورة مریم میں ذکر فرمایا ہے : { وَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰھَا وَ ابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ } [55]
” اور اس عورت (مریم (علیہا السلام)) کا معاملہ جس نے اپنی پاک دامنی کو قائم رکھا ‘ پھر ہم نے اس میں اپنی ” روح “ کو پھونک دیا اور اس کو اور اس کے لڑکے کو جہان والوں کے لیے ” نشان “ ٹھہرایا ہے۔ “ { وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا } [56] ” اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی عصمت کو برقرار رکھا پس ہم نے اس میں اپنی روح کو پھونک دیا۔ “
{ فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا۔ فَاَجَآئَھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا۔ فَنَادٰھَا مِنْ تَحْتِھَآ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا۔ وَ ھُزِّیْٓ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا۔ فَکُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا۔ فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَھَا تَحْمِلُہٗ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ یٰٓاُخْتَ ھٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْئٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا۔ فَاَشَارَتْ اِلَیْہِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِصَبِیًّا۔ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا۔ وَّ بَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا } [57] ” پھر اس ہونے والے فرزند کا حمل ٹھہر گیا وہ (اپنی حالت چھپانے کے لیے) لوگوں سے الگ ہو کر دور چلی گئی ‘ پھر اسے درد زہ (کا اضطراب) کھجور کے ایک درخت کے نیچے لے گیا (وہ اس کے تنے کے سہارے بیٹھ گئی) اس نے کہا کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی ‘ میری ہستی کو لوگ یک قلم بھول گئے ہوتے ‘ اس وقت (ایک پکارنے والے فرشتے نے) اسے نیچے سے پکارا ” غمگین نہ ہو تیرے پروردگار نے تیرے تلے نہر جاری کردی ہے اور کھجور کے درخت کا تنا پکڑ کر اپنی طرف ہلا ‘ تازہ اور پکے ہوئے پھلوں کے خوشے تجھ پر گرنے لگیں گے ‘ کھا پی اور (اپنے بچہ کے نظارے سے) آنکھیں ٹھنڈی کر ‘ پھر اگر کوئی آدمی نظر آئے (اور پوچھ گچھ کرنے لگے) تو (اشارہ سے) کہہ دے میں نے خدائے رحمان کے حضور روزہ کی منت مان رکھی ہے میں آج کسی آدمی سے بات چیت نہیں کرسکتی۔ “ پھر ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کو ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس آئی ‘ لڑکا اس کی گود میں تھا ‘ لوگ (دیکھتے ہی) بول اٹھے ” مریم ! تونے عجیب ہی بات کر دکھائی اور بڑی تہمت کا کام کر گذری ‘ اے ہارون 1 ؎(؎ کہتے ہیں کہ ہارون مریم (علیہا السلام) کے خاندان میں ایک عابد و زاہد انسان اور بہت نیک نفس مشہور تھا۔ [58]) کی بہن ! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا نہ تیری ماں بدچلن تھی (تو یہ کیا کر بیٹھی) “ اس پر مریم نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا (کہ یہ تمھیں بتلا دے گا کہ حقیقت کیا ہے) لوگوں نے کہا : ” بھلا اس سے ہم کیا بات کریں جو ابھی گود میں بیٹھنے والا شیر خوار بچہ ہے “ مگر لڑکا بول اٹھا۔
” میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ‘ اس نے مجھے بابرکت کیا خواہ میں کسی جگہ ہوں ‘ اس نے مجھے نماز ‘ زکوۃ کا حکم دیا کہ جب تک زندہ رہوں یہی میرا شعار ہو۔ اس نے مجھے اپنی ماں کا خدمت گزار بنایا ‘ ایسا نہیں کیا کہ خودسر اور نافرمان ہوتا ‘ مجھ پر اس کی طرف سے سلامتی کا پیغام ہے جس دن پیدا ہوا ‘ جس دن مروں گا اور جس دن پھر زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ “
قوم نے ایک شیر خوار بچہ کی زبان سے جب یہ حکیمانہ کلام سنا تو حیرت میں رہ گئی اور اس کو یقین ہو گیا کہ مریم (علیہا السلام) کا دامن بلاشبہ ہر قسم کی برائی اور تلویث سے پاک ہے اور اس بچہ کی پیدائش کا معاملہ یقیناً منجانب اللہ ایک ” نشان “ ہے۔ یہ خبر ایسی نہیں تھی کہ پوشیدہ رہ جاتی ‘ قریب اور بعید سب جگہ اس حیرت زا واقعہ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ ولادت کے چرچے ہونے لگے اور طبائع انسانی نے اس مقدس ہستی کے متعلق شروع ہی سے مختلف کروٹیں بدلنی شروع کر دیں ‘ اصحاب خیر نے اس کے وجود کو اگر یمن وسعادت کا ماہتاب سمجھا تو اصحاب شر نے اس کی ہستی کو اپنے لیے فال بد جانا اور بغض و حسد کے شعلوں نے اندر ہی اندر ان کی فطری استعداد کو کھانا شروع کر دیا۔ غرض اسی متضاد فضا کے اندر اللہ تعالیٰ اپنی نگرانی میں اس مقدس بچہ کی تربیت اور حفاظت کرتا رہا ‘ تاکہ اس کے ہاتھوں بنی اسرائیل کے مردہ قلوب کو حیات تازہ بخشے اور ان کی روحانیت کے شجر خشک کو ایک مرتبہ پھر بارآور اور مثمر بنائے :
{ وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ اٰیَۃً وَّ اوَیْنَاہُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ } [59]
” اور ہم نے عیسیٰ بن مریم اور اس کی ماں (مریم) کو (اپنی قدرت کا ) نشان بنادیا اور ان دونوں کا ایک بلند مقام (بیت اللحم) پر ٹھکانا بنایا جو سکونت کے قابل اور چشمہ والا ہے۔ “ عن ابن عباس فی قولہ ” وَ اوَیْنَاھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ “ قال المعین الماء الجاری وھو النھر الذی قال اللہ تعالیٰ ” قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا “ و کذا قال الضحاک و قتادۃ الی ربوۃ ذات قرار و معین ھو بیت المقدس فھذا واللہ اعلم ھو الاظھر لانہ المذکور فی الایۃ الاخری والقران یفسر بعضہ بعضا وھذا اولی ما یفسر بہ ثم الاحادیث الصحیحۃ ثم الاثار۔ [60] یعنی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے وَ اوَیْنَاھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ کی تفسیر میں منقول ہے کہ ” معین “ سے نہر جاری مراد ہے اور یہ اسی نہر کا ذکر ہے جس کو آیت قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا میں بیان کیا گیا ہے اور ضحاک اور قتادہ ; کا بھی یہی قول ہے کہ وَ اوَیْنَاھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ سے بیت المقدس کی سرزمین مراد ہے اور یہی قول زیادہ ظاہر ہے اس لیے کہ دوسری آیت میں بیت المقدس (کی نہر) کا ہی ذکر ہے اور قرآن کا بعض حصہ خود ہی دوسرے حصہ کی تفسیر کر دیا کرتا ہے اور تفسیر آیات میں پہلی جگہ اسی طریق تفسیر کو حاصل ہے۔ اس کے بعد صحیح احادیث کے ذریعہ تفسیر کا اور اس کے بعد آثار کے ذریعہ تفسیر کا درجہ ہے۔ [61]

بشارات ولادت

[ترمیم]

قرآن عزیز نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے حالات میں سے صرف اسی اہم واقعہ کا ذکر کیا ہے باقی بچپن کے دوسرے حالات کو جن کا ذکر قرآن کے مقصد تذکیر و موعظت سے خاص تعلق نہیں رکھتا تھا نظر انداز کر دیا ہے لیکن اسرائیلیات کے مشہور ناقل حضرت وہب بن منبہ سے جو واقعات منقول ہیں۔اور متی کی انجیل میں بھی جن کا ذکر موجود ہے ان میں سے یہ واقعہ بھی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تو اسی شب میں فارس کے بادشاہ نے آسمان پر ایک نیا ستارہ روشن دیکھا ‘بادشاہ نے درباری نجومیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس ستارہ کا طلوع کسی عظیم الشان ہستی کی پیدائش کی خبر دیتا ہے جو ملک شام میں پیدا ہوئی ہے۔ تب بادشاہ نے خوشبوؤں کے عمدہ تحفے دے کر ایک وفد کو ملک شام روانہ کیا کہ وہ اس بچہ کی ولادت سے متعلق حالات و واقعات معلوم کریں ‘وفد جب شام پہنچا تو اس نے تفتیش حال شروع کی اور یہودیوں سے کہا کہ ہم کو اس بچہ کی ولادت کا حال سناؤ جو مستقبل قریب میں روحانیت کا بادشاہ ہوگا یہود نے اہل فارس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو اپنے بادشاہ ہیرودیس کو خبر کی ‘ بادشاہ نے وفد کو دربار میں بلا کر استصواب حال کیا اور ان کی زبانی واقعہ کو سن کر بہت گھبرایا اور پھر وفد کو اجازت دی کہ وہ اس بچہ کے متعلق مزید معلومات حاصل کریں۔پارسیوں کا یہ وفد بیت المقدس پہنچا اور جب حضرت یسوع مسیح (علیہ السلام) کو دیکھا تو اپنے رسم و رواج کے مطابق اول ان کو سجدہ تعظیم کیا اور پھر مختلف قسم کی خوشبوئیں ان پر نثار کیں اور چند روز وہیں قیام کیا ‘ دوران میں قیام میں وفد کے بعض آدمیوں نے خواب میں دیکھا کہ ہیرودیس اس بچہ کا دشمن ثابت ہوگا اس لیے تم اب اس کے پاس نہ جاؤ اور بیت اللحم سے سیدھے فارس کو چلے جاؤ۔صبح کو وفد نے فارس کا ارادہ کرتے وقت حضرت مریم (علیہا السلام) کو اپنا خواب سناتے ہوئے کہا کہ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کی نیت خراب ہے اور وہ اس مقدس بچہ کا دشمن ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم اس کو ایسی جگہ لے جا کر رکھو جو اس کی دسترس سے باہر ہو ‘اس مشورہ کے بعد حضرت مریم (علیہا السلام) یسوع مسیح (علیہ السلام) کو اپنے بعض عزیزوں کے پاس مصر لے گئیں اور وہاں سے ناصرہ چلی گئیں اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر مبارک تیرہ سال کی ہوئی تو ان کو ساتھ لے کر دوبارہ بیت المقدس واپس آئیں۔یہی روایات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے حالات زندگی بھی غیر معمولی تھے اور ان سے طرح طرح کی کرامات کا صدور ہوتا رہتا تھا۔ (واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال) [62]

حلیہ مبارک

[ترمیم]

بخاری حدیث معراج میں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میری ملاقات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی تو میں نے ان کو میانہ قد سرخ سپید پایا۔ بدن ایسا صاف شفاف تھا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حمام سے نہا کر آئے ہیں ‘ اور بعض روایات میں ہے کہ آپ کے کا کل کاندھوں تک لٹکے ہوئے تھے اور بعض احادیث میں ہے کہ رنگ کھلتا ہوا گندم گوں تھا۔ بخاری کی روایت اور اس روایت میں ادا و تعبیر کا فرق ہے ‘ حسن میں اگر صباحت کے ساتھ ملاحت کی آمیزش بھی ہوتی ہے تو اس رنگ میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کسی وقت اگر سرخی جھلک آئی تو صباحت نمایاں ہوجاتی ہے اور اگر کسی وقت ملاحت غالب آگئی تو چہرہ پر حسن و لطافت کے ساتھ کھلتا ہوا گندم گوں رنگ چمکنے لگتا ہے۔

بعثت و رسالت

[ترمیم]
دریائے اردن جہاں روایات کے مطابق عیسی ابن مریم کو یحیی بن زکریا (یوحنا اصطباغی) نے بپتسمہ دیا تھا

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل بنی اسرائیل ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے اور انفرادی و اجتماعی عیوب و نقائص کا کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جو ان سے بچ رہا ہو ‘ وہ اعتقاد و اعمال دونوں ہی قسم کی گمراہیوں کا مرکز و محور بن گئے تھے حتیٰ کہ اپنی ہی قوم کے ہادیوں اور پیغمبروں کے قتل تک پر جری اور دلیر ہو گئے تھے ‘ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کے متعلق معلوم کرچکے ہو کہ اس نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو اپنی محبوبہ کے اشارہ پر کی سے عبرتناک طریقہ پر قتل کرا دیا تھا اور اس نے یہ سفاکانہ اقدام صرف اس لیے کیا کہ وہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی بڑھتی ہوئی روحانی مقبولیت کو برداشت نہ کرسکا اور اپنی محبوبہ سے ناجائز رشتہ پر ان کے نہی عن المنکر (برائی سے بچانے کی ترغیب) کی تاب نہ لاس کا اور یہ عبرتناک سانحہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی مبارک ہی میں ان کی بعثت سے قبل پیش آچکا تھا۔
دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا للبستانی) میں یہود سے متعلق جو مقالہ ہے اس کے تاریخی مواد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے یہود کے عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ وہ مشرکانہ رسوم و عقائد کو جزء مذہب بنا چکے تھے اور جھوٹ ‘ فریب ‘ بغض و حسد جیسی بداخلاقیوں کو تو عملاً اخلاق کریمانہ کی حیثیت دے رکھی تھی۔ اور اسی بنا پر بجائے شرمسار ہونے کے وہ ان پر فخر کا اظہار کرتے تھے اور ان کے علما و احبار نے تو دنیا کے لالچ اور حرص میں کتاب اللہ ( توراۃ ) تک کو تحریف کیے بغیر نہ چھوڑا اور درہم و دینار پر خدا کی آیات کو فروخت کر ڈالا یعنی عوام سے نذر اور بھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور اس طرح قانون الٰہی کو مسخ کر ڈالا۔ یہود کی اعتقادی اور ملی زندگی کا مختصر اور مکمل نقشہ ہم کو شعیا (علیہ السلام) کی زبانی خود توراۃ نے اس طرح دکھایا ہے :
” خداوند فرماتا ہے : یہ امت (بنی اسرائیل) زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا دل مجھ سے دور ہے اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ میرے حکموں کو پیچھے ڈال کر آدمیوں کے حکموں کی تعلیم دیتے ہیں۔ “
بہرحال انھی تاریک حالات میں جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے قتل کا واقعہ بھی ہو گذرا اور بنی اسرائیل نے خدا کے حکموں کے خلاف بغاوت و سرکشی کی حد کردی تب وہ وقت سعید آپہنچا جس مبارک بچہ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی آغوش میں پیغام حق سنا کر بنی اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا تھا ‘سن رشد کو پہنچ کر اس نے یہ اعلان کرکے کہ ” وہ خدا کا رسول اور پیغمبر ہے اور رشد و ہدایت خلق اس کا فرض منصبی “ قوم میں ہلچل پیدا کردی ‘ وہ شرف رسالت سے مشرف ہو کر اور حق کی آواز بن کر آیا اور اپنی صداقت و حقانیت کے نور سے تمام اسرائیلی دنیا پر چھا گیا ‘اس مقدس ہستی نے قوم کو للکارا اور احبار کی علمی مجلسوں ‘ راہبوں کے خلوت کدوں ‘ بادشاہ اور امرا کے درباروں اور عوام و خواص کی محفلوں میں حتیٰ کہ کوچہ وبر زن اور بازاروں میں شب و روز یہ پیغام حق سنایا : ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنا رسول اور پیغمبر بنا کر تمھارے پاس بھیجا ہے اور تمھاری اصلاح کی خدمت میرے سپرد فرمائی ہے ‘ میں اس کی جانب سے پیغام ہدایت لے کر آیا ہوں اور تمھارے ہاتھ میں خدا کا جو قانون ( توراۃ ) ہے اور جس کو تم نے اپنی جہالت اور کج روی سے پس پشت ڈال دیا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کی مزید تکمیل کے لیے خدا کی کتاب (انجیل) لے کر آیا ہوں ‘ یہ کتاب حق و باطل کا فیصلہ کرے گی اور آج جھوٹ اور سچ کے درمیان میں فیصلہ ہو کر رہے گا۔ سنو اور سمجھو اور اطاعت کے لیے خدا کے حضور جھک جاؤ کہ یہی دین و دنیا کی فلاح کی راہ ہے۔ “ اب ان حقائق اور ان کے عواقب و نتائج کو قرآن کی زبانی سنئے اور ” احقاق حق و ابطال باطل “ کے لطف سے بہرہ مند ہو کر عبرت و موعظت حاصل کیجئے ‘ کیونکہ ” تَذْکِیْرِ بِاَیَّامِ اللّٰہِ “ سے قرآن کا مقصد عظیم یہی بصیرت و عبرت ہے :
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ اَفَکُلَّمَا جَآئَکُمْ رَسُوْلٌم بِمَا لَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ۔ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَقَلِیْـلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ۔ } [63]
” اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب ( توراۃ ) عطا کی اور اس کے بعد ہم (تم میں) پیغمبر بھیجتے رہے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح معجزے دے کر بھیجا اور ہم نے اس کو روح پاک (جبرئیل) کے ذریعہ قوت و تائید عطا کی ‘ کیا جب تمھارے پاس (خدا کا) پیغمبر ایسے احکام لے کر آیا جن پر عمل کرنے کو تمھارا دل نہیں چاہتا تو تم نے غرور کو شیوہ (نہیں) بنا لیا ؟ پس (پیغمبروں کی) ایک جماعت کو جھٹلاتے ہو تو ایک جماعت کو قتل کردیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارے دل (قبول حق کے لیے) غلاف میں ہیں (یہ نہیں) بلکہ ان کے کفر کرنے پر خدا نے ان کو ملعون کر دیا ہے پس بہت تھوڑے سے ہیں جو ایمان لے آئے ہیں۔ “
{ وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} [64] ” اور (اے عیسیٰ ) جب ہم نے بنی اسرائیل (کی گرفت و ارادہ قتل) کو تجھ سے باز رکھا اس وقت جبکہ تو ان کے پاس کھلے معجزات لے کر آیا تو کہا بنی اسرائیل میں سے منکروں نے ‘ یہ کچھ نہیں ہے مگر کھلا جادو ہے۔ “ { وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَ جِئْتُکُمْ بِاٰ یَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ } [65]
” اور میں تصدیق کرنے والاہوں توراۃ کی جو میرے سامنے ہے اور (میں اس لیے آیا ہوں) تاکہ تمھارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو (تمھاری کجروی کی وجہ سے) تم پر حرام کردی گئی تھیں اور میں تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی نشانی لے کر آیا ہوں پس اللہ کا خوف کرو اور میری پیروی کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ میرا اور تمھارا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو یہی سیدھی راہ ہے۔ پس جبکہ عیسیٰ نے ان سے کفر محسوس کیا تو فرمایا اللہ کے لیے کون میرا مددگار ہے تو شاگردوں نے جواب دیا : ہم ہیں اللہ کے (دین کے) مددگار۔ “
{ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰی اثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَ اتَیْنَاہُ الْاِنْجِیْلَ } [66] ” پھر ان کے بعد (نوح و ابراہیم (علیہما السلام) کے بعد) ہم نے اپنے رسول بھیجے اور ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو رسول بناکر بھیجا اور اس کو کتاب (انجیل) عطا کی۔ “
{ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَ کَھْلًا وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ } [67]
” (وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا ” اے عیسیٰ ابن مریم ! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میری جانب سے تجھ پر اور تیری والدہ پر نازل ہوئی جب کہ میں نے روح القدس (جبرئیل) کے ذریعہ تیری تائید کی کہ تو کلام کرتا تھا آغوش مادر میں اور بڑھاپے میں اور جبکہ میں نے تجھ کو سکھائی کتاب ‘ حکمت ‘ توراۃ اور انجیل۔ “
{ وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ } [68] ” اور (وہ وقت یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) نے کہا : اے بنی اسرائیل ! میں بلاشبہ تمھاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں ‘ تصدیق کرنے والا ہوں توراۃ کی جو میرے سامنے ہے اور بشارت سنانے والا ہوں ایک پیغمبر کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہے۔ “

آیات بینات

[ترمیم]

قصص القرآن جلد اول معجزات کی بحث میں گذر چکا ہے کہ حق و صداقت کے تسلیم وانقیاد میں انسانی فطرت ہمیشہ سے دو طریقوں سے مانوس رہی ہے : ایک یہ کہ ” مدعی حق “ کی حقانیت و صداقت دلائل کی قوت اور براہین کی روشنی کے ذریعہ ثابت اور واضح ہوجائے اور دوسرا طریقہ یہ کہ دلائل وبراہین کے ساتھ ساتھ منجانب اللہ اس کی صداقت کی تائید میں عام قانون قدرت سے جدا بغیر اسباب و وسائل اور تحصیل علم و فن کے اس کے ہاتھ پر امور عجیبہ کا مظاہرہ اس طرح ہو کہ عوام و خواص اس کے مقابلہ سے عاجز و درماندہ ہوجائیں اور ان کے لیے اسباب و وسائل کے بغیر ان امور کی ایجاد ناممکن ہو ‘ پہلے طریق کے ساتھ یہ دوسرا طریق انسان کے عقل و فکر اور اس کی نفسیاتی کیفیات میں ایسا انقلاب پیدا کردیتا ہے کہ ان کا وجدان یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ داعی حق (نبی و پیغمبر) کا یہ عمل دراصل خود اس کا اپنا فعل نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ خدا کی قوت کام کر رہی ہے اور بلاشبہ یہ اس کے صادق ہونے کی مزید دلیل ہے چنانچہ قرآن میں آیت :
{ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی } [69]
اور اے پیغمبر (بدر کے غزوہ میں ) جب تونے (دشمنوں پر) مٹھی بھر خاک پھینکی تھی تو تونے وہ مشت خاک نہیں پھینکی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔ “
میں اسی حقیقت کا اظہار مقصود ہے مگر ان ہر دو طریقوں میں سے ان اصحاب علم و دانش پر جو قوت فہم و ادراک میں بلند مقام رکھتے ہیں پہلا طریقہ زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے اور وہ دوسرے طریقہ کو پہلے طریقہ کی تائید وتقویت کی حیثیت سے قبول کرتے اور داعیٔ حق (نبی و پیغمبر) کے دعوائے نبوت و رسالت کی صداقت کا مزید عملی ثبوت یقین کرکے اس پر ایمان لے آتے ہیں اور ان حضرات ارباب عقل و فکر کے برعکس ارباب قوت و اقتدار اور ان کی ذہنیت سے متاثر عام انسانی قلوب دوسرے طریقہ تصدیق سے زیادہ متاثر ہوتے اور نبی و پیغمبر کے معجزانہ افعال کو کائنات کی طاقت و قوت کے دائرہ سے بالاتر ہستی کا ارادہ و قوت فعل یقین کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ان امور کو ” خدائی نشان “ باور کرکے دعوت حق و صداقت کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔
قرآن عزیز نے اکثر و بیشتر مقامات پر پہلے طریق دلیل کو ” حُجَّۃُ اللّٰہِ “ ” بُرْہَانَ “ اور ” حِکْمَۃ “ سے تعبیر کیا ہے سورة انعام میں خدا کی ہستی ‘ اس کی وحدانیت ‘ معاد و آخرت اور دین کے بنیادی عقائد کو دلائل ‘ نظائر اور شواہد کے ذریعہ سمجھانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
{ قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ } [70] ” (اے محمد) کہہ دیجئے ‘ اللہ کے لیے ہی ہے حجت کامل (یعنی مکمل اور روشن دلیل) “
اور اس سورة میں دوسری جگہ حضرت ابراہیم کے تذکرہ میں ہے :
{ وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ } [71] ” اور یہ ہماری ” دلیل “ ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی۔ “
اور سورة نساء میں ہے :
{ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ } [72] ” (ہم نے بھیجے) پیغمبر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ لوگوں کی جانب سے خدا پر پیغمبر بھیجنے کے بعد کوئی حجت (دلیل ) باقی نہ رہے (کہ ہمارے پاس دلائل کے ذریعہ راہ مستقیم بتانے کوئی نہ آیا تھا اس لیے ہم دین حق کی معرفت سے محروم رہے) “
{ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ } [73] ” اے لوگو ! بے شک تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی جانب سے برہان (قرآن) آگیا۔ “
اور سورة یوسف میں ہے :
{ لَوْ لَآ اَنْ رَّ ا بُرْھَانَ رَبِّہٖ } [74] ” اگر نہ ہوتی یہ بات کہ دیکھ لی تھی اس (یوسف) نے اپنے پروردگار کی دلیل۔ “
اور سورة نحل میں ہے :
{ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ } [75] ” اپنے پروردگار کے راستہ کی جانب دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور تبادلہ خیالات کرو ان (مخالفین) کے ساتھ اچھے طریق گفتگو سے۔ “
اور سورة نساء میں ہے : { وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ } [76] ” اور اللہ تعالیٰ نے اتارا تجھ پر کتاب کو اور حکمت کو۔ “
اسی طرح ” حکمت “ کا یہ ذکر سورة بقرہ ‘ آل عمران ‘ مائدہ ‘ لقمان ‘ ص ‘ زخرف ‘ احزاب اور قمر میں بکثرت موجود ہے اور دوسرے طریق دلیل کو اکثر ” آیۃ اللّٰہ “ اور ” آیَاتُ اللّٰہ “ اور بعض مقامات پر ” آیَاتِ بَیِّنَاتَ “ اور ” بَیِّنَاتَ “ کہا ہے۔
ناقہ صالح (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہے : { ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً } [77] ” یہ اونٹنی تمھارے لیے (خدا کی جانب سے) ایک ” نشان “ ہے۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم (علیہا السلام) کے متعلق ارشاد ہے : { وَ جَعَلْنٰھَا وَ ابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ } [78] ” اور ہم نے کر دیا مریم اور اس کے لڑکے عیسیٰ کو جہان والوں کے لیے ” نشان “ (معجزہ) “ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں ارشاد باری ہے : { وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ } [79] ” اور ہم نے موسیٰ کو نو نشان (معجزات) عطا کیے۔ “ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو جو معجزات دیے گئے تھے ان کے متعلق ارشاد ہے : { وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ } [80] ” اور دیے ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات “ { اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} [81] ” اس وقت جبکہ تو ان کے پاس کھلے معجزات لے کر آیا تو کہا بنی اسرائیل میں منکروں نے ‘ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “
ہم نے اس مقام پر اکثر و بیشتر کا لفظ قصداً اختیار کیا ہے کیونکہ قرآن عزیز کے اسلوب بیان سے واقف اس سے بیخبر نہیں ہے کہ اس نے ان الفاظ کے استعمال میں وسعت تعبیر سے کام لیا ہے یعنی جبکہ ” معجزہ “ بھی ایک خاص قسم کا ” برہان “ ہے اور قرآن اور آیات قرآن جس طرح سرتا سر ” علم وبرہان “ ہیں اسی طرح ” معجزہ “ بھی ہیں ‘اس لیے معجزہ پر برہان کا اطلاق اور کتاب اللہ کے جملوں پر آیت اور آیات اللہ کا اطلاق مجاز نہیں بلکہ حقیقت ہے ‘ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دو معجزوں عصاء اور ید بیضاء کے متعلق سورة قصص میں ہے :
{ فَذٰنِکَ بُرْھَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ } [82] ” پس تیرے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں ہیں۔ “
اور کتاب اللہ اور اس کے جملوں پر آیت اور آیات کے اطلاقات سے تو قرآن کی کوئی طویل سورت ہی خالی ہوگی ‘ تمام قرآن میں جگہ جگہ اس کثرت سے اس کا استعمال ہوا ہے کہ اس کی فہرست مستقل موضوع بن سکتا ہے۔ اسی طرح ” آیَاتِ بَیِّنَات “ کا اگرچہ بکثرت اطلاق کتاب اللہ (قرآن ‘ توراۃ ‘ زبور ‘ انجیل) اور ان کی آیات پر ہوا ہے مگر مسطورہ بالا مقامات کی طرح بعض بعض جگہ اس کو ” معجزات “ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔

لائق توجہ بات اور حقیقت معجزات

[ترمیم]

نبی اور رسول کی بعثت کا مقصد کائنات میں رشد و ہدایت اور دین و دنیا کی فلاح و خیر کی رہنمائی ہے اور وہ منجانب اللہ وحی کی روشنی میں اس فرض منصبی کو انجام دیتا ہے اور علم وبرہان اور حجۃ حق کے ذریعہ راہ صداقت دکھاتا ہے ‘ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ فطرت اور ماورائے فطرت امور میں تصرف و تغیر بھی اس کا کار منصبی ہے۔بلکہ وہ بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ میں خدا کی جانب سے بشیر و نذیر اور داعی الی اللہ بن کر آیا ہوں ‘ میں انسان ہوں اور خدا کا ایلچی ‘ اس سے زائد اور کچھ نہیں ہوں تو پھر اس کے دعویٰ صداقت کے امتحان اور پرکھ کے لیے اس کی تعلیم ‘اس کی تربیت اور اس کی شخصیت کا زیر بحث آنا یقیناً معقول لیکن اس سے ماورائے فطرت اور خارق عادت عجائبات وغرائب کا مطالبہ خلاف عقل اور بے جوڑ بات معلوم ہوتی ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ کسی طبیب حاذق کے دعویٰ حذاقت طب پر اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ طلسمی کھٹکے کی ایک عمدہ الماری یا لکڑی کا ایک عجیب قسم کا کھلونا بنا کر دکھائے ‘طبیب نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ ماہر لوہار یا بڑھئی ہے بلکہ اس کا دعویٰ تو امراض جسمانی کے علاج کا ہے ‘ اسی طرح پیغمبر خدا کا یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی طرح کائنات پر ہمہ قسم کے تصرف و تغیر کا مالک و قادر ہے بلکہ اس کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ تمام امراض روحانی کے لیے طبیب کامل اور حاذق و ماہر ہے۔
پس دعویٰ نبوت اور معجزات (خارق عادات امور) کے درمیان میں کیا تعلق ہے ؟ اور کیا اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” معجزہ “ لوازم نبوت میں سے نہیں ہے ؟
بلاشبہ یہ سوال بہت زیادہ قابل توجہ ہے اور اس لیے علم کلام میں اس مسئلہ کو کافی اہمیت دی گئی ہے لیکن ہم نے ” آیات بینات “ عنوان کے ماتحت ابتدائے کلام میں دعویٰ نبوت کی صداقت سے متعلق دلائل کی جو تقسیم انسانی طبائع اور ان کے فطری رجحانات کے پیش نظر کی ہے وہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور جوہر عقل کے تفاوت درجات نے بلاشبہ انسانوں کی قوت فکریہ کو جدا جدا دو طریقوں کی جانب مائل کر دیا ہے ‘ ان حالات میں جب ایک نبی اور رسول یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا کی جانب سے ایک ایسے منصب پر مامور ہے جو ریاضات و مجاہدات اور نیک عملی کی قوت سے نہیں بلکہ محض خدا کی موہبت اور عطا سے حاصل ہوتا ہے اور یہ ” منصب نبوت و رسالت “ ہے اور اس کا مقصد کائنات کی رشد و ہدایت اور تعلیم حق و صداقت ہے تو بعض انسانی دماغ اور ان کا جوہر عقل اس جانب متوجہ ہوتا ہے کہ اگر اس ہستی کا یہ دعویٰ صحت پر مبنی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کو خدائے برتر کے ساتھ اس درجہ قربت حاصل ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے ناممکن ہے پس جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی صدائے اصلاح اور اس کی تعلیم ہمارے قدیم رسم و رواج یا مذہب و دھرم کے ان عقائد و اعمال کے خلاف ہے جس کو ہم حق سمجھتے آئے ہیں تو ان متضاد اور متخالف تعلیمات کی صداقت و بطالت کے امتحان کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ ہستی کوئی اور ماورائے فطرت یا خارق عادت امر کر دکھائے تو ہمارے لیے یہ سمجھنا بہت آسان ہوجائے گا کہ بغیر اسباب و وسائل کے اس ہستی کے ہاتھ ایسے امر کا صدور یقیناً اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کو خدائے برتر کے ساتھ خاص قرب حاصل ہے ‘ تبھی تو خدائے برحق نے یہ ” نشان “ دکھا کر اس کی صداقت پر مہر لگا دی ‘ نیز وہ صاحب قوت و اقتدار انسان جن کے غور و فکر کی قوت ایسے سانچہ میں ڈھل گئی ہے کہ ان پر کوئی امر حق اس وقت تک موثر ہی نہیں ہوتا جب تک کہ ان کی متکبرانہ طاقت کو غیبی ٹھوکر سے بیدار نہ کیا جائے ‘ وہ بھی اس کے منتظر رہتے ہیں کہ مدعی نبوت و رسالت اپنی صداقت کو دلیل وبرہان کے ساتھ ساتھ ایک ایسے ” کرشمہ “ کے ذریعہ ناقابل انکار بنا دے جس کا صدور دوسرے انسانوں سے یا تو ممکن ہی نہ ہو اور یا بغیر اسباب و وسائل کے استعمال کیے وجود پزیر نہ ہو سکتا ہو تاکہ یہ باور کیا جاسکے کہ بلاشبہ اس ہستی کی تعلیم و تبلیغ کو خدائے برتر کی تائید حاصل ہے۔
اسی لیے علمائے کلام نے دعویٰ نبوت اور معجزہ کے درمیان میں تعلق پر بحث کرتے ہوئے یہ مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کو بادشاہ وقت نے اپنا نائب مقرر کرکے بھیجا ہے تو اس ملک یا صوبے کے باشندے خواست گار ہوتے ہیں کہ اسی لیے علمائے کلام نے دعویٰ نبوت اور معجزہ کے درمیان میں تعلق پر بحث کرتے ہوئے یہ مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کو بادشاہ وقت نے اپنا نائب مقرر کرکے بھیجا ہے تو اس ملک یا صوبے کے باشندے خواست گار ہوتے ہیں کہ مدعی نیابت اپنے دعویٰ کی صداقت کے لیے کوئی سند اور علامت پیش کرے چنانچہ مدعی نیابت ایک جانب اگر سند دکھاتا ہے تو دوسری جانب ایسی ” نشانی “ بھی پیش کرتا ہے جس کے متعلق یہ یقین کیا جاسکے کہ بادشاہ کی عطا کردہ یہ نشانی اس کے عطیہ اور اس منصب کی تصدیق کے علاوہ اور کسی طرح بھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔مثلاً بادشاہ کی انگشتری (مہر حکومت) یا ایسا خاص عطیہ جو صرف اس منصب پر فائز ہستی کو عطا کیا جاتا ہو۔
تو اگرچہ بظاہر دعویٰ نیابت اور انگشتری یا عطیہ خاص کے درمیان میں کوئی مطابقت نہیں ہے تاہم اس تعلق خاص نے جو شاہی تصدیق سے وابستہ ہے ان دونوں کے درمیان میں اہم ربط پیدا کر دیا ہے۔ لیکن جب کہ یہ طریق تصدیق معیار صداقت و حقانیت میں دوسرے درجہ کی حیثیت رکھتا ہے اور حقیقتاً معیاری حیثیت صرف طریق اول ” حجۃ وبرہان حق “ کو ہی حاصل ہے ‘ اس لیے معجزہ کے وقوع و صدور کا معاملہ پہلے طریق کے وجود و صدور سے قطعاً جدا ہے اور وہ یہ کہ ہر ایک مدعی نبوت و رسالت کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ حق و صداقت کو حجۃ وبرہان کی روشنی اور علم و یقین کی قوت کے ذریعہ ثابت کرے اور اپنی تعلیم و تربیت اور شخصی حیات کے ہر پہلو میں دعویٰ اور دلیل وبرہان کی مطابقت کو واضح کرے اور انسانی جوہر عقل کے فکر و تدبر کی رہنمائی کا فرض اس طرح انجام دے کہ ہر قسم کے ظن و وہم اور فاسد و کا سد خیالات کے مقابلہ میں ” یقین محکم “ روز روشن کی طرح نمودار ہوجائے اور اس ادائے فرض کے لیے کسی کی جانب سے نہ مطالبہ شرط ہے اور نہ جستجو لازم بلکہ یہ نبی اور رسول کا براہ راست وہ فرض ہے جس کے لیے خدائے تعالیٰ نے اس کو منتخب اور مامور کیا ہے ‘ اور اگر ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو گویا اپنے فرض کی پوری عمارت کو اپنے ہاتھ سے برباد کردیتا ہے :
{ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ } [83]
” اے پیغمبر ! جو تم پر نازل کیا گیا ہے تم اس کو پورا پورا پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو منصب رسالت کو ادا نہ کیا۔ “
اس کے برعکس معجزہ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ نبی اور رسول اس کو ضرور ہی دکھائے یا مخالفین کے ہر مطالبہ پر اس کی تعمیل کرے بلکہ ” معجزہ “ حجۃ وبرہان کی وہ قسم ہے جو اکثر معاندین کے مطالبہ پر وقوع پذیرہوتا ہے اور اس سے اس کا صدور صرف عالم الغیب کی اپنی ” حکمت و مصلحت “ پر ہی موقوف رہتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ معجزہ کے بارے میں کس کا سوال جویائے حق کی حیثیت میں ہے اور کس کا تعنت اور انکار مزید کے لیے ‘ کن سعید روحوں پر اس کا یہ اثر پڑے گا کہ وہ کہہ اٹھیں گی { اٰمَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَمُوْسٰی } [84] اور کن بدبختوں پر اس طرح اثر انداز ہوگا کہ یوں گویا ہوں گے { اِنْ ھٰذَا اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} [85]۔
پس قرآن عزیز نے اگر ایک جانب بہ نصوص قطعیہ یہ ظاہر کیا ہے کہ اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو حجۃ وبرہان کے ساتھ مزید تائید وتقویت کے لیے معجزات عطا کیے ہیں تو دوسری جانب یہ بھی صاف صاف نبی کی زبانی کہلا دیا ہے کہ میں خدا کی جانب سے فقط ” نَذِیْرٌ مُبِیْنٌ“ ” بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ“ اور ” رَسُوْلٌ وَّ نَبِیٌّ“ ہوں۔میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں کائنات خداوندی کے تصرفات و تغیرات اور ماورائے فطرت امور پر قادر ہوں ‘ ہاں خدائے برتر اگر چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے اور اس نے ایسا کیا بھی ہے مگر وہ جبھی کرتا ہے کہ اس کی حکمت و مصلحت اس کی متقاضی ہو۔ چنانچہ حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کو منطق الطیر اور تسخیر ہوا طیور و جن کے نشان دیے گئے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ” تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ “ ” نو کھلے نشان “ عطا کیے گئے جن میں سے دو نشان عصا اور یدبیضا کو قرآن نے بڑے نشان کہا ہے اور بحر قلزم میں غرق فرعون اور نجات قوم موسیٰ کا عجیب و غریب واقعہ مستقل ایک نشان عظیم ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر دہکتی آگ کے شعلوں کو ” بردو سلام “ بنادیا حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے لیے ” ناقہ صالح “کو نشان بنایا کہ جوں ہی اس کو کسی نے ستایا اسی وقت خدا کا عذاب قوم کو تباہ و برباد کر جائے گا چنانچہ ٹھیک اسی طرح پیش آیا۔
حضرت ہود اور حضرت نوح (علیہما السلام) سے ان کی قوموں نے عذاب طلب کیا اور کافی سمجھانے کے بعد بھی جب ان کا اصرار قائم رہا تو ان پیغمبروں نے عذاب الٰہی کی جو وعیدیں سنائی تھیں وہ ٹھیک اپنے اپنے وقت پر پوری ہوئیں حالانکہ ان سب مواقع میں بظاہر اسباب نزول عذاب اور وقوع حوادث و ہلاکت کے کوئی سامان نہیں تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو مختلف نشان (معجزات) دیے گئے ان کو بھی قرآن نے صاف صاف بیان کر دیا ہے جو ابھی زیر بحث آئیں گے اور آخر میں خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علمی معجزہ قرآن عطا کیا جس کی تحدی (مقابلہ کے چیلنج) کا کوئی جواب نہ دے سکا ‘ نیز بدر کے معرکہ میں فرشتوں کا نزول اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کی نصرت و یاوری اور { وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی } [86]کے اعلان سے اس مشہور معجزہ کا اظہار فرمایا جس نے بدر کے میدان میں مٹھی بھر خاک کو ایک ہزار دشمنوں کی آنکھوں کا آزار بنادیا اور ” شق القمر “ کا معجزہ عطا فرمایا۔معاملہ زیر بحث کا یہ ایک پہلو یا ایک رخ ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ارشاد و تبلیغ حق کے روشن دلائل وبراہین کا کوئی جواب مخالفین سے نہ بن پڑا تو ازراہ تعنت و سرکشی عجائبات اور خارق عادات امور کا مطالبہ کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی کہ ان کا مقصد طلب حق اور جستجوئے صداقت نہیں ہے بلکہ یہ جو کہہ رہے ہیں سرکشی ‘ ضد اور تعصب کی راہ سے کہتے ہیں اس لیے ان کا جواب یہ نہیں ہے کہ خدا کے نشانات کو بھان متی کا تماشا یامداری کا کھیل بنادیا جائے بلکہ اصل جواب یہ ہے کہ ان سے کہہ دو میں ان تصرفات کا مدعی نہیں ہوں میں تو نیک و بد امور میں تمیز پیدا کرنے ‘ خدا کے بندوں کا خدا کے ساتھ رشتہ ملانے اور نیک و بد کاموں کے انجام کو واضح کرنے کے لیے ” نَذِیْرٌ مُبِیْنٌ“ اور ” نبی رسول “ ہوں :
{ وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا۔ اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْھٰرَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا۔ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلًا۔ اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآئِ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰـبًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۔ وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآئَھُمُ الْھُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۔ } [87]
” اور انھوں نے (مشرکوں نے) کہا : ہم اس وقت تک ہرگز تیری بات نہیں مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ ابال دے یا تیرے واسطے کھجوروں کا اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس کے درمیان میں زمین پھاڑ کر نہریں بہا دے یا تو جیسا گمان کرتا ہے ہمارے اوپر آسمان گرا دے یا تو اللہ اور اس کے فرشتوں کو (ہمارے) مقابل لائے یا تیرے واسطے ایک سونے کا (طلائی) مکان ہو اور یا تو چڑھ جائے آسمان پر اور ہم تیرے چڑھ جانے کو بھی ہرگز اس وقت تک نہیں تسلیم کریں گے تاوقتیکہ تو ہمارے پاس (آسمان سے) کتاب لے کر نہ آئے کہ اس کو ہم پڑھیں (اے محمد ! ) کہہ دیجئے پاکی ہے میرے پروردگار کے لیے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان ہوں ‘ خدا کا پیغامبر ہوں۔ “
{ وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآئِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ۔ لَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۔ } [88] ” اور اگر کھول دیں ہم ان پر آسمان کا ایک دروازہ اور یہ اس پر چڑھنے لگیں تب بھی ضرور یہی کہیں گے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مست کردی گئی ہیں ہماری آنکھیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔ “ { وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا } [89] ” اور اگر یہ ہر قسم کے نشان بھی دیکھ لیں تب بھی (ضد اور تعصب کی بنا پر) ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ “
اب ان تفصیلات سے یہ بھی بخوبی روشن ہو گیا کہ علم کلام میں جن علما کی رائے یہ ظاہر کی گئی ہے کہ معجزہ دلیل نبوت نہیں ہے ان کی مراد کیا ہے ؟ وہ دراصل دعویٰ نبوت کی صداقت سے متعلق مسطورہ بالا ہر دو دلائل کے فرق کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو ہستی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتی ہے اس پر لازم اور ضروری ہے کہ اپنے دعویٰ کی تصدیق کے لیے ” حجۃ وبرہان “ پیش کرے اور دلائل کی روشنی میں اپنی حقانیت کو ثابت کرے اور وحی الٰہی کی جو تعلیم وہ کائنات کی ہدایت کے لیے پیش کرتی ہے برہان و حجت کے ذریعہ اس کی حقیقت کو واضح کرے ‘ تو گویا اس طرح نبوت و رسالت اور حجۃ و برہانِ صداقت میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے اس کے برعکس نبوت کے ساتھ معجزات اور آیات اللہ (نشانات خداوندی) کا تعلق اس طرح کا نہیں ہے بلکہ اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر مخالفین کے مطالبہ پر یا بہ تقاضائے حکمت الٰہی نبی و رسول از خود اپنی صداقت کی تائید میں کوئی نشان (معجزہ) دکھائے تو بلاشبہ وہ اس ہستی کے نبی و رسول ہونے کی ناقابل انکار دلیل ہے اور اس کا انکار درحقیقت اس رسول کی صداقت کا انکار ہے کیونکہ اس صورت میں یہ انکار حقیقت اور واقعہ کا انکار ہے اور حقیقت کا انکار ” حق “ نہیں بلکہ ” باطل “ ہوتا ہے جو نبوت و رسالت کے مقصد کے ساتھ کسی طرح بھی جمع نہیں ہو سکتا۔ البتہ اگر حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہو کہ تعلیم حق کی روشنی ‘وحی الٰہی پر دلائل وبراہین کا یقین ‘ اور اصول دین پر حجۃ وبرہان کا قیام ہوتے ہوئے اب مخالفین کے بار بار طلب معجزات و عجائبات کی پروا نہ کی جائے اور نبی و رسول وحی الٰہی کی روشنی میں حجۃ وبرہان کے ذریعہ تعلیم حق جاری رکھے اور مخالفین کے جواب میں صاف صاف کہہ دے کہ میں نے ماورا فطرت پر قدرت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا ‘ تو اس صورت میں بندوں پر خدا کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور کسی امت اور قوم کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ تعلیم حق کے دلائل وبراہین اور روشن حجت بینہ سے اس لیے منہ پھیرے اور اس لیے اس کا انکار کر دے کہ اس کی طلب پر اچنبھوں اور عجائبات کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا۔
پس قرآن عزیز نے جن انبیا و رسل کے واقعات و حالات تذکیر بایام اللّٰہ کے سلسلہ میں بیان کرتے ہوئے نصوص قطعیہ کے ذریعہ صراحت و وضاحت سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم نے ان کی صداقت کے نشان کے طور پر نشانات (معجزات) ان کو عطا کیے اور مخالفین کے سامنے ان کا مظاہرہ کیا تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بے چون و چرا ان کو قبول اور ان کی تصدیق کریں اور عجائب پرستی کے الزام سے خائف ہو کر عالم غیب کی اس تصدیق سے گریز نہ کریں اور نہ رکیک و باطل تاویلات کے پردہ میں ان کے انکار پر آمادہ ہوجائیں کیونکہ ایسا کرنا اس آیت کا مصداق بن جانا ہے :
{ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا } [90] ” اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب الٰہی کے بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے درمیان میں ایک راہ بنالیں۔ “ اور ظاہر ہے کہ یہ مومن و مسلم کی نہیں بلکہ کافر و منکر کی راہ ہے ‘ مومن و مسلم کی سیدھی راہ تو یہ ہے : { یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} [91] ” اے پیروان دعوت ایمانی ! اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ (اور اعتقاد و عمل کی ساری باتوں میں مسلم بن جاؤ ‘ مسلم ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ زبان سے اسلام کا اقرار کرلو) اور دیکھو شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو ‘ وہ تو تمھارا کھلا دشمن ہے۔ “
بہرحال ” سنت اللّٰہ “ یہ جاری رہی ہے کہ جب کسی قوم کی ہدایت یا تمام کائنات انسانی کی فوز و فلاح کے لیے نبی اور پیغمبر مبعوث ہوتا ہے تو اس کو منجانب اللہ محکم دلائل وبراہین اور آیات اللہ (معجزات) دونوں سے نوازا جاتا ہے ‘وہ ایک جانب وحی الٰہی کے ذریعہ کائنات کے معاش و معاد سے متعلق اوامرو نواہی اور بہترین دستور و نظام پیش کرتا ہے تو دوسری جانب حسب مصلحت خداوندی ” خدائی نشانات “ کا مظاہرہ کرکے اپنی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔نیز ہر ایک پیغمبر کو اسی قسم کے معجزات و نشانات عطا کیے جاتے ہیں جو اس زمانہ کی علمی ترقیوں یا قومی و ملکی خصوصیتوں کے مناسب حال ہونے کے باوجود معارضہ کرنے والوں کو عاجز و درماندہ کر دیں اور کوئی ان کے مقابلہ میں تاب مقاومت نہ لاسکے اور اگر تعصب اور ضد درمیان میں حائل نہ ہوں تو اپنی اکتسابی ترقیوں اور خصوصیتوں کے حقائق سے آگاہ ہونے کی وجہ سے اس اعتراف پر مجبور ہوجائیں کہ یہ جو کچھ سامنے ہے انسانوں کی قدرت سے بالاتر ‘ ان کی دسترس سے باہر ‘ اور صرف خدائے واحد ہی کی جانب سے ہے۔
مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں علم نجوم اور علم کیمیا کا بہت زور تھا اور ساتھ ہی ان کی قوم کواکب و نجوم کے اثرات کو ان کے ذاتی اثرات سمجھتی اور ان کو موثر حقیقی یقین کرکے خدائے واحد کی جگہ ان کی پرستش کرتی تھی اور ان کا سب سے بڑا دیوتا شمس (سورج) تھا کیونکہ وہ روشنی و حرارت دونوں کا حامل تھا اور یہی دونوں چیزیں ان کی نگاہ میں کائنات کی بقا و فلاح کے لیے اصل الاصول تھیں اور اسی بنا پر کرہ ارضی میں ” آگ “ کو اس کا مظہر مان کر اس کی بھی پرستش کی جاتی تھی ‘علاوہ ازیں ان کو اشیاء کے خواص و اثرات اور ان کے رد عمل پر بھی کافی عبور تھا گویا آج کی علمی تحقیقات کے لحاظ سے وہ کیمیاوی طریقہ ہائے عمل سے بھی بڑی حدتک واقف تھے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی ہدایت اور خدا پرستی کی تعلیم و تلقین کے لیے ایک جانب ایسے روشن حجۃ وبرہان عطا فرمائے جن کے ذریعہ وہ قوم کے غلط عقائد کے ابطال اور احقاق حق کی خدمت انجام دیں اور مظاہر پرستی کی وجہ سے حقیقت کے چہرہ پر تاریکی کا جو پردہ پڑ گیا تھا اس کو چاک کرکے رخ روشن کو نمایاں کرسکیں :
{ وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ} [92] اور دوسری جانب جب کواکب پرست اور بت پرست بادشاہ سے لے کر عام افراد قوم نے ان کے دلائل وبراہین سے لاجواب ہو کر اپنی مادی طاقت کے گھمنڈ پر دہکتی آگ میں جھونک دیا تو اسی خالق اکبر نے جس کی دعوت و ارشاد کی خدمت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انجام دے رہے تھے کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا [93] کہہ کر اپنی قدرت کا وہ عظیم الشان نشان (معجزہ) عطا کیا جس نے باطل کے پرہیبت ایوان میں زلزلہ پیدا کر دیا اور تمام قوم اس خدائی مظاہرہ سے عاجز ‘ حیران و پریشان اور ذلیل و خاسر ہو کر رہ گئی۔ { وَ اَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ } [94]
اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں سحر مصری علوم و فنون میں بہت زیادہ نمایاں اور امتیازی شان رکھتا تھا اور مصریوں کو فن سحر میں کمال حاصل تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قانون ہدایت ( توراۃ ) کے ساتھ ساتھ یدبیضا اور عصا جیسے معجزات دیے گئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ساحرین مصر کے مقابلہ میں جب ان کا مظاہرہ کیا تو سحر کے تمام ارباب کمال اس کو دیکھ کر یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ بلاشبہ یہ سحر نہیں ‘یہ تو اس سے جدا اور انسانی طاقت سے بالاتر مظاہرہ ہے جو خدائے برحق نے اپنے سچے پیغمبروں کی تائید کے لیے ان کے ہاتھ پر کرایا ہے کیونکہ ہم سحر کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور یہ کہہ کر انھوں نے فرعون اور قوم فرعون کے سامنے بے خوفی کے ساتھ اعلان کر دیا کہ وہ آج سے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے خدائے واحد ہی کے پرستار ہیں :
{ وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْنَ۔ قَالُوْا امَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ رَبِّ مُوْسٰی وَھَارُوْنَ } [95] مگر فرعون اور امرا دربار اپنی بدبختی سے یہی کہتے رہے : { قَالَ لِلْمَـلَاِ حَوْلَہٗ اِنَّ ہٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِیْمٌ} [96] { فَلَمَّا جَآئَھُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّ مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ } [97]
اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں علم طب اور علم طبیعیات کا بہت چرچا تھا اور یونان کے اطباء و حکماء (فلاسفر) کی طب و حکمت گرد و پیش کے ممالک و امصار کے ارباب کمال پر بہت زیادہ اثر انداز تھی اور ملکوں میں صدیوں سے بڑے بڑے طبیب اور فلسفی اپنی حکمت و دانش اور کمالات طب کا مظاہرہ کر رہے تھے مگر خدائے واحد کی توحید اور دین حق کی تعلیم سے خواص و عوام یکسر محروم تھے اور خود بنی اسرائیل بھی جو نبیوں کی نسل میں ہونے پر ہمیشہ فخر کرتے رہتے تھے جن گمراہیوں میں مبتلا تھے سطور گذشتہ میں ان پر روشنی پڑچکی ہے۔ پس ان حالات میں ” سنت اللّٰہ “ نے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رشد و ہدایت کے لیے منتخب کیا تو ایک جانب ان کو حجۃ وبرہان (انجیل) اور حکمت سے نوازا تو دوسری جانب زمانہ کے مخصوص حالات کے مناسب چند ایسے نشان (معجزات) بھی عطا فرمائے جو اس زمانہ کے ارباب کمال اور ان کے پیرؤوں پر اس طرح اثر انداز ہوں کہ جویائے حق کو اس اعتراف میں کوئی جھجک باقی نہ رہے کہ بلاشبہ یہ اعمال اکتسابی علوم سے جدا محض خدائے تعالیٰ کی جانب سے رسول برحق کی تائید میں رونما ہوئے ہیں اور متعصب اور متمرد کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ رہے کہ ان کو ” صریح جادو “ کہہ کر اپنے بغض و حسد کی آگ کو اور مشتعل کرے۔
عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان معجزات میں سے جن کا مظاہرہ انھوں نے قوم کے سامنے کیا قرآن عزیز نے چار معجزات کا بصراحت ذکر کیا ہے :
1۔وہ خدا کے حکم سے مردہ کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔اور پیدائشی نابینا اور جذامی کو چنگا کر دیا کرتے تھے۔
2۔ وہ مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک دیتے تھے اور خدا کے حکم سے اس میں روح پڑجاتی تھی۔
3۔ وہ یہ بھی بتادیا کرتے تھے کہ کس نے کیا کھایا اور خرچ کیا اور کیا گھر میں ذخیرہ محفوظ رکھا ہے۔
قوموں میں ایسے مسیحا موجود تھے جن کے علاج و معالجے اور اکتسابی تدابیر سے مایوس مریض شفا پاتے تھے ان میں ماہر طبیعیات ایسے فلسفی بھی کم نہ تھے جو روح و مادہ کے حقائق اور ارضی و سماوی اشیاء کی ماہیات پر بے نظیر نظریات و تجربات کے مالک سمجھے جاتے تھے اور حقائق اشیاء میں ان کی باریک بینی اور مہارت ارباب کمال کے لیے باعث صد نازش تھی۔لیکن جب ان کے سامنے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسباب و وسائل اختیار کیے بغیر ان امور کا مظاہرہ کیا تو ان پر بھی ہدایت و ضلالت کی قدرتی تقسیم کے مطابق یہی اثر پڑا جس شخص کے قلب میں حق کی طلب موجزن تھی اس نے اقرار کیا کہ بلاشبہ اس قسم کا مظاہرہ انسانی دسترس سے باہر اور نبی برحق کی تائید و تصدیق کے لیے منجانب اللہ ہے اور جن دلوں میں رعونت ‘ حسد اور بغض وعناد تھا ان کے تعصب نے وہی کہنے پر مجبور کیا جو ان کے پیشرو انبیا و رسل سے کہتے آئے تھے۔ { اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} [98]
4۔چوتھے معجزے کے بارے میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے مظاہرہ کی وجہ یہ پیش آئی کہ مخالفین جب ان کی دعوت رشد و ہدایت سے نفور ہو کر ان کو جھٹلاتے اور ان کے پیش کردہ آیات بینات (معجزات) کو سحر اور جادوکہتے تو ساتھ ہی ازراہ تمسخر یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ اگر تم خدائے تعالیٰ کے ایسے مقبول بندے ہو تو بتاؤ آج ہم نے کیا کھایا ہے اور کیا بچا رکھا ہے تب عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے تمسخر کو سنجیدگی سے بدل دیتے اور وحی الٰہی کی نصرت سے ان کے سوال کا جواب دیدیا کرتے تھے۔[99]
مگر قرآن حکیم نے اس معجزہ کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس کو غور کے ساتھ مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ” نشان “ کے مظاہرہ کی وجہ مفسرین کی بیان کردہ توجیہ سے زیادہ دقیق اور وسیع معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پیغام ہدایت و تبلیغ حق کی خدمت انجام دیتے ہوئے اکثر و بیشتر لوگوں کو دنیا میں انہماک ‘ دولت و ثروت کے لالچ اور عیش پسند زندگی کی محبت سے باز رکھنے پر مختلف اسالیب بیان کے ذریعہ توجہ دلایا کرتے تھے تو جس طرح بعض سعید روحیں اس کلمہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کردیتی تھیں۔ اس کے برعکس شریر النفس انسان ان کے مواعظ حسنہ سے قلبی نفرت و اعراض کے باوجود امتثال امر کرنے والی ہستیوں سے زیادہ ان کو یہ باور کر اتیں کہ ہم توہمہ وقت آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں سرگرم رہتے ہیں۔لہٰذا قدرت حق نے یہ فیصلہ کیا کہ ان منافقین کی منافقت کی مضرت کو زائل کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسا ” نشان “ عطا کیا جائے کہ اس ذریعہ سے حق و باطل منکشف ہوجائے اور حقوق اللہ اور حقوق انسانی کے اتلاف پر جو ذخیرہ اندوزی کا سامان کیا جا رہا ہے اس کا پردہ چاک کر دیا جائے۔
ان چہار گانہ خدائی نشان (معجزات) کے علاوہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بغیر باپ کے پیدائش بھی ایک عظیم الشان ” خدائی نشان “ تھا جس کے متعلق ابھی تفصیلات سن چکے ہو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہاتھ پر جن معجزات کا ظہور ہوا یا ان کی ولادت جس معجزانہ طریق پر ہوئی یہود نے ازراہ حسد ان کا انکار کیا تو کیا لیکن بعض فطرت پرست مدعی اسلام حضرات نے بھی ان کے انکار کے لیے راہ پیدا کرنے کی ناکام سعی فرمائی ہے ‘ان میں سے بعض حضرات وہ ہیں جنھوں نے اس انکار کو ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ فطرت پرست اور منکرین خدا یورپین علمائے جدید سے مرعوبیت کی بنا پر یہ روش اختیار کی ہے تاکہ ان کی مذہبیت پر عجائب پرستی کا الزام عائد نہ ہو سکے ‘ ان میں سر سید اور مولوی چراغ علی صاحب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔اور بعض وہ یہود صفت اشخاص ہیں جو اپنی ذاتی غرض اور ناپاک مقصد کی خاطر ازراہ حسد و بغض حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ان معجزات کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ تاویلات باطل کے پردہ میں ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں ‘ان میں متنبی کاذب مرزا قادیانی اور مسٹر محمد علی لاہوری خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔قادیانی اور لاہوری نے تو یہ ظلم کیا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معجزہ { اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ } [100]کے متعلق یہ کہہ دیا کہ مسیح (علیہ السلام) کا یہ عمل ایک تالاب کی مٹی کا رہین منت تھا ‘ معجزہ کچھ نہیں تھا ‘ اس تالاب کی مٹی کی یہ خاصیت تھی جس کسی پرند کی شکل بنائی جاتی اور منہ سے دم تک سوراخ رکھ دیا جاتا تھا تو ہوا بھر جانے سے اس میں آواز بھی پیدا ہوجاتی تھی اور حرکت بھی ‘ گویا العیاذ باللّٰہ ! ان بدبختوں کے نزدیک حضرت مسیح (علیہ السلام) کی جانب سے منکروں کے مقابلہ میں یہ معجزانہ صداقت نہیں تھی بلکہ مداری یا شعبدہ باز کا تماشا تھا۔
اسی طرح احیائے موتیٰ (مردہ کو زندہ کردینا) کے معجزہ کا بھی انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن عزیز نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ موت کے بعد کسی کو اس دنیا میں قبل از قیامت زندگی نہیں بخشے گا۔لیکن لطف یہ ہے کہ اگر پورے قرآن کو از اول تا آخر پڑھ لیا جائے تو کسی ایک آیت میں بھی آپ کو یہ فیصلہ نہیں ملے گا بلکہ اس دعویٰ کے خلاف متعدد مقامات پر اس کا اثبات پائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں موت دینے کے بعد حیات تازہ بخشی ہے مثلاً سورة بقرہ کی آیات ذبح بقرہ کے واقعہ میں ارشاد ہے : { فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی } [101]
یا سورة بقرہ ہی کی اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے :{ فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ } [102]
یا اسی سورة میں تیسری جگہ مذکور ہے : { وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا } [103]
چنانچہ ان تمام واقعات میں ” احیائے موتیٰ “ کے صاف اور صریح معانی ثابت ہیں اور جن حضرات نے ان مقامات میں ” احیائے موتیٰ “ سے مجازی یا کنائی معنی لیے ہیں ان کو طرح طرح کی تاویلات کی پناہ لینی پڑی ہے مگر ان کی تاویلات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احیائے موتیٰ کی یہ تاویل اس وجہ سے نہیں کر رہے ہیں کہ قرآن کے نزدیک اس کا دنیا میں وقوع ممنوع ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ آیات مسطورہ بالا کے سیاق وسباق کے پیش نظر یہی معنی مناسب حال ہیں۔غرض یہ دعویٰ کہ قرآن ممنوع قرار دیتا ہے کہ دار دنیا میں ” احیائے موتیٰ “ وقوع پزیر ہو صرف مرزا قادیانی اور مسٹر لاہوری کے دماغ کی اپج ہے جو قطعاً باطل ہے اور غیر ثابت ہے اور اس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں ہے ‘رہا یہ امر کہ خدا کے عام قانون فطرت کے ماتحت ایسا نہیں پیش آتا رہتا سو اگر ایسا ہوتا رہتا تو پھر یہ ” معجزہ “ ہرگز نہ کہلاتا اور خدائے برتر کا قانون خاص جو تصدیق انبیا (علیہم السلام) کے مقصد سے کبھی کبھی مخالفین کے مقابلہ میں بطور تحدی (چیلنج) کے پیش آتا رہا ہے کوئی خصوصیت نہ رکھتا۔ اسی طرح حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش کے مسئلہ کا بھی انکار کیا گیا ہے اور قادیانی اور لاہوری نے بھی اس کے خلاف بے دلیل ہرزہ سرائی کی ہے لیکن اس مسئلہ کی موافق و مخالف آراء سے قطع نظر ایک غیر جانبدار منصف جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے متعلق تمام آیات قرآنی کا مطالعہ کرے گا تو اس پر یہ حقیقت بخوبی آشکارا ہوجائے گی کہ قرآنحضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق یہود کی تفریط اور نصاریٰ کی افراط دونوں کے خلاف اپنا وہ فرض منصبی ادا کرنا چاہتا ہے جس کے لیے قرآن کی دعوت حق کا ظہور ہوا ہے ‘یہود اور نصاریٰ اس بارے میں دو قطعاً مخالف اور متضاد سمتوں میں چلے گئے ہیں ‘ یہود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) مفتری اور کاذب اور شعبدہ باز تھے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ وہ خدا ‘ خدا کے بیٹے یا ثالث ثلثہ تھے ‘ان حالات میں قرآن نے ان اوہام و ظنون کے خلاف علم و یقین کی راہ دکھاتے ہوئے دونوں کے خلاف یہ فیصلہ دیا کہ راہ حق افراط وتفریط کے درمیان میں ہے اور صراط مستقیم کی یہی سب سے بڑی شناخت ہے۔ وہ کہتا ہے واضح رہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) مفتری اور کاذب نہیں تھے بلکہ خدا کے سچے پیغمبر اور راہ حق کے داعی صادق تھے ‘ انھوں نے دعوت حق کی تصدیق کے لیے جو بعض عجیب باتیں کردکھائیں وہ معجزات انبیا کی فہرست میں شامل ہیں نہ کہ ساحروں اور شعبدہ بازوں کی ‘اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی مگر اس سے یہ کیسے لازم آسکتا ہے کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہو گئے ‘ کیا جو شخص پیدائش کا محتاج ہو اور پیدائش میں بھی ماں کے پیٹ کا محتاج اور جو شخص بشری لوازم کھانے پینے کا محتاج ہو وہ عبد اور بشر کے ماسوا خدا یا معبود ہو سکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔
یہاں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ نصاریٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق الوہیت کا جو عقیدہ قائم کیا تھا اس کا بہت بڑا سہارا یہی واقعہ تھا جیسا کہ وفد نجران اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باہمی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے۔ تو جب کہ قرآن نے یہود و نصاریٰ کے ان تمام باطل عقائد کی واضح الفاظ میں تردید کرکے جو انھوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق قائم کر لیے تھے اپنا فریضہ اصلاح انجام دیا ‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ اگر بن باپ کے پیدائش کا واقعہ باطل اور غیر واقعی تھا اور جو سہارا بن رہا تھا الوہیت مسیح (علیہ السلام) کا ‘ اس کے متعلق واضح طور سے قرآن تردید نہ کرتا بلکہ اس کے برعکس وہ جگہ جگہ اس واقعہ کو ٹھیک اسی طرح بیان کرتا جاتا جیسا کہ متی کی انجیل میں بیان کیا گیا ہے ‘ اس کا فرض تھا کہ سب سے پہلے اسی پر ضرب کاری لگاتا اور صرف اس قدر کہہ کر کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا باپ فلاں شخص تھا اس ساری عمارت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا جس پر الوہیت مسیح (علیہ السلام) کی بنیاد رکھی گئی ہے مگر اس نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ یہ بات کسی طرح بھی مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کی دلیل نہیں بن سکتی ‘ کیوں ؟ اس لیے کہ : {إِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ } [104] پس اگر بن باپ کی پیدائش مسیح (علیہ السلام) کو درجہ الوہیت دے سکتی ہے تو آدم (علیہ السلام) کو اس سے زیادہ الوہیت کا حق حاصل ہے کہ وہ بن ماں باپ کے پیدا ہوا ہے۔ بہرحال جن تاویل پرستوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش سے متعلق آیات کے جملوں کو جدا جدا کرکے غلط احتمالات پیداکئے ہیں وہ اس لیے باطل ہیں کہ جب اس واقعہ سے متعلق آیات کو یکجا کرکے مطالعہ کیا جائے تو ایک لمحہ کے لیے بھی آیات کے معانی میں بن باپ پیدائش کے معنی کے ماسوا دوسرے کسی بھی احتمال کی گنجائش باقی نہیں رہتی مگر یہ کہ عربی زبان کے الفاظ کے معین مدلولات اور اطلاقات میں تحریف معنوی پر بے جا جسارت کی جائے۔ نیز بقول مولانا ابو الکلام جن اصحاب نے بغیر باپ کے پیدائش سے متعلق آیات میں تاویل باطل کی ہے ان کی دلیل کا مدار صرف اس بات پر ہے کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کا نکاح اگرچہ یوسف سے ہو چکا تھا مگر رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی ‘ایسی صورت میں میاں بیوی کے درمیان مقاربت گو شریعت موسوی کے خلاف نہیں تھی تاہم وقت کے رسم و رواج کے قطعاً خلاف تھی اس لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش لوگوں کو گراں گذری ‘ لیکن اول تو اس واقعہ کا ثبوت ہی موجود نہیں سب بے سند بات ہے۔دوسرے یہودیوں نے حضرت مریم (علیہا السلام) پر جو بہتان لگایا تھا ” انسائیکلوپیڈیا آف بائبل “ میں تصریح ہے کہ اس بہتان کی نسبت ایک شخص پنتھرا ٹالی کی جانب کی تھی نہ کہ یوسف نجار کی جانب ‘اس لیے تاویل کی یہ بنیاد ہی از سر تاپا غلط اور بے اصل ہے۔ [105]
علاوہ ازیں جہاں تک اس مسئلہ کا عقلی پہلو ہے سو عقل بھی اس کے امکان کو ممنوع اور محال قرار نہیں دیتی بلکہ اس کو ممکن الوقوع تسلیم کرتی ہے ‘ کیا سائنس کی موجودہ دنیا سے آشنا حضرات اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ آج جب کہ سائنس کی جدید تحقیق نے نظریوں سے آگے قدم بڑھا کر مشاہدہ اور تجربہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دوسرے حیوانات کی طرح انسان کی خلقت و پیدائش بھی بیضہ سے ہوتی ہے اور اس کو اصطلاح میں خلیہ تخم 1 ؎(خلیہ کو انگریزی میں (CELL ) کہتے ہیں۔) کہتے ہیں ‘ یہ خلیہ مرد اور عورت دونوں میں ہوتا ہے اور حمل قرار پا جانے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مرد کے خلیات تخم عورت کے بیضہ میں داخل ہوجاتے ہیں ‘ یہی خلیہ زندگی اور حیات کا تخم ہے اور قدرت حق نے اس کو بہت باریک جثہ عطا فرمایا 2 ؎( اس کا قطر انچ کا 5٠٠/1 ہوتا ہے۔) ہے ‘ تو اس تحقیق نے امریکا اور انگلینڈ کے سائنسدانوں کو اس جانب متوجہ کر دیا ہے کہ کیوں وہ ایک ایسی کوشش نہ کریں کہ بغیر مرد کی مقاربت کے جنس رجال کے خلیات تخم کو آلات کے ذریعہ جنس اناث کے مبیض میں داخل کرکے ” وجود انسانی “ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ سائنس والوں کا یہ تخیل ابھی عملی حیثیت سے کتنا ہی دور ہو لیکن اس سے یہ نتیجہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ عقل یہ ممکن سمجھتی ہے کہ انسانی پیدائش ‘ آنکھوں دیکھے عام طریق ولادت کے علاوہ بعض دوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتی ہے اور ان کو قانون قدرت کے خلاف اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے قدرت کے تمام قوانین کا احاطہ نہیں کر لیا ہے بلکہ انسان جس قدر علم و دانش کی جانب بڑھتا جاتا ہے اس کے سامنے قدرت حق کے قانون کے نئے نئے گوشے کھلتے جاتے ہیں۔ پس اگر یہ صحیح ہے کہ جو بات کل ناممکن نظر آتی تھی آج وہ ممکن کہی جارہی ہے اور جلد یا بدیر اس کے وقوع پر یقین کیا جا رہا ہے تو نہیں معلوم پھر اس قانون قدرت کا انکار کردینے کے کیا معنی ہیں جس کا علم اگرچہ ابھی تک ہم کو حاصل نہیں ہے مگر انبیا و رسل جیسی قدسی صفات ہستیوں پر اس علم کی حقیقت آشکارا ہے تو کیا علمی دلیل کا یہ بھی کوئی پہلو ہے جس بات کا ہم کو علم نہ ہو اور عقل اس کو ناممکن اور محال نہ ثابت کرتی ہو اس کا انکار صرف ” عدم علم “ کی وجہ سے کر دیا جائے خصوصاً جب یہ انکار ایک مدعی مسیحیت و نبوت کی جانب سے ہو تو اس کے لیے تو یہی کہا جا سکتا ہے۔
اب ان ” آیات بینات “ کو قرآن حکیم سے سنئے اور موعظت و عبرت کے حصول کا سر و سامان کیجئے کہ ماضی کے ان واقعات کی تذکیر سے قرآن کا یہی عظیم مقصد ہے۔
{ وَ یُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ۔ وَ رَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ } [106]
” اور خدا سکھاتا ہے اس (عیسیٰ ) کو کتاب ‘ حکمت ‘ تورات اور انجیل ‘ اور وہ رسول ہے بنی اسرائیل کی جانب (وہ کہتا ہے) کہ بے شک میں تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی جانب سے ” نشان “ لے کر آیا ہوں ‘ وہ یہ کہ میں تمھارے لیے مٹی سے پرند کی شکل بناتا پھر اس میں پھونک دیتا ہوں اور وہ خدا کے حکم سے زندہ پرند بن جاتا ہے اور پیدائشی اندھے کو سوانکھا کردیتا اور سپید داغ کے جذام کو اچھا کردیتا ہوں ‘اور خدا کے حکم سے مردہ کو زندہ کردیتا ہوں ‘ اور تم کو بتا دیتا ہوں جو تم کھا کر آتے ہو اور جو تم گھر میں ذخیرہ رکھ آتے ہو ‘ سو اگر تم حقیقی ایمان رکھتے ہو تو بلاشبہ ان امور میں (میری صداقت اور منجانب اللہ ہونے کے لیے) ” نشان “ ہے اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور (اس لیے بھیجا گیا ہوں) تاکہ بعض ان چیزوں کو جو تم پر حرام ہو گئی ہیں تمھارے لیے حلال کر دوں تمھارے لیے پروردگار ہی کے پاس سے ” نشان “ لایا ہوں ‘ پس تم اللہ سے ڈرو ‘اور (اس کے دیے ہوئے احکام میں) میری اطاعت کرو ‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمھارا پروردگار ہے ‘ سو اس کی عبادت کرو ‘ یہی سیدھی راہ ہے۔ “
{ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ } [107] ” اور (ا ے عیسیٰ ابن مریم ! تو میری اس نعمت کو یاد کر) جبکہ تو میرے حکم سے گارے سے پرند کی شکل بنا دیتا اور پھر اس میں پھونک دیتا تھا اور وہ میرے حکم سے زندہ پرند بن جاتا تھا اور جبکہ تو میرے حکم سے پیدائشی اندھے کو سوانکھا اور سپید داغ کے کوڑھی کو اچھا کردیتا تھا اور جبکہ تو میرے حکم سے مردہ کو زندہ کر کے قبر سے نکالتا تھا۔ “ { فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} [108] ” پھر جب وہ (عیسیٰ (علیہ السلام)) ان کے پاس کھلے نشان لے کر آیا تو انھوں نے (بنی اسرائیل نے) کہا ” یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “ انبیا (علیہم السلام) نے جب کبھی قوموں کے سامنے آیات اللہ کا مظاہرہ کیا ہے تو منکروں نے ہمیشہ ان کے متعلق ایک بات ضرور کہی ہے ” یہ تو کھلا ہوا جادو ہے “ پس کیا ایک جویائے حق اور غیر متعصب انسان کے لیے یہ جواب اس جانب رہنمائی نہیں کرتا کہ انبیا (علیہم السلام) کے اس قسم کے مظاہرے ضرور عام قوانین قدرت سے جدا ایسے علم کے ذریعہ ظہور پزیر ہوتے تھے جو صرف ان قدسی صفات ہستیوں کے لیے ہی مخصوص رہا ہے اور ان کے علاوہ انسانی دنیا اس کے فہم حقیقت سے بہرہ مند نہیں ہوئی تبھی ان لوگوں کے پاس جو ازراہ عناد و ضد انکار پر تلے ہوئے تھے ‘اس کے انکار کے لیے اس سے بہتر دوسری تعبیر نہیں تھی کہ وہ ان امور کو ” سحر و جادو “ کہہ دیں۔ لہٰذا ان امور کو سحر و جادو کہنا بھی ان کے ” معجزہ “ اور ” نشان خداوندی “ ہونے کی زبردست دلیل ہے۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی تعلیمات کا خلاصہ

[ترمیم]

بہرحال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو حجۃ وبرہان اور آیات اللہ کے ذریعہ دین حق کی تعلیم دیتے رہتے اور ان کے بھولے ہوئے سبق کو یاد دلا کر مردہ قلوب میں حیات تازہ بخشتے رہتے تھے۔ خدا اور خدا کی توحید پر ایمان ‘ انبیا و رسل ( ) کی تصدیق ‘آخرت (معاد) پر ایمان ‘ ملائکۃ اللہ پر ایمان ‘ قضا و قدر پر ایمان ‘ خدا کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان ‘ اخلاق حسنہ کے اختیار ‘ اعمال سیہ سے پرہیز و اجتناب ‘ عبادت الٰہی سے رغبت ‘ دنیا میں انہماک سے نفرت اور خدا کے کنبہ (مخلوق خدا) سے محبت و مودت یہی وہ تعلیم و تلقین تھی جو ان کی زندگی کا مشغلہ اور فرض منصبی بنا ہوا تھا۔وہ بنی اسرائیل کو تورات ‘ انجیل اور حکیمانہ پند و نصائح کے ذریعہ ان امور کی جانب دعوت دیتے ‘ مگر بدبخت یہود اپنی فطرت کج صدیوں کی مسلسل سرکشی اور تعلیم الٰہی سے بغاوت کی بدولت اس درجہ متشدد ہو گئے تھے اور انبیا و رسل کے قتل نے ان کے قلوب کو حق و صداقت کے قبول میں اس درجہ سخت بنادیا تھا کہ ایک مختصر سی جماعت کے علاوہ ان کی جماعت کی بڑی اکثریت نے ان کی مخالفت اور ان کے ساتھ حسد و بغض کو اپنا شعار اور اپنی جماعتی زندگی کا معیار بنا لیا اور اس لیے انبیا کی سنت راشدہ کے مطابق رشد و ہدایت کے حلقہ بگوشوں میں دنیوی جاہ و جلال کے لحاظ سے کمزور و ناتواں اور زیردست پیشہ ور طبقہ کی اکثریت نظر آتی تھی ‘ضعفاء کا یہ طبقہ اگر اخلاص و دیانت کے ساتھ حق کی آواز پر لبیک کہتا تو بنی اسرائیل کا وہ سرکش و مغرور حلقہ ان پر اور خدا کے پیغمبر پر پھبتیاں کستا ‘ توہین و تذلیل کا مظاہرہ کرتا اور اپنی عملی جدوجہد کا بڑا حصہ معاندت و مخالفت میں صرف کرتا رہتا تھا :
{ وَلَمَّا جَائَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْم بَیْنِہِمْ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ۔ } [109] ” اور جب عیسیٰ ظاہر دلائل لے کر آئے تو کہا : ” بلاشبہ میں تمھارے پاس ” حکمت “ لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں تاکہ ان بعض باتوں کو واضح کر دوں جن کے متعلق تم آپس میں جھگڑ رہے ہو ‘ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ‘ بے شک اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمھارا پروردگار ہے سو اس کی پرستش کرو یہی سیدھی راہ ہے “پھر وہ آپس میں گروہ بندی کرنے لگے ‘ سو ان لوگوں کے لیے درد ناک عذاب کے ذریعہ ہلاکت اور خرابی ہے۔ “ { وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} [110] ” اور (وہ وقت یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا : اے بنی اسرائیل ! بلاشبہ میں تمھاری جانب اللہ کا پیغمبر ہوں ‘ تصدیق کرنے والا ہوں تورات کی جو میرے سامنے ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا نام اس کا احمد ہے ‘پس جب (عیسیٰ (علیہ السلام)) آیا ان کے پاس معجزات لے کر تو وہ (بنی اسرائیل) کہنے لگے ‘ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “ { فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ اشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔ رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ۔ } [111] ” پھر جب عیسیٰ نے ان (بنی اسرائیل) سے کفر محسوس کیا تو کہا ” اللہ کی جانب میرا کون مددگار ہے ؟ “ حواریوں نے جواب دیا : ” ہم ہیں اللہ کے (دین کے) مدد گار۔ ہم اللہ پر ایمان لے آئے اور تم گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں ‘ اے ہمارے پروردگار ! جو تونے اتارا ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم نے رسول کی پیروی اختیار کرلی پس تو ہم کو (دین حق کی) گواہی دینے والوں میں سے لکھ لے۔ “

حواری عیسیٰ (علیہ السلام)

[ترمیم]

مگر عیسیٰ (علیہ السلام) معاندین و مخالفین کی در اندازیوں اور ہرزہ سرائیوں کے باوجود اپنے فرض منصبی ” دعوۃ الی الحق “ میں سرگرم رہتے اور شب و روز بنی اسرائیل کی آبادیوں اور بستیوں میں پیغام حق سناتے اور روشن دلائل اور واضح آیات اللہ کے ذریعہ لوگوں کو قبول حق و صداقت پر آمادہ کرتے رہتے تھے۔ اور خدا اور حکم خدا سے سرکش اور باغی انسانوں کی بھیڑ میں ایسی سعید روحیں بھی نکل آتی تھیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت حق پر لبیک کہتی اور سچائی کے ساتھ دین حق کو قبول کرلیتی تھیں ‘انھی پاک بندوں میں وہ مقدس ہستیاں بھی تھیں جو حضرت عیسیٰ کے شرف صحبت سے فیضیاب ہو کر نہ صرف ایمان ہی لے آئی تھیں بلکہ دین حق کی سر بلندی اور کامیابی کے لیے انھوں نے جان و مال کی بازی لگا کر خدمت دین کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا اور اکثر و بیشتر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر تبلیغ و دعوت کو سر انجام دیتی تھیں ‘ اسی خصوصیت کی وجہ سے وہ ” حواری “ (رفیق) اور ” انصار اللّٰہ “ (اللہ کے دین کے مددگار) کے مقدس القاب سے معزز و ممتاز کی گئیں۔چنانچہ ان بزرگ ہستیوں نے پیغمبر خدا کی حیات پاک کو اپنا اسوہ بنایا اور سخت سے سخت اور نازک سے نازک حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر طرح معاون و مددگار ثابت ہوئیں :
{ وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ } [112] ” اور (اے عیسیٰ وہ وقت یاد کرو) جبکہ میں نے حواریوں کی جانب (تیری معرفت) یہ وحی کی کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لاؤ تو انھوں نے جواب دیا ” ہم ایمان لائے اور اے خدا ! گواہ رہنا کہ ہم بلاشبہ مسلمان ہیں۔ “
{ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتَ طَّائِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ وَکَفَرَتْ طَائِفَۃٌ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ } [113] ” اے ایمان والو ! تم اللہ کے (دین کے) مددگار ہو جاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم نے جب حواریوں سے کہا : ” اللہ کے راستہ میں کون میرا مدد گا رہے “ تو حواریوں نے جواب دیا ” ہم ہیں اللہ (کی راہ) کے مددگار پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لائی اور ایک گروہ نے کفر اختیار کیا سو ہم نے مومنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں تائید کی پس وہ (مومن) غالب رہے۔ “
گذشتہ سطور میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے یہ حواری بیشتر غریب اور مزدور طبقہ میں سے تھے کیونکہ انبیا (علیہم السلام) کی دعوت و تبلیغ کے ساتھ ” سنت اللّٰہ “ یہی جاری رہی ہے کہ ان کی صدائے حق پر لبیک کہنے اور دین حق پر جان سپاری کا مظاہرہ کرنے کے لیے اول غریب اور کمزور طبقہ ہی آگے بڑھتا ہے اور زیردست ہی فدا کاری کا ثبوت دیتے ہیں اور وقت کی صاحب اقتدار اور زبردست ہستیاں اپنے غرور اور گھمنڈ کے ساتھ مقابلہ اور معارضہ کے لیے سامنے آتی اور معاندانہ سرگرمیوں کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کی راہ میں سنگ گراں بن جاتی ہیں لیکن جب خدائے تعالیٰ کا قانون پاداش عمل اپنا کام کرتا ہے تو نتیجہ میں فلاح و کامرانی ان کمزور فدایان حق ہی کا حصہ ہوجاتا ہے اور متکبر و مغرور ہستیاں یا ہلاکت کے قعر مذلت میں جا گرتی ہیں اور یا مقہور و مغلوب ہو کر سرنگوں ہوجانے کے ماسوا کوئی چارہ کار نہیں دیکھتیں۔

حواری عیسیٰ (علیہ السلام) اور قرآن و انجیل کا موازنہ

[ترمیم]

قرآن عزیز نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی منقبت بیان کی ہے ‘ سورة آل عمران کی آیات تمھارے سامنے ہیں ‘ حضرت مسیح (علیہ السلام) جب دین حق کی نصرت و یاوری کے لیے پکارتے ہیں تو سب سے پہلے جنھوں نے ” نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ “ کا نعرہ بلند کیا وہ یہی پاک ہستیاں تھیں ‘ سورة صف میں اللہ رب العٰلمین نے جب مسلمانوں کو مخاطب کرکے کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کی ترغیب دی تو ” تذکیر بایام اللّٰہ “کے پیش نظر انھی مقدس ہستیوں کا ذکر کیا اور انھی کی مثال اور نظیر دے کر نصرت حق کے لیے برانگیختہ کیا اور سورة مائدہ میں ان کے قبول ایمان اور دعوت حق کے سامنے انقیاد و تسلیم کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بھی ان کے خلوص ‘حق طلبی اور حق کوشی کی زندہ جاوید تصویر ہے۔ یہ سب کچھ تو اس وقت کا حال ہے جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے درمیان موجود ہیں لیکن آپ کے ” رفع الی السماء “ کے بعد بھی ان کی پر استقامت اور دین قویم کی فدا کارانہ خدمت کے متعلق سورة صف کی آیت:
{ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ } [114] میں کافی اشارہ موجود ہے اور شاہ عبد القادر (نور اللہ مرقدہ) نے اسی بنا پر آیت زیر بحث کی تفسیر کرتے ہوئے تاریخی شہادت کا اس طرح ذکر فرمایا ہے :
” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے یاروں (حواریوں) نے بڑی محنتیں کی ہیں تب ان کا دین نشر ہوا ‘ ہمارے حضرت کے پیچھے بھی خلیفوں نے اس سے زیادہ کیا۔ “
مگر اس کے برعکس بائبل (انجیل) بعض مقامات میں اگر ان کی منقبت اور مدح سرائی میں رطب اللسان ہے تو دوسری جانب ان کو بزدل اور منافق ثابت کرتی ہے۔ انجیل یوحنا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشہور و معتمد علیہ حواری یہودا کے متعلق اس وقت کا حال جب حضرت یسوع (علیہ السلام) کو یہودی گرفتار کرنا چاہتے ہیں ‘ اس طرح مذکور ہے : ” یہ باتیں کہہ کر یسوع اپنے دل میں گھبرایا اور یہ گواہی دی کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک شخص مجھے پکڑوائے گا۔ شاگرد شبہ کرکے کہ وہ کس کی نسبت کہتا ہے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اس کے شاگردوں میں سے ایک شخص جس سے یسوع محبت کرتا تھا۔اس نے اسی طرح یسوع کی چھاتی کا سہارا لے کر کہا کہ اے خداوند ! وہ کون ہے ؟ یسوع نے جواب دیا کہ جسے میں نوالہ ڈبو کر دے دوں گا وہی ہے ‘ پھر اس نے نوالہ ڈبو دیا اور لے کر شمعون اسکریوتی کے بیٹے یہوداہ کو دیا اور اس نوالہ کے بعد شیطان اس میں سما گیا۔ “ [115]
اور اسی انجیل میں اس شمعون پطرس حواری کے متعلق جو ” بقول اناجیل ساری عمر حضرت یسوع کا پیارا اور معتمد علیہ رہا “ یہ مسطور ہے : ” شمعون پطرس نے اس سے کہا ‘ اے خداوند ! تو کہاں جاتا ہے ‘ یسوع نے جواب دیا کہ جہاں میں جاتا ہوں اب تو تو میرے پیچھے نہیں آسکتا مگر بعد میں میرے پیچھے آئے گا۔ پطرس نے اس سے کہا اے خداوند ! میں تیرے پیچھے اب کیوں نہیں آسکتا ‘میں تو تیرے لیے اپنی جان دوں گا۔ یسوع نے جواب دیا ‘ کیا تو میرے لیے اپنی جان دے گا ؟ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ مرغ بانگ نہ دے گا جب تک تو تین بار میرا انکار نہ کرلے گا۔ “ [116] اور متی کی انجیل میں تمام شاگردوں (حواریوں) کی بزدلی اور حضرت یسوع کو بے یارو مددگار چھوڑ کر فرار ہوجانے کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے : ” اس پر سب شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ “ [117]
ان حوالہ جات سے تین ایسی باتیں ثابت ہوتی ہیں جن کو کسی طرح بھی عقل و نقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ‘ اول یہ کہ جو شاگرد اور حواری حضرت یسوع کے زیادہ قریب ‘ ان کے معتمد علیہ اور ان کی نگاہوں میں محبوب تھے وہ نتیجہ میں نہ صرف بزدل بلکہ ” منافق “نکلے مگر عقل و نقل کا فیصلہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر ایک پیغمبر اور مصلح کی جماعت میں ایک چھوٹا سا گروہ منافقین کا عموماً ہوتا ہے جو اپنی دنیوی اغراض کی خاطر بہ کراہت قلب ظاہر داری کے طور پر شریک جماعت ہونا مفید سمجھتا ہے ‘مگر ایک مصلح اور پیغمبر کے درمیان میں ہمیشہ سے یہ فرق رہا ہے کہ مصلح خواہ اپنی جماعت کے منافقین سے پوری طرح آگاہ نہ ہو سکے لیکن نبی اور پیغمبر کو ” وحی الٰہی “ کے ذریعہ شروع ہی سے مخلص اور منافق کی اطلاع دے دی جاتی ہے تاکہ ایک منکر و کافر سے زیادہ جس گروہ سے جماعت حق اور اس کی دعوت و اصلاح کو ضرر پہنچ سکتا ہے ‘ نبی اس کے حالات سے غافل نہ رہے۔ پس اسی بنا پر کوئی منافق کسی وقت اور کسی حالت میں بھی نبی اور پیغمبر کا محبوب ‘ معتمد علیہ اور مقرب نہیں ہو سکتا ‘البتہ یہ ایک جدا امر ہے کہ نبی دین حق کی مصالح کی وجہ سے اس کے ساتھ اعراض اور در گذر کا طریق عمل مناسب سمجھے جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک صحابی کے اس سوال پر کہ ”جب آپ منافقین کے حالات منافقت سے آگاہ ہیں تو ان کا مقابلہ کرکے کیوں ان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا دیتے تاکہ جماعت مسلمین کو ان کی منافقت سے نجات ملے “ یہ جواب دیا : ”اس لیے کہ ان کے قبول ایمان کی ظاہر داری کے بعد ہمارے سخت گیر طریقہ کے متعلق غیر مسلموں کو یہ دھوکا نہ ہو کہ وہ کہہ اٹھیں ” محمد اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے سے نہیں چوکتے۔ “
دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ یہودا کے اندر شیطان نے اس وقت حلول کیا جب حضرت یسوع نے اپنے ہاتھ سے اس کو نوالہ ڈبو کر دیا مگر یہ بات بھی اس لیے عقل اور نقل کے خلاف ہے کہ بزرگوں اور مقدس انسانوں کے ہاتھوں سے جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر برکت ‘ طہارت اور تقدیس تو ہوا کرتا ہے لیکن شیطان کا حلول اور بدی کا نفوذ نہیں ہوا کرتا ‘ بے شک یہ درست ہے کہ جب حق کا ترازو قائم ہوتا ہے تو اس سے کھرا اور کھوٹا دونوں کی حقیقت کا انکشاف ہوجایا کرتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوتا کہ اس پیمانہ کے مس کرنے سے کسی کھرے میں کھوٹ پیدا ہوجائے اور انجیل کے اس بیان میں صورت حال پہلی نہیں بلکہ دوسری ہے۔تیسری بات یہ کہ حضرت یسوع کے تمام ان حواریوں میں سے ” جن کی مدح و ستائش میں جگہ جگہ بائبل رطب اللسان ہے “ ایک ‘ دو ‘ یا دس پانچ نہیں سب کے سب نہایت بزدلی اور غداری کے ساتھ اس وقت حضرت مسیح (علیہ السلام) سے کناہ کش ہو گئے ‘جب دین حق کی حمایت و نصرت کے لیے سب سے زیادہ ان کی ضرورت تھی اور جب کہ پیغمبر خدا (ﷺ ) دشمنوں کے نرغہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ مگر انجیل کی اس شہادت کے خلاف سورة آل عمران میں قرآن عزیز نے یہ شہادت دی ہے کہ اس نازک وقت میں جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں کو دین حق کی نصرت و یاری کے لیے پکارا تو سب نے اولوالعزمی اور فداکارانہ جذبہ کے ساتھ یہ جواب دیا : ” نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ “ اور پھر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے سامنے اپنی استقامت دین اور اپنے مخلصانہ ایمان کے متعلق شہادت دے کر نصرت کا پورا پورا یقین دلایا اور پھر سورة صف میں قرآن عزیز نے یہ بھی ظاہر کیا کہ ان حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے جو کچھ کہا تھا ان کی موجودگی میں اور ان کے بعد سچی وفاداری کے ساتھ نباہا اور بلاشبہ مومنین صادقین ثابت ہوئے اور اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی مدد فرمائی اور ان کو دشمنان حق کے مقابلہ میں کامیاب کیا۔ انجیل اور قرآن کے اس موازنہ کو دیکھ کر ایک انصاف پسند یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس معاملہ میں ” حق “ قرآن کے ساتھ ہے اور علمائے نصاریٰ نے انجیل میں تحریف کرکے اس قسم کے گھڑے ہوئے واقعات کا اضافہ اس لیے کیا ہے تاکہ صدیوں بعد کے خود ساختہ عقیدہ ” عقیدہ تصلیب مسیح “ سے متعلق یہ داستان صحیح ترتیب پر قائم ہو سکے کہ جب مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر لٹکایا گیا تو انھوں نے یہ کہتے کہتے جان دے دی ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ ” اے خدا ! اے خدا ! تونے مجھے کیوں یکہ و تنہا چھوڑ دیا “ اور کسی ایک شخص نے بھی مسیح (علیہ السلام) کا ساتھ نہ دیا۔۔ بہرحال حواریوں سے متعلق بائبل کی تصریحات محرف اور خود ساختہ داستان سرائی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

نزول مائدہ

[ترمیم]

مخلص اور فداکار حواریوں کی جماعت اگرچہ صادق الایمان اور راسخ الاعتقاد تھی مگر علمی و مجلسی تکلّفات گفت و شنید کے لحاظ سے سادہ لوح اور ضروریات زندگی کے سرو سامان کے اعتبار سے غرباء اور ضعفاء کی جماعت تھی۔ اس لیے انھوں نے ازراہ سادگی و سادہ دلی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی جس خدائے برتر میں یہ لامحدود طاقت ہے کہ اس کا ایک نمونہ آپ کی ذات اقدس اور وہ نشان (معجزات) ہیں خدائے تعالیٰ نے جن کو آپ کی تصدیق نبوت و رسالت کے لیے آپ کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا اس خدا میں یہ طاقت بھی ضرور ہوگی کہ وہ ہمارے لیے غیب سے ایک دستر خوان نازل کر دیا کرے تاکہ ہم روزی کمانے کی فکر سے آزاد ہو کر باطمینان قلب یاد خدا اور دین حق کی دعوت و تبلیغ میں مصروف رہا کریں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سن کر ان کو نصیحت فرمائی کہ اگرچہ خدا کی طاقت بے غایت اور بے نہایت ہے لیکن کسی سچے بندہ کے لیے یہ زیبا نہیں کہ وہ اس طرح خدا کو آزمائے ‘ پس خدا سے ڈرو اور ایسے خیالات سے بچو ‘ یہ سن کر حواریوں نے جواب دیا ” ہم اور خدا کو آزمائیں ؟ حاشا ہمارا تو یہ مقصد نہیں ‘ ہمارا تو یہ مطلب ہے کہ رزق کی جدوجہد سے دل کو مطمئن کرکے خدا کے اس عطیہ کو زندگی کا سہارا بنالیں اور آپ کی تصدیق میں ہم کو حق الیقین کا اعتقاد راسخ حاصل ہوجائے اور ہم اس کی خدائی پر کائنات انسانی کے لیے شاہد عدل بن جائیں۔ “حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب انکا بڑھتا ہوا اصرار دیکھا تو بارگاہ الٰہی میں دعا کی ” اے خدا ! تو ان کے سوال کو پورا کر اور آسمان سے ایسا مائدہ (دستر خوان نعمت) نازل فرما کہ وہ ہمارے لیے تیرے غضب کا مظہر ثابت نہ ہو بلکہ ہمارے اول و آخر سب کے لیے خوشی کی یادگار (عید) بن جائے اور تیرا ” نشان “ کہلائے اور اس ذریعہ سے ہم کو اپنے غیبی رزق سے شاد کام کرے کیونکہ تو ہی بہتر رزق رساں ہے “ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ” عیسیٰ تمھاری دعا قبول ہے ‘ میں اس کو ضرور نازل کروں گا لیکن یہ واضح رہے کہ اس کھلی نشانی کے نازل ہونے کے بعد اگر ان میں سے کسی نے بھی خدا کے حکم کی خلاف روزی کی تو پھر ان کو عذاب بھی ایسا ہولناک دوں گا جو کائنات کے کسی انسان کو نہیں دیا جائے گا۔ “ قرآن عزیز نے نزول مائدہ کے واقعہ کا اس معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ ذکر کیا ہے :
{ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْھَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ۔ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۔ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ } [118]
” اور (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ حواریوں نے کہا تھا ” اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تمھارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ آسمان سے ہم پر ایک خوان اتار دے ؟ “ (یعنی ہماری غذا کے لیے آسمان سے غیبی سامان کر دے) عیسیٰ نے کہا ” خدا سے ڈرو (اور ایسی فرمائشیں نہ کرو) اگر تم ایمان رکھتے ہو “ انھوں نے کہا ”(مقصود اس سے قدرت الٰہی کا امتحان نہیں ہے بلکہ) ہم چاہتے ہیں کہ (ہمیں غذا میسر آئے تو) اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل آرام پائیں اور ہم جان لیں کہ تونے ہمیں سچ بتایا تھا اور اس پر ہم گواہ ہوجائیں۔ “ اس پر عیسیٰ بن مریم نے دعا کی ” اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے ایک خوان بھیج دے کہ اس کا آنا ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے (فضل و کرم کی) ایک نشانی ہو۔ ہمیں روزی دے تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے “ اللہ نے فرمایا ” میں تمھارے لیے خوان بھیجوں گا ‘ لیکن جو شخص اس کے بعد بھی (راہ حق سے) انکار کرے گا تو میں (پاداش عمل میں) عذاب دوں گا ‘ایسا عذاب کہ تمام دنیا میں کسی آدمی کو بھی ویسا عذاب نہیں دیا جائے گا۔ “
یہ مائدہ نازل ہوا یا نہیں ؟ قرآن عزیز نے اس کے متعلق کوئی تفصیل نہیں بیان کی اور نہ کسی مرفوع حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ پایا جاتا ہے ‘ البتہ آثار صحابہ وتابعین میں ضرور تفصیلات مذکور ہیں۔ مجاہد اور حسن بصری (; ) فرماتے ہیں کہ مائدہ کا نزول نہیں ہوا ‘ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نزول کو جس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا طلب کرنے والوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ انسان ضعیف البنیان اور کمزوریوں کا مجسمہ ہے ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی لغزش یا معمولی خلاف ورزی کی بدولت اس درد ناک عذاب کے سزا وار ٹھہریں اپنے سوال کو واپس لے لیا۔ علاوہ ازیں اگر مائدہ کا نزول ہوا ہوتا تو وہ ایسا نشان الٰہی (معجزہ) تھا کہ نصاریٰ اس پر جس قدر بھی فخر کرتے وہ کم تھا اور ان کے یہاں اس کی جس قدر بھی شہرت ہوتی وہ بے جا نہیں ہوتی تاہم ان کے یہاں اس نزول مائدہ کا اس طرح کوئی تذکرہ نہیں پایا جاتا۔ 1 [119][120] )
اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عمار بن یاسر (رض) سے منقول ہے کہ یہ واقعہ پیش آیا اور مائدہ کا نزول ہوا ‘ جمہور کا رجحان اسی جانب ہے۔ البتہ اس کے نزول کی تفصیلات میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔مثلاً صرف ایک دن نازل ہوا یا چالیس روز تک نازل ہوتا رہا ؟ اور پھر اترنا بند ہو گیا تو کیوں ؟ اور صرف یہی ہوا کہ نازل نہ ہوا ‘ یا جن لوگوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے بند ہوا ‘ ان پر سخت قسم کا عذاب بھی آپہنچا ؟ جو نقول یہ کہتی ہیں کہ مائدہ کا نزول صرف ایک دن نہیں بلکہ چالیس دن تک برابر جاری رہا ‘وہ بند ہونے کا سبب یہ بیان کرتی ہیں کہ نزول مائدہ پر حکم یہ ہوا کہ اس کو فقیر ‘ مسکین اور مریض ہی کھائیں ‘ تونگر اور بھلے چنگے نہ کھائیں ‘ مگر چند روز تعمیل کے بعد لوگوں نے آہستہ آہستہ اس کی خلاف ورزی شروع کردی ‘یا یہ حکم ملا تھا کہ اس کو کھائیں سب مگر اگلے روز کے لیے ذخیرہ نہ کریں ‘ مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کی خلاف ورزی ہونے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف مائدہ کا نزول ہی بند ہو گیا بلکہ خلاف ورزی کرنیوالے خنزیر اور بندر کی شکل میں مسخ کر دیے گئے۔ 2( نزول مائدہ کا سوال اگرچہ کیا تھا حواریوں نے ‘ مگر کیا تھا سب کی جانب سے۔ اس لیے یہ واضح رہے کہ جن نقول میں خلاف ورزی اور اس سے متعلق عذاب کا ذکر ہے ان کا اشارہ حواریوں میں سے کسی کی جانب مطلق نہیں ہے کیونکہ یہ بات نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔) بہرحال ان آثار میں جو قدر مشترک ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمالی تو مشیت باری کا یہ حکم ہوا کہ مائدہ تیار ہو چنانچہ لوگوں کی آنکھوں دیکھتے خدا کے فرشتے فضائے آسمانی سے اس کو لے کر اترے ‘ادھر فرشتے آہستہ آہستہ اس کو لیے ہوئے اتر رہے تھے اور ادھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ درگاہ الٰہی میں دست بدعا تھے کہ مائدہ آپہنچا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اول دو رکعت نماز شکر ادا کی اور پھر مائدہ (خوان) کو کھولا تو اس میں تلی ہوئی مچھلیاں اور ترو تازہ پھل اور روٹیاں موجود پائیں اور خوان کھولتے ہی ایسی نفیس خوشبو نکلی کہ اس کی مہک نے سب کو مست کر دیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ کھائیں ‘ مگر لوگوں نے اصرار کیا کہ ابتدا آپ کریں ‘آپ نے ارشاد فرمایا ‘ یہ میرے لیے نہیں ہے ‘ تمھاری طلب پر نازل ہوا ہے ‘یہ سن کر سب گھبرائے کہ نہ معلوم اس کا نتیجہ کیا ہو کہ خدا کا رسول تو نہ کھائے اور ہم کھائیں آپ نے یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا :اچھا فقراء ‘ مساکین ‘ معذورین اور مریضوں کو بلاؤ یہ ان کا حق ہے ‘ تب ہزارہا بندگان خدا نے شکم سیر ہو کر کھایا ‘ مگر مائدہ کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ 1(یہ واقعات بڑی تفصیل کے ساتھ تمام کتب تفسیر میں موجود ہیں۔ ) اس مسئلہ میں حضرت شاہ عبد القادر نور اللہ مرقدہ مجاہد اور حسن بصری ; کے ہم نوا معلوم ہوتے ہیں اور نزول مائدہ سے متعلق ان دونوں جماعتوں سے الگ ایک اور لطیف بات ارشاد فرماتے ہیں۔ موضح القرآن میں ہے : ” ھَلْ یَسْتَطِیْعُ “ ” ہو سکے “یہ معنی کہ ہمارے واسطے تمھاری دعا سے اس قدر خرق عادات کرے یا نہ کرے فرمایا کہ اِتَّقُوا اللّٰہَ ” ڈرو اللہ سے “ یعنی بندہ کو چاہیے کہ اللہ کو نہ آزمائے کہ میرا کہا مانتا ہے یا نہیں اگرچہ خداوند (آقا ومالک) بہتیری مہربانی کرے { وَنَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ } [121] یعنی برکت کی امید پر مانگتے ہیں اور (تاکہ) معجزہ ہمیشہ مشہور رہے ‘ آزمانے کو نہیں کہتے ہیں۔ وہ خوان اترا چالیس روز تک پھر بعضوں نے ناشکری کی یعنی حکم ہوا تھا کہ فقیر اور مریض کھاویں محظوظ (تونگر) اور چنگے بھی لگے کھانے پھر قریب اسی آدمی سور اور بندر ہو گئے (مگر)یہ عذاب پہلے یہود میں ہوا تھا پیچھے کسی کو نہیں ہوا۔2 (شاہ صاحب کا مسلک یہ ہے کہ واقعہ مسخ صحیح نہیں ہے۔) اور بعضے کہتے ہیں (مائدہ) نہ اترا ‘ تہدید سن کر مانگنے والے ڈر گئے نہ مانگا ‘ لیکن پیغمبر کی دعا عبث نہیں اور اس کلام (قرآن) میں نقل کرنا بے حکمت نہیں ‘شاید اس دعا کا اثر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت (نصاریٰ ) میں آسودگی مال سے ہمیشہ رہی (فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ ) اور جو کوئی ان میں ناشکری کرے یعنی دل کے چین سے عبادت میں نہ لگے بلکہ گناہ میں خرچ کرے تو شاید آخرت میں سب سے زیادہ عذاب پاوے۔ اس میں مسلمان کو عبرت ہے کہ اپنا مدعا خرق عادت کی راہ سے نہ چاہے پھر اس کی شکر گزاری بہت مشکل ہے ‘ اسباب ظاہری پر قناعت کرے تو بہتر ہے اس قصہ میں بھی ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ کے آگے حمایت پیش نہیں جاتی۔ “ [122]
اس سلسلہ میں حضرت عمار بن یاسر ؓ نے موعظت و بصیرت سے متعلق بہت خوب بات ارشاد فرمائی ہے :
” عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی قوم نے نزول مائدہ کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جواب ملا : تمھاری درخواست اس شرط کے ساتھ منظور کی جاتی ہے کہ نہ اس میں خیانت کرنا نہ اس کو چھپائے رکھنا اور نہ اس کو ذخیرہ کرنا ورنہ یہ بند کر دیا جائے گا اور تم کو ایسا عبرت ناک عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا جائے گا۔ “
” اے معشر عرب ! تم اپنی حالت پر غور کرو کہ اونٹوں اور بکریوں کی دم پکڑ کر جنگلوں میں چراتے پھرتے تھے ‘ پھر خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمھارے درمیان میں ہی سے ایک ایسا برگزیدہ رسول مبعوث فرمایا ‘ جس کے حسب و نسب سے تم اچھی طرح واقف ہو ‘اس نے تم کو یہ خبر دی کہ عنقریب تم عجم پر غالب آ جاؤ گے اور اس پر چھا جاؤ گے۔ اور اس نے تم کو سختی کے ساتھ منع فرمایا کہ مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر ہرگز تم چاندی اور سونے کے خزانے جمع نہ کرنا مگر قسم بخدا کہ زیادہ لیل و نہار نہ گزریں گے کہ تم ضرور سونے چاندی کے خزانے جمع کرو گے اور اس طرح خدائے برتر کے درد ناک عذاب کے مستحق بنو گے۔ “ [123]

” رفع الی السماء “ یعنی زندہ آسمان پر اٹھا لیا جانا

[ترمیم]

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نہ شادی کی اور نہ بود و ماند کے لیے گھر بنایا۔ وہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں خدا کا پیغام سناتے اور دین حق کی دعوت و تبلیغ کا فرض انجام دیتے اور جہاں بھی رات آپہنچتی وہیں کسی سر و سامان راحت کے بغیر شب بسر کردیتے تھے۔ اور چونکہ ان کی ذات اقدس سے مخلوق خدا جسمانی و روحانی دونوں طرح کی شفا اور تسکین پاتی تھی ‘ اس لیے جس جانب بھی ان کا گذر ہوجاتا خلقت کا انبوہ حسن عقیدت کے ساتھ جمع ہوجاتا اور والہانہ محبت کے ساتھ ان پر نثار ہوجانے کو تیار رہتا تھا۔یہود کو اس دعوت حق کے ساتھ جو بغض وعناد تھا ‘ اس نے اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کو انتہائی حسد اور سخت خطرہ کی نگاہ سے دیکھا اور جب ان کے مسخ شدہ قلوب کسی طرح اس کو برداشت نہ کرسکے تو ان کے سرداروں ‘ فقیہوں ‘فریسیوں اور صدوقیوں نے ذات اقدس کے خلاف سازش شروع کی اور طے یہ پایا کہ اس ہستی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کی بجز اس کے کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ بادشاہ وقت کو مشتعل کرکے اس کو دار پر چڑھا دیا جائے۔ گذشتہ چند صدیوں سے یہود کے ناگفتہ بہ حالات کی بدولت اس زمانہ میں یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کی حکومت اپنے باپ دادا کے علاقہ میں بمشکل ایک چوتھائی پر قائم تھی۔ اور وہ بھی برائے نام اور اصل حکومت و اقتدار وقت کے بت پرست شہنشاہ قیصر روم کو حاصل تھا اور اس کی نیابت میں پیلاطس یہودیہ کے اکثر علاقہ کا گورنر یا بادشاہ تھا۔ یہود اگرچہ اس بت پرست بادشاہ کے اقتدار کو اپنی بدبختی سمجھ کر اس سے متنفر تھے۔ مگر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے خلاف قلوب میں مشتعل حسد کی آگ نے اور صدیوں کی غلامی سے پیدا شدہ پست ذہنیت نے ایسا اندھا کر دیا کہ انجام اور نتیجہ کی فکر سے بے پروا ہو کر پیلاطس کے دربار میں جا پہنچے اور عرض کیا : ” عالی جاہ ! یہ شخص نہ صرف ہمارے لیے بلکہ حکومت کے لیے بھی خطرہ بنتا جا رہا ہے ‘ اگر فوراً ہی اس کا استیصال نہ کر دیا گیا تو نہ ہمارا دین ہی صحیح حالت میں باقی رہ سکے گا اور اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کے ہاتھ سے حکومت کا اقتدار بھی نہ چلا جائے۔ اس لیے کہ اس شخص نے عجیب و غریب شعبدے دکھا کر خلقت کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور ہر وقت اس گھات میں لگا ہے کہ عوام کی اس طاقت کے بل پر قیصر اور آپ کو شکست دے کر خود بنی اسرائیل کا بادشاہ بن جائے۔ اس شخص نے لوگوں کو صرف دنیوی راہ سے ہی گمراہ نہیں کیا بلکہ اس نے ہمارے دین تک کو بھی بدل ڈالا اور لوگوں کو بد دین بنانے میں منہمک ہے۔ پس اس فتنہ کا انسداد از بس ضروری ہے تاکہ بڑھتا ہوا یہ فتنہ ابتدائی منزل ہی میں کچل ڈالا جائے۔ “
غرض کافی گفت و شنید کے بعد پیلاطس نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کر لیں اور شاہی دربار میں مجرم کی حیثیت سے پیش کریں ‘ بنی اسرائیل کے سردار اور فقیہ اور کاہن یہ فرمان حاصل کرکے بے حد مسرور ہوئے اور فخر ومباہات کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے کہ آخر ہماری سازش کارگر ہوئی اور ہماری تدبیر کا تیر ٹھیک نشانہ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگے کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خاص موقع کا منتظر رہا جائے اور کسی خلوت اور تنہائی کے موقع پر اس طرح اس کو گرفتار کیا جائے کہ عوام میں ہیجان نہ ہونے پائے۔
انجیل یوحنا میں اس واقعہ سے متعلق یہ کہا گیا ہے :” پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا ہم کرتے کیا ہیں ؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔ اگر ہم اسے یونہی چھوڑ دیں تو سب اس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے اور ان میں سے کا ئفانام ایک شخص نے جو اس سال سردار کاہن تھا ‘ ان سے کہا تم کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمھارے لیے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی امت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔ “[124] یہ اس مشورہ کا تذکرہ ہے جو بادشاہ کے پاس جانے سے قبل آپس میں ہوا اور یہ خطرہ ظاہر کیا گیا کہ اگر اس ہستی کو یونہی چھوڑدیا گیا تو بادشاہ وقت (قیصر) کہیں سلطنت کے لیے خطرہ سمجھ کر رہی سہی برائے نام حکومت یہود کا بھی خاتمہ نہ کر دے۔
اور مرقس کی انجیل میں ہے :” دو دن کے بعد فصح اور عید فطیر ہونے والی تھی اور سردار کاہن اور فقیہ موقع ڈھونڈ رہے تھے کہ اسے کیونکر فریب سے پکڑ کر قتل کریں کیونکہ کہتے تھے کہ عید میں کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوہ ہوجائے۔ “ [125] دوسری جانب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواریوں کے مکالمہ کو سورة آل عمران اور سورة صف کے حوالہ سے نقل کیا جا چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہود کے کفر و انکار اور معاندانہ ریشہ دوانیوں کو محسوس کیا تو ایک جگہ اپنے حواریوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے سرداروں اور کاہنوں کی معاندانہ سرگرمیاں تم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اب وقت کی نزاکت اور کڑی آزمائش و امتحان کی گھڑی کی قربت تقاضا کرتی ہے کہ میں تم سے سوال کروں کہ تم میں کون وہ افراد ہیں جو اس کفر و انکار کے سیلاب کے سامنے سینہ سپر ہو کر خدا کے دین کے ناصر و مددگار بنیں گے۔حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ ارشاد مبارک سن کر سب نے بڑے جوش و خروش اور صداقت ایمانی کے ساتھ جواب دیا ” ہم ہیں اللہ کے مددگار ‘ خدائے واحد کے پرستار ‘ آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم وفا شعار ہیں اور درگاہ باری میں اپنی اس اطاعت کوشی پر استقامت کے لیے یوں دست بدعا ہیں ‘ اے پروردگار ! ہم تیری اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لے آئے اور صدق دل کے ساتھ تیرے پیغمبر کے پیرو ہیں۔ خدایا ! تو ہم کو صداقت و حقانیت کے فدا کاروں کی فہرست میں لکھ لے۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے فریضہ دعوت و تبلیغ کے خلاف یہود بنی اسرائیل کی مخالفانہ سرگرمیوں سے متعلق حالات کا یہ حصہ تو اکثر و بیشتر ایسا ہے کہ قرآن اور انجیل کے درمیان میں اصولاً اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس کے مابعد کے پورے حصہ بیان میں دونوں کی قطعاً جدا جدا راہیں ہیں اور ان کے درمیان میں اس درجہ تضاد ہے کہ کسی طرح بھی ایک کو دوسری راہ کے قریب نہیں لایا جا سکتا۔ البتہ اس جگہ پہنچ کر یہود اور نصاریٰ دونوں کا باہمی اتحاد ہوجاتا ہے اور دونوں کے بیانات واقعہ سے متعلق ایک ہی عقیدہ پیش کرتے ہیں ‘فرق ہے تو یہ کہ یہود اس واقعہ کو اپنا کارنامہ اور اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور نصاریٰ اس کو یہود بنی اسرائیل کی ایک قابل لعنت جدوجہد یقین کرتے ہیں۔
یہود اور نصاریٰ دونوں کا مشترک بیان یہ ہے کہ یہود کے سرداروں اور کاہنوں کو یہ اطلاع ملی کہ اس وقت یسوع (علیہ السلام) لوگوں کی بھیڑ سے الگ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک بند مکان میں موجود ہیں ‘ یہ موقع بہترین ہے ‘ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔ فوراً ہی یہ لوگ موقع پر پہنچ گئے اور چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرکے یسوع (علیہ السلام) کو گرفتار کر لیا اور توہین و تذلیل کرتے ہوئے پیلاطس کے دربار میں لے گئے تاکہ وہ ان کو سولی پر لٹکائے اور اگرچہ پیلاطس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بے قصور سمجھ کر چھوڑ دینا چاہا ‘ مگر بنی اسرائیل کے اشتعال پر مجبوراً سپاہیوں کے حوالہ کر دیا۔ سپاہیوں نے ان کو کانٹوں کا تاج پہنایا ‘ منہ پر تھوکا ‘ کوڑے لگائے اور ہر طرح کی توہین و تذلیل کرنے کے بعد مجرموں کی طرح سولی پر لٹکا دیا اور دونوں ہاتھوں میں میخیں ٹھونک دیں ‘ سینہ کو برچھی کی انی سے چھید دیا اور اس کسمپرسی کی حالت میں انھوں نے یہ کہتے ہوئے جان دے دی ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ انجیل متی میں اس واقعہ کی تفصیلات کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : ” سردار کاہن نے اس سے کہا : میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اس سے کہا : تونے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی داہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھو گے اس پر سردار کاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اس نے کفر بکا ہے۔ اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی۔ دیکھو تم نے ابھی یہ کفر سنا ہے تمھاری کیا رائے ہے۔ انھوں نے جواب میں کہا وہ قتل کے لائق ہے اس پر انھوں نے اس کے منہ پر تھوکا اور اس کے مکہ مارے اور بعض نے طمانچے مار کے کہا : اے مسیح ہمیں نبوت سے بتا کہ کس نے تجھے مارا۔۔ جب صبح ہوئی تو سب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے یسوع کے خلاف مشورہ کیا کہ اسے مار ڈالیں اور اسے باندھ کرلے گئے اور پیلاطس حاکم کے حوالہ کیا۔ اور حاکم کا دستور تھا کہ عید پر لوگوں (بنی اسرائیل) کی خاطر ایک قیدی جسے وہ چاہتے تھے چھوڑ دیتا تھا۔ اس وقت برابا نام ان کا ایک مشہور قیدی تھا۔ پس جب وہ اکٹھے ہوئے تو پیلاطیس نے ان سے کہا تم کسے چاہتے ہو کہ میں تمھاری خاطر چھوڑ دوں ؟ برابا کو یا یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے ؟۔وہ بولے برابا کو ‘ پیلاطس نے ان سے کہا پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے ‘ کیا کروں ‘ سب نے کہا اس کو صلیب دی جائے۔ اس نے کہا کہ کیوں ؟ اس نے کیا برائی کی ہے ؟ مگر وہ اور بھی چلا چلا کر بولے کہ اس کو صلیب دی جائے۔ جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا الٹا بلوہ ہوتا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا : ” میں اس راست باز کے خون سے بری ہوں تم جانو۔ “ سب لوگوں نے جواب دے کر کہا کہ ” اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر “ اس پر اس نے برابا کو ان کی خاطر چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالے کیا تاکہ صلیب دی جائے۔ اس پر حاکم کے سپاہیوں نے یسوع کو قلعہ میں لے جا کر ساری پلٹن اس کے گرد جمع کی اور اس کے کپڑے اتار کر اسے قرمزی چوغہ پہنایا اور کانٹوں کا تاج بنا کر اس کے سر پر رکھا اور ایک سرکنڈا اس کے داہنے ہاتھ میں دیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک اسے ٹھٹھوں میں اڑانے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب ! اور اس پر تھوکا اور وہی سرکنڈا لے کر اس کے سر پر مارنے لگے اور جب اس کا ٹھٹھا کرچکے تو چوغے کو اس پر سے اتار کر پھر اس کے کپڑے اسے پہنائے اور صلیب دینے کو لے گئے۔ اس وقت اس کے ساتھ دو ڈاکو صلیب پر چڑھائے گئے۔ ایک داہنے اور ایک بائیں اور راہ چلنے والے سر ہلا ہلا کر اس کو لعن طعن کرتے اور کہتے تھے اے مقدس کے ڈھانے والے اور تین دن میں بنانے والے ! اپنے تئیں بچا۔ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اتر آ۔اسی طرح سردار کاہن بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کر ٹھٹھے کے ساتھ کہتے تھے ” اس نے اوروں کو بچایا اپنے تئیں نہیں بچا سکتا۔۔۔“ اور دوپہر سے لے کر تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا : ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ (اے میرے خدا ! اے میرے خدا تونے مجھ کو کیوں چھوڑ دیا) جو وہاں کھڑے تھے ان میں سے بعض نے سن کر کہا ‘ یہ ایلیاہ کو پکارتا ہے۔ یسوع پھر بڑی آواز سے چلایا اور جان دے دی۔ “ [126] تفصیلات میں کم و بیش فرق کے ساتھ یہی مفروضہ داستان باقی تینوں انجیلوں میں بھی مذکور ہے۔ چاروں انجیلوں کی اس متفقہ مگر مفروضہ داستان کو مطالعہ کرنے کے بعد طبیعت پر قدرتی اثر یہ پڑتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی موت انتہائی بے کسی اور بے بسی کی حالت میں درد ناک طریقہ سے ہوئی اور اگرچہ خدا کے پاک اور مقدس بندوں کے لیے یہ کوئی اچن بھی بات نہ تھی بلکہ مقربین بارگاہ صمدی کے لیے اس قسم کی کڑی آزمائشوں کا مظاہرہ اکثر ہوتا رہا ہے لیکن اس واقعہ کا یہ پہلو اس کے مفروضہ اور گھڑے ہوئے ہونے پر روز روشن کی طرح شاہد ہے کہ حضرت یسوع نے ایک اولوالعزم پیغمبر بلکہ مرد صالح کی طرح اس واقعہ کو صبر و رضائے الٰہی کے ساتھ انگیز نہیں کیا بلکہ ایک انتہائی مایوس انسان کی طرح خدا سے شکوہ کرتے کرتے جان دے دی۔ ” ایلی ایلی لما شبقتنی “ کہتے ہوئے جان دے دینا مایوسی اور شکوہ کی وہ صورت حال ہے جو کسی طرح بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے شایان شان نہیں کہی جا سکتی۔پھر اس واقعہ کا یہ پہلو بھی کم حیرت زا نہیں ہے کہ بقول انجیل کے یسوع مسیح نے اس حادثہ سے قبل تین مرتبہ خدائے تعالیٰ سے یہ درخواست کی ” اے میرے باپ ! اگر ہو سکے تو یہ (موت کا) پیالہ مجھ سے ٹل جائے “ [127]۔ اور جب یہ درخواست کسی طرح قبول نہ ہوئی تو مایوس ہو کر یہ کہنا پڑا ” اگر یہ میرے پیئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو۔ “
باعث حیرت یہ بات ہے کہ جبکہ ” عقیدہ کفارہ “ کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ معاملہ خدا اور اس کے بیٹے (العیاذ باللّٰہ) کے درمیان میں طے شدہ تھا تو پھر اس درخواست کے کیا معنی اور اگر لوازم بشریت کی بنا پر تھا تو خدا کی مرضی معلوم ہوجانے اور اس پر قناعت کرلینے کے بعد پھر یہ بے صبر اور مایوس انسانوں کی طرح جان دینے کا کیا سبب ؟ یہود کی گھڑی ہوئی اس داستان کو چونکہ نصاریٰ نے قبول کر لیا تو یہود ازراہ فخر و غرور اس پر بے حد مسرور ہیں اور کہتے ہیں کہ مسیح ناصری اگر ” مسیح موعود “ ہوتا تو خدائے تعالیٰ اس بے بسی اور بے کسی کے ساتھ اس کو ہمارے ہاتھ میں نہ دیتا کہ وہ مرتے وقت تک خدا سے شکوہ کرتا رہا کہ اس کو بچائے مگر خدا نے اس کی کوئی مدد نہ کی۔ حالانکہ ہمارے باپ دادا اس وقت بھی کافی اشتعال دیتے رہے کہ اگر تو حقیقتاً خدا کا بیٹا اور ” مسیح موعود “ ہے تو کیوں تجھ کو خدا نے ہمارے ہاتھوں اس ذلت سے نہ بچایا۔ واقعہ یہ ہے کہ نصاریٰ کے پاس جب کہ اس چبھتے ہوئے الزام کا کوئی جواب نہیں تھا اور واقعہ کی ان تفصیلات کو مان لینے کے بعد ” عقیدہ کفارہ “ کی کوئی قیمت باقی نہیں رہ جاتی تھی ‘ تب انھوں نے واقعہ کی ان تفصیلات کے بعد ایک پارہ بیان کا اور اضافہ کیا۔ یوحنا کی انجیل میں ہے :” لیکن جب انھوں نے یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مرچکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑ دیں مگر ان میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا۔ ان باتوں کے بعد ارمتیہ کے رہنے والے یوسف نے جو یسوع کا شاگرد تھا یہودیوں کے خوف سے خفیہ طور پر پیلاطس سے اجازت چاہی کہ یسوع کی لاش لے جائے۔ پیلاطس نے اجازت دے دی۔ پس وہ آ کر اس کی لاش لے گیا اور نیکدیمس بھی آیا جو پہلے یسوع کے پاس رات کو گیا تھا اور پچاس سیر کے قریب مر اور عود ملا ہوا لایا۔ پس انھوں نے یسوع کی لاش لے کر اسے سوتی کپڑے میں خوشبو دار چیزوں کے ساتھ کفنایا جس طرح کہ یہودیوں میں دفن کرنے کا دستور ہے اور جس جگہ اسے صلیب دی گئی ‘ وہاں ایک باغ تھا اور اس باغ میں ایک نئی قبر تھی جس میں کبھی کوئی نہ رکھا گیا تھا۔پس انھوں نے یہودیوں کی تیاری کے دن کے باعث یسوع کو وہیں رکھ دیا کیونکہ یہ قبر نزدیک تھی۔ ہفتہ کے پہلے دن مریم مگدلینی ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا ‘ قبر پر آئی اور پتھر کو قبر سے ہٹا ہوا دیکھا پس وہ شمعون پطرس اور اس کے دوسرے شاگرد کے پاس جسے یسوع عزیز رکھتا تھا دوڑی ہوئی گئی اور ان سے کہا کہ خداوند کو قبر سے نکال لے گئے اور ہمیں معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھ دیا۔ لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھک کے اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو سپید پوشاک پہنے ہوئے ایک کو سرہانے اور دوسرے کو پائینتی بیٹھے ہوئے دیکھا جہاں یسوع کی لاش پڑی تھی۔انھوں نے اس سے کہا اے عورت ! تو کیوں روتی ہے ؟ اس نے ان سے کہا اس لیے کہ میرے خداوند کو اٹھالے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھا ہے یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ یسوع نے اس سے کہا اے عورت ! تو کیوں روتی اور کس کو ڈھونڈتی ہے۔ اس نے باغبان سمجھ کر اس سے کہا : میاں اگر تو نے اس کو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتادے کہ اسے کہاں رکھا ہے تاکہ میں اسے لے جاؤں۔ یسوع نے اس سے کہا : ” مریم ! “ وہ پھر کر اس سے عبرانی زبان میں بولی ” ربونی “ یعنی ”اے استاد ! “ یسوع نے اس سے کہا مجھے نہ چھو ‘ کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر ان سے کہو کہ میں اپنے باپ اور تمھارے باپ اور اپنے خدا اور تمھارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں ‘ مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں کو خبر دی کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں۔پھر اسی دن جو ہفتہ کا پہلا دن تھا ‘ شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے ‘ یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہوا اور ان سے کہا کہ تمھاری سلامتی ہو اور یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ اور پسلی انھیں دکھائی۔ پس شاگرد خداوند کو دیکھ کر خوش ہوئے یسوع نے پھر ان سے کہا کہ تمھاری سلامتی ہو جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے اسی طرح میں بھی تمھیں بھیجتا ہوں اور یہ کہہ کر ان پر پھونکا اور ان سے کہا ” روح القدس “ لو۔ “ [128] ہر ایک شخص معمولی غور و فکر کے بعد بہ سہولت سمجھ سکتا ہے کہ یہ پارہ بیان پہلے حصہ بیان کے ساتھ غیر مربوط اور قطعاً بے جوڑ ہے بلکہ یہ اندازہ لگانا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ دونوں تفصیلات ایک ہی شخص سے وابستہ ہیں کیونکہ پہلا پارہ بیان ایک ایسی شخصیت کا مرقع ہے جو بے بس و بے کس مایوس اور خدا سے شاکی نظر آتی ہے اور دوسرا حصہ بیان ایسی ہستی کا رخ روشن پیش کرتی ہے جو خدائی صفات سے متصف ‘ ذات باری کی مقرب اور پیش آمدہ واقعات سے مطمئن و مسرور ہے بلکہ ان کے وقوع کی متمنی اور ان کو اپنے اداء فرض کا ایک اہم جزو سمجھتی ہے۔ ع ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا بہرحال حقیقت چونکہ دوسری تھی اور ایک عرصہ دراز کے بعد ” عقیدہ کفارہ “ کی بدعت نے نصاریٰ کو اس کے خلاف اس گھڑے ہوئے افسانہ کی تصنیف پر مجبور کر دیا اس لیے قرآن عزیز نے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) سے متعلق دوسرے گوشوں کی طرح اس گوشہ سے بھی جہالت و تاریکی کا پردہ ہٹا کر حقیقت حال کے رخ روشن کو جلوہ آرا کرنا ضروری سمجھا اور اس نے اپنا وہ فرض انجام دیا جس کو مذاہب عالم کی تاریخ میں قرآن کی دعوت تجدید و اصلاح کہا جاتا ہے۔
اس نے بتایا جس زمانہ میں بنی اسرائیل پیغمبر حق اور رسول خدا (عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ) کے خلاف خفیہ تدبیروں اور سازشوں میں مصروف اور ان پر نازاں تھے ‘ اسی زمانہ میں خدائے برتر کے قانون قضا و قدر نے یہ فیصلہ نافذ کر دیا کہ کوئی طاقت اور مخالف قوت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام پر قابو نہیں پاسکتی اور ہماری محکم تدبیر اس کو دشمنوں کے ہر ” مکر “ سے محفوظ رکھے گی اور نتیجہ یہ نکلا کہ جب بنی اسرائیل نے ان پر نرغہ کیا تو ان کو پیغمبر خدا پر کسی طرح دسترس حاصل نہ ہو سکی اور ان کو بحفاظت تمام اٹھا لیا گیا اور جب بنی اسرائیل مکان میں گھسے تو صورت حال ان پر مشتبہ ہو گئی اور وہ ذلت اور رسوائی کے ساتھ اپنے مقصد میں ناکام رہے اور اس طرح خدا نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا جو عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کی حفاظت کے لیے کیا گیا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ محسوس فرمایا کہ اب بنی اسرائیل کے کفر و انکار کی سرگرمیاں اس درجہ بڑھ گئی ہیں کہ وہ میری توہین و تذلیل بلکہ قتل کے لیے سرگرم سازش ہیں تو انھوں نے خاص طور سے ایک مکان میں اپنے حواریوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے صورت حال کا نقشہ پیش فرما کر ارشاد فرمایا : ” امتحان کی گھڑی سر پر ہے ‘کڑی آزمائش کا وقت ہے ‘ حق کو مٹانے کی سازشیں پورے شباب پر ہیں ‘ اب میں تمھارے درمیان میں زیادہ نہیں رہوں گا۔ اس لیے میرے بعد دین حق پر استقامت ‘اس کی نشر و اشاعت اور یاوری و نصرت کا معاملہ صرف تمھارے ساتھ وابستہ ہوجانے والا ہے۔ اس لیے مجھے بتاؤ کہ خدا کی راہ میں سچا مددگار کون کون ہے۔ “ حواریوں نے یہ کلام حق سن کر کہا : ” ہم سبھی خدا کے دین کے مددگار ہیں ‘ ہم سچے دل سے خدا پر ایمان لائے ہیں اور اپنی صداقت ایمانی کا آپ ہی کو گواہ بناتے ہیں اور یہ کہنے کے بعد انسانی کمزوریوں کے پیش نظر اپنے دعویٰ پر ہی بات ختم نہیں کردی بلکہ درگاہ الٰہی میں دست بدعا ہو گئے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں تو اس پر ہم کو استقامت عطا فرما اور ہم کو اپنے دین کے مددگاروں کی فہرست میں لکھ لے۔ اس جانب سے مطمئن ہو کر اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے فریضہ دعوت و ارشاد کے ساتھ ساتھ منتظر رہے کہ دیکھیے معاندین کی سرگرمیاں کیا رخ اختیار کرتی ہیں اور خدائے برحق کا فیصلہ کیا صادر ہوتا ہے ؟اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں قرآن عزیز کے ذریعہ یہود و نصاریٰ کے ظنون و اوہام فاسدہ کے خلاف ” علم الیقین کی روشنی “ بخشتے ہوئے یہ بھی بتایا جس وقت معاندین اپنی خفیہ تدبیروں میں سرگرم عمل تھے۔اسی وقت ہم نے بھی اپنی قدرت کاملہ کی مخفی تدبیر کے ذریعہ یہ فیصلہ کر لیا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے متعلق معاندین حق کی تدبیر کا کوئی گوشہ بھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی پوشیدہ تدابیر کے مقابلہ میں کسی کی پیش نہیں جاسکے گی۔ اس لیے کہ اس کی تدبیر سے بہتر کوئی تدبیر ہو ہی نہیں سکتی :
{ وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ } [129] ” اور انھوں نے (یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف) خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے (یہود کے مکر کے خلاف) خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر کا مالک ہے۔ “
لغت عرب میں ” مکر “ کے معنی خفیہ تدبیر (اور دھوکا کرنے) کے ہیں اور علم معانی کے قاعدہ ” مشاکلہ “ کے مطابق جب کوئی شخص کسی کے جواب یا دفاع (DEFENCE ) میں خفیہ تدبیر کرتا ہے تو وہ اخلاق اور مذہب کی نگاہ میں کتنی ہی عمدہ تدبیر کیوں نہ ہو اس کو بھی ” مکر “ ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ہر ایک زبان کے محاورہ میں بولاجاتا ہے ” برائی کا بدلہ برائی ہے “ حالانکہ ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ برائی کرنے والے کے جواب میں اسی قدر مقابلہ کا جواب دینا اخلاق اور مذہب دونوں کی نگاہ میں ” برائی “ نہیں ہے۔ تاہم تعبیر میں دونوں کو ہم شکل ظاہر کر دیا جاتا ہے اور اسی کو ” مشاکلہ “ کہتے ہیں اور یہ فصاحت و بلاغت کا اہم جزء سمجھا جاتا ہے۔ غرض خفیہ تدبیر دونوں جانب سے تھی۔ ایک جانب برے بندوں کی بری تدبیر اور دوسری جانب خدائے برتر کی بہترین تدبیر ‘ نیز ایک جانب قادر مطلق کی تدبیر کامل تھی جس میں نقص و خامی کا امکان نہیں اور دوسری جانب دھوکے اور فریب کی خام کاریاں تھیں جو تار عنکبوت ہو کر رہ گئیں۔
آخر وہ وقت آپہنچا کہ بنی اسرائیل کے سرداروں ‘ کاہنوں اور فقیہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک بند مکان میں محاصرہ کر لیا۔ ذات اقدس اور حواری مکان کے اندر بند ہیں اور دشمن چاروں طرف سے محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ کیا صورت ہو جس سے دشمن ناکام رہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کسی طرح کا بھی گزند نہ پہنچا سکے ‘ تاکہ خدائے قادر کا وعدہ حفاظت اور دعویٰ تدبیر خیر پورا ہو تو اس کے متعلق قرآن نے بتایا کہ بے شک خدا کا وعدہ پورا ہوا اور اس کی تدبیر محکم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دشمنوں کے ہاتھوں سے ہر طرح محفوظ رکھا اور صورت یہ پیش آئی کہ اس نازک گھڑی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وحی الٰہی نے یہ بشارت سنائی : عیسیٰ ! خوف نہ کر تیری مدت پوری کی جائے گی (یعنی تم کو دشمن قتل نہیں کرسکیں گے اور نہ تم اس وقت موت سے دوچار ہو گے) اور ہوگا یہ کہ میں تجھ کو اپنی جانب (ملائے اعلیٰ کی جانب) اٹھالوں گا اور ان کافروں سے ہر طرح تجھ کو پاک رکھوں گا (یعنی یہ تجھ پر کسی قسم کا قابو نہ پاسکیں گے) اور تیرے پیرؤوں کو ان کافروں پر ہمیشہ غالب رکھوں گا (یعنی بنی اسرائیل کے مقابلہ میں قیامت تک عیسائی اور مسلمان غالب رہیں گے اور ان کو کبھی ان دونوں پر حاکمانہ اقتدار نصیب نہیں ہوگا) پھر انجام کار میری جانب (موت کے بعد) لوٹ آنا ہے۔ پس میں ان باتوں پر فیصلہ حق دوں گا ‘جن کے متعلق تم آپس میں اختلاف کر رہے ہو :
{ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ } [130] ” (وہ وقت ذکر کے لائق ہے) جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ سے کہا : ” اے عیسیٰ ! بے شبہ میں تیری مدت کو پورا کروں گا اور تجھ کو اپنی جانب اٹھالینے والا ہوں اور تجھ کو کافروں (بنی اسرائیل) سے پاک رکھنے والا ہوں جو تیری پیروی کریں گے ‘ ان کو تیرے منکروں پر قیامت تک کے لیے غالب رکھنے والا ہوں۔ پھر میری جانب ہی لوٹنا ہے ‘ پھر میں ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے بارے میں (آج) تم جھگڑ رہے ہو۔ “
{ وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} [131] ” (قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو اپنے احسانات شمار کراتے ہوئے فرمائے گا) اور وہ وقت یاد کرو ‘ جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روک دیا (یعنی وہ کسی طرح تجھ پر قابو نہ پا سکے) جبکہ تو ان کے پاس معجزات لے کر آیا اور ان میں سے کافروں نے کہہ دیا : ” یہ تو جادو کے ماسوا اور کچھ نہیں ہے۔ “
تو اب جبکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ اطمینان دلا دیا گیا کہ اس سخت محاصرہ کے باوجود دشمن تم کو قتل نہ کرسکیں گے اور تم کو غیبی ہاتھ ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھالے گا اور اس طرح دشمنان دین کے ناپاک ہاتھوں سے آپ ہر طرح محفوظ کر دیے جائیں گے ‘ تو اس جگہ پہنچ کر ایک دوسرا سوال پیدا ہوا کہ یہ کس طرح ہوا اور واقعہ نے کیا صورت اختیارکر لی ؟ کیونکہ یہود و نصاریٰ تو کہتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کو سولی پر بھی لٹکایا اور مار بھی ڈالا۔ تب قرآن نے بتایا کہ مسیح بن مریم (علیہ السلام ) کے قتل و صلیب کی پوری داستان سر تا سر غلط اور جھوٹ ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) کو بقید حیات ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا گیا اور اس کے بعد دشمن مکان کے اندر گھس پڑے تو ان پر صورت حال مشتبہ کردی گئی اور وہ کسی طرح نہ جان سکے کہ آخر اس مکان میں سے مسیح (علیہ السلام) کہاں چلا گیا :
{ وَ قَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ } [132] ” اور (یہود ملعون قرار دیے گئے) اپنے اس قول پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم پیغمبر خدا کو قتل کر دیا حالانکہ انھوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ (خدا کی خفیہ تدبیر کی بدولت) اصل معاملہ ان پر مشتبہ ہو کر رہ گیا اور جو لوگ اس کے (قتل کے) بارے میں جھگڑ رہے ہیں بلاشبہ وہ اس (عیسیٰ (علیہ السلام)) کی جانب سے شک میں پڑے ہوئے ہیں ان کے پاس حقیقت حال کے بارے میں ظن (اٹکل) کی پیروی کے سوا علم (کی روشنی) نہیں ہے اور انھوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ نے اپنی جانب (ملائے اعلیٰ کی جانب) اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “
قرآن عزیز کا یہ وہ بیان ہے جو یہود و نصاریٰ کے اختراعی افسانہ کے خلاف اس نے حضرت مسیح بن مریم (علیہما السلام) کے متعلق دیا ہے۔ اب دونوں بیانات آپ کے سامنے ہیں اور عدل و انصاف کا ترازو آپ کے ہاتھ میں۔ پہلے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کے دعوت و ارشاد کے مشن کو تاریخی حقائق کی روشنی میں معلوم کیجئے اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ان تفصیلی واقعات پر نظر ڈالئے جو ایک اولو العزم پیغمبر ‘ مقرب بارگاہ الٰہی اور نصاریٰ کے عقیدہ باطل کے مطابق خدا کے بیٹے کو خدا کے فیصلہ کے سامنے مایوس ‘ مضطرب ‘ بے یارو مددگار اور خدا سے شاکی ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس تضاد بیان پر بھی غور فرمایئے کہ ایک جانب عقیدہ کفارہ کی بنیاد صرف اس پر قائم ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا کا بیٹا بن کر آیا ہی اس غرض سے تھا کہ مصلوب ہو کر دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے اور دوسری جانب صلیب اور قتل مسیح (علیہ السلام) کی داستان اس اساس پر کھڑی کی گئی ہے کہ جب وہ وقت موعود آ پہنچتا ہے تو خدا کا یہ فرضی بیٹا اپنی حقیقت اور دنیا میں وجود پذیری کو یکسر فراموش کرکے ” ایلی ایلی لما شبقتنی “کا حسرت ناک جملہ زبان سے کہتا اور مرضی الٰہی پر اپنی ناخوشی کا اظہار کرتا ہوا نظر آیا ہے۔کیا کسی شخص کو یہ سوال کرنے کا حق نہیں ہے کہ اگر نصاریٰ کے بیان کردہ واقعات کے دونوں حصے صحیح اور درست ہیں تو ان دونوں کے باہم یہ تضاد کیسا اور اس عدم مطابقت کے کیا معنی ؟
پس اگر ایک حقیقت بیں اور دور رس نگاہ ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اور واقعات و حالات کی ان تمام کڑیوں کو باہم جوڑ کر اس مسئلہ کا مطالعہ کرے تو وہ تصدیق حق کے پیش نظر بلا تامل یہ فیصلہ کرے گی کہ بائبل کی یہ داستان تضاد کی حامل اور گھڑی ہوئی داستان ہے اور قرآن نے اس سلسلہ میں جو فیصلہ دیا ہے وہی حق اور مبنی بر صداقت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد سے سینٹ پال سے قبل تک نصاریٰ ” یہود “ کی اس خرافی داستان سے قطعاً بے تعلق تھے لیکن جب سینٹ پال (پولوس رسول) نے تثلیث اور کفارہ پر جدید عیسائیت کی بنیاد رکھی تو کفارہ کے عقیدہ کی استواری کے لیے یہود کی اس خرافی داستان کو بھی مذہب کا جزء بنا لیا گیا۔ لیکن واقعہ سے متعلق حد درجہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب کہ چودہ صدیوں سے قرآن حکیم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت و جلالت قدر کا اعلان کرتے ہوئے ان کے ” رَفَعَ اِلٰی السَّمَائِ “ کی حقیقت کو یہود و نصاریٰ کی خرافی داستان کے خلاف علم و یقین کی روشنی میں نمایاں اور یہود و نصاریٰ کو دلائل وبراہین کے ذریعہ لاجواب اور سرنگوں کر دیا تھا تو اس کے مقابلہ میں آج ایک مدعیٔ اسلام دعویٰ نبوت و مسیحیت کے شوق یا ہندوستان پر مسلط عیسائی حکومت کی خود غرضانہ خوشامد میں یہود و نصاریٰ کے اسی عقیدہ کو دوبارہ زندہ کرنا اور اس پر اپنے ” باطل عقیدہ نبوت “ کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے اور پنجاب (قادیان) کا یہ متنبی قرآن عزیز کی تصریحات سے بے نیاز ہو کر نہایت جسارت کے ساتھ ان تمام واقعات کی تصدیق کرتا ہے جو اس سلسلہ میں یہود و نصاریٰ نے اپنے اپنے باطل مزعومہ عقائد کی تکمیل کے لیے اختراع کیے ہیں ‘ وہ کہتا ہے کہ بلاشبہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نے اسیر کیا ‘ ان کا ٹھٹھا اڑایا ‘ ان کے منہ پر تھوکا ‘ ان کے طمانچے بھی لگائے ‘ ان کو کانٹوں کا تاج بھی پہنایا اور ان کے علاوہ ہر قسم کی توہین و تذلیل کا سلوک کرنے کے بعد ان کو صلیب پر بھی چڑھایا اور اپنے زعم میں ان کو قتل بھی کر ڈالا البتہ یہود و نصاریٰ کی حرف بحرف تصدیق کے بعد بغیر کسی قرآنی نص ‘ حدیثی روایت اور تاریخی شہادت کے اپنی جانب سے یہ اضافہ کرتا ہے کہ جب شاگردوں کے مطالبہ پر نعش ان کے حوالہ کردی گئی اور وہ تجہیز و تکفین کے لیے آمادہ ہوئے تو دیکھا کہ جسم میں جان باقی ہے تب انھوں نے خفیہ طور پر ایک خاص مرہم کے ذریعہ ان کے زخموں کا علاج کیا اور جب وہ چنگے ہو گئے تو پوشیدہ رہ کر کشمیر کو چلے گئے اور وہاں بھی حیات کے آخری لمحوں تک خود کو چھپائے رکھا اور گمنامی میں وہیں انتقال پا گئے۔گویا یوں کہئے کہ یہود و نصاریٰ کی مفروضہ داستان میں حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق توہین و تذلیل کے جس قدر بھی پہلو تھے وہ سب تو متنبی کاذب نے قبول کر لیے باقی ان کی عظمت شان اور جلالت مرتبت سے متعلق پہلو کو داستان سے خارج کرکے اس کے ساتھ ایک ایسا فرضی حصہ جوڑ دیا جس سے ایک جانب نیچر پرستوں کو اپنی جانب مائل کرنے کا سامان مہیا ہو سکے اور دوسری جانب عیسیٰ (علیہ السلام) کی باقی زندگی مبارک کو گمنامی کے ساتھ وابستہ کر کے توہین و تذلیل کا ایک گوشہ جو تشنہ سامان رہ گیا تھا اس کی تکمیل ہوجائے۔ (اِناَّ لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن)۔
مت نبی پنجاب کو یہ سب کچھ کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟ اس کی جانب ابھی اشارہ کیا جا چکا ہے اور اس کی تفصیل کے لیے پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ” قادیانی مذہب “ لائق مطالعہ ہے ‘ یا خود متنبی کاذب کی تصنیفی ہفوات اس حقیقت کو عریاں کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
ہمارے پیش نظر تو یہ مسئلہ ہے کہ متنبی پنجاب نے کس طرح قرآن حکیم کی نصوص قطعیہ کے خلاف یہود و نصاریٰ کے عقیدہ ” توہین “ ” تصلیب “ اور قتل عیسیٰ (علیہ السلام) کی تائید پر بے جا جسارت کا اقدام کیا اور جس حد تک اختلاف کیا اس میں بھی دعویٰ قرآنی کے خلاف ان کی حیات طیبہ کو نامراد و ناکام اور گمنام ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی۔آپ ابھی سن چکے ہیں کہ قرآن عزیز نے بنی اسرائیل کے مقابلہ میں خدائے تعالیٰ کی نجات سے دعویٰ حفاظت و برتری کو کس قوت بیان کے ساتھ نمایاں کیا ہے : وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہَ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یَعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا [133] اور پھر کس زور کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دعوائے حفاظت کو اس شان کے ساتھ پورا کیا کہ دشمن کسی حیثیت سے بھی مسیح بن مریم (علیہما السلام) پر قابو نہ پا سکے اور ہاتھ تک نہ لگا سکے :
{ وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ } [134] { وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ } [135] تواب قابل غور ہے یہ بات کہ ہم دنیا میں روز و شب یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر کسی صاحب قوت و اقتدار ہستی کے عزیز دوست یا مصاحب کے خلاف ان کا دشمن درپے آزار یا قتل کے درپے ہوتا ہے اور یہ سمجھ کر کہ ہم صاحب اقتدار ہستی کی اعانت کے بغیر دشمن کے مقابلہ میں عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ‘صاحب اقتدار کی جانب رجوع کرتے ہیں اور یہ ہستی ان کو پوری طرح اطمینان دلاتی ہے کہ دشمن ان کو کسی طرح نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ ان تک اس کی دسترس ہی نہیں ہونے دی جائے گی تو ہر ایک اہل عقل اس کا یہی مطلب لیتا ہے کہ اب کسی بھی حالت میں ان کو دشمن کا خطرہ باقی نہیں رہا مگر یہ کہ صاحب اقتدار ہستی یا اپنے وعدہ کا ایفا نہ کرے اور جھوٹا ثابت ہو اور یا دشمن کی طاقت اتنی زیادہ ہو کہ وہ خود بھی اس حمایت و نصرت میں مغلوب ہو کر رہ جائے۔پس جب انسانی دنیا میں یہ اطلاع موصول ہو کہ صاحب اقتدار ہستی کے عزیز دوست یا مصاحب کو اس کے دشمن نے گرفتار کر لیا ‘ مارا پیٹا ‘ منہ پر تھوکا اور ہر طرح ذلیل و رسوا کرکے اپنے گمان میں مار بھی ڈالا اور مردہ سمجھ کر نعش اس کے عزیزوں کے سپرد کردی مگر حسب اتفاق نبض دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کہیں جان اٹکی رہ گئی ہے لہٰذا علاج معالجہ کیا گیا اور وہ رو بصحت ہو گیا تو دنیائے انسانی اس صاحب اقتدار ہستی کے متعلق کیا رائے قائم کرے گی جس نے اس مظلوم کی حمایت و نصرت کا وعدہ کیا تھا ؟ یہ کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا یا نہیں کیا ؟ ظاہر ہے کہ نہیں کیا خواہ قصداً نہیں کیا یا اس لیے کہ وہ مجبور رہا۔ پس اگر دنیائے انسانی کے معاملات میں صورت حال یہ ہے تو معلوم نہیں کہ متنبی پنجاب کے عقل و دماغ نے قادر مطلق خدا کے متعلق کس ذہنیت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا کہ خدا نے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کو ہر قسم کی حفاظت و صیانت کے وعدہ کے باوجود دشمن کے ہاتھوں وہ سب کچھ ہونے دیا ‘جس کو یہود و نصاریٰ کی اندھی تقلید میں متنبی پنجاب نے تسلیم کر لیا اور اشک شوئی کے لیے صرف اس قدر اضافہ کر دیا کہ اگرچہ یہود نے صلیب و قتل کے بعد سمجھ لیا تھا کہ روح قفس عنصری سے نکل چکی ہے ‘مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ رمق جان ابھی غیر محسوس طور پر باقی تھی ‘ اس لیے اسی طرح ان کی جان بچ گئی ‘ جس طرح موجودہ زمانہ میں اب سے چند سال قبل جیلوں میں پھانسی دینے کا جو طریقہ رائج تھا ‘اس کی وجہ سے کبھی پھانسی پانے کے بعد رمق جان باقی رہ جاتی تھی اور نعش کی سپردگی کے بعد علاج معالجہ سے وہ اچھا ہوجاتا تھا۔
بہرحال ہم تو اس ذات واحد ‘ قادر مطلق خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس نے جب کبھی اپنے خاص بندوں (نبیوں اور رسولوں) سے اس قسم کا وعدہ حفاظت و صیانت کیا ہے تو پھر اس کو پورا بھی ایسی شان سے کیا ہے جو قادر مطلق ہستی کے لیے شایان اور لائق ہے۔حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے منکرین حق کا معاملہ سورة نمل میں جس معجزانہ شان کے ساتھ بیان ہوا اس پر غور فرمایئے۔ ارشاد باری ہے : { وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ۔ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہُ وَاَہْلَہُ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ۔ وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ اَنَّا دَمَّرْنَاہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ فَتِلْکَ بُیُوْتُہُمْ خَاوِیَۃًم بِمَا ظَلَمُوْا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۔ وَاَنجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ۔ } [136] ” اور شہر میں نو شخص تھے جو (بہت) مفسد تھے اور کوئی کام صلاح کاری کا نہیں کرتے تھے ‘ انھوں نے آپس میں کہا ” باہم قسمیں کھاؤ کہ ہم ضرور صالح اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے وقت موقع پر موجود ہی نہیں تھے اور قسم بخدا ہم ضرور سچے ہیں۔ “ اور انھوں نے (صالح (علیہ السلام) کے خلاف) خفیہ سازش کی اور ہم نے بھی (ان کی سازش کے خلاف) خفیہ تدبیر کی اور وہ (ہماری مخفی تدبیر کو) نہیں سمجھتے تھے پس (اے محمد ! ) دیکھو ! کہ ان کی خفیہ سازشی تدبیر کا کیا حشر ہوا ؟یہ کہ ہم نے ان کو (مفسدوں کو) اور ان کی (سرکش) قوم سب کو ہلاک کر دیا (نگاہ اٹھا کر) دیکھو یہ (قریب ہی) ہیں ان کے گھروں کے کھنڈر ‘ ویران ہیں ان کے ظلم کی وجہ سے ‘ بے شک اس واقعہ میں نشانی ہے سمجھ والوں کے لیے اور ہم نے نجات دی ایمان والوں کو جو پرہیزگار تھے۔ “
اور پھر مطالعہ کیجئے اس عظیم الشان واقعہ کا جو ہجرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلق رکھتا ہے اور سورة انفال میں دشمنان حق کی ذلت و رسوائی کا ابدی اعلان ہے۔ان دونوں واقعات میں حق و باطل کے معرکوں ‘ دشمنوں کی خفیہ سازشوں اور انبیا (علیہما السلام) کی حفاظت کے لیے وعدہ الٰہی اور اس کے بے غل و غش پورا ہونے کا جو نقشہ قرآن عزیز نے پیش کیا ہے تاریخی نگاہ سے اس پر غور فرمایئے اور فیصلہ کیجئے جس خدا نے صالح (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنے وعدہ حفاظت کو اس شان رفیع کے ساتھ پورا کیا ہو ‘ کیا متنبی پنجاب کے عقیدہ کے مطابق اسی شان معجزانہ کے ساتھ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں پورا ہوا ؟ نہیں ہرگز نہیں ‘ حالانکہ آیات قرآنی شاہد ہیں کہ ان دونوں واقعات کے مقابلہ میں عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) سے کیے گئے وعدے زیادہ واضح تفصیلات رکھتے ہیں اور ان میں صاف کہا گیا ہے کہ خدا کے بہترین مخفی فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمن ان کو ہاتھ تک نہ لگا سکیں گے تبھی تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے جن احسانات و انعامات کو شمار کرائے گا ان میں سے ایک بڑا انعام و احسان یہ بھی ہوگا :
{ وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ } [137] ” اور جبکہ ہم نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روک دیا تھا۔ “ مت نبی پنجاب کو اگر اپنی نبوت اور مسیحیت کے افترا اور ڈھونگ کو مضبوط کرنے کے لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کے خلاف اس درجہ ناگواری تھی جیسا کہ متنبی کاذب کی تصنیفات سے معلوم ہوتا ہے تب بھی یہود و نصاریٰ کی اس اندھی تقلید کے مقابلہ میں جو نصوص قرآنی کے خلاف ” کفر بواح “تک پہنچاتی اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی شان رفیع کے حق میں باعث توہین و تذلیل اور وعدہ الٰہی کی تکذیب کرتی ہے ‘ کیا یہ کافی نہیں تھا کہ تاویل باطل 1 ؎ کے پردہ میں اتنا ہی کہہ دیا جاتا کہ وہ اگرچہ بقید حیات آسمان پر نہیں اٹھائے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے بند مکان سے کسی طریق پر ان کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر محفوظ کر دیا اور دشمن کسی طرح ان کو نہ پا سکے ‘لیکن وائے برحال متنبی قادیان کہ خدا کے سچے پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے ساتھ بغض وعناد نے ” خسر الدنیا و الآخرہ “ کا مصداق بنا کر ہی چھوڑا۔ 1 ؎ تاویل باطل اس لیے کہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق دیگر نصوص قرآنی ‘حدیثی اور اجماع امت کے پیش نظر اس مقام پر یہ تاویل بلاشبہ ” باطل “ ہے مگر اس سے کم از کم حضرت مسیح (علیہ السلام) کی توہین اور وعدہ الٰہی کی تکذیب کا پہلو نہیں نکلتا۔

قرآن و احادیث کی رو سے آخر الزمان

[ترمیم]
  • دوبارہ آمد پر نظریات
اللہ نے سورۃ النساء کی ان آیات میں یہود کے ملعون ہونے کی کچھ وجوہات بیان کی ہیں من جملہ ان میں ہے کہ؛
سورة النساء، آیت 157
اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اللہ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انھوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انھیں صلیب پر چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں
سورة النساء، آیت 158
انھیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں) اور انھوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا۔
اور اس کے علاوہ سورہ النساء میں ہے کہ
سورة النساء، آیت 159
اور (قربِ قیامت نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے ) ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسٰی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گے۔
یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پیشتر جب ان کا آسمان سے نزول ہوگا تو اہل کتاب ان کو دیکھ کر ان کو مانیں گے اور ان کے بارے میں اپنے عقیدے کی تصحیح کریں گے۔
  • حدیث نبوی
حیات و نزول مسیح علیہ السلام کے متعلق احادیث درجہ تواتر کو پہنچتی ہیں۔ ان احادیث کا متواتر ہونا محمد انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب «التصريح بما تواتر في نزول المسيح» میں ثابت کیا ہے۔ چند احادیث پیش خدمت ہیں؛
وعن ابي هريرة رضي اللہ عنہ قال : ( كيف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم وامامكم منكم (رواہ البخاري ومسلم)
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کیا حال ہوگا تمھارا کہ جب عیسٰی ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا۔[138]
عن عبد اللّہ بن عمر قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلمَ: ينزل عيسى ابن مريم عليہ السلام إلى الأرض فيتزوج ويُولَد لہ ويمكث خمسًا وأربعين سنة ثم يموت فيُدفن معي في قبري فأقوم أنا وعيسى ابن مريم من قبر واحدٍ بين أبي بكر وعمر[139] عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمانہ آئندہ میں عیسٰی علیہ السلام زمیں پر اُتریں گے اور میرے قریب مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں اور مسیح ابن مریم، ابو بکر وعمر کے درمیان میں والی ایک ہی قبر سے اُٹھیں گے۔
آ عن الحسن مرسلاً قال: قال رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم لليهود ان عيسى لم يمت وانہ راجع اليكم قبل يوم القيامة[140]
امام حسن بصری سے مرسلاً روایت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے فرمایا کہ عیسٰی علیہ السلام نہیں مرے وہ قیامت کے قریب ضرور لوٹ کر آئیں گے۔
دیگر بہت سی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے امام، امام مہدی علیہ السلام ہوں گے اور عیسٰی علیہ السلام اس ہدایت یافتہ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔

قادیانی تلبیس اور اس کا جواب

[ترمیم]

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس معرکہ آراء مسئلہ میں ” جو ان کی عظمت اور جلالت کا زبردست نشان ہے “ سورة آل عمران کی آیات کا باہمی ربط اور ترتیب ذکری خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہے کہ متنبی کاذب نے اس میں بھی تَلْبِیْسُ الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ کا ثبوت دے کر ناواقف کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔قرآن عزیز ‘ سورة آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمنوں کے نرغہ میں گھر جانے سے متعلق جس تسلی اور وعدہ کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری شکل و صورت یہ پیش آئی کہ جب دشمنان دین نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ایک بند مکان میں محاصرہ کر لیا تو ایک اولوالعزم پیغمبر اور خدائے برحق کے درمیان میں تقرب کا جو رشتہ قائم ہے اس کے پیش نظر قدرتی طور پر حضرت عیسیٰ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اب کیا پیش آنے والا ہے ؟ راہ حق میں جاں سپاری یا قدرت الٰہی کا کوئی اور کرشمہ ؟ اور اگر دشمنوں سے تحفظ کے لیے کوئی کرشمہ پیش آنے والا ہے تو اس کی کیا شکل ہوگی کیونکہ بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا ؟ اور اگر تحفظ ہوا بھی تو کیا کچھ مصائب و آلام اٹھانے کے بعد تحفظ جان ہوگا یا دشمن کسی بھی صورت میں قابو نہ پاسکیں گے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قلب میں فطری طور پر پیدا ہونے والے سوالات کا ترتیب وار اس طرح جواب دیا : ” عیسیٰ ! میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں تیری مقررہ مدت حیات پوری کروں گا یعنی مطمئن رہو کہ تجھ کو دشمن قتل نہ کر پائیں گے “ (اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ ) ” اور صورت یہ ہوگی کہ اس وقت میں تجھ کو اپنی جانب یعنی ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھالوں گا (وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ) ” اور یہ بھی اس طرح نہیں کہ پہلے سب کچھ مصائب ہو گزریں گے اور پھر ہم تجھ کو آخر میں علاج معالجہ کرا کر اٹھائیں گے نہیں بلکہ یوں ہوگا کہ تو دشمن کے ناپاک ہاتھوں سے ہر طرح محفوظ رہے گا اور کوئی دشمن تجھ کو ہاتھ تک نہ لگا سکے گا “ (وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) [141] یہ تو تمھارے فطری سوالات کا جواب ہوا لیکن اس سے بھی زیادہ ہم یہ کریں گے کہ جو تیرے پیرو ہیں (خواہ غلط کار ہوں جیسا کہ نصاریٰ اور خواہ صحیح العقیدہ ہوں جیسا کہ مسلمان) ان کو قیامت تک یہود پر غالب رکھیں گے اور تاقیام قیامت کبھی ان کو حاکمانہ اقتدار نصیب نہیں ہوگا ‘ باقی رہا تمام معاملات کا فیصلہ سو اس کے لیے (قیامت کا) دن مقرر ہے اس روز سب اختلافات ختم ہوجائیں گے اور حق و باطل کا دو ٹوک فیصلہ کر دیا جائے گا۔زیر بحث آیات کی یہ تفسیر جس طرح سلف صالحین اور اجماع امت کے مطابق ہے اسی طرح اس میں آیات میں کیے گئے متعدد وعدوں کی ترتیب میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی مگر مرزائے قادیانی نے اپنی مسند مسیحیت و نبوت کو قائم کرنے کے لیے قرآن ‘احادیث صحیحہ اور اجماع امت کے خلاف جبکہ یہ دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت ہو چکی تو اس سلسلہ کی آیات میں تحریف معنوی کی ناکام سعی کو بھی ضروری سمجھا اور دعویٰ کیا کہ اگر مسیح (علیہ السلام) کی موت کے وقوع کو رَفَعَ اِلٰی السَّمَائِ اور تَطْہِیْر اور تَفَوُّقُ الْمُطِیْعِیْنَ عَلٰی الْکَافِرِیْنَ سے قبل تسلیم نہ کیا جائے گا تو ترتیب ذکری میں فرق آجائے گا اور مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم ماننا پڑے گا اور یہ قرآن عزیز کی شان بلاغت کے خلاف ہے لہٰذا یہ ماننا چاہیے کہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے وعدہ کا وقوع ہو چکا اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر موت آچکی۔
مرزائے قادیانی کی یہ ” تلبیس “ اگرچہ ان حضرات سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی جو عربیت اور قرآن کے اسلوب بیان کا ذوق رکھتے ہیں لیکن عوام کو مغالطہ میں ڈال سکتی ہے اس لیے اس عنوان کے شروع ہی میں آیات کی تفسیر کو اس طرح بیان کر دیا گیا کہ مرزا کی جانب سے جو تلبیس کی گئی ہے وہ خود بخود زائل ہوجائے تاہم مزید تشریح کے لیے یہ اور اضافہ ہے کہ ترتیب ذکری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلام میں اگر چند باتیں ترتیب وار کی گئی ہیں تو ان کا وقوع بھی اس طرح ہونا چاہیے کہ اس کلام میں ذکر کردہ ترتیب بگڑنے نہ پائے اور مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم کرنا نہ پڑے اور یہ جب ضروری ہے کہ کلام کی فصاحت و بلاغت کا تقاضا ہی یہ ہو کہ ترتیب ذکری میں فرق نہ آنے پائے ‘ ورنہ تو بعض مقامات پر تقدیم و تاخیر کو بھی فصاحت کی جان سمجھا جاتا ہے اور یہ علم معانی کا مشہور مسئلہ ہے۔ پس قرآن کی ان آیات میں جمہور اہل اسلام کی تفسیر کے مطابق ترتیب ذکری بحالہ قائم ہے اس لیے کہ خدا کی جانب سے پہلا وعدہ یہ ہے کہ میں تمھاری مقررہ مدت پوری کروں گا (اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ ) یعنی تمھاری موت ان دشمنوں کے ہاتھ سے نہیں ہوگی بلکہ تم اپنی طبعی موت سے مرو گے مگر اس پہلے وعدہ کو پورا کرنے کے لیے متعدد صورتیں ہو سکتی تھیں :یہ کہ دشمنوں پر باہر سے اچانک حملہ ہوجائے اور وہ فرار ہوجائیں یا سب وہیں کھیت رہیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) ان کی زد سے بچ جائیں یا یہ کہ قوم عاد وثمود کی طرح زمین یا آسمان سے قدرتی عذاب آ کر ان سب کو ہلاک کر دے یا یہ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کسی ترکیب سے ان کے نرغہ میں سے محفوظ نکل جائیں اور ان کی دسترس سے باہر ہوجائیں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرشمہ قدرت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مکان بند رہتے ہوئے ملا اعلیٰ کی جانب اٹھالے وغیرہ وغیرہ۔ تو قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی کہ پہلے وعدہ کا ایفاء مسطورہ بالا آخری شکل یعنی وَرَافِعُکَ اِلَیَّ کی شکل میں ہوگا اور ہوگا بھی ایسی قدرت کاملہ کے ہاتھوں کہ اس محاصرہ کے باوجود دشمن اپنے ناپاک ہاتھ تجھ کو نہیں لگا سکیں گے اور میں ان کافروں کے ہاتھ سے تجھ کو پاک رکھوں گا : { وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } [142] اور ان باتوں کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ میں تیرے پیرؤوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا بہرحال بعد کے یہ تینوں وعدے بالترتیب جبھی عمل میں آئیں گے کہ پہلے وعدہ اول وقوع پزیر ہوجائے یعنی تیری موت ان کے ہاتھوں نہ ہو بلکہ اپنی مقررہ مدت پر پہنچ کر طبعی موت آئے ان آیات میں پہلے وعدہ کے متعلق یہ نہیں کہا گیا کہ میں اول تجھ کو ماروں گا اور پھر بالترتیب یہ سب امور انجام دوں گا کیونکہ یہ قول صرف جاہل ہی کہہ سکتا ہے لیکن جس کو گفتگو کا معمولی بھی سلیقہ ہے وہ ہرگز ایسا کہنے کی جرأت نہیں کرے گا کیونکہ ترتیب ذکری کے لیے یہ تو ہونا چاہیے کہ ان امور کے وقوع میں ایسی صورت نہ پیدا ہوجائے کہ ترتیب میں فرق لا کر تقدیم و تاخیر کا عمل جراحی کرنا پڑے لیکن اگر کوئی شے زمانہ کا امتداد اور طوالت چاہتی ہے اور اس کا آخری حصہ وقوع ان تمام امور کے بعد پیش آتا ہے جو اس کے بعد مذکور تھے مگر ترتیب ذکری میں مطلق کوئی فرق نہیں آتا تو ایسی شکل میں اس وقوع کے متاخر ہوجانے سے کسی عالم کے نزدیک بھی کلام کی فصاحت و بلاغت میں نقص واقع نہیں ہوتا اور نہ اس قسم کے وقوع ترتیبی کا ترتیب ذکری کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے۔
پس مسئلہ زیر بحث میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طبعی موت کا وقوع کبھی ہوا ہو اس کا ترتیب ذکری سے مطلق کوئی علاقہ نہیں ہے یہاں تو اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ دیے گئے متعدد وعدوں میں پہل اور اولیت اس وعدہ کو حاصل ہے کہ تمھاری موت کا سبب یہ یہود بنی اسرائیل نہیں ہوں گے بلکہ جب بھی یہ مقررہ مدت پوری ہوگی اس طریق پر ہوگی جو عام طور سے میری جانب منسوب کی جاتی ہے (یعنی طبعی موت) اور یہ وعدہ بہرحال باقی تین وعدوں سے پہلے ہی رہا تبھی تو یہ تینوں وعدے وقوع میں آسکے اور اگر کہیں دشمن حضرت مسیح (علیہ السلام) کی موت کا سبب بن گئے ہوتے تو پھر ” رَفَعْ “ اور ” تَطْہِیْر “ کے لیے کوئی صورت ہی نہ رہ جاتی اور مرزا قادیانی کی طرح باطل اور رکیک تاویلات کی آڑ لینی پڑتی اور آیات زیر بحث کی ” روح “ فنا ہو کر رہ جاتی۔ اور یہ اس لیے کہ اگر ” رَفَعْ “ سے رفع روحانی اور ” تَطْہِیر “ سے روحانی پا کی مراد لیے جائیں تو یہ قطعاً بے محل اور بے موقع ہوگا کیونکہ قرآن کے ارشاد کے مطابق یہ وعدے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیے جا رہے ہیں تو حضرت عیسیٰ کو یہ بتانا کہ تمھارے متعلق یہود کا یہ اعتقاد کہ تم کاذب اور ملعون ہو غلط ہے اور تم مطمئن رہو کہ میں تمھارا رفع روحانی کرنے والا ہوں قطعاً عبث تھا کیونکہ حضرت عیسیٰ پیغمبر خدا ہیں اور جانتے ہیں کہ یہود کا افتراء کیا حقیقت رکھتا ہے نیز یہود کو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع روحانی کا پتہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ معاملہ عالم غیب سے متعلق ہے تو خدائے برتر کا یہ ارشاد نہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی برمحل تسلی کا باعث ہو سکتا تھا۔ اور نہ یہود کے لیے سود مند اور یہی حال دوسرے وعدہ تطہیر کا ہے بلکہ جب بقول قادیانی یہود کے ہاتھوں حضرت مسیح (علیہ السلام) صلیب پر چڑھا دیے گئے تو نعش پالینے کے بعد شاگردوں کا مرہم عیسیٰ (علیہ السلام) کو لگا کر چنگا کرلینے اور پھر منجانب اللہ جن کی ہدایت و ارشاد کے لیے مامور کیے گئے تھے ان سے جان بچا کر بھاگ جانے اور زندگی بھر گمنامی میں زندگی بسر کرتے رہنے کے بعد { وَرَافِعُکَ اِلَیَّ اور وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } [143] کہہ دینے سے نہ یہود کے عقیدہ متعلق مسیح (علیہ السلام) کی ہی تردید ہوگی اور نہ ایک غیر جانبدار انسان ہی یہ سمجھ سکے گا کہ ایسے موقع پر جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) دشمنوں کے نرغے میں ہیں اور جبکہ ان کو یہ یقین ہے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور موت کے بعد رفع روحانی اور تطہیر لازم شے ہے ان تسلیوں اور وعدوں کا کیا فائدہ ہے خصوصاً جبکہ ان کے ساتھ دشمن نے وہ سب کچھ کر لیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔البتہ جمہور اہل حق کی تفسیر کے مطابق آیات قرآنی کی روح اپنی معجزانہ بلاغت کے ساتھ پوری طرح ناطق ہے کہ یہ وعدے حضرت مسیح سے جس طرح کیے گئے وہ برمحل اور فطری اضطراب کے لیے بلاشبہ باعث تسکین ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت کا وقت کے یہود و نصاریٰ کے وراثتی عقائد باطلہ کی تردید کے لیے کافی اور مدلل۔ جمہور اہل حق کی یہ تفسیر ” تُوْفِّی “ کے معنی ” مقررہ مدت پوری کرنا “ اختیار کرکے کی گئی ہے جس کا حاصل تُوْفِّی بمعنی موت نکلتا ہے لیکن تُوْفِّی کے یہ حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ بطور کنایہ کے مستعمل ہوئے ہیں کیونکہ لغت عرب میں اس کا مادہ وفیٰ ‘ یفی ‘ وَفاَئً ہے جس کے معنی ” پورا کرنے “ کے آتے ہیں اور اس کو جب باب تفعُّل میں لے جا کر ” توفی “ بناتے ہیں تو اس کے معنی ” کسی شے کو پورا پورا لینا “ یا ” کسی شے کو سالم قبضہ میں کرلینا “ آتے ہیں ” تَوَفّٰی اَخَذَہٗ وَافِیًا تَامَّا یَقَالُ ” تَوَفَّیْتُ مِنْ فُلَانٍ مَا لِیْ عَلَیْہِ “ اور چونکہ موت میں بھی اسلامی عقیدہ کے مطابق روح کو پورا لے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کنایہ کے طور پر جس میں حقیقی معنی بحالہ محفوظ رہا کرتے ہیں ” تُوْفِّی “ بمعنی موت مستعمل ہوتا ہے اور کہتے ہیں تَوَفَّاہٗ اللّٰہٗ اَیْ اَمَاتَہٗ لیکن اگر موقع پر دوسرے دلائل ایسے موجود ہوں جن کے پیش نظر تُوْفِّی کے حقیقی معنی لیے جا سکتے ہوں یا حقیقی کے ماسوا دوسرے معنی بن ہی نہ سکتے ہوں تو اس مقام پر خواہ فاعل ” اللہ تعالیٰ “ اور مفعول ” ذی روح انسان “ ہی کیوں نہ ہو وہاں حقیقی معنی ” پورا لے لینا “ ہی مراد ہوں گے مثلاً آیت:
{ اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا } [144] ” اللہ تو پورا لے لیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور ان جانوں کو جن کو ابھی موت نہیں آئی ہے پورا لے لیتا ہے نیند میں “ وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ کے لیے بھی لفظ ” تُوْفِّی “ بولا گیا یعنی ایک جانب یہ صراحت کی جا رہی ہے کہ یہ وہ جانیں (نفوس) ہیں جن کو موت نہیں آئی اور دوسری جانب یہ بھی بصراحت کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں ان کے ساتھ ” تُوْفِّی “ کا معاملہ کرتا ہے تو یہاں اللہ تعالیٰ فاعل ہے ” مُتَوَفِّیْ “ اور نفس انسانی مفعول ہے ”مُتَوَفَیّٰ “ مگر پھر بھی کسی صورت سے ” تُوْفِّیَ “ بمعنی موت “ صحیح نہیں ہیں ورنہ تو قرآن کا جملہ وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ العیاذ باللہ مہمل ہو کر رہ جائے گا یا مثلاً: { وَ ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ } [145] ” اور وہی (اللہ) ہے جو پورا لے لیتا یا قبضہ میں کرلیتا ہے تم کو رات میں اور جانتا ہے جو تم کماتے ہو دن میں۔ “
اس میں بھی کسی طرح توفی بمعنی موت نہیں بن سکتے حالانکہ توفی کا فاعل اللہ اور مفعول انسانی نفوس ہیں یا مثلاً { حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا } [146] ” یہاں تک کہ جب آتی ہے تم میں سے کسی ایک کو موت ‘ قبض کرلیتے ہیں یا پورا لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) “ میں ذکر موت ہی کا ہو رہا ہے لیکن پھر بھی تَوَفَّتْہُ میں توفی کے معنی موت کے نہیں بن سکتے ورنہ بے فائدہ تکرار لازم آئے گا یعنی اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ میں جب لفظ ” موت “ کا ذکر آچکا تو اب تَوَفَّتْہُ میں بھی اگر توفی کے معنی موت ہی کے لیے جائیں تو ترجمہ یہ ہوگا ”یہاں تک کہ جب آتی ہے تم میں سے کسی ایک کو موت ‘ موت لے آتے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) “ اور ظاہر ہے اس صورت میں دوبارہ لفظ موت کا ذکر بے فائدہ ہے اور کلام فصیح وبلیغ اور معجز تو کیا روزمرہ کے محاورہ اور عام بول چال کے لحاظ سے بھی پست اور لاطائل ہوجاتا ہے البتہ اگر ” توفی “ کے حقیقی معنی کسی شے پر قبضہ کرنا یا اس کو پورا لے لینا مراد لیے جائیں تو قرآن عزیز کا مقصد ٹھیک ٹھیک ادا ہوگا اور کلام بھی اپنے حد اعجاز پر قائم رہے گا۔ اب ہر ایک عاقل غور کرسکتا ہے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ ” توفی “ کے حقیقی معنی موت کے ہیں ‘ خصوصاً جبکہ فاعل خدا ہو اور مفعول ذی روح کہاں تک صحیح اور درست ہے۔بہرحال اس موقع پر ” موت “ اور ” توفی “ دونوں کا ساتھ ساتھ بیان ہونا اور دونوں کا ایک ہی معمول ہونا اور پھر دونوں کے معنی میں فرق و تفاوت اس بات کے لیے واضح دلیل ہے کہ یہ دونوں مرادف الفاظ نہیں ہیں اور جس طرح لیث و اسد (بمعنی شیر) ابل و جمل (بمعنی اونٹ) نون و حوت (بمعنی مچھلی) وغیرہ اسماء کا اور جمع ‘ شمل ‘کسب (بمعنی جمع ہونا) اور لبث مکث (بمعنی ٹھہرنا) اور عطش ‘ ظماء (بمعنی پیاس) اور جوع ‘ سغب (بمعنی بھوک ) مصادر کا حال ہے ‘ موت اور توفی کے درمیان میں وہ معاملہ نہیں ہے بلکہ ان کے حقیقی معانی میں نمایاں فرق ہے اور مثلاً آیت:
{ فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ } [147] ” پس روکے رکھو ان (عورتوں) کو گھروں میں یہاں تک کہ لے لے ان کو موت “ میں موت کو فعل اور توفی کا فاعل قرار دیا گیا ہے اور ہر ایک زبان کی نحو (گرامر) کا یہ مسئلہ ہے کہ فاعل اور فعل ایک نہیں ہوتے کیونکہ فعل فاعل سے صادر ہوتا ہے عین ذات فاعل نہیں ہوا کرتا تو اس سے یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ توفی کے حقیقی معنی ” موت “ ہرگز ہرگز نہیں ہیں ورنہ اس کا اطلاق جائز نہیں ہو سکتا۔ ان تین مقامات کے علاوہ سورة بقرہ کی آیت :
{ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ } [148] ” پھر پورا دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا ہے۔ “ اور سورة نحل کی آیت { وَ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ } [149] ” اور پورا دیا جائے گا ہر نفس کو جو کچھ اس نے کمایا ہے۔ “
میں بھی توفی کا فاعل اللہ تعالیٰ اور مفعول نفس انسانی ہے تاہم یہاں توفی بمعنی موت نہیں بن سکتے اور یہ بہت واضح اور صاف بات ہے۔ غرض ان آیات میں باوجود اس امر کے کہ ” توفی “ کا فاعل اللہ تعالیٰ اور اس کا مفعول ” انسان یا نفس انسانی “ ہے پھر بھی باجماع اہل لغت و تفسیر ” موت کے معنی “ نہیں ہو سکتے خواہ اس لیے کہ دلیل اور قرینہ اس معنی کے خلاف ہے اور یا اس لیے کہ اس مقام پر توفی کے حقیقی معنی (پورا لے لینا یا قبض کرلینا) کے ماسوا ” موت کے معنی “ کسی طرح بن ہی نہیں سکتے۔ تو مرزائے قادیانی کا یہ دعویٰ کہ ” توفی “ اور ” موت “ مرادف الفاظ ہیں یا یہ کہ توفی کا فاعل اگر اللہ تعالیٰ اور مفعول انسان یا نفس انسانی ہو تو اس جگہ صرف موت ہی کے معنی ہوں گے دونوں دعوے باطل اور نصوص قرآنی کے قطعاً خلاف ہیں۔
{ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } [150] توفی اور موت یقیناً مرادف الفاظ نہیں ہیں اور توفی کے حقیقی معنی ” موت “ نہیں بلکہ ” پورا لے لینا یا قبض کرلینا “ ہیں۔ قرآن عزیز سے اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ پورے قرآن میں کسی ایک جگہ بھی موت کا فاعل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو قرار نہیں دیا گیا مگر اس کے برعکس توفی کا فاعل متعدد مقامات پر ملائکہ (فرشتوں) کو ٹھہرایا ہے مثلاً سورة نساء میں ہے : { اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ } [151] ” بے شک وہ لوگ جن کو فرشتوں نے قبض کر لیا یا پورا پورا لے لیا۔ “ اور سورة انعام میں ہے : { تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا } [152] ” قبض کر لیا یا پورا لے لیا اس کو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتوں) نے “ اور سورة سجدہ میں ہے : { قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ } [153] ” (اے محمد) کہہ دیجئے قبض کرے گا تم کو موت کا فرشتہ “ اور سورة انفال میں ہے : { وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ } [154] ” اور کاش کہ تو دیکھے جس وقت کہ قبض کرتے ہیں فرشتے ان لوگوں (کی روحوں) کو جنھوں نے کفر کیا ہے۔ “
ان تمام مقامات پر اگرچہ توفی ” کنایتاً “ بمعنی موت استعمال ہوا ہے لیکن پھر بھی چونکہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بجائے ملائکہ اور ملک الموت کی جانب ہو رہی تھی اس لیے لفظ ” توفی “ کا اطلاق کیا گیا اور لفظ ” موت “ استعمال نہیں کیا گیا اور یہ صرف اس لیے کہ موت تو اللہ کا فعل ہے اور موت کے وقت انسان کا یعنی روح انسانی کا قبض کرنا اور اس کا پورا پورا لے لینا یہ فرشتوں کا عمل ہے تو جن مقامات میں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب خدا کسی کی اجل پوری کردیتا اور موت کا حکم صادر فرماتا ہے تو اس کی صورت عمل کیا پیش آتی ہے ان مقامات میں موت کا اطلاق ہرگز موزوں نہیں تھا بلکہ ” توفی “ کا لفظ ہی اس حقیقت کو ادا کرسکتا تھا۔ موت اور توفی کے درمیان میں قرآنی اطلاقات کے پیش نظر ایک بہت بڑا فرق یہ بھی ہے کہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ ” موت “ اور ” حیات “ کو تو مقابل ٹھہرایا ہے لیکن ” توفی “ کو کسی ایک مقام پر بھی ” حیات “ کا مقابل قرار نہیں دیا۔ مثلاً سورة ملک میں ہے : { الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ } [155]
” خدا ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا موت کو اور زندگی کو “ اور سورة فرقان میں ہے : { وَلَا یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَیٰوۃً } [156]
” اور وہ نہیں مالک ہیں موت کے اور نہ حیات کے “ اور اسی طرح ان دونوں کے مشتقات کو مقابل ٹھہرایا ہے مثلاً - { کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی } [157]
- { وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا } [158]
- { فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا } [159]
- { وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ } [160]
- { وَہُوَ یُحْیِ الْمَوْتٰی } [161]
(وَغِیْرَ ذَالِکَ کَثِیْرًا) البتہ توفی کے حقیقی معنی میں چونکہ یہ وسعت موجود ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے موت کی جو حقیقت ہے بطریق کنایہ اس پر بھی حسب موقع اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تو یہ استعمال اور اطلاق بھی جائز ٹھہرا اور اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ ” توفی “ کے معنی کی اس مفصل تشریح و توضیح کا حاصل یہ ہوا کہ لغت عرب اور قرآنی اطلاقات دونوں اس کے شاہد ہیں کہ توفی اور موت دونوں کے حقیقی معنی میں بھی اور دونوں کے اطلاقات میں بھی واضح فرق ہے اور دونوں مرادف الفاظ نہیں ہیں خواہ توفی کا فاعل اللہ تعالیٰ اور مفعول انسان اور روح انسانی ہی کیوں نہ ہو ‘ مگر اسلامی نقطہ نظر سے چونکہ موت ایک ایسی حقیقت کا نام ہے جس پر بطریق ” توسع “ اور ” کنایہ “ توفی کا اطلاق کیا جا سکتا ہے پس جس مقام پر قرینہ اور محل استعمال کا تقاضا یہ ہوگا کہ وہاں توفی بول کر کنایتاً موت کے معنی لیے جانے چاہئیں تو اس جگہ ” موت “ کے معنی مراد ہوں گے لیکن اس کے برعکس اگر دلیل ‘ قرینہ اور محل استعمال حقیقی معنی کا متقاضی ہے تو اس جگہ وہی معنی مراد ہوں گے اور انھی کو مقدم سمجھا جائے گا خواہ کنائی معنی وہاں قطعاً نہ بن سکتے ہوں اور خواہ بن سکتے ہوں مگر محل استعمال اور دوسرے دلائل اس کو مرجوح یا ممنوع قرار دیتے ہوں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو بہ نظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد لغت کے مشہور امام ابوالبقاء نے یہ تصریح کی ہے کہ عوام میں توفی کے معنی اگرچہ موت کے سمجھے جاتے ہیں مگر خواص کے نزدیک اس کے معنی ” پورا لے لینا “ اور ” قبض کرنا “ ہیں ‘ فرماتے ہیں : ( (اَلتَّوَفِّیْ اَلْاِمَاتَۃُ وَقَبْضُ الرُّوْحِ وَعَلَیْہِ اِسْتِعْمَالُ الْعَامَّۃِ وَالْاِسْتِیْفَائُ وَاَخَذُ الْحَقِّ وَعَلَیْہِ اِسْتِعْمَالُ الْبُلَغَائِ )) الحاصل سورة مائدہ کی آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں اگر حقیقی معنی مراد ہوں جیسا کہ جلیل القدر علمائے تفسیر و لغت نے اختیار کیے ہیں تب بھی مرزائے قادیانی کے علی الرغم آیات زیر بحث کا یہ مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تسلی دی گئی ” اے عیسیٰ ! میں تجھ کو پورا پورا لے لینے والا ہوں یا تجھ کو قبض کرنے والا ہوں اور صورت یہ ہوگی کہ میں تجھ کو اپنی جانب (ملا اعلیٰ کی جانب) اٹھالینے والا ہوں اور تجھ کو دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک رکھنے والا ہوں الخ “یعنی جب شروع میں یہ بتایا کہ تجھ کو قبض کر لیا جائے گا یا پورا لے لیا جائے گا تو قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ قبض کرنے اور پورا لے لینے کی مختلف شکلیں ہیں مثلاً ایک یہ کہ موت آجائے اور روح کو قبض کر لیا جائے اور پورا لے لیا جائے اور دوسری یہ کہ زندہ ملائے اعلیٰ کی جانب (اپنی جانب) اٹھا لیا جائے تو یہاں کونسی صورت پیش آئے گی پس اس کو صاف اور واضح کرنے کے لیے کہا گیا کہ دوسری شکل اختیار کی جائے گی تاکہ دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ میں معجزانہ تدبیر کے ذریعہ وعدہ الٰہی { وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ } [162] پورا ہو اور { وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَنْکَ } [163] کا عظیم الشان مظاہرہ ہوجائے اور ” توفی “ اور ” رفع “ ہوجانے پر نتیجہ یہ نکلے کہ ذات اقدس کافروں کے ہاتھ سے ہر طرح محفوظ ہوجائے اور اس طرح وعدہ ربانی { وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } [164]
بغیر کسی تاویل کے صحیح ہوجائے اور تاویل باطل کے ذریعہ شک اور ترددیا حقیقت حال سے انکار صرف انھی قلوب کا حصہ رہ جائے جو قرآن سے علم حاصل کرنے کی بجائے اول اپنے ذاتی اوہام و ظنون کو راہنما بناتے اور پھر قرآن کے منطوق و مفہوم کے خلاف اس کے منہ میں اپنی زبان رکھ دینا چاہتے ہیں اور اس سے وہ کہلانا چاہتے ہیں جو وہ خود کہنا نہیں چاہتا مگر وہ قرآن عزیز کی اس صفت سے غافل رہتے ہیں : { لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } [165] ” اس قرآن کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے (کسی جانب سے بھی) باطل نہیں پھٹک سکتا یہ اتارا ہوا ہے ایسی ہستی کی جانب سے جو حکمت والی ‘ خوبیوں والی ہے۔ “ مت نبی پنجاب کو جب قرآن عزیز کی ان نصوص سے متعلق تحریف معنوی میں ناکامی ہوئی اور خسران کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا تو مجبور ہو کر قرآن عزیز کے اطلاقات ‘ احادیث صحیحہ کی اطلاعات اور اجماع امت کے فیصلہ کو پس پشت ڈال کر ” فلسفہ “ کی آغوش میں پناہ لینے کا ارادہ کیا اور اپنی تصانیف میں یہ ہرزہ سرائی کی کہ اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے تو یہ عقل کے خلاف ہے اس لیے کہ کوئی مادی جسم ملائے اعلیٰ تک پرواز نہیں کرسکتا اور کر بھی جاتا تو اتنی طویل مدت کیسے زندہ رہے اور وہاں کھانے پینے اور رفع حاجت کرنے کی صورت کیسے عمل میں آسکتی ہے ؟ قدرت الٰہی کے معجزانہ افعال کو خلاف عقل کہہ کر بات اگر ختم ہو سکتی تو شاید قادیانی کی یہ فلسفیانہ موشگافی درخود اعتناء سمجھی جا سکتی ‘ لیکن آج فلسفہ جدید بہ شکل سائنس ترقی کرکے جس حد تک پہنچ چکا ہے وہاں نظریات نہیں بلکہ مشاہدات اور عملیات اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ فضا کے موانعات کو اگر آہستہ آہستہ ہٹا دیا جائے یا ان کو ضبط میں لے آیا جائے تو مادی جسم کے لیے غیر معلوم بلندی تک پہنچنا ممکن العمل ہوجائے گا اور اس کے لیے جو جدوجہد وہ کر رہے ہیں وہ ممکن العمل سمجھ کر ہی کر رہے ہیں اور سائنٹفک طریقہ پر کر رہے ہیں پس اگر آج کا انسان میلوں اوپر ہوائی جہاز کے ذریعہ جا سکتا ہے اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ ہزاروں میل سے مادی انسان سے باتیں کرتے وقت اس کے جسم کی تصویر لے سکتا ہے اور ہوا اور آفتاب کی لہروں اور شعاعوں پر کنٹرول کرکے ہزاروں میل تک اپنی آواز کو بذریعہ ریڈیو نشر کرسکتا ہے اور ہزاروں برس کے گذرے ہوئے واقعات کو فضا میں نظم کرکے آج اس طرح سنا سکتا ہے گویا وہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے تو اس انسان کے خالق بلکہ خالق کائنات کے متعلق ازراہ تفلسف یہ کہنا کہ وہ مادی جسم کو ملائے اعلیٰ تک کیسے لے جا سکتا ہے اپنی غباوت پر مہر کرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اگر ادویات اور غذاؤں اور حفظان صحت کے مختلف طریقوں سے عمر طبعی کو دگنا اور تین گنا کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے نیز اگر مختلف غذاؤں کے اثرات و نتائج میں یہ فرق ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ کسی سے فضلہ زیادہ بنے اور کسی سے بہت کم بنے اور کسی سے قطعاً نہ بنے بلکہ وہ خالص خون کی شکل میں تحلیل ہوجائے اور اگر انسان اپنی ریاضتوں اور مجاہدوں کے ذریعہ روحانی قوت بڑھاکر آج اس دنیا میں ہفتوں بلکہ مہینوں بغیر خور و نوش زندہ رہ سکتا ہے تو مجبور انسانوں کی ان کامیاب کوششوں کو صحیح سمجھنے کے باوجود خالق ارض و سماوات کی جانب حضرت مسیح (علیہ السلام) کی رفعت آسمانی پر مسطورہ بالا شکوک پیش کرنا یا ان کے پیش نظر ان کے بجسد عنصری ملائے اعلیٰ تک پہنچنے اور وہاں زندہ رہنے کا انکار کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص علمی حقائق سے ناآشنا اور علوم قرآن سے محروم ہے وہ ” خلاف عقل “ اور ” ماورائے عقل “ ان دونوں باتوں کے درمیان میں فرق کرنے سے عاجز ہے اور اس لیے ہمیشہ ماورائے عقل کو خلاف عقل کہہ کر پیش کرتا رہتا ہے۔
دراصل انسان کی فکری گمراہیوں کا سرچشمہ صرف دو ہی باتیں ہیں ایک یہ کہ انسان ” عقل “ سے اس درجہ بے بہرہ ہوجائے کہ ہر ایک بات بے سمجھے بوجھے مان لے اور اندھوں کی طرح ہر ایک راہ پر چلنے لگے دوسری بات یہ کہ جو حقیقت بھی عقل سے بالاتر نظر آئے اس کو فوراً جھٹلا دے اور یہ یقین کرلے جس شے کو اس کی سمجھ یا چند انسانوں کی سمجھ ادراک نہیں کرسکتی وہ شے حقیقتاً وجود نہیں رکھتی اور تکذیب کے لائق ہے حالانکہ بہت سی باتیں وہ ہیں جو ایک دور کے تمام عقلا کے نزدیک ماورائے عقل سمجھی جاتی ہیں اس لیے کہ ان کی عقلیں ان باتوں کا ادراک کرنے سے عاجز رہیں مگر وہی باتیں علمی ترقی کے دوسرے دور میں جا کر نہ صرف ممکن الوقوع قرار پاتی بلکہ مشاہدہ اور تجربہ میں آجاتی ہیں پس اگر ہر ایک وہ شے جو کسی ایک انسان یا جماعت یا اس کے دور کے تمام اہل عقل کے نزدیک ماورائے عقل تھی ” خلاف عقل “ کہلانے کی مستحق تھی تو وہ دوسرے دور میں کیوں عقل کے لیے ممکن ہوئی بلکہ مشاہدہ میں آگئی۔ قرآن عزیز نے گمراہی کی اس پہلی حالت کو ” جہل ‘ ظن ‘ خرص ‘ اٹکل “ سے تعبیر کیا ہے اور دوسری حالت کو ” الحاد “ کہا ہے اور یہ دونوں حالتیں ” علم و عرفان “ سے محرومی کا نتیجہ ہوتی ہیں خلاف عقل اور ماورائے عقل کے درمیان یہ فرق ہے کہ خلاف عقل بات وہ ہو سکتی ہے جس کے نہ ہوسکنے کے متعلق علم و یقین کی روشنی میں مثبت دلائل وبراہین موجود ہوں اور عقل ‘ دلیل وبرہان اور علم یقین سے یہ ثابت کرتی ہو کہ ایسا ہونا ناممکن اور محال ذاتی ہے اور ماورائے عقل اس بات کو کہتے ہیں کہ بعض باتوں کے متعلق عقل ہی کا یہ فیصلہ ہے کہ چونکہ انسانی عقل کا ادراک ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھتا اور حقیقت اسی حد پر ختم نہیں ہوجاتی لہٰذا ہر وہ بات جو عقل کے احاطہ میں نہ آسکتی ہو مگر اس کے انکار پر علم و یقین کے ذریعہ برہان و دلیل بھی دی جا سکتی ہو تو ایسی بات کو خلاف عقل نہیں بلکہ ماورائے عقل کہیں گے۔ خلاف عقل اور ماورائے عقل کے درمیان میں امتیاز ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ جن چیزوں کو کل کی دنیا میں عام طور پر خلاف عقل کہا جاتا رہا ان کو اہل دانش و بینش نے خلاف عقل نہ سمجھتے ہوئے موجودہ دور میں ممکن بلکہ موجود کر دکھایا اور کل یہی عقل کی ترقی آج کی بہت سی ماورائے عقل باتوں کو احاطہ عقل میں لاسکے گی اور نہ معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ پس جو شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بجسد عنصری رفع الی السماء کا اس لیے منکر ہے کہ عقلی فلسفہ اس کا انکار کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ برہان و دلیل اور علم و یقین کی جگہ محض جہل ‘ ظن ‘ اٹکل کے ماتحت ہے اور ایسے حضرات کے لیے پھر عالم غیب کی تمام ماورائے عقل باتوں مثلاً وحی ‘ فرشتہ ‘ جنت ‘ جہنم ‘ حشر ‘ معاد ‘ معجزہ وغیرہ تمام باتوں کو خلاف عقل کہہ کر جھٹلا دینا چاہیے۔ قرآن عزیز نے انھی جیسے منکرین حق کے متعلق صاف صاف مکذبین کا لقب تجویز کر دیا ہے :
{ بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَ لَمَّا یَاْتِھِمْ تَاْوِیْلُہٗ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ } [166] ” نہیں یہ بات نہیں ہے (جیسا کفار کہتے ہیں) اصل حقیقت یہ ہے جس بات پر یہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اور جس بات کا نتیجہ ابھی پیش نہیں آیا اس کے جھٹلانے پر آمادہ ہو گئے ٹھیک اسی طرح انھوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں تو دیکھو ظلم کا کیسا انجام ہو چکا ہے۔ “ آیت میں { کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ } (یونس 1٠/39) کہہ کر جس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے یعنی انسان کی عقل جس بات کا ادراک نہ کرسکے اس کو دلیل وبرہان اور علم یقین کے بغیر ہی جھٹلا دینا اور صرف اس بنا پر انکار کردینا کہ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اس کی ایک نظیر مرزائے قادیانی کا وہ انکار ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ” رفع الی السماء “ سے متعلق ہے اور اس کے خلیفہ مسٹر لاہوری کی فلسفیانہ موشگافیاں بھی اسی بے دلیل انکار و جحود کا شعبہ ہیں۔ اس حربہ کو بھی کمزور سمجھ کر متنبی پنجاب نے پھر رخ بدلا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس موقع کے علاوہ قرآن کے کسی مقام سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ” رفع “ سے ” رفع روحانی “ کے ماسوا کوئی معنی لیے گئے ہیں یعنی مادی شے کی جانب رفع کی نسبت کی گئی ہو لہٰذا اس مقام پر بھی رفع روحانی کے علاوہ معنی لینا قرآن کے اطلاق و استعمال کے خلاف ہے۔ مگر متنبی کاذب کا یہ دعویٰ اول تو بنیاداً ہی غلط ہے کیونکہ اگر کسی لفظ کے محل استعمال سے یا قرآن ہی کی دوسری نصوص سے ایک معنی متعین ہیں تب یہ سوال پیدا کرنا کہ ” یہی استعمال دوسرے کسی مقام پر جب تک ثابت نہیں ہوگا قابل تسلیم نہیں “ حد درجہ کی نادانی ہے تاوقتیکہ دلیل سے یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ لغت عرب میں اس لفظ کا اس معنی میں استعمال جائز ہی نہیں اور اگر اتمام حجت کے طور پر اس قسم کے لچر سوال یا دعوے کو قابل جواب یا لائق رد سمجھا ہی جائے تو سورة النازعات کی یہ آیت کافی و وافی ہے : { ئَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآئُ بَنَاہَا۔ رَفَعَ سَمْکَہَا } [167] ” (اے افراد نسل انسانی) خلقت اور پیدائش کے لحاظ سے کیا تم زیادہ بھاری اور بوجھل ہو یا آسمان جس کو خدا نے بنایا اور اس کے بوجھل جسم کو بلند کیا۔ “
اور ایک آسمان پر ہی کیا موقوف ہے یہ ہم سے لاکھوں اور کروڑوں میل دور فضا میں سورج چاند ستاروں کو خدائے برتر نے جو بلندی اور رفعت عطا کی ہے کیا یہ سب کے سب مادی اجسام نہیں ہیں ؟ اور اگر ہیں اور یقیناً ہیں تو جس خالق ارض و سماوات نے ان مادی اجسام کا رفع آسمانی کیا ہے وہ اگر ایک انسانی مخلوق کا رفع آسمانی کر دے تو اس کو قرآن کے اطلاق و استعمال کے خلاف کہنا غباوت اور جہالت نہیں تو اور کیا ہے البتہ ثبوت درکار ہے تو اس کے لیے قرآن عزیز کی نصوص ‘ صحیح احادیث اور اجماع امت سے زیادہ موثق ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے ؟

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا رفع سماوی اور چند جذباتی باتیں

[ترمیم]

مرزائے قادیانی نے اگرچہ اس مسئلہ میں جمہور کے خلاف یہود و نصاریٰ کی پیروی میں تحریف مطالب کی کافی سعیٔ ناکام کی ہے اور مسٹر لاہوری نے بھی تفسیر قرآن میں تحریف معنوی کے ذریعہ اپنے مقتداء کی مدد کی تاہم دل کا چور ان کو مطمئن نہیں کرسکا اور اس لیے انھوں نے دلائل وبراہین کی جگہ جذبات کو دلیل راہ بنایا اور کبھی تو یہ کہا کہ جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر زندہ تسلیم کرتے ہیں وہ ان کو خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فضیلت دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین پر ہوں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر ‘ یہ تو سخت توہین کی بات ہے۔ لیکن علمی حلقوں میں اس لچر اور لوچ جذبہ کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے جبکہ ہر مذہبی انسان اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ اگرچہ فرشتے ہمیشہ بقید حیات ملا اعلیٰ میں موجود اور سکونت پزیر ہیں تاہم ان سب کے مقابلہ میں بلکہ ان کی جلیل القدر ہستیوں مثلاً جبرائیل و میکائیل (علیہما السلام) کے مقابلہ میں بھی ایک مفضول سے مفضول نبی کا رتبہ بہت بلند اور عالی ہے حالانکہ وہ نبی زمین پر مقیم رہا ہے اور جبرائیل (علیہ السلام) کا قیام ملائے اعلیٰ کے بھی بلند تر مقام پر رہتا ہے چہ جائیکہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتبہ جلیل جس کی عظمت ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر “ میں مضمر ہے علاوہ ازیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں { قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی } [168] کا جو تقرب پایا ہے وہ نہ کسی ملک اور فرشتہ کو حاصل ہوا اور نہ کسی نبی اور رسول کو ‘ اس لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا رفع آسمانی اس ” رفعت “ کو پہنچ ہی نہیں سکتا جو اسریٰ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوئی۔ بہرحال فاضل و مفضول کے درمیان میں فرق مراتب کے لیے تنہا ملائے اعلیٰ کا قیام معیار فضیلت نہیں ہے خصوصاً اس ” افضل ہستی “ کے مقابلہ میں جس کی فضیلت کا معیار خود اس کا وجود باجود ہو اور جس کی ذات قدسی صفات خود ہی منبع فضائل اور مرجع کمالات ہو ‘ ایسی ہستی سے تو ” مقام “ عزت و مرتبہ پاتا ہے نہ کہ وہ ذات گرامی :
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور کبھی یہ کہا کہ جو شخص عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ تسلیم کرتا ہے وہ ” العیاذ باللہ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس لیے توہین کرتا ہے کہ وہ بقید حیات نہیں رہے اور اس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھر ذات اقدس پر برتری حاصل ہو گئی۔ یہ مقولہ پہلے سے بھی زیادہ بے کیف اور بے معنی ہے بلکہ سرتا سر غلط بنیاد پر قائم ‘ اس لیے کہ کون اہل عقل اور ذی ہوش کہہ سکتا ہے کہ ” زندگی “ بھی فاضل و مفضول کے درمیان معیار فضیلت ہے اس لیے کہ زندگی کی قیمت ذاتی کمالات و فضائل سے ہے نہ اس لیے کہ وہ زندگی ہے پھر ” معیار فضیلت “ کی اس بحث سے قطع نظر اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مسئلہ فضیلت کو درمیان میں لانا اس لیے بھی قطعاً بے محل ہے کہ جبکہ قرآن عزیز کی نصوص نے تمام کائنات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برتری کو ثابت کر دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت نے زندہ شہادت بن کر ان نصوص کی تصدیق کردی تو کسی بھی انسان کی ” زندگی “ یا ” رفع آسمانی “ یا کوئی ” وجہ فضیلت “ اس کے مقابلہ میں نہیں لائی جا سکتی ‘ اور ہر ایک حالت و صورت میں ” فضل کلی “ اسی جامع کمالات ہستی کو حاصل رہے گا۔

{ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ } کی تفسیر

[ترمیم]

اس مسئلہ کو ختم کرنے سے پہلے اب ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ سورة نساء کی مسطورہ بالا آیت میں { وَلٰکِنْ شُبّْہَ لَھُمْ } [169] کی کیا تفسیر ہے ؟ یعنی وہ کیا اشتباہ تھا جو یہودیوں پر طاری کر دیا گیا تو قرآن عزیز اس کا جواب اس مقام پر بھی اور آل عمران میں بھی ایک ہی دیتا ہے اور وہ ” رَفَعَ اِلَی السَّمَائِ “ ہے سورة آل عمران میں اس کو وعدہ کی شکل میں ظاہر کیا ” وَرَافِعُکَ اِلَیَّ “ اور سورة نساء میں ایفائے وعدہ کی صورت میں یعنی ” بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ “ [170] جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ محاصرہ کے وقت جب منکرین حق گرفتاری کے لیے اندر گھسے تو وہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ پایا یہ دیکھا تو سخت حیران ہوئے اور کسی طرح اندازہ نہ لگا سکے کہ صورت حال کیا پیش آئی اور اس طرح ” وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ “ [171] کا مصداق بن کر رہ گئے اس کے بعد قرآن کہتا ہے : { اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا } [172] تو یہ اشتباہ کے بعد جو صورت حال پیش آئی اس کا نقشہ بیان کیا گیا ہے اور اس سے دو باتیں بصراحت ظاہر ہوتی ہیں : ایک یہ کہ یہود اس سلسلہ میں اس طرح شک میں پڑ گئے تھے کہ گمان اور اٹکل کے ماسوا ان کے پاس علم و یقین کی کوئی صورت باقی نہیں رہ گئی تھی اور دوسری بات یہ کہ انھوں نے کسی کو قتل کرکے یہ مشہور کیا کہ انھوں نے ” مسیح (علیہ السلام) “ کو قتل کر دیا یا پھر آیت زمانہ نبوت محمدی کے یہود کا حال بیان کر رہی ہے۔ پس قرآن عزیز کے ان واضح اعلانات کے بعد جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حفاظت و صیانت کے سلسلہ میں کیے گئے ہیں اور جن کو تفصیل کے ساتھ سطور بالا میں بیان کر دیا گیا ہے ان دونوں باتوں کی جزئی تفصیلات کا تعلق آثار صحابہ (رض) و رضوا عنہ اور تاریخی روایات پر رہ جاتا ہے اور اس سلسلہ میں صرف انھی روایات و آثار کو قابل تسلیم سمجھا جائے گا جو اپنی صحت روایت کے ساتھ ساتھ ان بنیادی تصریحات سے نہ ٹکراتی ہوں جن کا ذکر متعدد مقامات پر قرآن عزیز نے بصراحت کر دیا ہے اور اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا ” قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی خود ہی تفسیر کردیتا ہے “ کے اصول پر جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دشمن ہاتھ تک نہ لگا سکے اور وہ محفوظ ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھالیے گئے اور جیسا کہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) کی بحث میں ابھی نصوص قرآنی سے ثابت ہوگا کہ وہ وقوع قیامت کے لیے ” نشان “ ہیں ‘ اور اس لیے دوبارہ کائنات ارضی میں واپس آ کر مفوضہ خدمت انجام دے کر پھر موت سے دو چار ہوں گے۔ شخصِ مقتول و مصلوب سے متعلق آثار و تاریخ کی جو ملی جلی روایات ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ” سبت کی شب “ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بیت المقدس کے ایک بند مکان میں اپنے حواریوں کے ساتھ موجود تھے کہ بنی اسرائیل کی سازش سے دمشق کے بت پرست بادشاہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گرفتاری کے لیے ایک دستہ بھیجا اس نے آ کر محاصرہ کر لیا اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جب سپاہی اندر داخل ہوئے تو انھوں نے حواریوں میں سے ہی ایک شخص کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شبیہ پایا ‘ اور اس کو گرفتار کرکے لے گئے اور پھر اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جس کا ذکر گذشتہ سطور میں ہو چکا ہے انھی روایات میں بعض اس کا نام یودس بن کر یایوطا بیان کرتے ہیں اور بعض جرجس اور دوسرے داؤد بن لوزا کہتے ہیں۔ پھر ان روایات میں سے بعض میں ہے کہ یہ شخص مقتول اپنی خلقت ہی میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا مشابہ اور ان کا نقش ثانی تھا ‘ اسرائیلیات انجیلی میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے یہوداہ اسکرلوتی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شبیہ تھا اور بعض روایات میں ہے کہ جب یہ نازک گھڑی آپہنچی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو دعوت و تبلیغ حق سے متعلق تلقین و ہدایات کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھ کو مطلع کر دیا ہے کہ میں ایک مدت تک کے لیے ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جاؤں گا اور یہ واقعہ مخالفین اور متبعین دونوں کے لیے سخت آزمائش و امتحان میں جانے والا ہے۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص اس پر آمادہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو میرا ہم شبیہ بنا دے اور وہ خدا کی راہ میں جان بحق پیئے اس کو جنت کی بشارت ہے تب ایک حواری نے پہل کی اور خود کو اس کے لیے پیش کیا اور منجانب اللہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل ہو گیا اور سپاہیوں نے اس کو گرفتار کر لیا۔[173] یہ تفصیلات نہ قرآن میں مذکور ہیں اور نہ احادیث مرفوعہ میں اس لیے وہ صحیح ہوں یا غلط ‘ نفس مسئلہ اپنی جگہ اٹل ہے اور قرآن کی آیات میں منصوص ‘ اس لیے اصحاب ذوق کو اختیار ہے کہ وہ صرف قرآن کے اس اجمال پر ہی قناعت کریں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا رفع الی السماء اور ہر طرح دشمنوں سے تحفظ نیز یہود پر معاملہ کا مشتبہ ہو کر کسی دوسرے کو قتل کرنا ‘ یہود و نصاریٰ کے پاس اس سلسلہ میں علم و یقین سے محروم ہو کر ظن وتخمین اور شک و شبہ میں مبتلا ہوجانا اور قرآن کا حقیقت واقعہ کو علم و یقین کی روشنی میں ظاہر کردینا یہ سب حقائق ثابتہ ہیں { وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ } [174] اور { وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ } [175] کی تفسیر میں ان روایات کی تفصیلات کو بھی قبول کر لیں اور یہ سمجھ کر تسلیم کریں کہ زیر بحث آیات کی تفسیر ان تفصیلات پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ امر زائد ہے جو آیات کی تفسیر صحیح کے لیے مؤید ہے۔

حیات عیسیٰ (علیہ السلام)

[ترمیم]

سورة آل عمران ‘ مائدہ اور نساء کی زیر بحث آیات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق حکمت الٰہی کا یہ فیصلہ صادر ہوا کہ ان کو بقید حیات ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جائے اور وہ دشمنوں اور کافروں سے محفوظ اٹھا لیے گئے۔ لیکن قرآن نے اس مسئلہ میں صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حسب موقع ان کی حیات امروز پر نصوص قطعیہ کے ذریعہ متعدد جگہ روشنی ڈالی ہے اور ان مقامات میں اس جانب بھی اشارات کیے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات طویل اور رفع الی السماء میں کیا حکمت مستور تھی تاکہ اہل حق کے قلوب تازگی ایمان سے شگفتہ ہوجائیں اور باطل کوش اپنی کور باطنی پر شرمائیں۔

لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ

[ترمیم]

{ وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } [176] ” اور کوئی اہل کتاب میں سے باقی نہ رہے گا مگر یہ کہ وہ ضرور ایمان لائے گا (عیسیٰ ) پر اس (عیسیٰ ) کی موت سے پہلے اور وہ (عیسیٰ ) قیامت کے دن ان پر (اہل کتاب پر) گواہ بنے گا۔ “ اس آیت سے قبل آیات میں وہی مسطورہ بالا واقعہ مذکور ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صلیب پر چڑھایا گیا اور نہ قتل کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب اٹھا لیا۔ یہ یہود و نصاریٰ کے اس عقیدہ کی تردید ہے جو انھوں نے اپنے باطل زعم اور اٹکل سے قائم کر لیا تھا ان سے کہا جا رہا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق صلیب پر چڑھائے جانے اور قتل کیے جانے کا دعویٰ قابل لعنت ہے کیونکہ بہتان اور لعنت تَوْاَمْ ہیں اس کے بعد اس آیت میں امر اول کی تصدیق میں اس جانب توجہ دلائی جا رہی ہے کہ آج اگر اس ملعون عقیدہ پر فخر کر رہے ہو تو وہ وقت بھی آنے والا ہے جب عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) خدائے برتر کی حکمت و مصلحت کو پورا کرنے کے لیے کائنات ارضی پر واپس تشریف لائیں گے اور اس عینی مشاہدہ کے وقت اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) میں سے ہر ایک موجود ہستی کو قرآن کے فیصلہ کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہے گا ‘ اور پھر جب وہ اپنی مدت حیات ختم کرکے موت کی آغوش سے دو چار ہوجائیں گے تو قیامت کے دن اپنی امت (اہل کتاب) پر اسی طرح گواہ ہوں گے جس طرح تمام انبیا ومرسلین اپنی اپنی امتوں پر شاہد بنیں گے۔ یہ حقیقت کچھ مخفی نہیں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اگرچہ یہود و نصاریٰ دونوں واقعہ صلیب و قتل پر متفق ہیں لیکن اس سلسلہ میں دونوں کے عقائد کی بنیاد قطعاً متضاد اصول پر قائم ہے ‘ یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) کو مفتری اور کاذب کہتے اور دجال 1۔(دجال دجل سے ماخوذ ہے جس کے معنی ” فریب “ کے ہیں۔) سمجھتے ہیں اور اس لیے فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے یسوع مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر بھی چڑھایا اور پھر اس حالت میں مار بھی ڈالا۔ اس کے برعکس نصاریٰ کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا پہلا انسان آدم (علیہ السلام) گناہ گار تھا اور ساری دنیا گناہ گار تھی۔ اس لیے خدا کی صفت ” رحمت “ نے ارادہ کیا کہ دنیا کو گناہوں سے نجات دلائے اس لیے اس کی صفت ” رحمت “ نے ابنیت (بیٹا ہونا) کی شکل اختیار کی اور اس کو دنیا میں بھیجا تاکہ وہ یہود کے ہاتھوں سولی پر چڑھے اور مارا جائے اور اس طرح ساری کائنات ماضی و مستقبل کے گناہوں کا ” کفارہ “ بن کر دنیا کی نجات کا باعث بنے۔
سورة نساء کی آیات میں قرآن عزیز نے صاف صاف کہہ دیا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قتل کے دعویٰ کی بنیاد کسی بھی عقیدہ پر مبنی ہو لائق لعنت اور باعث ذلت و خسران ہے۔ خدا کے سچے پیغمبر کو مفتری سمجھ کر یہ عقیدہ رکھنا بھی لعنت کا موجب اور خدا کے بندے اور مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا انسان کو خدا کا بیٹا بنا کر اور ” کفارہ “ کا باطل عقیدہ تراش کر مسیح (علیہ السلام) کو مصلوب و مقتول تسلیم کرنا بھی گمراہی اور علم و حقیقت کے خلاف اٹکل کا تیر ہے اور اس سلسلہ میں صحیح اور مبنی برحقیقت فیصلہ وہی ہے جو قرآن نے کیا ہے اور جس کی بنیاد ” علم و یقین اور وحی الٰہی “ پر قائم ہے۔ پس آج جبکہ تمھارے سامنے اس اختلاف کے فیصلہ کے لیے جو شک و ظن کی شکستہ بنیادوں پر قائم تھا علم و یقین کی روشنی آچکی ہے پھر بھی تم اپنے ظنون کا سدہ اور اوہام فاسدہ پر اصرار کر رہے ہو اور حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق باطل عقیدہ کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہو ‘ تو قرآن کا ایک دوسرا فیصلہ اور وحی الٰہی کا یہ اعلان بھی سن لو کہ تمھاری نسلوں پر وہ وقت بھی آنے والا ہے جب قرآن کے اس صحیح فیصلہ اور اعلان حق کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) ملائے اعلیٰ سے کائنات ارضی کو واپس ہوں گے اور ان کی یہ آمد ایسی مشاہد ہوگی کہ یہود و نصاریٰ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہے گا جو بادل خواستہ یا بادل ناخواستہ اس ذات گرامی پر یہ ایمان نہ لے آئے کہ بلاشبہ وہ خدا کے سچے رسول ہیں ‘ خدا کے بیٹے نہیں برگزیدہ انسان ہیں ‘ مصلوب و مقتول نہیں ہوئے تھے بقید حیات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ { وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ } [177] یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ سورة آل عمران اور سورة مائدہ کی طرح اس جگہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے لفظ ” توفی “ نہیں بولا گیا بلکہ بصراحت لفظ ” موت “ استعمال کیا گیا ہے یہ کیوں ؟ صرف اس لیے کہ ان دونوں مقامات پر جس حقیقت کا اظہار مقصود ہے اس کے لیے ” توفی “ ہی مناسب ہے جیسا کہ سورة آل عمران سے متعلق آیات کی تشریح و تفسیر میں گذر چکا اور سورة مائدہ سے متعلق آیت کی تفسیر میں عنقریب بیان ہوگا اور اس جگہ چونکہ براہ راست ” موت “ ہی کا تذکرہ مطلوب ہے اور اس حالت کا ذکر ہے۔جس کے بعد حضرت مسیح (علیہ السلام) بھی { کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ } [178] کا مصداق بننے والے ہیں اس لیے یہاں ” موت “ کو بصراحت لانا ہی از بس ضروری تھا اور یہ مزید برہان ہے اس دعویٰ کے لیے کہ آل عمران اور مائدہ میں لفظ ” موت “ کی جگہ ” توفی “ کا اطلاق بلاشبہ خاص مقصد رکھتا ہے ورنہ جس طرح ان دونوں مقامات پر ” توفی “ کا اطلاق کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی کیا جاتا یا جس طرح اس جگہ لفظ ” موت “ کا اطلاق کیا گیا ہے اسی طرح ان دونوں مقامات پر بھی لفظ موت ہی کا استعمال ہونا چاہیے تھا مگر قرآن عزیز کے ان دقیق اسالیب بیان کے فرق کا فہم ‘ طالبین حق کا ہی حصہ ہے نہ کہ مرزائے قادیانی اور مسٹر لاہوری جیسے اصحاب زیغ کا جو اپنی خاص اغراض ذاتی کے پیش نظر پہلے ایک نظریہ ایجاد کرلیتے ہیں اور بعد ازاں اس سلسلہ کی تمام آیات قرآنی کو اسی کے سانچہ میں ڈھال کر اس کا نام ” تفسیر قرآن “ رکھتے ہیں۔ بہرحال جمہور کے نزدیک آیت زیر عنوان کی تفسیر یہی ہے جو سپرد قلم کی جا چکی ‘ مشہور محدث ‘ جلیل القدر مفسر اور اسلامی مورخ عماد الدین ابن کثیر ؒ اس تفسیر کو حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور حسن بصری ؒ سے بسند صحیح نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :
” قتادہ ‘ عبد الرحمن اور بہت سے مفسروں کا یہی قول ہے اور یہی قول حق ہے جیسا کہ عنقریب ہم دلیل قاطع سے اس کو ثابت کریں گے ‘ ان شاء اللہ تعالیٰ “ [179] اور سر تاج محدثین ابن حجر عسقلانی بھی اسی کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” اسی تفسیر پر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے یقین کیا ہے اور ابن عباس ؓ کی اس تفسیر کو ابن جریر نے بروایت سعید بن جبیر اور ابو رجاء نے بھی حسن ؒ سے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ” قَبْلَ مَوْتِہٖ “ یعنی قبل موت عیسیٰ (علیہ السلام)۔ قسم بخدا بے شک وشبہ حضرت عیسیٰ بقید حیات ہیں اور جب وہ آسمان سے اتریں گے تو سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور ابن جریر ؒ نے اسی تفسیر کو اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے اور ابن جریر ؒ وغیرہ نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ “ [180] مگر اس صحیح تفسیر کے علاوہ کتب تفسیر میں احتمال عقلی کے طور پر دو قول اور بھی منقول ہیں۔ مگر وہ دونوں بلحاظ سند ضعیف اور ناقابل اعتماد اور بلحاظ سیاق وسباق (یعنی آیت زیر بحث سے قبل اور بعد کی آیات کے لحاظ سے) غلط اور ناقابل التفات ہیں۔ یعنی ایسے احتمالات عقلی ہیں جو نقل اور آیات کے باہمی نظم و ترتیب کے خلاف ہیں۔ ان ہر دو معنی میں سے ایک معنی یہ ہے کہ ” مَوْتِہٖ “ میں جو ضمیر ہے اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بجائے اہل کتاب کی جانب لوٹایا جائے اور آیت کا ترجمہ یوں کیا جائے ” اور اہل کتاب میں سے کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لے آتا ہو “ یعنی اگرچہ یہود و نصاریٰ اپنی زندگی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق قرآن کے بتائے ہوئے عقیدہ پر ایمان نہیں لاتے اور اپنے اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہیں لیکن جب ان کو ” موت “ آ دباتی ہے تو وہ اس آخری حالت میں ” جو نزع کا وقت کہلاتا ہے “ صحیح عقیدہ کے مطابق ایمان لے آتے ہیں اور اہل کتاب کے ہر ایک فرد پر بلا استثناء یہی حالت گزرتی ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ” اہل کتاب کا ہر ایک فرد اپنی موت سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتا ہے “ یعنی جب وہ عالم دنیا سے منقطع ہو کر عالم غیب سے وابستہ ہو رہا ہوتا ہے اس وقت اس پر اصل حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے شک خدا کے سچے پیغمبر تھے۔ پس اس بات سے قطع نظر کہ یہ دونوں تفسیریں نقل روایت کے اعتبار سے ناقابل اعتماد اور غیر صحیح اور آیات کے سیاق وسباق کے خلاف ہیں عقلی نقطہ نظر سے بھی غلط ہیں۔ اس لیے کہ اگر آیت کے معنی یہ ہیں جو سطور بالا میں نقل کیے گئے تب یہ آیت اپنے مقصد بیان کے خلاف بے معنی اور بے نتیجہ ہوجاتی ہے۔ (العیاذ باللہ) کیونکہ قرآن عزیز دوسرے مقامات پر صاف کہہ چکا ہے کہ جب انسان عالم دنیا سے کٹ کر عالم غیب سے وابستہ ہوجاتا ہے اور نزع کی یہ کیفیت اس پر طاری ہوجاتی ہے کہ جو معاملات اس ساعت سے قبل تک اس کے لیے غیب کے معاملات تھے وہ مشاہدہ میں آنے شروع ہوجاتے ہیں تو اس وقت اس کے اعمال و کردار کا صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اب تبدیلی اعتقاد کا کوئی نتیجہ اور ثمرہ نہیں ملتا یعنی اس وقت کا نہ اقرار اور اعتراف معتبر اور نہ انکار مستند۔
{ فَلَمَّا جَائَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَہُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُوْ۔ فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ۔ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکٰفِرُوْنَ } [181]
” پس جب آئے ان کے پاس پیغمبر واضح دلائل لے کر تو اس چیز سے خوش ہوئے جو ان کے پاس علم سے تھی اور گھیر لیا ان کو اس چیز نے جس کو وہ مذاق بناتے تھے پس جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انھوں نے کہا ہم خدائے واحد پر ایمان لے آئے اور جن چیزوں کو ہم اس کا شرک بناتے تھے ان سے منکر ہوئے پس نہیں نافع ہوا ان کا (یہ) ایمان جب انھوں نے ہمارے عذاب کا مشاہدہ کر لیا ‘ یہ اللہ کی سنت ہے جو اس کے بندوں میں ہمیشہ جاری رہی اور اس موقع پر کافروں نے زیاں پایا۔ “ { وَ لَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ ھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } [182] ” لیکن ان لوگوں کی توبہ توبہ نہیں ہے جو (ساری عمر تو) برائیاں کرتے رہے لیکن جب ان میں سے کسی کے آگے موت آکھڑی ہوئی تو کہنے لگا اب میں توبہ کرتا ہوں (ظاہر ہے کہ ایسی توبہ سچی توبہ نہیں ہوئی) اسی طرح ان لوگوں کی توبہ بھی توبہ نہیں جو دنیا سے کفر کی حالت میں جاتے ہیں ان تمام لوگوں کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ تو ایسی صورت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا معنی رکھتا ہے انسان جب اس حالت پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے سامنے سے غیب کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور برزخ ملائکۃ اللہ ‘ عذاب یا راحت ‘ جنت و جہنم ‘ غرض دین حق کی تعلیم کردہ غیب کی ساری حقیقتیں اس پر منکشف ہوجاتی ہیں اور اس میں یہود و نصاریٰ کی ہی خصوصیت کیا ہے یہ حالت تو ہر ایک ابن آدم پر گزرنے والی ہے نیز جب اس قسم کا ایمان قبول ہی نہیں ہے تو اس کا ذکر اسی اسلوب کے ساتھ ہونا چاہیے تھا جو غرق فرعون کے وقت فرعون کے ایمانی اعتراف و اقرار کے لیے اختیار کیا گیا اور جس میں اس وقت کی ایمانی پکار کی بے وقعتی ظاہر کی گئی ہے نہ کہ ایسے اسلوب بیان کے ساتھ ‘ گویا مستقبل میں ہونے والے کسی ایسے عظیم الشان واقعہ کی خبر دی جا رہی ہے جو مخاطبین (یہود و نصاریٰ ) کے عقائد و عزائم کے خلاف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق قرآن کی تصدیق اور اس کے اٹل فیصلہ کی زندہ شہادت بن کر پیش آنے والا ہے ورنہ تو ایک عیسائی اور یہودی پنجہ موت میں آجانے کے وقت جان عزیز سپرد کردینے سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا تب کیا اور نہ لایا تب کیا اس کی یہ تصدیق کائنات انسانی کے علم و ادراک سے باہر صرف اس کے اور خدا کے درمیان میں تعلق رکھتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی بات کا ایسے موقع پر تذکرہ کرنا قطعاً بے محل ہے جہاں ایک قوم کو اس کے ایک خاص عقیدہ پر ملزم و مجرم بنانے کے لیے فیصلہ حق کی تائید کے لیے ماضی اور مستقبل میں کائنات ارضی پر پیش آنے والے واقعات کو پیش کیا جا رہا ہے جیسا کہ آیت کے سیاق وسباق سے واضح ہو رہا ہے علاوہ ازیں ان احتمالات کی یہاں اس لیے بھی گنجائش نہیں ہے کہ غرغرہ کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قسم کا ایمان تو ہر اس اہل کتاب سے متعلق ہے جو اس آیت کے نزول سے کچھ دن قبل یا صدیوں قبل گذر چکے اور مرکھپ چکے ہیں لہٰذا اگر آیت میں یہ مضمون بیان کرنا مقصود تھا تو اس کے لیے مؤکد مستقبل کی یہ تعبیر ” لِیُؤْمِنَنَّ “ فصاحت و بلاغت کلام کے بالکل خلاف ہے اس کے لیے تو ایسی تعبیر کی ضرورت تھی جو ماضی ‘ حال اور استقبال تینوں زمانوں پر حاوی ہوتی تاکہ قرآن کا مفہوم اپنے توسع کے لحاظ سے پوری طرح ادا ہوتا۔
نیز دوسرے معنی تو اس لیے بھی قطعاً غلط اور بے محل ہیں کہ اس آیت سے قبل اور بعد کی آیات میں یعنی سیاق وسباق میں خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ہی نہیں ہے کیونکہ شروع آیات میں صرف حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ذکر ہو رہا ہے اور اس آیت کے آخر میں یہ ارشاد ہوا ہے :
{ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } [183] اور واضح ہے یہ بات کہ اس جگہ شاہد سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں اور عَلَیْھِمْ کی ضمیر سے ان کی امت تو پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیے بغیر درمیان میں کی کسی ضمیر کا مرجع ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دینا نہ صرف یہ کہ فصاحت و بلاغت کے منافی ہے بلکہ قاعدہ عربیت کے قطعاً خلاف اور انتشار ضمائر کا موجب ہے۔ غرض بے غل و غش صحیح معنی وہی ہیں جو جمہور نے اختیار کیے ہیں اور یہ دونوں خود ساختہ احتمالات آیت کی تفسیر تو کیا صحیح احتمال کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ 1 ؎( اس مقام کے علاوہ سورة مائدہ کی آیت مَا الْمَسِیْحُ بْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ [184] اور سورة آل عمران کی ابتدا سے بیاسی آیات تک جو وفد نجران سے تعلق رکھتی ہیں یہ سب مقامات دلالۃ النص یا اشارۃ النص کی شکل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات کے لیے دلیل وبرہان ہیں اور اگرچہ ان کی تفصیلات اور وجوہ استشہاد میرے پاس مدون و مرتب ہیں تاہم کتاب کی طوالت کے خوف سے اس جگہ ان کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ‘ بوقت فرصت ان شاء اللہ مستقل مضمون کی صورت میں ہدیہ ناظرین ہوگا ‘ اور یا پھر حجۃ الاسلام علامہ محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ کی کتاب ” عقیدۃ الاسلام فی حیٰوۃ عیسیٰ (علیہ السلام) “ اس مقصد کے لیے قابل مراجعت ہے۔ )

حیات و نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اور احادیث صحیحہ

[ترمیم]

قرآن عزیز نے جس معجزانہ اختصار کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع سماوی ‘ حیات امروز اور علامت قیامت بن کر نزول من السماء کے متعلق تصریحات کی ہیں صحیح ذخیرہ احادیث نبوی میں ان آیات ہی کی تفصیلات بیان کرکے ان حقائق کو روشن کیا گیا ہے چنانچہ امام حدیث بخاری اور مسلم نے صحیحین [185] میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت متعدد طریق ہائے سند سے نقل کی ہے : ((قَالَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیُوْشِکَنَّ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ اِبْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیُکَسِّرَ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیُفِیْضَ الْمَالَ حَتّٰی لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ وَحَتّٰی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا لَہٗ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا ثُمَّ قَالَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ اِقْرَئُوْا اِنْ شِئْتُمْ ) )
{ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } [186] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور وہ وقت آنے والا ہے کہ تم میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) حاکم و عادل بن کر اتریں گے وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے (یعنی موجودہ عیسائیت کو مٹائیں گے) اور جزیہ اٹھا دیں گے (یعنی نشان الٰہی کے مشاہدہ کے بعد اسلام کے سوا کچھ بھی قبول نہیں ہوگا اور اسلامی احکام میں بارشاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جزیہ کا حکم اسی وقت تک کے لیے ہے) اور مال کی اس درجہ کثرت ہوگی کہ کوئی اس کو قبول کرنے والا نہیں ملے گا اور خدا کے سامنے ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمت رکھے گا (یعنی مالی کثرت کی وجہ سے خیرات و صدقات کے مقابلہ میں عبادت نافلہ کی اہمیت بڑھ جائے گی) پھر ابوہریرہ ؓ نے فرمایا اگر تم (قرآن سے اس کا استشہاد) چاہو تو یہ آیت پڑھو { وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } [187] ” اور کوئی اہل کتاب میں سے نہ ہوگا مگر (عیسیٰ کی) موت سے پہلے اس پر (عیسیٰ پر) ضرور ایمان لے آئے گا اور وہ (عیسیٰ ) قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔ “ 1 بخاری اور مسلم میں بسند نافع مولیٰ ابوقتادہ انصاری ؓ، حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت بھی منقول ہے : ( (قَالَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَیْفَ اَنْتُمْ اَذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ )) [188] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس وقت تمھارا کیا حال ہوگا جب تم میں ابن مریم اتریں گے اور اس حالت میں اتریں گے کہ تم ہی میں سے ایک شخص تمھاری امامت کر رہا ہوگا۔ “ 2 ان دونوں روایات کے علاوہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے متعدد طریق ہائے سند سے اور روایات بھی صحیحین ‘ مسند احمد اور سنن 1 ؎[189] میں درج ہیں جو یہی مفہوم و معنی ادا کرتی ہیں ‘ ان میں سے ایک زیادہ مفصل ہے اور مسئلہ زیر بحث کے بعض دوسرے پہلوؤں کو بھی نمایاں کرتی ہے مسند احمد میں ہے :
( (اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ” اَلْاَنْبِیَائُ اِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ اُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ وَاِنِّی اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ لِاَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ بَیْنِی وَبَیْنَہٗ وَاِنَّہٗ نَازِلٌ فَاِذْ رَأَیْتُمُوْہٗ فَاعْرِفُوْہٗ رَجُلٌ مَرْبُوْعٌ اِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ عَلَیْہِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ کَأَنَّ رَأسَہٗ یَقْطُرُ اِنْ لَمْ یُصِبْہٗ بَلَلٌ فَیَدُقُّ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَدْعُوْا النَّاسَ اِلَی الْاِسْلَامِ وَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ ثُمَّ تَقَعُ الْاَمَانَۃُ عَلَی الْاَرْضِ حَتَّی تَرْتَعَ الْاُسُوْدُ مَعَ الْاِبِلِ وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ وَیَلْعَبُ الصِّبْیَانُ بِالْحَیَّاتِ لَا تَضُرُّھُمْ فَیَمْکُثُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی وَیُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ ))
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمام انبیا اصول دین میں علاتی بھائیوں کی طرح ہیں دین سب کا ایک اور فروع دین مختلف اور میں دوسرے انبیا کے مقابلہ میں عیسیٰ بن مریم (رض) سے زیادہ قریب ہوں اس لیے کہ ان کے اور میرے درمیان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اور بلاشبہ وہ کائنات ارضی پر اتریں گے پس جب تم ان کو دیکھو تو اس حلیہ سے پہچان لینا : میانہ قد ‘ سرخ و سپید رنگ ہوگا ‘ ان کے جسم پر دو سرخی مائل رنگ کی چادریں ہوں گی ایسا معلوم ہوگا گویا فی الحال غسل کرکے آ رہے ہیں اور سر سے پانی کے قطرے موتی کی طرح ٹپک پڑنے والے ہیں۔ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے (موجودہ عیسائیت کا خاتمہ کر دیں گے) اور جزیہ اٹھا دیں گے اور لوگوں کو ” اسلام “ کی دعوت دیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں تمام ادیان و ملل کو مٹا دے گا اور صرف ایک ہی دین ” دین اسلام “ باقی رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ انھی کے زمانہ میں مسیح دجال کو ہلاک کرے گا پھر کائنات میں ” امانت “ (امر خیر) جگہ کرلے گی حتیٰ کہ شیر اونٹوں کے ساتھ ‘ چیتے گائے بیلوں کے ساتھ ‘ بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چرتے نظر آئیں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور ان کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا ‘ پس عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس سال اس زمین پر زندہ رہیں گے پھر وفات پاجائیں گے اور مسلمان ان کے جنازہ کی نماز ادا کریں گے۔ “ 3 اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل حدیث روایت کی گئی ہے اس میں خروج دجال کا ذکر کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد مبارک مذکور ہے : ( (فَاِذَا جَائُوْا الشَّامَ خَرَجَ فَبَیْنَاھُمْ یُعِدُّوْنَ لِلْقِتَالِ یُسَرُّوْنَ الصَّفُوْفَ اِذْ اُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَیَنْزِلُ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ۔۔ الخ)) ” پس جب مسلمان ملک شام پہنچیں گے تو دجال کا خروج ہوگا ابھی مسلمان اس کے مقابلہ میں جنگ کی تیاریاں کر رہے ہوں گے ‘ صفیں درست کرتے ہوں گے کہ نماز کے لیے اقامت ہونے لگے گی۔ اس درمیان میں عیسیٰ بن مریم کا نزول ہوگا اور وہ مسلمانوں کی امامت کا فرض انجام دیں گے۔ “
4 اور صحیح مسلم میں حضرت نواس بن سمعان (رض) سے ایک طویل روایت منقول ہے جس میں یہ مذکور ہے : ( (اِذَا بَعَثَ اللّٰہُ الْمَسِیْحَ بْنَ مَرْیَمَ (علیہ السلام) فَیَنْزَلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِیْ دِمَشْقَ بَیْنَ مَھْرُوْدَتَیْنِ وَاضِعَا کَفَّیْہِ عَلٰی اَجْنِحَۃِ مَلَکَیْنِ اِذَا طَأطَأ رَاْسَہٗ قَطَرَ وَاِذَا رَفَعَہٗ تَحَدَّرَ مِنْہٗ جُمَانٌ کَا لْلُوْلُؤ۔۔ الخ)) ” (ابھی دجال ایک مسلمان پر اپنے شیطانی کرشموں کی آزمائش کر ہی رہا ہوگا کہ) اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم (علیہما السلام) کو بھیج دے گا وہ جب کائنات ارضی پر اتریں گے تو جامع مسجد دمشق کے مشرقی جانب کے سپید منارہ پر اتریں گے اور ان کے بدن پر (سرخی مائل) گہری زرد رنگ کی دو چادریں ہوں گی (یعنی ایک بدن کے اوپر کے حصہ پر اور دوسری زیریں حصہ بدن پر لپٹی ہوں گی) اور دو فرشتوں کے بازؤوں پر سہارا لیے ہوں گے جب سرجھکائیں گے تو سر سے پانی ٹپک پڑنے لگے گا اور جب سر اٹھائیں گے تو پانی کے قطرے موتیوں کی طرح ٹپکیں گے (یعنی غسل کیے آ رہے ہوں گے) “ 5 اور مختلف طریق ہائے سند سے امام احمد نے مسند میں اور ترمذی (رح) نے سنن میں حضرت مجمع بن حارثہ ؓ سے بسند صحیح یہ روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے : ( (یَقْتُلُ اِبْنُ مَرْیَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ )) 1 ؎(شہر دمشق کی شہر پناہ کا ایک دروازہ ہے۔) ” ابن مریم ‘ دجال کو باب لد پر قتل کریں گے۔ “ امام ترمذی اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں ھَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ اور اس کے بعد ان حضرات صحابہ ؓ و رضوا عنہ کی فہرست شمار کراتے ہیں جن سے نزول عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور ان کے ہاتھوں قتل دجال سے متعلق روایات کتب حدیث میں منقول ہیں۔ فرماتے ہیں :
” اور اس باب میں حضرت عمران بن حصین ‘ نافع بن عیینہ ‘ ابوبرزہ اسلمی ‘ حذیفہ بن اسید ‘ ابوہریرہ ‘ کیسان ‘ عثمان بن ابی العاص ‘ جابر بن عبد اللہ ‘ ابو امامہ باہلی ‘ ابن مسعود ‘ عبد اللہ بن عمرو بن العاص ‘ سمرہ بن جندب ‘ نواس بن سمعان ‘ عمرو بن عوف ‘ حذیفہ بن الیمان سے بھی روایات منقول ہیں۔ “ [190] 6 اور امام احمد نے مسند میں ‘ امام مسلم ; نے صحیح میں اور اصحاب سنن نے سنن میں بروایت حضرت حذیفہ بن الاسیدی ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے : ( (قَالَ اَشْرَفَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ مِنْ غُرْفَۃٍ وَنَحْنُ نَتَذَکَّرُ السَّاعَۃَ فَقَالَ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَرَوْا عَشْرَ اٰیَاتٍ : طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا وَالدُّخَانُ وَالدَّابَۃُ وَخُرُوْجُ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ وَنُزُوْلُ عِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ وَالدَّجَّالُ وَثَلٰثَۃُ خُسُوْفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدْنِ تَسُوْقُ وَتَحْشُرُ النَّاسَ تَبِیْتُ مَعَھُمْ حَیْثُ بَاتُوْا وَتَقِیْلُ مَعَھُمْ حَیْثُ قَالُوْا))۔اس حدیث میں جن علامات کا ذکر ہے وہ سب تشریح طلب ہیں مگر یہاں ان کی تشریحات بے محل ہیں اس لیے نظر انداز کردی گئیں ‘ عام تشریحات کتب تفسیر و حدیث میں شاہ رفیع الدین دہلوی نور اللہ مرقدہ کے رسالہ ” علاماتِ قیامت “ میں قابل مطالعہ ہیں۔
” حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ہم (صحابہ ؓ و رضوا عنہ ) ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے قیامت کے متعلق بات چیت کر رہے تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالاخانہ سے جھانکا اور ارشاد فرمایا ” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشان نہ دیکھ لو گے آفتاب کا مغرب سے طلوع ‘ دخان (دھواں) ‘ دابۃ الارض ‘ خروج یاجوج و ماجوج ‘ عیسیٰ بن مریم کا نزول ‘ دجال کا خروج ‘ تین مقامات میں خسوف کا پیش آنا (زمین میں دھنس جانا) مشرق میں ‘ مغرب میں اور جزیرۃ العرب میں آگ کا قعر عدن سے نکلنا جو لوگوں کو سمیٹ لے جائے گی اور جب رات کو لوگ آرام کریں گے تو وہ بھی ٹھہر جائے گی اور الاسلمی ‘ عبد الرحمن بن آدم ‘ ابو سلمہ ‘ ابو عمرہ ‘ عطاء بن بشار ‘ ابو سہیل ‘ موثر بن غفارہ ‘ یحییٰ بن ابی عمرو ‘ جبیر بن نضیر ‘ عروہ بن مسعود ثقفی ‘ عبد اللہ بن زید انصاری ‘ ابوزرعہ ‘ یعقوب بن عامر ‘ ابو نضرہ ‘ ابو الطفیل (رحمہم اللہ)۔جب دوپہر کو قیلولہ کریں گے تب بھی وہ ٹھہری رہے گی۔ “ ' اور محدث ابن ابی حاتم ؒ نے اور جلیل القدر محدث و مفسر ابن جریر طبری ؒ نے بروایت حسن بصری ؒ بسند صحیح حیات و نزول عیسیٰ بن مریم سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے اس میں ہے : ( (قَالَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِلْیَھُوْدِ اِنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ وَاِنَّہٗ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ )) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے فرمایا : ” عیسیٰ (علیہ السلام) مرے نہیں اور بلاشبہ وہ قیامت سے پہلے تمھاری جانب لوٹ کر آئیں گے۔ “ ( اسی طرح ابن ابی حاتم اور ابن جریر ; نے سورة نساء کی آیات متعلقہ وفد نجران کی تفسیر کرتے ہوئے اصول حدیث کے نقطہ نظر سے بسند حسن ایک طویل روایت ربیع بن انس ؓ سے نقل کی ہے اس میں بھی بصراحت یہ مذکور ہے : ( (فَقَالَ لَھُمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَبَّنَا حَیٌّ لَا یَمُوْتُ وَاَنَّ عِیْسٰی یَاتِیْ عَلَیْہِ الْفَنَائُ )) [191] ” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد سے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ بلاشبہ ہمارا پروردگار زندہ ہے جس کے لیے موت نہیں ہے اور بلاشبہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو فنا (موت) سے دو چار ہونا ہوگا۔ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ لفظ ” یاتی “ فرمایا ہے جو مستقبل کے لیے بولا جاتا ہے لفظ ” اتی “ نہیں فرمایا جو ماضی کے لیے مخصوص ہے۔ ) اور امام بیہقی ؒ نے کتاب الاسماء و الصفات میں اور محدث علی متقی گجراتی ؒ نے کنز العمال میں باسناد حسن و صحیح اس سلسلہ میں جو روایات نقل فرمائی ہیں ان میں نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے ساتھ ” من السماء “ کا لفظ بصراحت موجود ہے۔ [192] یہ اور اسی قسم کا کثیر ذخیرہ حدیث ہے جو حیات و نزول عیسیٰ بن مریم پیغمبر بنی اسرائیل سے متعلق کتب حدیث و تفسیر میں منقول ہے اور جو قوت سند کے لحاظ سے صحیح اور حسن سے کم رتبہ نہیں رکھتا اور باعتبار شہرت و تواتر روایات جن کا یہ حال ہے کہ حسب تصریح امام ترمذی ‘ حافظ حدیث عماد الدین ابن کثیر ‘ حافظ حدیث ابن حجر عسقلانی اور دیگر ائمہ حدیث سولہ جلیل القدر صحابہ ؓ و رضوا عنہ نے ان کو روایت کیا ہے جن میں سے بعض صحابہ ؓ و رضوا عنہ کا یہ دعویٰ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تصریحات سیکڑوں صحابہ ؓ و رضوا عنہ کے مجمع میں خطبہ دے کر فرمائیں اور یہ صحابہ کرام ؓ بغیر کسی انکار و اجنبیت کے ان روایات کو خلفائے راشدین کے دور خلافت میں علیٰ رؤس الاشہاد سناتے تھے چنانچہ ان جلیل القدر صحابہ ؓ و رضوا عنہ سے جن ہزارہا شاگردوں نے سنا ان میں سے یہ عظیم المرتبت ہستیاں قابل ذکر ہیں جن میں ہر فرد روایت حدیث میں ضبط و حفظ ‘ ثقاہت و علمی تجربے کے پیش نظر امامت و قیادت کا درجہ رکھتا ہے مثلاً سعید بن مسیب ‘ نافع مولیٰ ابوقتادہ ‘ حنظلہ بن علی پھر ان علمائے کبار اور محدثین اعلام سے جن بے شمار تلامذہ نے سنا ان میں سے راویان حدیث کے طبقہ میں جن کو حدیث اور علوم قرآن کا رتبہ بلند حاصل ہے اور جو اپنے اپنے وقت کے امام الحدیث اور امیر المومنین فی الحدیث تسلیم کیے گئے ہیں بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں : ابن شہاب زہری ‘ سفیان بن عیینہ ‘ لیث ‘ ابن ابی ذئب ‘ اوزاعی ‘ قتادہ ‘ عبد الرحمن بن ابی عمرہ ‘ سہیل ‘ جبلہ بن سہیم ‘ علی بن زید ‘ ابو رافع ‘ عبد الرحمن بن جبیر ‘ نعمان بن سالم ‘ معمر ‘ عبد اللہ بن عبید اللہ (رحمہم اللہ)۔
غرض ان روایات و احادیث صحیحہ کا صحابہ ؓ و رضوا عنہ ‘ تابعین ‘ تبع تابعین یعنی خیرالقرون کے طبقات میں اس درجہ شیوع ہو چکا تھا اور وہ بغیر کسی انکار کے اس درجہ لائق قبول ہو چکی تھیں کہ ائمہ حدیث کے نزدیک حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات و نزول سے متعلق ان احادیث کو مفہوم و معنی کے لحاظ سے درجہ ” تواتر “ حاصل تھا اور اسی لیے وہ بے جھجک اس مسئلہ کو احادیث متواترہ سے ثابت اور مسلم کہتے تھے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ روایت حدیث کے تمام طبقات و درجات میں ان روایات کو ” تلقی بالقبول “ کا یہ درجہ حاصل رہا ہے کہ ہر دور میں اس کے روات میں ” ائمہ حدیث “ اور روایت حدیث کے ” مدار “ نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان مرفوع و موقوف بر صحابہ ؓ عنم و رضوا عنہ احادیث اور روایات کے ناقلین میں امام احمد ‘ امام بخاری ‘ امام مسلم ؒ‘ ابوداؤد ؒ‘ نسائی ؒ‘ ترمذی ؒ‘ ابن ماجہؒ جیسے اصحاب صحیح و سنن ‘ ائمہ حدیث کے اسمائے گرامی شامل ہیں اور وہ باتفاق ان روایات کی صحت و حسن کے قائل ہیں ‘ چنانچہ یہ اور اسی قسم کی احادیث صحیحہ کا ذکر کرتے ہوئے مشہور محدث و مفسر ابن کثیر ؒ اپنی تفسیر میں اول یہ عنوان قائم کرتے ہیں :
( (ذِکْرُ الْاَحَادِیْثِ الْوَارِدَۃِ فِیْ نُزُوْلِ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ عَلَیْھُمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ اِلَی الْاَرْضِ مِنَ السَّمَائِ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ قَبْلَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ )) [193] ” ان احادیث کا ذکر جو حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے آسمان سے زمین پر اترنے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ “
اور اس کے بعد سلسلہ کی احادیث کو نقل کرنے کے بعد آخر میں یہ تحریر فرماتے ہیں : ( (فَھٰذِہِ اَحَادِیْثُ مُتَوَاتِرَۃٌ عَنْ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ رِوَایَۃِ اَبِی ھُرَیْرَۃَ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ وَعُثْمَانَ بْنِ اَبِی الْعَاصِ وَاَبِی اُمَامَۃَ وَالنَّوَاسِ بْنِ سَمْعَانَ وَعَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَمُجَمَّعِ بْنِ حَارِثَۃَ وَاَبِی شُرَیْحَۃَ وَحُذَیْفَۃَ بْنِ اُسَیْدً وَفِیْھَا دَلَالَۃٌ عَلٰی صِفَۃِ نُزُوْلِہِ وَ مَکَانِہِ۔۔ الخ)) [194] ” پس یہ ہیں وہ احادیث جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے درجہ تک منقول ہوئی ہیں اور یہ نقل روایت (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ) ابوہریرہ ‘ ابن مسعود ‘ عثمان بن ابی العاص ‘ ابوامامہ ‘ نواس بن سمعان ‘ عبد اللہ بن عمرو بن العاص ‘ مجمع بن حارثہ ‘ ابی شریحہ ‘ حذیفہ بن اسید سے ثابت ہے اور ان روایات میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے طریقہ نزول اور مکان نزول سے متعلق بھی رہنمائی موجود ہے۔ “ اور حافظ حدیث ابن حجر عسقلانی (نور اللہ مرقدہ) علامہ ابو الحسن آبری ؒ سے نزول عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق احادیث کے تواتر کو فتح الباری میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں : ( (قَالَ اَبُوْ الْحَسَنِ الْخَسْعِیُّ الْاَبْرِیُّ بِاَنَّ الْمَھْدِیِّ مِنْ ھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ وَاَنَّ عِیْسٰی یُصَلِّیْ خَلْفَہٗ۔۔ الخ)) ” ابو الحسن خسعی آبری سے منقول ہے کہ احادیث رسول اس بارہ میں تواتر کو پہنچ چکی ہیں کہ مہدی اسی امت میں ہوں گے اور عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ “ اور تلخیص الحبیر کتاب الطلاق کے ضمن میں یہ تحریر فرماتے ہیں ( (وَاَمَّا رَفْعُ عِیْسٰی فَاتَّفَقَ اَصْحَابُ الْاَخْبَارِ وَالتَّفْسِیْرِ عَلٰی اَنَّہٗ بِبَدِنِہٖ حَیًّا الخ)) ” لیکن رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ تو تمام علمائے حدیث و تفسیر کا اس پر اجماع ہے کہ وہ اپنے جسد عنصری کے ساتھ ہنوز زندہ ہیں (اور وہی قرب قیامت نازل ہوں گے) “ اور محدث عصر محقق وقت علامہ سید محمد انورشاہ ” عقیدۃ الاسلام “ میں اس ” تواتر “ کی تائید میں یہ تحریر فرماتے ہیں :
( (وَلِلْمُحَدِّثِ الْعَلَّامَۃِ الشَّوْکَانِیِّ رِسَالَۃٌ سَمَّاھَا اَلتَّوْضِیْحُ فِی تَوَاتُرِ مَا جَائَ فِی الْمُنْتَظَرِ وَالدَّجَّالِ وَالْمَسِیْحِ ذَکَرَ فِیْھَا تِسْعَۃً وَعِشْرِیْنَ حَدِیْثًا فِی نُزُوْلِہٖ علیہ السلام مَا بَیْنَ صَحِیْحٍ وَحَسَنٍ وَصَالِحٍ ھَذَا وَاَزْیَدُ مِنْہٗ مَرْفُوْعٌ وَاَمَّا الْآثَارُ فَتَفُوْتُ الْاِحْصَائُ الخ)) ” اور محدث علامہ شوکانی نے ایک رسالہ تصنیف کیا ہے جس کا نام یہ رکھا ہے ” التَّوْضِیْحُ فِیْ تَوَاتُرِ مَاجَائَ فِی الْمُنْتَظَرِ وَالدَّجَّالِ وَ الْمَسِیْحِ “ اس رسالہ میں انھوں نے انتیس احادیث حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول سے متعلق نقل کی ہیں جو اصول حدیث کے لحاظ سے صحیح ‘ حسن ؒ‘ صالح تینوں درجات کو شامل ہیں اور مرفوع احادیث اس تعداد سے بھی زیادہ موجود ہیں اور آثار صحابہ ؓ و رضوا عنہ تو بے شمار ہیں۔ “ اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع سماوی اور حیات و نزول من السماء پر امت محمدیہ کا اجماع منعقد ہو چکا ہے چنانچہ علم عقائد و کلام کی مشہور و مستند کتاب عقیدہ سفارینی میں امت کے اس اجماع کی تصریح موجود ہے :
( (وَمِنْھَا اَیْ مِنْ عَلَامَاتِ السَّاعَۃِ الْعُظْمٰی اَلْعَلَامَۃُ الثَّالِثَۃُ اَنْ یَنْزِلَ مِنَ السَّمَائِ سَیِّدُ (اَلْمَسِیْحُ ) عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ (علیہ السلام) وَنُزُوْلُہٗ ثَابِتٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَۃِ وَاِجْمَاعِ الْاُمَّۃِ وَاَمَّا الْاِجْمَاعُ فَقَدْ اَجْمَعْتِ الْاُمَّۃُ عَلٰی نُزُوْلِہٖ وَلَمْ یُخَالِفْ فِیْہٖ اَحَدٌ مِّنْ اَھْلِ الشَّرِیْعَۃِ وَاِنَّمَا اَنْکَرَ ذٰلِکَ الْفَلَاسِفَۃُ وَالْمَلَاحِدَۃُ مِمَّا لَا یُعْتَدُّ بِخِلَافِہِ )) ” اور علامات قیامت میں سے تیسری علامت یہ ہے کہ حضرت مسیح (عیسیٰ بن مریم ؓ ) آسمان سے اتریں گے اور ان کا آسمان سے اترنا کتاب (قرآن) ‘ سنت (حدیث) اور اجماع امت سے قطعاً ثابت ہے (قرآن و حدیث سے نزول ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں) جہاں تک اجماع امت کا تعلق ہے تو اس میں ذرا شبہ نہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے نازل ہونے پر امت کا اجماع ہے اور اس بارے میں پیروان شریعت اسلامی میں سے کسی ایک کا بھی خلاف موجود نہیں البتہ فلسفیوں اور ملحدوں نے نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا ہے اور اسلام میں ان کا انکار قطعاً بے وقعت ہے۔ “

حیات ونزول مسیح (علیہ السلام) کی حکمت

[ترمیم]

گذشتہ سطور میں حیات و نزول مسیح (علیہ السلام) کو دلائل وبراہین کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے جو ایک منصف اور طالب حق کو علم یقین عطا کرتے ہیں اب مزید طمانیت قلب کے لیے ان چند حکمتوں کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جن کو علمائے حق نے اس سلسلہ میں بیان فرمایا ہے لیکن اس کے مطالعہ سے قبل یہ حقیقت بہرحال پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور اس کی مشیت کی مصلحتوں کا احاطہ عقل انسانی کے لیے ناممکن ہے اور مخلوق خالق کائنات کے اسرار و حکم پر عبور بھی کیسے کرسکتی ہے ؟ تاہم علمائے امت ‘ فراست مومن اور علم حق کی راہ سے دین اور احکام دین کے اسرار و مصالح پر قلم فرسائی کرتے اور اپنی محدود دسترس کے مطابق اس موضوع پر علمی حقائق کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اسلامی دور کی علمی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول میں علم الاسرار کی امامت کا شرف عمر بن خطاب ‘ علی بن ابی طالب اور صدیقہ عائشہ ؓ کو حاصل تھا اور اس کے بعد اگرچہ ہر ایک صدی میں دو چار علمائے ربانی اس کے ماہر و محقق رہے ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ خلیفہ اموی عمر بن عبد العزیز ؒ‘ امام ابوحنیفہؒ ‘ علامہ عز الدین بن عبد السلام مصری ‘ حافظ ابن تیمیہ ‘ امام غزالی ‘ روحی ‘ سید مرتضیٰ زبیدی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کو اس علم سے خاص مناسبت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ان کو فطری ملکہ عطا فرمایا تھا۔ اسلامی دور کی علمی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول میں علم الاسرار کی امامت کا شرف عمر بن خطاب ‘ علی بن ابی طالب اور صدیقہ عائشہ ؓ کو حاصل تھا اور اس کے بعد اگرچہ ہر ایک صدی میں دو چار علمائے ربانی اس کے ماہر و محقق رہے ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ خلیفہ اموی عمر بن عبد العزیز ‘ امام ابوحنیفہ ‘ علامہ عز الدین بن عبد السلام مصری ؒ‘ حافظ ابن تیمیہؒ ‘ امام غزالیؒ ‘ روحی ‘ سید مرتضیٰ زبیدی اور شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکو اس علم سے خاص مناسبت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ان کو فطری ملکہ عطا فرمایا تھا۔ بہرحال حکمت کی حیثیت لطائف و نکات کی ہوتی ہے اور اس کو دلیل و حجت کا مرتبہ نہیں دیا جا سکتا اس لیے زیر بحث مسئلہ میں بھی ” حکمت و مصلحت “ کا ذکر اسی نقطہ نظر سے سمجھنا چاہیے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَلِکُلِّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ فَصْلُ الْخِطَابِ۔
یہود بنی اسرائیل اپنی مذہبی کتابوں کی پیشین گوئیوں اور بشارتوں میں یہ پڑھ چکے تھے کہ ان کو دو شخصیتوں ” مسیح ہدایت “ اور ” مسیح ضلالت “ سے سابقہ پڑے گا اس لیے وہ منتظر تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ” مسیح ہدایت “ کا ظہور کب ہوتا ہے لیکن شومی قسمت کہ جب مسیح ہدایت کا ظہور ہوا تو انھوں نے بغض و حسد کی راہ سے اس کو ” مسیح ضلالت “ کہہ کر رد کر دیا اور صرف یہی نہیں بلکہ آمادہ قتل ہو گئے اور چونکہ قتل انبیا انکا دستور رہا تھا اس لیے وہ اس پر ہر وقت جری رہتے تھے پس جبکہ وہ دوسرے انبیا (علیہم السلام) کی طرح ان کے قتل کے بھی قائل ہو گئے تو یہ تعجب خیز بات نہ ہوئی کہ جب مسیح ضلالت (دجال) کا خروج ہو تو یہود اس کو مسیح ہدایت کہہ کر قومی حیثیت سے اس کے پیرو ہوجائیں کیونکہ مذہبی تعلیم کے پیش نظر ان پر مسیح ہدایت کا اتباع ضروری تھا اور جب وہ مسیح ہدایت کو مسیح ضلالت کہہ کر قتل کرچکے تو اب مسیح ضلالت کو ہی اس کے دعوے کے مطابق مسیح ہدایت تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے مگر مشیت الٰہی فیصلہ کرچکی تھی کہ مسیح ضلالت کی گمراہی کا فتنہ چونکہ عظیم الشان ہوگا اور وہ اول خدائی کا دعویٰ کرے گا اور اس کے بعد مسیح ہدایت بنے گا اس لیے اس کا خروج قیامت کے قریب ہی ہونا چاہیے جو دور فتن یعنی فتنوں کی آماجگاہ ہوگا اس لیے حکمت الٰہی کا یہ بھی منشا ہوا کہ ” مسیح ہدایت “ کو یہود کے فتنہ سے اس طرح بچا لیا جائے کہ وہ اس کو ہاتھ بھی نہ لگاسکیں اور جب وہ وقت آپہنچے کہ مسیح ضلالت اپنی گمراہی کا علم بلند کرے تو مسیح ہدایت ملائے اعلیٰ سے کائنات ارضی پر اترے اور یہود بنی اسرائیل جو بہ تعداد کثیر مسیح ضلالت کے پیرو ہو رہے ہوں گے اپنی آنکھوں سے حق و باطل کا مشاہدہ کر لیں اور جب مسیح ہدایت کے مقدس ہاتھوں سے مسیح ضلالت کا خاتمہ ہوجائے تو { جَائَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا } [195]
حق الیقین بن کر ان کی نگاہوں کے سامنے آجائے اور اس طرح قبول حق کے ماسوا ان کے لیے دوسرا چارہ کار باقی ہی نہ رہے اور یا پھر وہ بھی مسیح ضلالت کے ساتھ ” فی النار “ کر دیے جائیں۔ نیز یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ادیان و ملل کی تاریخ میں صرف یہود ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے اپنے انبیا (علیہم السلام) کو بھی قتل کرنے سے ہاتھ نہیں روکا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہود نے جن انبیا کے خون ناحق سے ہاتھ رنگے تھے وہ صرف ” نبی “ ہی تھے جو ” علما امتی کانبیاء بنی اسرائیل “ کا مصداق تھے مگر کوئی صاحب شریعت رسول ان کے اس قتل ناحق کا مظلوم نہیں بنا تھا اس لیے یہ پہلا موقع تھا کہ انھوں نے ایک جلیل القدر رسول (عیسیٰ بن مریم ؓ کو قتل کرنے کا نہ صرف ارادہ کیا بلکہ دنیوی اسباب کے لحاظ سے مکمل تیاری کرلی تھی تب مشیت حق نے یہ فیصلہ کیا کہ مسیح ہدایت کو اس طرح بچا لیا جائے کہ خود یہود کو بھی محسوس ہوجائے کہ وہ مسیح بن مریم (علیہما السلام) پر دسترس نہ پا سکے لہٰذا فیصلہ مشیت بروئے کار آیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا گیا اور تمام دنیوی اسباب ہیچ ہو کر رہ گئے لیکن اس احساس کے باوجود چونکہ حقیقت حال تک نہ پہنچ سکے اور ظن و گمان ہی کے قعر میں پڑے رہے گو اپنی بات رکھنے کے لیے مشہور یہی کرتے رہے کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کر دیا۔ ادھر متبعین مسیح ہدایت (نصاریٰ ) کی بدبختی دیکھیے کہ کچھ عرصہ کے بعد پولوس رسول نے ان میں عقیدہ تثلیث و کفارہ کی بدعت پیدا کرکے یہود کے گھڑے ہوئے افسانہ صلیب کو بھی داخل عقیدہ کر دیا اور اب یہود و نصاریٰ دونوں جماعتیں اس گمراہی میں مبتلا ہوگئیں کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) صلیب پرچڑھا کر قتل کر دیے گئے تب قرآن عزیز نے نازل ہو کر حق و باطل کے درمیان میں فیصلہ سنایا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق دونوں جماعتوں نے جو دو الگ الگ رخ اختیار کیے تھے اور پھر ایک مسئلہ میں دونوں کا اتفاق بھی ہو گیا تھا ان سب کے متعلق علم یقین کے ذریعہ حقیقت حال کو واشگاف اور دونوں کی گمراہی کو واضح کرکے قبول حق کے لیے دعوت دی مگر جماعتی حیثیت سے دونوں نے انکار کر دیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق اپنے اپنے گمراہ کن عقیدہ پر قائم رہے مگر عالم الغیب و الشہادہ چونکہ ان حقائق کا ان کے وقوع سے قبل عالم و دانا تھا ‘ اس لیے اس کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ مسیح ہدایت کو کائنات ارضی پر اس وقت دوبارہ بھیجا جائے جب مسیح ضلالت کا بھی خروج ہو چکے تاکہ یہود و نصاریٰ کے سامنے حقیقت حال مشاہدہ کے درجہ میں روشن ہوجائے یہود آنکھوں سے دیکھ لیں جس کے قتل کے وہ مدعی تھے قدرت الٰہی کے کرشمے کی بدولت وہ بقید حیات موجود ہے اور نصاریٰ نادم ہوں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی سچی پیروی چھوڑ کر جو گمراہ کن عقیدہ اختیار کیا تھا وہ سرتا پا باطل اور ہیچ تھا اور اس طرح ہدایت و ضلالت کے معرکہ میں حق کی سر بلندی اور باطل کی پستی دونوں کا مشاہدہ کرکے قرآن عزیز کی تصدیق پر مجبور ہوجائیں اور دونوں جماعتیں ” ایمان حق “ کو برضا ورغبت اختیار کر لیں اور اپنے باطل عقائد پر شرمسار و سرنگوں ہوجائیں اور چونکہ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ ہدایت و ضلالت کا یہ مشاہدہ و مظاہرہ دوسرے اہل باطل بھی کریں گے اس لیے وہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں گے اور اس طرح احادیث صحیحہ کے مطابق اس زمانہ میں کائنات ارضی کا صرف ایک ہی مذہب ہوگا اور وہ ” اسلام “ ہوگا۔ { ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا }[196] 1 ادیان و ملل کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیا (علیہم السلام) اور معاندین حق کے درمیان میں ” سنت اللہ “ کے دو مستقل دور رہے ہیں۔ پہلا دور حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہو کر حضرت لوط (علیہ السلام) پر ختم ہوتا ہے ‘ اس دور میں سنت اللہ یہ رہی کہ جب قوموں نے اپنے پیغمبروں کی صدائے حق پر کان نہ دھرا بلکہ برابر اس کا تمسخر کرتی اور اس کے پیغام حق کے آڑے آتی رہیں ‘ تب اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو ہلاک کر دیا اور دوسروں کے لیے ان کو باعث عبرت و بصیرت بنادیا۔ اور دوسرا دور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا ہے۔ اس دور میں سنت اللہ کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ جب اعدائے حق اور دشمنان دین قویم نے کلمہ حق کی مخالفت پر اصرار کیا اور اپنے پیغمبروں کو ایذا دہی اور ان کے ساتھ تمسخر کو اپنا نصب العین بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کو ہلاک کرنے کی بجائے اپنے پیغمبروں کو یہ حکم دیا کہ وہ خدا کی راہ میں وطن چھوڑ دیں اور ہجرت کر جائیں چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جنھوں نے قوم 1 ؎(یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی قوم نہیں تھی اس لیے کہ یہ بنی سام (سامی) تھے اور نماردہ عراق اور ان کی قوم بنی حام (حامی) تھے۔ ) کے سامنے یہ اعلان کیا :
{ اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [197] اور عراق سے شام کی جانب ہجرت فرما گئے۔ پھر یہی صورت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیش آئی اور وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے شام کو ہجرت کرگئے مگر فرعون اور اس کے لشکریوں نے چونکہ مزاحمت کی اور ہجرت کے بھی آڑے آئے اس لیے وہ بحر قلزم میں غرق کر دیے گئے۔ اور یہی صورت نبی اکرم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آئی کہ جب قریش مکہ نے اذیت ‘ تمسخر ‘ دین حق کے ساتھ تصادم اور اعمال دین کی مزاحمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا تب مشیت الٰہی کا فیصلہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ کو ہجرت کر جائیں چنانچہ ہر قسم کی نگرانی اور مکان کے ہر طرف محاصرہ کے باوجود کرشمہ قدرت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ و مامون مدینہ ہجرت کر گئے۔
” سنت اللہ “ کے اسی دور میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اور ان کی قوم بنی اسرائیل نے ان کے ساتھ اور ان کی دعوت حق کے ساتھ بھی وہ سب کچھ کیا جو معاندین حق اور دشمنان دین اپنے پیغمبروں کے ساتھ کرتے رہے تھے اور ان میں ایک یہ خصوصیت زیادہ تھی کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے قبل چند انبیا کو قتل تک کرچکے تھے اور اب حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قتل کے درپے تھے اسی کے ساتھ یہ مسطورہ بالا حقیقت بھی فراموش نہیں رہنی چاہیے کہ یہود مسیح ہدایت اور مسیح ضلالت دومسیح کے منتظر تھے اور حضرت عیسیٰ بن مریم ؓ کو مسیح ضلالت قرار دے کر آج بھی مسیح ہدایت کے منتظر ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ہجرت کائنات ارضی کی بجائے ملائے اعلیٰ کی جانب ہو تاکہ مقررہ وقت آنے پر وہ مسیح ہدایت اور مسیح ضلالت کے درمیان مشاہدہ سے امتیاز کرسکیں اور ایک جانب اگر مسیح ہدایت کو مسیح ہدایت سمجھیں تو دوسری جانب قرآن کے فیصلہ حق کی صداقت و حقانیت کو دیکھ کر دین حق ” اسلام “ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور ساتھ ہی نصاریٰ کو بھی اپنی جہالت اور یہود کی کو رانہ تقلید پر ندامت ہو اور وہ بھی تعلیم قرآن کی صداقت پر یقین و اعتقاد کے ساتھ شہادت دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ کچھ عجیب صورت حال ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان میں دعوت و تبلیغ حق اور معاندین کی جانب سے حق کی معاندت و مخالفت اور پھر اس کے نتائج وثمرات میں بہت ہی زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے دونوں کی اپنی قوم نے دونوں کو جھٹلایا دونوں کی قوموں نے سازش قتل کے بعد مکانوں کا محاصرہ کیا قدرت حق کے کرشمہ اعجاز نے دونوں کو دشمنوں کی دسترس سے ہر طرح محفوظ رکھا دونوں کے لیے ہجرت کا معاملہ پیش آیا البتہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت چونکہ بعثت عامہ تھی اور اس کی دعوت و تبلیغ کے لیے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کرہ ارضی پر قیام مسلسل ضروری تھا ‘ اس لیے مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم ہوا اور عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) چونکہ قوم کو دعوت حق پہنچا چکے تھے اور ایک خاص مقصد عظیم کے پیش نظر ان کا مدت مدید کے بعد کائنات ارضی پر موجود ہونا ضروری تھا اس لیے ان کو ہجرت ارضی کی بجائے ہجرت سماوی پیش آئی پھر جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانہ کے قائد ضلالت امیہ بن خلف کو اپنے حربہ سے قتل کیا عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) بھی قوم کے مسیح ضلالت دجال کو قتل کریں گے اور جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کے بعد آپ کے وطن مکہ پر قدرت حق نے اقتدار عطا فرما دیا ‘ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کا نزول بھی شام ہی کے اس مشہور شہر میں ہوگا جس سے اپنی قوم کی معاندانہ سازشوں کی بنا پر ملائے اعلیٰ کی جانب ہجرت پیش آئی تھی اور بیت المقدس ‘ دمشق اور شام کے پورے ملک پر یہود کے علی الرغم ان کی حکومت ہوگی۔
حضرت مسیح (علیہ السلام) سے پہلے قتل انبیا (علیہم السلام) نے یہود کو اس درجہ گستاخ اور بے باک بنادیا تھا کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ کسی ہستی کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ نبی صادق ہے یا متنبی کاذب ہمارے ہاتھ میں ہے اور جس کو ہم اور ہمارے فقیہ کاذب قرار دیدیں وہ واجب القتل ہے چنانچہ اسی زعم باطل میں انھوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کو مسیح ضلالت کہا اور ان کے فقیہوں نے قتل کا فتویٰ صادر کر دیا حالانکہ یہ وہ جلیل القدر ہستی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل میں اس پایہ کا کوئی پیغمبر مبعوث ہی نہیں ہوا تھا اور اس نے جدید پیغام حق (انجیل) کے ذریعہ روحانیت کی مردہ کھیتی میں دوبارہ جان ڈال دی تھی تب اللہ تعالیٰ کی مشیت کا فیصلہ ہوا کہ ہمیشہ کے لیے بنی اسرائیل کے اس زعم باطل کو پاش پاش کر دیا جائے اور دکھا دیا جائے کہ رب العالمین خالق کائنات جس کی حفاظت کا وعدہ کرلے کائنات کی کوئی ہستی یا مجموعہ کائنات بھی اس پر دسترس نہیں پاسکتی چنانچہ ید قدرت نے اس وقت اس مقدس ہستی کو جسد عنصری کے ساتھ ملائے اعلیٰ کی جانب اٹھا لیا جبکہ مکان کے محاصرہ کے ساتھ دشمنوں نے اس کی حفاظت جان کے تمام وسائل دنیوی مسدود کر دیے تھے۔ پھر اس واقعہ نے ایک نئی صورت پیدا کردی وہ یہ کہ مذاہب کی تاریخ میں صرف حضرت مسیح (علیہ السلام) ہی کی شخصیت ایسی ہے جن کے قتل و عدم قتل کے متعلق حق و باطل کے درمیان میں سخت اختلاف پیدا ہوا اور یہود و نصاریٰ کے باہم واقعہ صلیب و قتل پر اتفاق کے باوجود دو باطل اور متضاد عقائد کی کشمکش نظر آنے لگی۔ یہود قتل و صلیب کی وجہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ ” مسیح ضلالت “ تھے اور نصاریٰ وجہ صلیب یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے تھے جو کائنات کے گناہوں کا کفارہ بننے کے لیے بھیجے گئے تھے تاکہ پاپی دنیا پاپ سے پاک ہوجائے اور صدیوں بعد جب قرآن نے ” امر حق “ کو واضح اور مسیح بن مریم (علیہما السلام) سے متعلق حقیقت حال کو روشن کیا تب بھی دونوں جماعتوں نے جماعتی حیثیت سے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لہٰذا قدرت حق کا فیصلہ ہوا کہ خود مسیح بن مریم (علیہما السلام) ہی وقت موعود پر نازل ہو کر قرآن کے فیصلہ کی تصدیق کر دیں اور یہود و نصاریٰ کے باطل عقائد کا خود بخود اس طرح خاتمہ ہوجائے اور اس کے بعد مدعیان اہل کتاب کو شرک و باطل کی پیروی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور خدا کی حجت ان پر تمام ہوجائے۔ نیز جبکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات ہست و بود کے لیے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ خدا کی ہستی کے ماسوا ہر ایک وجود کو فنا اور موت ہے :
{ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ } [198]
{ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ } [199]
اور یہ ظاہر ہے کہ ملائے اعلیٰ اور عالم قدس مقام موت نہیں ہے بلکہ مقام حیات ہے اس لیے از بس ضروری ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) بھی موت کا ذائقہ چکھیں اور اس کے لیے کائنات ارضی پر اتریں تاکہ زمین کی امانت زمین ہی کے سپرد ہو اس لیے ” حیات ورفع “ کے بعد ” نزول ارضی “ مقدر ہوا۔ [200] علمائے حق نے حیات و نزول عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق جو ” اسرار و حکم “ بیان فرمائے ہیں یہاں ان کا احاطہ مقصود نہیں ہے اس لیے مختصر چند حکمتوں کا ذکر کر دیا گیا ورنہ محدث عصر علامہ سید محمد انور شاہ نور اللہ مرقدہ نے اس سلسلہ میں ایک طویل مقالہ ” عقیدۃ الاسلام “ میں سپرد قلم فرمایا ہے جو لائق مطالعہ ہے حضرت استاذ نے نہایت لطیف مگر دقیق پیرایہ بیان میں کائنات عالم کو ” انسان کبیر “ اور انسان کو ” عالم صغیر “ قرار دے کر ان ہر دو عالم کی حیات و موت پر جو بحث فرمائی ہے اس سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع اور قرب قیامت میں کائنات ارضی کی جانب رجوع کی حکمت بہت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے لیکن یہ کتاب چونکہ اس دقیق بحث کی متحمل نہیں ہے اس لیے اپنی جگہ قابل مراجعت ہے۔ آخر میں اب اپنی جانب سے چند جملے اس سلسلہ میں اضافہ کرکے اس مبحث کو ختم کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے : 3 قرآن عزیز میں ” میثاق انبیا “ سے متعلق یہ ارشاد باری ہے : { وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ } [201] ” اور وہ وقت قابل ذکر ہے جب کہ اللہ نے نبیوں سے (یہ) عہد لیا کہ جب تمھارے پاس (خدا کی جانب سے) کتاب اور حکمت آئے پھر ایسا ہو کہ تمھاری موجودگی میں ایک رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آئے جو تصدیق کرتا ہو ان کتابوں کی جو تمھارے پاس ہیں ضرور تم اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا ‘ اللہ نے کہا : کیا تم نے اقرار کیا ؟ انھوں نے جواب دیا : ہاں ‘ ہم نے اقرار کیا ‘ اللہ نے کہا : پس تم اپنے اس عہد پر گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔ “ آل عمران کی ان آیات میں حسب تفسیر حضرت ابن عباس ؓ 1 ؎ اس عہد و پیمان کا تذکرہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ازل میں خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق انبیا و رسلعلیہم السلام سے لیا ‘ قرآن کے اسلوب بیان کے مطابق اگرچہ یہ خطاب انبیا و رسل کی معرفت ان کی امتوں سے تھا کہ ان میں سے جو امتیں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ مبارک پائیں تو ان پر ایمان لائیں اور دعوت حق میں ان کی نصرت و یاوری کریں چنانچہ ہر ایک پیغمبر نے اپنے اپنے دور میں تعلیم حق کے ساتھ ساتھ خدا کے اس وعدہ کو بھی یاد دلایا اور ان میں سے اہل حق نے وعدہ کیا اور اقرار کیا کہ ضرور ان پر ایمان لائیں گے اور پیغام حق میں ان کی مدد کریں گے۔ 1 ؎ ( (عَنْ عَلِیٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ فِی تَفْسِیْرِاٰیَۃٍ مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا مِنَ الْاَنْبِیَائِ اِلَّا اَخَذَ عَلَیْہِ الْمِیْثَاقَ لَئِنْ بَعَثَ اللّٰہُ مُحَمَّدًا وَ ھُوَحَیٌّ لَیُؤْمِنَنَّ وَ لَیَنْصُرُنَّہٗ وَاَمَرَہٗ اَنْ یَاْخُذَ الْمِیْثَاقَ عَلٰی اُمَّتِہِ لَئِنْ بُعِثَ مُحَمَّدٌ وَھُمْ اَحْیَائٌ لَیُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَیَنْصُرُنَّہٗ )) [202] ” اللہ تعالیٰ نے انبیا میں سے جس نبی کو بھی کسی قوم کی رشد و ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تو اس سے یہ عہد ضرور لیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اس وقت زندہ ہو جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگی تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا اور ان سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی اپنی امتوں سے بھی یہی عہد و پیمان لیں کہ ان میں سے جو اس وقت موجود ہوں وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی مدد کریں۔ “ تو یہ ” میثاق النّبیین “ اگرچہ اس طرح پورا ہوتا رہا تاہم ازل میں چونکہ اس عہد ومیثاق کے اول مخاطب حضرات انبیا و رسل تھے اس لیے اس میثاق کی عملی حیثیت کا تقاضا تھا کہ خود انبیا و رسل میں سے بھی کوئی نبی یا رسول اس عہد و میثاق کا عملی مظاہرہ کرکے دکھائے تاکہ یہ خطاب اولین براہ راست بھی موثر ثابت ہو مگر ” ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ“ بقاعدہ عربیت خطاب تھا ان تمام انبیا و رسل سے جو ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے اس کائنات ارضی میں مبعوث ہونے والے تھے کیونکہ ازل ہی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ مقرر ہو چکا تھا وَلٰکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ “ پس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت ” خاتم النّبیین “ اور ازل سے مقدر ” میثاق النّبیین “ کا اجتماع صرف اسی ایک شکل میں ممکن تھا کہ انبیائے سابقین میں کوئی ایک پیغمبر بعثت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نزول فرمائیں اور وہ اور ان کی امت دنیائے انسانی کے سامنے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور ” دین حق “ کی مدد و نصرت کا مظاہرہ کریں تاکہ ” لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ “ کا وعدہ حق پورا ہو۔
گذشتہ صفحات میں یہ حقیقت بخوبی عیاں ہو چکی ہے کہ اگرچہ تمام انبیا و رسل اپنے اپنے زمانہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارات دیتے چلے آتے تھے لیکن یہ خصوصیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کے حصہ میں آئی کہ وہ ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے لیے تمہید اور براہ راست مناد ومبشر بنے اور بنی اسرائیل کو تعلیم حق دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا : { اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ } [203] اور حقیقت یہ ہے کہ خاتم انبیائے بنی اسرائیل ہی کا یہ حق تھا کہ وہ خاتم الانبیاء والرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا ” مناد “ اور ” مبشر “ ہو اس لیے حکمت ربانی کا یہ فیصلہ ہوا کہ میثاق النّبیین کے وقار کے لیے انھی کو منتخب کیا جائے اور اس معاملہ میں وہی تمام انبیا و رسل کی نمائندگی کریں تاکہ امتوں کی جانب سے ہی نہیں بلکہ براہ راست انبیا و رسل کی جانب سے وفائے عہد کا عملی مظاہرہ ہو سکے ‘ اسی حقیقت کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا : ( (اَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَالْاَنْبِیَائُ اَوْلَادُ عَلَّاتٍ لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ نَبِیٌّ) ) مگر قرآن چونکہ خدا کا آخری پیغام ہے اور اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ کے وعدہ الٰہی نے رہتی دنیا تک اس کو تحریف سے محفوظ کر دیا ہے اس لیے قدرتی طور پر اس کی تعلیم کے ثمرات دوسرے انبیا (علیہم السلام) کی تعلیمات کے مقابلہ میں مدت طویل تک اپنا کام کرتے رہیں گے اور اس کی روشنی سے قلوب کو گرمانے اور طاعت ربانی کے لیے مشتعل کرنے کے لیے ” علمائے امت “ انبیائے بنی اسرائیل کی طرح خدمت حق انجام دیتے رہیں گے۔ لیکن جب بعثت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گذرے ہوئے بہت ہی طویل عرصہ ہوجائے گا اور امت مرحومہ کے عملی قویٰ اور اجتماعی اعضاء میں انتہائی اضمحلال پیدا ہو کر یہ کیفیت ہوجائے گی کہ ان کی بیداری اور تیز روی کے لیے صرف علمائے حق کی روحانیت ہی کافی ثابت نہیں ہوگی وہ وقت اس کا متقاضی ہوگا کہ کوئی ” قائم بالحجہ “ ان کو سنبھالے اور اس لیے مشیت الٰہی نے مقدر کیا کہ جو ہستی (عیسیٰ بن مریم ؓ انبیا و رسل کے میثاق ازل کی نمائندگی کے لیے مامور ہے اس کا ایسے ہی وقت نزول ہو اور وہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان میں رہ کر ذات اقدس کی نیابت اور امت کی امامت کا فرض انجام دے اور لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ “ کا عملی مظاہرہ کرکے دکھائے۔
اب کرشمہ قدرت دیکھیے کہ ازل کے ان مقدرات نے جو ملائے اعلیٰ سے تعلق رکھتے تھے کائنات ارضی میں کس طرح اپنی بساط بچھائی ؟ بنی اسرائیل اپنے جلیل القدر پیغمبر کے قتل کے لیے سازش مکمل کرچکے ہیں ‘ شاہی دستہ چہار جانب سے مکان کو محصور کیے ہوئے ہے ‘ مگر قدرت حق اپنا کام اس طرح نہیں کرتی کہ معجزانہ کرشمہ کے ذریعہ ان کو محفوظ وہاں سے نکال کر خدا کی وسیع زمین کے دوسرے حصہ میں ” ہجرت “ کرا دیتی ‘ نہیں بلکہ ہوا یہ کہ ان کو ملائے اعلیٰ کی ہجرت کے لیے محفوظ و مامون زندہ اٹھا لیا اور سازش و محصور کرنے والوں کو ظن و ریب کی دلدل میں پھنسا کر ان کو ” خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃَ “ کا نشان عطا کر دیا اور پھر ارضی انسان کے ارضی احکام کے لیے وہ وقت مقرر کر دیا جو ” میثاق النّبیین “ کی نمائندگی کے لیے موزوں تھا ‘ یہی وہ حقیقت ہے جس کو زبان وحی ترجمان نے اس طرح ظاہر فرمایا :
( (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ اِبْنَ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا) ) اور اسی کو نص قرآن نے یوں واضح کیا : { وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ } [204] پھر یہ ہستی میثاق انبیا و رسل کی نمائندگی کا اس طرح حق ادا کرے گی کہ جب اس کا نزول ہوگا تو اس کرشمہ قدرت کو دیکھ کر مسلمانوں کے قلوب تصدیق قرآن اور تازگی ایمان سے روشن ہوجائیں گے اور وہ حق الیقین کے درجہ میں یقین کریں گے کہ بلاشبہ راہ مستقیم صرف ” اسلام “ ہی ہے ‘ اور مخبر صادق کی جس طرح یہ ” خبر “ صادق نکلی عالم غیب سے متعلق اس کی تمام خبریں اسی طرح حق اور بلاشبہ حق ہیں ‘ اور نصاریٰ بحیثیت قوم اپنے باطل عقیدہ ” تثلیث “ و ” کفارہ “ پر نادم و شرمسار ہوں گے اور قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کو اپنے لیے راہ نجات اور راہ سعادت یقین کریں گے اور یہود جب مسیح ہدایت اور مسیح ضلالت کے معرکہ حق و باطل کا مشاہدہ کر لیں گے اور مسیح ہدایت کے نزول سے اپنے دعوائے قتل و صلیب کے ملعون عقیدہ کو باطل پالیں گے تو اب ان کو بھی ” ایمان بالحق “ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہے گا اور مسیح ضلالت کے رفقا کے علاوہ وہ سبھی ” مسلم “ بن جائیں گے یہی ہے قرآن کی وہ خبر صادق : { وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ } [205] مسلمانوں میں ایمان کی تازگی و شگفتگی ‘ نصاریٰ اور یہود میں تبدیلی عقائد کا حیرت انگیز انقلاب دیکھ کر اب مشرک جماعتوں پر بھی قدرتی اثر پڑے گا اور ساتھ ہی خدا کے مقدس پیغمبر کے زبردست روحانی اثرات کار فرما ہوں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں گے اور اس طرح وحی ترجمان ‘ حامل قرآن ‘ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اپنی صداقت کو نمایاں کرے گا :
( (وَیَدْعُوْ النَّاسَ اِلَی الْاِسْلَامِ وَیُھْلِکَ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہٖ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَامَ وَیُھْلِکَ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہٖ الدَّجَّالَ )) اس تفصیل سے یہ بھی روشن ہو گیا کہ قرآن اور احادیث کی تصریحات ثابت کر رہی ہیں کہ اگر اس فرض کی انجام دہی کے لیے کوئی جدید نبی مبعوث ہوتا تو ایک جانب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصی شرف ” خاتم النّبیین “ باقی نہ رہتا اور دوسری طرف ” میثاق النّبیین “ کے خطاب اولین کا عملی مظاہرہ عالم وجود میں نہ آتا ‘ کیونکہ وہ ہستی بہرحال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہی میں سے ہوتی۔ البتہ سابقہ نبی کی آمد نقلاً اور عقلاً دونوں حیثیت سے شرف خصوصی ” خاتم النّبیین “ کے لیے بھی قادح نہیں ہے اور میثاق النّبیین کو بھی پورا کرتی ہے۔

واقعات نزول صحیح احادیث کی روشنی میں

[ترمیم]

گذشتہ صفحات میں نزول عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق جو صحیح احادیث ذکر کی گئیں اور ان سے اور بعض دوسری صحیح احادیث سے جو تفصیلات ظاہر ہوتی ہیں ان کو ترتیب کے ساتھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے : قیامت کا دن اگرچہ معین ہے مگر ذات باری کے ما سوا کسی کو اس کا علم نہیں ہے اور اس کا وقوع اچانک ہوگا :
{ وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ } [206] ” اور قیامت کا علم خدا ہی کو ہے “ { حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ تْھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً } [207] ” حتیٰ کہ ان پر اچانک قیامت کی گھڑی آجائے گی “ { لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃً } [208] ” قیامت تم پر نہیں آئے گی مگر اچانک “
اور حدیث جبرائیل میں ہے ” مَاالْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ “ ” (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا) قیامت کے بارہ میں آپ سے زیادہ مجھے بھی علم نہیں ‘ جو اجمالی علم آپ کو ہے اسی قدر مجھ کو بھی ہے۔ “ اور ایک اور حدیث میں ہے :
( (سَمِعْتُ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ قَبْلَ اَنْ یَّمُوْتَ بِشَھْرٍ : تَسْأَلُوْنَ عَنِ السَّاعَۃِ وَاِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ اللّٰہِ )) ” تم مجھ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہو تو اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے “ البتہ قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ نے چند ایسی علامات بیان کی ہیں جو قیامت کے قریب پیش آئیں گی اور ان سے صرف اس کے نزدیک ہوجانے کا پتہ چل سکتا ہے ‘ ان ” اشراط ساعت “ میں سے ایک بڑی علامت حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ملائے اعلیٰ سے نزول ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں : ” مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان میں سخت معرکہ جنگ بپا ہو رہا ہوگا اور مسلمانوں کی قیادت و امامت سلالہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوگی جس کا لقب ” مہدی “ ہوگا۔ اس معرکہ آرائی کے درمیان میں ہی میں مسیح ضلالت ” دجال “ کا خروج ہوگا ‘ یہ نسلاً یہودی اور یک چشم ہوگا ‘ کرشمہ قدرت نے اس کی پیشانی پر (ک ‘ ا ‘ ف ‘ ر) ” کافر “ لکھ دیا ہوگا جس کو اہل ایمان فراست ایمانی سے پڑھ سکیں گے اور اس کے دجل و فریب سے جدا رہیں گے۔ یہ اول خدائی کا دعویٰ کرے گا اور شعبدہ بازوں کی طرح شعبدے دکھا کر لوگوں کو اپنی جانب توجہ دلائے گا ‘ مگر اس سلسلہ کو کامیاب نہ دیکھ کر کچھ عرصہ کے بعد ” مسیح ہدایت “ ہونے کا مدعی ہوگا ‘ یہ دیکھ یہود بکثرت بلکہ قومی حیثیت سے اس کے پیرو ہوجائیں گے ‘ اور یہ اس لیے ہوگا کہ یہود مسیح ہدایت کا انکار کرکے ان کے قتل کا ادعا کرچکے ہیں اور مسیح ہدایت کی آمد کے آج تک منتظر ہیں ‘ اسی حالت میں ایک روز دمشق (شام) کی جامع مسجد میں مسلمان منہ اندھیرے نماز کے لیے جمع ہوں گے ‘ نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی اور مہدی موعود امامت کے لیے مصلیٰ پر پہنچ چکے ہوں گے ‘ کہ اچانک ایک آواز سب کو اپنی جانب متوجہ کرلے گی ‘ مسلمان آنکھ اٹھا کر دیکھیں گے تو سپید بادل چھایا ہوا نظر آئے گا اور تھوڑے سے عرصہ میں یہ مشاہدہ ہوگا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دو زرد حسین چادروں میں لپٹے ہوئے اور فرشتوں کے بازو وں پر سہارا دیے ہوئے ملائے اعلیٰ سے اتر رہے ہیں ‘ فرشتے ان کو مسجد کے منارہ شرقی پر اتار دیں گے اور واپس چلے جائیں گے ‘ اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق کائنات ارضی کے ساتھ دوبارہ وابستہ ہوجائے گا اور وہ عام قانون فطرت کے مطابق صحن مسجد میں اترنے کے لیے سیڑھی کے طالب ہوں گے ‘ فوراً تعمیل ہوگی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز کی صفوں میں آ کھڑے ہوں گے ‘ مسلمانوں کا امام (مہدی موعود) ازراہ تعظیم پیچھے ہٹ کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے امامت کی درخواست کرے گا ‘ آپ فرمائیں گے کہ یہ اقامت تمھارے لیے کہی گئی ہے اس لیے تم ہی نماز پڑھاؤ ‘ فراغت نماز کے بعد اب مسلمانوں کی امامت حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہاتھوں میں آجائے گی اور وہ حربہ لے کر مسیح ضلالت (دجال) کے قتل کے لیے روانہ ہوجائیں گے اور شہر پناہ سے باہر اس کو باب لد پر مقابل پائیں گے ‘ دجال سمجھ جائے گا کہ اس کے دجل اور زندگی کے خاتمہ کا وقت آپہنچا ‘ اس لیے خوف کی وجہ سے رانگ کی طرح پگھلنے لگے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھ کر اس کو قتل کر دیں گے اور پھر جو یہود دجال کی رفاقت میں قتل سے بچ جائیں گے وہ اور عیسائی سب ” اسلام “ قبول کر لیں گے اور مسیح ہدایت کی سچی پیروی کے لیے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے ‘ اس کا اثر مشرک جماعتوں پر بھی پڑے گا اور اس طرح اس زمانہ میں اسلام کے ماسوا کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا۔
ان واقعات کے کچھ عرصہ بعد یاجوج و ماجوج کا خروج ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) مسلمانوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھیں گے ‘ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا دور حکومت چالیس سال 1 ؎ رہے گا اور اس درمیان میں وہ ازدواجی زندگی بسر کریں گے اور ان کے دور حکومت میں عدل و انصاف اور خیر و برکت کا یہ عالم ہوگا کہ بکری اور شیر ایک گھاٹ پانی پئیں گے اور بدی اور شرارت کے عناصر دب کر رہ جائیں گے۔ “ [209]

وفات مسیح (علیہ السلام)

[ترمیم]

چالیس سالہ دور حکومت کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال ہوجائے گا اور وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں دفن ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی طویل حدیث میں ہے : ( (فَیَمْکُثُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی وَ یُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ وَیَدْفُنُوْنَہٗ )) 2 ؎ ” پھر وہ کائنات ارضی پر اتر کر چالیس سال قیام کریں گے اور اس کے بعد وفات پاجائیں گے اور مسلمان ان کے جنازہ کی نماز پڑھیں گے اور ان کو دفن کریں گے۔ “ 1 ؎ اور صحیح مسلم میں ہے کہ دور حکومت سات سال رہے گا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) کا رفع سماوی ہوا اس وقت ان کی عمر تینتیس سال تھی اور نزول کے بعد سات سال مزید بقید حیات رہیں گے ‘ اس طرح کائنات ارضی میں کل مدت حیات چالیس سال ہوجائے گی۔ 2 ؎ اس سے قبل یہ حدیث مکمل نقل کی گئی ہے۔ اس کو ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ‘ امام احمد نے مسند میں ‘ ابوداؤد نے سنن میں ‘ ابن جریر نے تفسیر میں اور ابن حبان نے صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے بسند حسن ‘ محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام کے سلسلہ سے حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے :
( (قَالَ مَکْتُوْبٌ فِی التَّوْرَاۃِ صِفَۃُ مُحَمَّدٍ وَّعِیْسٰی ابْنِ مَرْیَمَ یُدْفَنُ مَعَہٗ )) [210] ” عبد اللہ بن سلام (رض) نے فرمایا ‘ تورات میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت (حلیہ و سیرت) مذکور ہے اور یہ بھی مسطور ہے کہ عیسیٰ بن مریم

i ان کے ساتھ (پہلو میں) دفن ہوں گے۔ “ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا سورة مائدہ میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مختلف حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے پھر آخر سورة بھی انھی کے تذکرہ پر ختم ہوتی ہے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اول قیامت کے اس واقعہ کا نقشہ کھینچا ہے جب انبیا (علیہم السلام) سے ان کی امتوں کے متعلق سوال ہوگا اور وہ غایت ادب سے اپنی لا علمی کا اظہار کریں گے اور عرض کریں گے خدایا ! آج کا دن تونے اسی لیے مقرر فرمایا ہے کہ ہر معاملہ میں حقائق امور کے پیش نظر فیصلہ سنائے اور ہم چونکہ صرف ظواہر ہی پر کوئی حکم لگا سکتے ہیں اور قلوب اور حقائق کا دیکھنے والا تیرے سوا کوئی نہیں اس لیے آج ہم کیا شہادت دے سکتے ہیں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تو علام الغیوب ہے اس لیے تو ہی سب کچھ جانتا ہے : { یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ } [211] ” وہ دن (قابل ذکر ہے) جبکہ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو جمع کرے گا پھر کہے گا تم (اپنی اپنی امتوں کی جانب سے) کیا جواب دیے گئے ؟ وہ (پیغمبر) کہیں گے (تیرے علم کے سامنے) ہم کچھ نہیں جانتے بلاشبہ تو ہی غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔ “
ظاہر ہے کہ انبیا (علیہم السلام) کا ” لَا عِلْمَ لَنَا “ فرمانا علم حقیقی کی نفی پر ہی مبنی ہوگا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ وہ درحقیقت اپنی امتوں کے جواب سے لا علم ہیں کہ کس نے ایمان کو قبول کیا اور کس نے انکار کیا کیونکہ جواب کا مقصد اگر یہ ہو تو یہ صریح جھوٹ اور کذب بیانی ہے اور انبیا (علیہم السلام) کی جانب اس عمل بد کی نسبت ناممکن ہے اس لیے انبیا (علیہم السلام) کا یہ جواب مسطورہ بالا حقیقت کے ہی پیش نظر ہوگا ظاہر حالات کے علم سے انکار پر مبنی نہیں ہوگا اس کے لیے خود قرآن عزیز ہی شاہد عدل ہے کیونکہ وہ متعدد جگہ یہ کہتا ہے کہ قیامت کے دن انبیا (علیہم السلام) اپنی اپنی امتوں پر شہادت دیں گے کہ ہم نے ان تک خدا کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ کہ انھوں نے ہماری دعوت کو قبول کیا یا رد کر دیا تو ان ہر دو مقامات پر نظر رکھنے کے بعد یوں کہا جائے گا کہ پاس ادب کے طریقہ پر اول انبیا (علیہم السلام) کا یہی جواب ہوگا جو سورة مائدہ میں مذکور ہے لیکن جب ان کو خدائے برتر کا یہ حکم ہوگا کہ وہ صرف اپنے علم کے مطابق شہادت دیں تب وہ شہادت دیں گے :
{ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا } [212] ” پھر (اے پیغمبر ! ) کیا حال ہوگا اس دن (یعنی قیامت کے دن) جب ہم ہر ایک امت سے ایک گواہ طلب کریں گے (یعنی اس کے پیغمبر کو طلب کریں گے جو اپنی امت کے اعمال و احوال پر گواہ ہوگا) اور ہم تمھیں بھی ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیے طلب کریں گے۔ “ { وَجِایْٓئَ بِالنَّبِیِّیْنَ وَالشُّہَدَائِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ } [213] ” اور لائے جائیں گے (قیامت کے دن) انبیا اور شہداء اور فیصلہ کیا جائے گا ان لوگوں کے درمیان میں اچھائی اور برائی کا حق کے ساتھ۔ “ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بھی ” لَا عِلْمَ لَنَا “ کی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے : ( (عن ابن عباس یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ (الایۃ) یَقُوْلُوْ الِرَبِّ عَزَّ وَ جَلَّ لَاعِلْمَ لَنَا اِلَّا عِلْمَ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنَّا)) [214] ” حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) آیت یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلُ (الآیہ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں : انبیا (علیہم السلام) رب عزوجل سے عرض کریں گے ہم کو کوئی علم نہیں ہے مگر ایسا علم جس کے متعلق تو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ “
اور شیخ المحققین علامہ انورشاہ ؒ آیت کے جملہ ” لَا عِلْمَ لَنَا “ کو علم حقیقی کے انکار پر محمول کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
” یہ بات مسلم ہے کہ ایک انسان کو خواہ وہ کسی درجہ اور رتبہ کا ہو دوسرے انسان کے متعلق جو کچھ بھی معلوم ہوتا ہے وہ علم حقیقی کے لحاظ سے ” ظن “ کے درجہ سے آگے ” علم “ تک نہیں پہنچتا اسی بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” نَحْنُ نَحْکُمُ بِالظَّوَاھِرِ وَاللّٰہُ مُتَوَلَّی السَّرَائِرِ “ ” ہم ظاہر معاملات پر حکم لگاتے ہیں اور بھیدوں اور حقیقتوں پر تو صرف خدا کو ہی قابو حاصل ہے “ نیز ایک دوسری حدیث میں ہے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو اور بعض تم میں سے زیادہ چرب زبان ہوتے ہیں اور مجھ کو علم غیب نہیں کہ حقیقت سے آگاہ ہوجایا کروں اس لیے جو بھی فیصلہ دیتا ہوں ظاہر حالات پر ہی دیتا ہوں تو یاد رہے کہ جو شخص بھی اپنی چرب زبانی سے کسی بھائی کا ادنیٰ سا ٹکڑا بھی ناحق حاصل کرے گا وہ بلاشبہ جہنم کا ٹکڑا حاصل کرلے گا۔ “ [215] بہرحال قرآن عزیز ‘ احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ آثار صحابہ اور اقوال علما سب یہی ظاہر کرتے ہیں کہ اس موقع پر انبیا (علیہم السلام) کا جواب ” عدم علم “ کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ ازراہ پاس ادب ” حقیقی علم پر انکار “ کو واضح کرتا ہے۔ غرض ذکر یہ تھا کہ اصل مقام پر اصل تذکرہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ کا ہو رہا ہے جو قیامت میں پیش آئے گا جبکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنے انعامات شمار کرانے کے بعد ان سے ان کی امت کے متعلق سوال کرے گا اور وہ حسب حال جوابات پیش کریں گے مگر سابق آیات میں چونکہ دوسرے مطالب ذکر ہوئے تھے اس لیے ان سے امتیاز پیدا کرنے کے لیے تمہیداً قیامت میں ہونے والے ان سوال و جواب کا ذکر ضروری ہوا جو عام طور پر انبیا (علیہم السلام) سے ان کی امتوں کے متعلق کیے جائیں گے اور اس لیے بھی یہ تذکرہ ضروری تھا کہ اگلی آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کا پیرا یہ بیان بھی انبیا (علیہم السلام) کے جواب کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے :
{ وَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ وَ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ۔ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [216] ” اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم سے کہے گا ” کیا تونے لوگوں (بنی اسرائیل) سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو دونوں کو اللہ کے ماسوا خدا بنا لینا ؟ “ عیسیٰ کہیں گے ” پاکی تجھ کو ہی زیبا ہے میرے لیے کیسے ممکن تھا کہ میں وہ بات کہتا جو کہنے کے لائق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات ان سے کہی ہوتی تو یقیناً تیرے علم میں ہوتی (اس لیے کہ) تو وہ سب کچھ جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں تیرا بھید نہیں پاسکتا بلاشبہ تو غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے میں نے اس بات کے ماسوا جس کا تونے مجھ کو حکم دیا ان سے اور کچھ نہیں کہا ‘ وہ یہ کہ صرف اللہ ہی کی پوجا کرو جو میرا اور تمھارا سب کا رب ہے اور میں ان پر اس وقت تک کا گواہ ہوں جب تک میں ان کے درمیان میں رہا پھر جب تونے مجھ کو قبض کر لیا تب تو ہی ان پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے اگر تو ان سب کو عذاب چکھائے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو بخش دے پس تو ہی بلاشبہ غالب حکمت والا ہے۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب اپنا جواب دے چکیں گے تب اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرمائے گا :
{ قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ } [217] ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ایسا دن ہے جس میں راست بازوں کی راست بازی ہی کام آسکتی ہے انھی کے لیے بہشت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ خدا سے راضی اور خدا ان سے راضی (کا مقام اعلیٰ پائیں گے) یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب اپنا جواب دے چکیں گے تب اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرمائے گا : { قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ } [218] ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ایسا دن ہے جس میں راست بازوں کی راست بازی ہی کام آسکتی ہے انھی کے لیے بہشت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ خدا سے راضی اور خدا ان سے راضی (کا مقام اعلیٰ پائیں گے) یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب ایک جلیل القدر پیغمبر کی عظمت شان کے عین مطابق ہے وہ پہلے بارگاہ رب العزت میں عذر خواہ ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں ایسی نامناسب بات کہتا جو قطعاً حق کے خلاف ہے : { سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ } [219] پھر پاس ادب کے طور پر خدا کے علم حقیقی کے سامنے اپنے علم کو ہیچ اور بے علمی کے مرادف ظاہر کریں گے : { اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗط تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ } [220] اور اس کے بعد اپنے فرض کی انجام دہی کا حال گزارش کریں گے :
{ مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ } [221] اور پھر امت نے اس دعوت حق کا جواب کیا دیا ؟ اس کے متعلق ظاہر امور کی شہادت کا بھی اس اسلوب کے ساتھ ذکر کریں گے جس میں ان کی شہادت خدا کی شہادت کے مقابلہ میں بے وقعت نظر آئے : { وَ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ} [222] اور اس کے بعد یہ جانتے ہوئے کہ امت میں مومنین قانتین بھی ہیں اور منکرین جاحدین بھی ‘ وقوع عذاب اور طلب مغفرت کا اس انداز میں ذکر کریں گے جس سے ایک جانب خدا کے مقرر کردہ پاداش عمل کے قانون کی خلاف ورزی بھی مترشح نہ ہو اور دوسری جانب امت کے ساتھ رحمت و شفقت کے جذبہ کا جو تقاضا ہے وہ پورا ہوجائے : { اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [223] جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عرضداشت یا جواب کے مضمون کو ختم کرچکے تو رب العالمین نے اپنے قانون عدل کا یہ فیصلہ سنا دیا تاکہ مستحق رحمت و مغفرت کو مایوسی نہ پیدا ہو بلکہ مسرت و شادمانی سے ان کے قلوب روشن ہوجائیں اور مستحق عذاب غلط توقعات قائم نہ کرسکیں :
{ قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ } [224] ان تمام تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ آیات زیر بحث کا سیاق وسباق صراحت کرتا ہے کہ یہ واقعہ قیامت کے روز پیش آئے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ملائے اعلیٰ پر اٹھا لیے جانے کے وقت پیش نہیں آیا اس لیے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کی ابتدا { یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ } [225] سے کرنا اور انتہائے واقعہ { ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُھُمْ } [226] پر ہونا روز قیامت کے ماسوا اور کسی دن پر صادق نہیں آسکتا اور اس ایک قطعی بات کے علاوہ دوسرے کسی احتمال کی مطلق گنجائش نہیں ہے۔ نیز یہ تفصیلات واضح کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی امت کے قبول و انکار کے حالات سے آگاہی کے باوجود آیات سورة مائدہ میں مذکور اسلوب بیان اس لیے اختیار فرمائیں گے کہ دوسرے انبیا و رسلعلیہم السلام بھی مقام کی نزاکت حال اور رب العزت کے دربار میں غایت پاس ادب کے لیے یہی اسلوب بیان اختیار فرمائیں گے۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اور انبیا (علیہم السلام) کے جوابات میں اسلوب بیان کی یکسانی کے باوجود اجمال و تفصیل کا فرق صرف اس لیے ہے کہ زیر بحث آیات میں اصل مقصود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی امت کے قبول و انکار اور ان کے نتائج وثمرات کا تذکرہ ہے اور انبیا (علیہم السلام) کا ذکر صرف واقعہ کی تمہید کے طور پر ہے۔ حقیقت حال کے اس انکشاف کے بعد اب جمہور امت مسلمہ کے خلاف خلیفہ قادیانی ‘ مسٹر محمد علی لاہوری کی تحریف معنوی بھی قابل مطالعہ ہے کہتے ہیں کہ سورة مائدہ میں مذکور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور پروردگار عالم کا یہ سوال و جواب اس وقت پیش آچکا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نعش ملنے پر شاگردوں نے ان کا علاج کرکے چنگا کر لیا اور پھر وہ شام سے فرار ہو کر مصر اور مصر سے کشمیر پہنچے اور گمنامی کی حالت میں انتقال فرما گئے مسٹر لاہوری نے اپنے دعوے میں دو دلائل پیش کیے ہیں ایک یہ کہ عربیت کے قاعدے سے لفظ ” اذ “ ماضی کے لیے مستعمل ہے نہ کہ مستقبل کے لیے اور دوسری دلیل یہ کہ اگر جمہور کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کا انتقال نہیں ہوا اور وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے تو ضروری ہے کہ ان کو اپنی امت (نصاریٰ ) کے عقیدہ الوہیت مسیح (علیہ السلام) اور تثلیث کا علم ہو چکا ہو گا کیونکہ نصاریٰ نے ان کے رفع کے زمانہ تک تثلیث کو نہیں اپنایا تھا اور اگر ایسا ہوتا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب ایسے اسلوب پر نہ ہوتا جس سے ان کی لاعلمی ظاہر ہوتی ہے۔
مسٹر لاہوری نے قرآن کی تحریف معنوی پر یہ اقدام یا تو اس لیے کیا کہ اپنے مرشد متنبی قادیان (علیہ ما علیہ) کے دعویٰ مسیحیت کو قوت پہنچائیں اور مغالطہ اور سفسطہ سے کام لے کر ” خسران مبین “ کا سامان مہیا کریں اور یا پھر وہ قواعد عربیت سے اس درجہ ناواقف ہیں کہ نہ ان کو نحو کے معمولی استعمالات ہی کا علم ہے اور نہ وہ آیات قرآنی کے سیاق وسباق کا ہی کچھ درک رکھتے ہیں اور صرف جاہلانہ دعاوی پر دلیر نظر آتے ہیں۔ جن قوانین عربیت میں ” اذ “ اور ” اذا “ کے درمیان یہ فرق بیان کیا گیا ہے کہ ” اذ “ اگر فعل مستقبل پر بھی داخل ہو تب بھی ” ماضی “ کے معنی دیتا ہے اور ” اذا “ اگرچہ فعل ماضی پر بھی داخل ہو تب بھی مستقبل کے معنی دیا کرتا ہے انھی قوانین میں علمائے معانی و بلاغت یہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی گذرے ہوئے واقعہ کو اس طرح پیش کرنے کے لیے گویا وہ زمانہ حال میں پیش آ رہا ہے صیغہ مستقبل سے تعبیر کر لیا کرتے ہیں یعنی اس کے لیے ” اذ “ کا استعمال جائز رکھتے بلکہ مستحسن سمجھتے ہیں اور اس کو ” استحضار “ اور ” حکایۃ الحال “ کہتے ہیں اور اسی طرح مستقبل میں ہونے والے ایسے واقعہ کو جس کے وقوع سے متعلق یہ یقین دلانا ہو کہ وہ ضرور ہو کر رہے گا اور ناممکن ہے کہ اس کے خلاف ہو سکے اکثر ماضی کے صیغہ سے تعبیر کرنا مستحسن سمجھتے بلکہ بلاغت تعبیر کے لحاظ سے ضروری اور مفید یقین کرتے ہیں کیونکہ اس طرح مخاطب اور سامع کے سامنے ہونے والے واقعہ کا نقشہ اس طرح آجاتا ہے گویا وہ ہو گذرا ہے اور یہ بھی ” استحضار “ ہی کی ایک صورت سمجھی جاتی ہے دور کیوں جایئے لفظ ” اذ “ کا استعمال مستقبل کے لیے خود قرآن عزیز میں متعدد مقامات پر ثابت ہے۔ سورة انعام میں قیامت کے دن مجرموں کی کیا کیفیت ہوگی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا گیا ہے : { وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ } [227] ” اور کاش کہ تو دیکھے جس وقت کہ وہ کھڑے کیے جائیں گے آگ (جہنم) کے اوپر پس کہیں گے اے کاش کہ ہم لوٹا دیے جائیں دنیا میں اور نہ جھٹلائیں ہم اپنے رب کی نشانیوں کو اور ہوجائیں ہم ایمان والوں میں سے۔ “ اور اسی سورة انعام میں روز قیامت مجرموں کی حالت کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے : { وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ قَالُوْا بَلٰی وَ رَبِّنَا قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ } [228] ” اور کاش کہ تو دیکھے ‘ جب وہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو (پروردگار) کہے گا کیا یہ حق نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے قسم ہے پروردگار کی یہ (روز حشر) حق اور سچ ہے پس پروردگار کہے گا تو چکھو اس کے بدلہ میں عذاب جو تم کفر کیا کرتے تھے۔ “ اور انھی مجرمین کی روز قیامت حالت کا نقشہ سورة سبا میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :
{ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ فَزِعُوْا فَلَا فَوْتَ وَ اُخِذُوْا مِنْ مَّکَانٍ قَرِیْبٍ۔ وَّ قَالُوْٓا امَنَّا بِہٖ } [229] ” اور کاش کہ تو دیکھے جبکہ وہ (منکرین) گھبرائیں گے پس نہیں بھاگ سکیں گے اور پکڑے جائیں گے قریب سے اور کہیں گے ہم (اب) اس پر ایمان لے آئے۔ “ اور سورة سجدہ میں اس حقیقت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے : { وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُئُوْسِھِمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ } [230] ” اور کاش کہ تو دیکھے جبکہ مجرم اپنا سر نیچے ڈالے ہوئے ہوں گے اپنے رب کے سامنے۔ “ یہ اور اسی قسم کے متعدد مقامات ہیں جن میں مستقبل کے واقعات کو ماضی کے ساتھ تعبیر کیا گیا اور اس کے لیے لفظ ” اذ “ کا استعمال مفید سمجھا گیا پس جس طرح ان مقامات میں اِذْ وُقِفُوْا ‘ قَالَ ‘ قَالُوْا ‘ اِذْ فَزِعُوْا ‘ وَاُخِذُوْا ‘ اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا ‘ تمام افعال لفظ ” اذ “ کے باوجود مستقبل کے معنی دے رہے ہیں اسی طرح اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی کے استعمال کو مستقبل کے لیے سمجھیے اور جس طرح ان تمام مقامات کے سیاق وسباق دلالت کر رہے ہیں کہ ان واقعات کا تعلق روز قیامت سے ہے ٹھیک آیات سورة مائدہ کی زیر بحث آیات کا سیاق وسباق صراحت کر رہا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق قیامت کے دن سے ہے۔ قاعدہ عربیت کی اس حقیقت افروز تحقیق کے بعد مسٹر لاہوری کی دوسری دلیل پر نظر ڈالئے تو وہ اس سے بھی زیادہ لچر نظر آئے گی اس لیے کہ گذشتہ تحقیق سے یہ واضح ہو چکا کہ سورة مائدہ کی آیات زیر بحث میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب ہرگز اس بات پر مبنی نہیں ہے کہ ان کو اپنی امت کی گمراہی کا علم نہیں ہوگا اور وہ اپنی لا علمی ظاہر کریں گے ایک مرتبہ ان آیات پر پھر غور کرو گے تو صاف نظر آئے گا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اصل جواب صرف یہ ہے { مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ } [231] اور اول و آخر باقی آیات میں یا جواب کے مناسب حال تمہید ہے اور یا اللہ تعالیٰ کی جلالت و جبروت اور اپنی بیچارگی و درماندگی بلکہ عبودیت کا اظہار ہے جس میں ایک جلیل القدر پیغمبر کی شان کے مناسب حضرۃ القدس کے سامنے شہادت پیش کی گئی ہے علاوہ ازیں اگر مسٹر لاہوری کا یہ قول صحیح مان لیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع سماوی تک نصاریٰ نے چونکہ تثلیث کا عقیدہ نہیں اختیار کیا تھا اس لیے انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا یہ سوال کیا معنی رکھتا ہے :
{ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } [232] کیا العیاذ باللہ اس کا یہ مطلب نہ ہوا کہ خدا نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت پر جھوٹا الزام لگایا ؟ پھر یہ کیا کم حیرت کی بات ہے کہ قادیانی اور لاہوری ایک جانب تو یہ کہہ رہے ہیں مگر اس کے قطعاً متضاد ” آئینہ کمالات “ میں قادیانی نے یہ کہا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح کو یہ معلوم ہوا اور اس کو بتایا گیا کہ اس کی امت کس طرح شرک میں مبتلا ہو گئی تب عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ” خدایا ! تو میرا مثیل نازل فرماتا کہ میری امت اس شرک سے نجات پائے اور تیری سچی پرستار بنے “ ع ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا حقیقت یہ ہے کہ قادیانی اور لاہوری کی تفسیر کا معیار یہ نہیں ہے کہ وہ قرآن کی آیات کے مطالب قرآن کی زبان سے سننا چاہتے ہیں بلکہ پہلے سے ایک باطل عقیدہ کو عقیدہ بتاتے ہیں اور پھر اس کے سانچہ میں قرآن کو ڈھالنا چاہتے ہیں اور جب قرآن اس سانچہ میں ڈھلنے سے انکار کرتا ہے تو تحریف کے حربہ سے زبردستی اس پر مشق ستم کرنا چاہتے ہیں مگر وہ ایسا کرتے وقت یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ قرآن امت کی ہدایت کے لیے رہتی دنیا تک امام الہدیٰ ہے ‘ اس لیے کوئی ” ملحد و زندیق “ خواہ کتنی ہی تحریف معنوی کی کوشش کرے ہمیشہ ناکام اور خاسر رہے گا اور خود قرآنی اطلاقات ہی اس کے عقیدہ و فکر کے بطلان کے لیے ناطق ہوں گے بلکہ بہ مصداق ” دروغ گو را حافظہ نباشد “ وہ اکثر اپنے ہی متضاد اقوال کی بھول بھلیاں میں پھنس کر اپنی کذب بیانی اور تفسیری افترا پر مہر لگا لیتا ہے جس کی تازہ شہادت ابھی سطور بالا میں نقل ہو چکی ہے۔ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ حیات ورفع مسیح (علیہ السلام) سے متعلق گذشتہ مباحث میں ” توفی “ کی حقیقت پر کافی روشنی پڑچکی ہے اور سورة مائدہ کی آیات مسطورہ بالا کی تفسیر کے بھی تمام پہلو واضح ہو چکے ہیں تاہم قرآن کے اعجاز بلاغت اور اسلوب بیان کی لطافت سے مستفید ہونے کے لیے چند سطور اس مسئلہ پر بھی سپرد قلم کردینا مناسب ہے کہ اس مقام پر قرآن نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے قیام ارضی کو مَا دُمْتُ فِیْھِمْ سے اور کائنات ارضی سے انقطاع تعلقات کو تَوَفَّیْتَنِیْ سے کیوں تعبیر کیا۔ گذشتہ سطور میں لغت اور معانی کے حوالوں سے یہ تو ثابت ہو چکا کہ ” توفی “ کے حقیقی معنی ” اَخْذٌ وَ تَنَاوَلٌ“ (لے لینے اور قبضہ میں کرلینے) کے ہیں اور موت کے معنی میں بطور کنایہ اس کا استعمال ہوتا ہے اور یہ کہ کنایہ میں حقیقی معنی برابر ساتھ ساتھ رہتے ہیں مجاز کی طرح یہ نہیں ہوتا کہ حقیقی معنی سے جدا ہو کر لفظ غیر موضوع لہ میں استعمال ہونے لگے پس اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق قرآن کا عقیدہ یہ ہوتا کہ ان کو موت آچکی اور سوال و جواب کا یہ سلسلہ موت کے اسی وقت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت کے دن سے تو پھر بلاغت و معانی کا تقاضا یہ تھا کہ اس موقع پر ” حیات “ اور ” موت “ ایک دوسرے کے متضاد الفاظ کو استعمال کیا جاتا تاکہ یہ حیثیت واضح ہو سکتی کہ سوال و جواب کا معاملہ ” موت “ کے ہم قرین ہے اور پھر لفظ ” موت “ کی صراحت اپنے مقابل لفظ ” حیات “ کی طالب ہوتی مگر قرآن نے ان دونوں الفاظ کی بجائے مَا دُمْتُ فِیْھِمْ کو ” حیات “ کی اور ” توفی “ کو ” موت “ کی جگہ استعمال کیا ہے تو یہ کس لیے اور کس مقصد سے یا بغیر کسی حکمت و مصلحت کے یہ اسلوب اختیار کر لیا ؟ جمہور امت تو اس کا ایک ہی جواب رکھتی ہے اور وہ یہ کہ قرآن نے دوسرے مقامات کی طرح اس مقام پر بھی اعجاز و ایجاز سے کام لیا ہے اور ان دو لفظوں میں وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زندگی ‘ رفع ‘ نزول اور موت تمام مراحل کو سمو دینا چاہتا ہے وہ اگر یہ کہتا ” مَا حَیَیْتُ “ ” میں جب تک زندہ رہا “ اور ” فَلَمَّا اَمَتَّنِیْ “ ” پس جب تونے مجھ کو موت دے دی “ تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی عام حالات کے مطابق دو ہی مراحل پیش آئے ہیں ” زندگی “ اور ” موت “ ان دونوں مراحل کے درمیان میں کوئی خاص صورت حال پیش نہیں آئی ‘ لیکن جبکہ یہ خلاف واقعہ تھا اور ان کی زندگی اور موت کے درمیان میں دو اہم مراحل پیش آ چکے ہوں گے ایک ملائے اعلیٰ کی جانب بقید حیات رفع اور دوسرے کائنات ارضی پر دوبارہ رجوع (نزول) اس لیے ازبس ضروری ہوا کہ حیات اور موت کی جگہ دو ایسے الفاظ اختیار کیے جائیں جو ان چاروں مراحل پر صادق آسکیں اور جبکہ متعدد مقامات پر حسب حال ان مراحل کی تفصیل بیان ہو چکی ہے تو اعجاز بلاغت کا یہی تقاضا ہے کہ اب ان کو ایجاز و اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے۔ صورت حال کا یہی نقشہ تھا جس کے لیے قرآن عزیز نے ” مَا حَیَیْتُ “ کی جگہ ” مَا دُمْتُ فِیْھِمْ “ استعمال کیا تاکہ یہ جملہ اختصار کے ساتھ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زندگی کے دونوں حصوں پر حاوی ہوجائے اس حصہ پر بھی جو ابتدائے زندگی سے شروع ہو کر ” رفع الی السماء “ پر ختم ہوتا ہے اور اس حصہ پر بھی جو ” نزول ارضی “ سے شروع ہو کر ” موت “ پر جا کر ختم ہوجاتا ہے اور اسی طرح قرآن نے فَلَمَّا اَمَتَّنِیْ کا اسلوب بیان اختیار کیا تاکہ یہ جملہ بھی پہلے کی طرح باقی دونوں مرحلوں کو اپنے اندر سمو لے اس مرحلہ کو بھی جو ” رفع الی السماء “ کی صورت میں پیش آیا اور اس مرحلہ کو بھی جو نزول کے بعد ” موت “ کی صورت میں نمودار ہوگا کیونکہ موت سے تو صرف ایک ہی حقیقت ظاہر ہو سکتی تھی مگر ” توفی “ میں بیک وقت دونوں حقیقتیں موجود تھیں حقیقی معنی کے لحاظ سے صرف ” اَخَذْوَ تَنَاوُل “ اور کنایہ کے اعتبار سے اَخَذْ وَ تَنَاوُلْ کے ساتھ ساتھ ” موت “ جیسا کہ سطور بالا میں ” کنایہ “ اور ” مجاز “ کے باہمی فرق سے معلوم ہو چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عرض کریں گے خدایا ! جو وقت میں نے ان کے درمیان میں گزارا اس کے لیے تو بے شک میں شاہد ہوں لیکن ” توفی “ کے اوقات میں ان پر فقط تو ہی نگہبان رہا۔ باقی تیری شہادت تو ہر حالت میں ہر وقت ہر شے پر حاوی ہے۔ مسئلہ متعلقہ کی یہ پوری بحث اس سے قطع نظر کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیات کی تفسیر میں کیا ارشاد فرمایا ہے لغت ‘ معانی اور بلاغت کے پیش نظر تھی ورنہ ان آیات کی تفسیر میں ایک مومن صادق کے لیے تو وہ صحیح مرفوع احادیث کافی ہیں جن کو محدثین نے بسند صحیح روایت کیا ہے مثلاً مشہور محدث حافظ ابن عساکر ؒ نے بروایت ابوموسیٰ اشعری ؓ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو حدیث نقل کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے : ” جب قیامت کا دن ہوگا تو تمام انبیا (علیہم السلام) کو اور ان کی امتوں کو بلایا جائے گا اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بلائے جائیں گے اللہ تعالیٰ اول ان کے سامنے اپنی ان نعمتوں کو شمار کرائے گا جو دنیا میں ان پر نازل ہوتی رہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) ان سب کا اعتراف کریں گے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : { ئَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } [233] تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انکار فرمائیں گے پھر نصاریٰ بلائے جائیں گے اور ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ دروغ بیانی کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہاں عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہم کو یہی تعلیم دی تھی یہ سن کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر سخت خوف طاری ہوجائے گا بدن کے بال کھڑے ہوجائیں گے اور خشیت الٰہی سے ان کا رواں رواں بارگاہ صمدی میں سجدہ ریز ہوجائے گا اور یہ مدت ایک ہزار سال معلوم ہوگی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نصاریٰ کے خلاف حجت قائم کردی جائے گی اور ان کی خود ساختہ صلیب پرستی کا راز فاش کر دیا جائے گا اور پھر ان کو جہنم میں جھونک دیے جانے کا حکم ہوجائے گا۔ “[234] اور محدث ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بسند صحیح یہ روایت نقل کی ہے : ” حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی امت کے متعلق سوال کرے گا تو اپنی جانب سے عیسیٰ (علیہ السلام) پر جواب بھی القاء کر دے گا “ اور اس القاء کے متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر القاء ہوگا کہ وہ یہ جواب دیں : { سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ } 1 ؎ [235] [236] اور صحیحین (بخاری و مسلم) اور سنن میں جو حدیث شفاعت منقول و مشہور ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے جس طرح قیامت میں تمام انبیا (علیہم السلام) اپنی اپنی امتوں سے متعلق اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے اور معاملہ کے پیش آنے سے قبل خائف و ہراساں ہوں گے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان میں سے ایک ہوں گے اور ان پر یہ خوف طاری ہو رہا ہوگا کہ جب ان سے امت کی مشرکانہ بدعت پر سوال ہوگا تو وہ درگاہ صمدی میں کس طرح اس سے عہدہ برآ ہو سکیں گے ؟ الحاصل سورة مائدہ کی ان آیات کی تفسیر وہی صحیح ہے جو جمہور امت کی جانب سے منقول ہے اور قادیانی اور لاہوری کی تفسیر بالرائے الحاد وزندقہ سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتی۔

حضرت مسیح (علیہ السلام) کی دعوت اصلاح اور بنی اسرائیل کے فرقے

[ترمیم]

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل عطا کی تھی اور یہ الہامی کتاب دراصل تورات کا تکملہ تھی یعنی حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمی اساس اگرچہ تورات ہی پر قائم تھی مگر یہود کی گمراہیوں ‘ مذہبی بغاوتوں اور سرکشیوں کی وجہ سے جن اصلاحات کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی معرفت انجیل کی شکل میں ان کے سامنے پیش کر دیا تھا حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے یہود کی اعتقادی اور عملی گمراہیاں اگرچہ بے شمار حد تک پہنچ چکی تھیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) نے مبعوث ہو کر ان سب کی اصلاح کے لیے قدم اٹھایا تاہم چند اہم بنیادی باتیں خصوصیت کے ساتھ قابل اصلاح تھیں جن کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) بہت زیادہ سرگرم عمل رہے :
یہود کی ایک جماعت کہتی تھی کہ انسان کے اعمال نیک و بد کی سزا اسی دنیا میں مل جاتی ہے باقی قیامت ‘ آخرت ‘ آخرت میں جزا و سزا ‘ حشر و نشر یہ سب باتیں غلط ہیں یہ ” صدوقی “ تھے۔
دوسری جماعت اگرچہ ان تمام چیزوں کو حق سمجھتی تھی مگر ساتھ ہی یہ یقین رکھتی تھی کہ وصول الی اللہ کے لیے از بس ضروری ہے کہ لذات دنیا اور اہل دنیا سے کنارہ کش ہو کر ” زہادت “ کی زندگی اختیار کی جائے چنانچہ وہ بستیوں سے الگ خانقاہوں اور جھونپڑیوں میں رہنا پسند کرتے تھے مگر یہ جماعت حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے کچھ پہلے اپنی یہ حیثیت بھی کھو چکی تھی اور اب ترک دنیا کے پردہ میں دنیا کی ہر قسم کی گندگی میں آلودہ نظر آتی تھی ‘ ظاہر رسم و طریق زاہدوں کا سا ہوتا مگر خلوت کدوں میں وہ سب کچھ نظر آتا جن سے رندان بادہ خوار بھی ایک مرتبہ حیا سے آنکھیں بند کر لیں یہ ” فریسی “ کہلاتے تھے۔
2 تیسری جماعت مذہبی رسوم اور خدمت ہیکل سے متعلق تھی لیکن ان کا بھی یہ حال تھا کہ جن رسوم اور خدمات کو لوجہ اللہ کرنا چاہیے تھا اور جن اعمال کے نیک نتائج خلوص پر مبنی تھے ان کو تجارتی کاروبار بنا لیا تھا اور جب تک ہر ایک رسم اور خدمت ہیکل پر بھینٹ اور نذر نہ لے لیں قدم نہ اٹھائیں حتیٰ کہ اس مقدس کاروبار کے لیے انھوں نے تورات کے احکام تک میں تحریف کردی تھی یہ ” کاہن “ تھے۔
3 چوتھی جماعت ان سب پر حاوی اور مذہب کی اجارہ دار تھی اس جماعت نے عوام میں آہستہ آہستہ یہ عقیدہ پیدا کر دیا تھا کہ مذہب اور دین کے اصول و اعتقادات کچھ نہیں ہیں مگر ” وہ “ جن پر وہ صاد کر دیں ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنادیں ‘ احکام دین میں اضافہ یا کمی کر دیں جس کو چاہیں جنت کا پروانہ لکھ دیں اور جس کو چاہیں جہنم کی سند تحریر کر دیں ‘ خدا کے یہاں ان کا فیصلہ اٹل اور ان مٹ ہے ‘ غرض بنی اسرائیل کے ” اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ “ بنے ہوئے تھے اور تورات کی لفظی اور معنوی ہر قسم کی تحریف میں اس درجہ جری تھے کہ اس کو دنیا طلبی کا مستقل سرمایہ بنا لیا تھا اور عوام و خواص کی خوشنودی کے لیے ٹھہرائی ہوئی قیمت پر احکام دین کو بدل ڈالنا ان کا مشغلہ دینی تھا یہ ” احبار “ یا ” فقیہ “ تھے۔
یہ تھیں وہ جماعتیں اور یہ تھے ان کے عقائد و اعمال جن کے درمیان میں حضرت مسیح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور جن کی اصلاح حال کے لیے ان کی بعثت ہوئی انھوں نے ہر جماعت کے فاسد عقائد و اعمال کا جائزہ لیا رحم و شفقت کے ساتھ ان کے عیوب و نقائص پر نکتہ چینی کی ‘ ان کو اصلاح حال کے لیے ترغیب دی اور ان کے عقائد و افکار اور ان کے اعمال و کردار کی نجاستوں کو دور کرکے ان کا رشتہ خالق کائنات اور ذات واحد کے ساتھ دوبارہ قائم کرنے کی سعی کی۔ مگر ان بدبختوں نے اپنے اعمال سیاہ کی اصلاح سے یکسر انکار کر دیا اور نہ صرف یہ بلکہ ان کو ” مسیح ضلالت “ کہہ کر ان کی دعوت حق و ارشاد کے دشمن اور ان کے خلاف سازشیں کرکے ان کی جان کے درپے ہو گئے۔

اناجیل اربعہ

[ترمیم]
پیپرس 46، نئے عہد نامہ کے قدیم ترین پیپرس میں سے ایک

حضرت مسیح (علیہ السلام) پر جو انجیل نازل ہوئی تھی کیا موجودہ چاروں انجیلیں وہی ہیں یا یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد کی تصانیف ہیں ؟ اس کے متعلق تمام اہل علم کا جن میں نصاریٰ بھی شامل ہیں اتفاق ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) کی انجیل نہیں ہے اور نہ اس کا ترجمہ ہے لیکن پھر ان موجودہ انجیلوں کے متعلق عیسائی کیا کہتے ہیں اور ناقدین کی رائے کیا ہے یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے :
یہ بات بہرحال تسلیم شدہ ہے کہ موجودہ چاروں انجیلوں کے متعلق نصاریٰ کے پاس کوئی ایسی سند موجود نہیں جس کی بنا پر وہ یہ کہہ سکیں کہ ان کی روایات کا سلسلہ یا ان کی ترتیب و تالیف کا زمانہ حضرت مسیح (علیہ السلام) یا ان کے شاگردوں (حواریوں) تک پہنچتا ہے نہ اس کے لیے کوئی مذہبی سند ہے اور نہ تاریخی بلکہ اس کے خلاف خود عیسائیت کی مذہبی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ پہلی صدی عیسوی سے چوتھی صدی عیسوی کے اوائل تک عیسائیوں میں اکیس سے زیادہ انجیلیں الہامی یقین کی جاتی اور رائج و معمول بہا تھیں لیکن 325 ء میں نائسیا کی کونسل نے ان میں سے صرف چار کو منتخب کرکے باقی کو متروک قرار دیدیا اور سخت حیرت کا مقام ہے کہ کونسل کا یہ انتخاب کسی تاریخی اور علمی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ ایک طرح کی فال نکالی گئی اور اس کو الہامی اشارہ تسلیم کر لیا گیا چنانچہ ان اکیس سے زائد انجیلوں میں سے بعض یورپ کے قدیم کتب خانوں میں پائی گئی ہیں مثلاً انیسویں صدی میں ویٹیکان کے مشہورکتب خانہ سے متروک اناجیل کا ایک نسخہ برآمد ہوا تھا جس میں موجودہ چاروں انجیلوں سے بہت کچھ زائد موجود ہے موجودہ نسخوں میں سے سینٹ لوقا کی انجیل میں خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ تفصیل سے درج ہے لیکن سورة مریم میں قرآن عزیز نے اس واقعہ کو جس طرح حضرت مریم (علیہا السلام) کی پیدائش اور ہیکل میں تربیت کے ذکر سے شروع کیا ہے نہ لوقا کی انجیل میں اس کا ذکر ہے اور نہ باقی تینوں انجیلوں میں ‘ ویٹیکان کے اس نسخہ میں یہ واقعہ ٹھیک سورة مریم میں مذکور واقعہ کی طرح درج ہے۔ [237]
اسی طرح سولھویں صدی میں روما کے مشہور پوپ سکٹس (Sixtus ) کے قدیم کتب خانہ میں ایک اور متروک انجیل کا نسخہ برآمد ہوا جس کا نام انجیل برناباس ہے یہ نسخہ پوپ کے مقرب لاٹ پادری فرامرینو نے پڑھا اور پوپ کی اجازت کے بغیر کتب خانہ سے چرا لایا چونکہ اس میں خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق کثرت سے واضح اور صاف بشارتیں موجود تھیں حتیٰ کہ ” احمد “ نام تک مذکور تھا ‘ نیز الوہیت مسیح (علیہ السلام) کے خلاف عقیدہ کی تعلیم پائی جاتی تھی اس لیے وہ لاٹ پادری مسلمان ہو گیا حال ہی میں اس کا عربی ترجمہ مصر میں علامہ سید رشید رضا مرحوم نے المنار پریس سے شائع کیا ہے جو قابل مطالعہ ہے ڈاکٹر خلیل سعادہ مصری نے اس کے مقدمہ میں جو قابل قدر علمی تحقیق پیش کی ہے اس میں ہے کہ اس انجیل کا پتہ پانچویں صدی عیسوی کے اواخر میں اس تاریخی منشور (حکم نامہ) سے چلتا ہے جو خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے عیسائیوں کے پوپ گلیسیوس (جیلاشش) کی جانب سے کلیساؤں کے نام بھیجا گیا تھا اور جس میں ان کتابوں کے نام درج تھے جن کا پڑھنا پڑھانا عیسائیوں پر حرام کیا گیا تھا انھی میں انجیل برناباس کا نام بھی شامل تھا۔ علاوہ ازیں محققین یورپ بھی آج اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد ابتدائی تین صدیوں میں ایک سو سے زائد انجیلیں پائی جاتی تھیں جو بعد میں چار کو چھوڑ کر باقی متروک کردی گئیں اور کلیسا کے فیصلہ کے مطابق ان کا پڑھنا حرام کر دیا گیا اس لیے آہستہ آہستہ وہ سب مفقود ہوتی چلی گئیں اور کہتے ہیں کہ ان مفقود نسخوں میں ایک مشہور انجیل ‘ انجیل ایگنٹس (انجیل اغنطسی) بھی تھی جو اب ناپید ہے۔ نیز یہ بات بھی خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہے کہ سینٹ پال (پولوس رسول) کے جو خطوط ہیں اور جن پر موجودہ عیسائیت کی بنیادیں قائم ہیں ان کے مطالعہ سے جگہ جگہ یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگوں کو خبردار کرتا اور ڈراتا ہے کہ وہ ان انجیلوں کی جانب توجہ نہ دیں جو مسیح (علیہ السلام) کے نام کی بجائے دوسرے ناموں سے منسوب ہیں کیونکہ مجھ کو روح القدس نے اسی کے لیے مامور کیا ہے کہ میں انجیل مسیح (علیہ السلام) کی حمایت کروں اسی کو اسوہ بناؤں اور اس کی تعلیم کو تمام عیسائی دنیا میں پھیلاؤں چنانچہ حسب ذیل جملے اس کی صراحت کرتے ہیں کہ اس کے نزدیک مسیح (علیہ السلام) کی انجیل عیسائیوں میں متروک ہو چکی تھی اور بعد کی بے سند انجیلوں کا عام رواج ہو گیا تھا اور انھی میں سے یہ چار ہیں جو نائسیا کی کونسل نے بغیر کسی سند کے فال کے ذریعہ صحیح تسلیم کر لیں۔
اب ان چار کا حال بھی سنئے ان میں سے سب سے قدیم متی کی انجیل تسلیم کی جاتی ہے بایں ہمہ اس کے متعلق نصاریٰ میں سے علما متقد میں تو بالاتفاق اور علما موجودہ میں سے اکثر اس کے قائل ہیں کہ موجودہ انجیل متی اصل نہیں ہے بلکہ اس کا ترجمہ ہے اس لیے کہ اصل کتاب عبرانی میں تھی جو اب ناپید ہے اور ضائع ہو گئی لیکن یہ اصل کا ترجمہ ہے یا اس میں بھی تحریف ہوئی ہے اس کے متعلق کوئی تاریخی سند موجود نہیں حتیٰ کہ مترجم کا نام تک معلوم نہیں اور نہ یہ پتہ ہے کہ کس زمانہ میں یہ ترجمہ ہوا اور مشہور عیسائی عالم جرجیس زوین الفتوحی لبنانی نے اپنی کتاب میں تصریح کی ہے کہ متی نے اپنی انجیل بیت المقدس میں بیٹھ کر 39 ء میں عبرانی میں تصنیف کی تھی جیسا کہ مقدس ایرونیموس نے کہا ہے کہ اوسیبیوس نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ متی کی انجیل کا یونانی ترجمہ اصل نہیں ہے اور جب باتنیوس نے یہ ارادہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان جا کر عیسائیت کی تبلیغ کرے تو اس نے متی کی انجیل کو عبرانی میں مکتوب اسکندریہ کے کتب خانہ قیصر میں محفوظ دیکھا تھا مگر وہ نسخہ مفقود ہو گیا اور نہیں کہا جا سکتا کہ کس زمانہ میں کس شخص نے یونانی زبان میں موجودہ ترجمہ کو روشناس کرایا۔ [238] دوسری انجیل مرقس کی ہے اس کے متعلق مشہور عیسائی عالم پطرس گواماگ (قرماج) اپنی کتاب مروج الاخبار فی تراجم الابرار (مطبوع 188٠ ء بیروت) میں مرقس کی سوانح حیات پر لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ نسلاً یہودی لاوی اور پطرس حواری عیسیٰ (علیہ السلام) کا شاگرد تھا رومیوں نے جب عیسائیت اختیار کرلی تو ان کے مطالبہ پر یہ انجیل تصنیف کی یہ الوہیت مسیح (علیہ السلام) کا منکر تھا اور اس نے اپنی انجیل میں اس حصہ کو بھی نہیں لیا جس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) پطرس کی مدح کرتے ہیں یہ 68 ء میں اسکندریہ کے قید خانہ میں قتل ہوا بت پرستوں نے اس کو قتل کر دیا 1 ؎ اور عیسائی دنیا کو اس بارے میں اختلاف ہے کہ مرقس کی انجیل کب تصنیف ہوئی چنانچہ الفارق کے مصنف مرشد الطالبین صفحہ 17٠ کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ علما نصاریٰ کا خیال یہ ہے کہ یہ پطرس کی نگرانی میں 61 ء میں تصنیف ہوئی۔ [239]
تیسری انجیل سینٹ لوقا کی انجیل ہے جس قدر اختلاف علما نصاریٰ میں متی کی انجیل سے متعلق ہے اس سے بھی زیادہ لوقا کی انجیل کی صحت و عدم صحت کے متعلق اختلاف ہے چنانچہ الفارق کے مصنف نے اس سلسلہ میں خود علما نصاریٰ کے ہی اقوال نقل کیے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ الہامی کتاب نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ مسٹر گڈل (کدل) اپنے رسالہ ” الہام “ میں دعویٰ کرتا ہے کہ لوقا کی انجیل الہامی نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ لوقا نے خود اپنی انجیل کی ابتدا میں یہ لکھا ہے کہ یہ (انجیل) اس نے ثاو فیلس (تھیوفیلوس) کے ساتھ خط کتابت کی بنا پر لکھی ہے وہ اس کو مخاطب کرکے لکھتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی باتیں جن لوگوں نے آنکھوں سے دیکھی تھیں انھوں نے ہم تک جس طرح پہنچائی ہیں ان کو بہت سے لوگ ہم سے نقل کر رہے ہیں اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کو خود ہی صحیح طریقہ پر جمع کر دوں تاکہ تم کو صحیح حقیقت معلوم ہوجائے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا زمانہ نہیں پایا اور محققین نصاریٰ یہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ لوقا کی انجیل مرقس کی انجیل کے بعد وجود میں آئی ہے اور پطرس اور پولوس کے مرنے کے بعد تصنیف کی گئی ہے۔ [240]
اصل بات یہ ہے کہ لوقا انطاکیہ میں طبابت کرتا تھا اس نے مسیح (علیہ السلام) کو نہیں دیکھا اور مسیحیت کو سینٹ پال (پولوس) سے سیکھا ہے اور پولوس کے متعلق یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ وہ دراصل متعصب یہودی اور عیسائیت کا بدترین دشمن تھا اور نصاریٰ کے خلاف علی الاعلان اپنی جدوجہد جاری رکھتا تھا مگر جب اس نے یہ دیکھا کہ اس کی ہمہ قسم کی مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود مسیحیت کی ترقی ہوتی جا رہی ہے اور روکے نہیں رکتی تب اس نے یہودیانہ مکر و فریب سے کام لیا اور اعلان کیا کہ عجب معجزہ ہوا ‘ میں بحالت صحت تھا کہ ایک دم اس طرح زمین پر گرا جیسا کہ کوئی کشتی میں پچھاڑ دیتا ہے اس حالت میں حضرت مسیح (علیہ السلام) نے مجھ کو چھوا اور پھر سخت زجرو توبیخ کی کہ آئندہ تو ہرگز میرے پیرؤوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا پس میں اسی وقت حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا اور پھر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حکم سے میں مسیحی دنیا کی خدمت کے لیے مامور ہو گیا انھوں نے مجھ کو فرمایا کہ میں لوگوں کو مسیح (علیہ السلام) کی انجیل کی بشارت سنا دوں اور اس کے اتباع کی ترغیب دوں چنانچہ اس نے آہستہ آہستہ ” کلیسا “ پر ایسا قبضہ کیا کہ دین عیسوی کی اصل صداقتوں کو مٹا کر بدعتوں اور برائیوں کا مجموعہ بنادیا اور الوہیت مسیح (علیہ السلام) ‘ تثلیث و ابنیت اور کفارہ کی بدعت ایجاد کرکے مسیحیت کو وثنیت میں تبدیل کر دیا اور شراب ‘ مردار اور خنزیر سب کو حلال بنادیا۔ یہی وہ مسیحیت ہے پولوس کے صدقہ میں جس سے آج دنیا روشناس ہے اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ پولوس کے شاگرد لوقا کی انجیل الہامی انجیل ہے اور جیروم کہتا ہے کہ بعض قدیم علما نصاریٰ اس کے قائل ہیں کہ لوقا کی انجیل کے ابتدائی دوباب الہامی نہیں الحاقی ہیں کیونکہ یہ اس نسخہ میں موجود نہیں ہیں جو مارسیون فرقہ کے ہاتھوں میں ہے اور مشہور نصرانی عالم اکہارن لکھتا ہے کہ لوقا کی انجیل کے باب 22 آیات 43۔ 47 الحاقی ہیں ‘ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ معجزات سے متعلق جو بیان ہے اس میں کذب بیانی اور شاعرانہ مبالغہ سے کام لیا گیا ہے جو غالباً کاتب کی جانب سے اضافہ ہیں لیکن اب صدق کا کذب سے امتیاز حددرجہ دشوار ہے اور کلی می شیس۔۔ لکھتا ہے کہ متی اور مرقس کی انجیلیں بہت جگہ آپس میں مخالف اور متضاد واقعات کی حامل ہیں لیکن جس معاملہ میں دونوں کا اتفاق ہو اس کو لوقا کی انجیل کے بیان پر ترجیح حاصل ہے [241] اور یہ واضح رہے کہ لوقا کی انجیل میں بیس سے زیادہ مواقع پر متی کی انجیل سے اضافہ ہے اور مرقس کی انجیل سے تو اس سے بھی کہیں زیادہ [242]۔ پس ان تمام دلائل سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ لوقا کی انجیل ہرگز الہامی نہیں ہے اور نہ کسی حواری کی تصنیف ہے۔
چوتھی انجیل یوحنا کی ہے اس کے متعلق نصاریٰ کا عام عقیدہ یہ ہے کہ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے محبوب شاگرد یوحنا زبدی کی ہے۔ زبدی صیاد ‘ یوحنا کے والد کا نام تھا گلیل کے بیت صیدا میں ولادت ہوئی اور حواری عیسیٰ (علیہ السلام) کا شرف حاصل ہوا اور نصاریٰ میں مشہور بارہ حواریوں میں سے سب سے زیادہ انھی کو تقدیس حاصل ہے جرجیس زوین الفتوحی لبنانی لکھتا ہے جس زمانہ میں شیرینطوس اور ابیسون اور ان کی جماعت اپنے عقیدہ کی تشہیر کر رہی تھی کہ الوہیت مسیح (علیہ السلام) کا عقیدہ باطل ہے وہ بشر تھے اور حضرت مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا ہوئے اور حضرت مریم (علیہا السلام) سے قبل وہ عالم وجود میں نہیں تھے اس زمانہ میں 96 ء میں پادریوں ‘ لاٹ پادریوں کی مجلس مشاورت ہوئی اور انھوں نے یوحنا کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست پیش کی کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی باتیں تحریر کریں اور جو باتیں دوسری انجیلوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے ماسوا جو کچھ معلوم ہو وہ لکھیں خصوصیت سے الوہیت مسیح کا مسئلہ ضرور لکھیں تاکہ شیرینطوس وغیرہ کی جماعت کے خلاف ہمارے ہاتھ مضبوط ہوں تب یوحنا ان کی بات نہ ٹال سکے اور یہ انجیل لکھنے پر مجبور ہوئے [243] اس کے باوجود مسیحی علما زمانہ تصنیف کی تعیین میں مختلف نظر آتے ہیں ‘ بعض کہتے ہیں 65 ء میں تالیف ہوئی اور بعض 96 ء اور بعض 98 ء میں تصنیف ہونا بیان کرتے ہیں۔
مگر ان کے مقابلہ میں ان مسیحی علما کی تعداد کم نہیں ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یوحنا کی انجیل ‘ حواری یوحنا کی تصنیف ہرگز نہیں ہے۔ چنانچہ کیتھولک ہیرالڈ جلد نمبر 7 [244] میں پروفیسر لن سے منقول ہے کہ انجیل یوحنا از ابتدا تا انتہا مدرسہ اسکندریہ کے ایک طالب علم کی تصنیف ہے اور برٹشنیدر لکھتا ہے کہ انجیل یوحنا اور رسائل یوحنا ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے شاگرد یوحنا کی تصنیف نہیں ہے بلکہ کسی شخص نے دوسری صدی کے اوائل میں اس کو تصنیف کرکے اس لیے یوحنا کی جانب منسوب کر دیا تاکہ لوگوں میں مقبول و مشہور بن جائے اور صاحب الفارق کہتے ہیں کہ مشہور مسیحی عالم کروٹیس کا بیان ہے کہ یہ انجیل شروع میں بیس ابواب پر مشتمل تھی بعد میں اف اس کے کنیسہ نے اس میں اکیسویں باب کا اضافہ کر دیا جبکہ یوحناکا انتقال ہو چکا تھا۔ [245] ان حوالہ جات سے یہ بخوبی آشکارا ہوتا ہے کہ بلاشبہ یوحنا حواری کی انجیل نہیں ہے اور صرف اس مقصد سے تصنیف کرکے یوحنا کی جانب منسوب کی گئی کہ الوہیت مسیح (علیہ السلام) کے عقیدہ کنیسہ کو قوت پہنچائی جائے اور اصلاح عقیدہ کی جو آواز کبھی کبھی مسیحی دنیا میں اٹھتی تھی اس کو دبایا جائے۔ چہارگانہ اناجیل کے متعلق مذکورہ بالا مختصر تنقیدات کے علاوہ ان کے الہامی نہ ہونے کے دو واضح دلائل یہ بھی ہیں کہ ان چاروں انجیلوں میں حضرت مسیح کی زندگی کے وقائع درج ہیں حتیٰ کہ نصاریٰ کے زعم کے مطابق ان کی گرفتاری ‘ صلیب ‘ قتل ‘ مر کر جی اٹھنے اور حواریوں پر ظاہر ہونے وغیرہ تک کے حالات بھی موجود ہیں پس اگر یہ اناجیل انجیل مسیح (علیہ السلام) یا اس کا کوئی حصہ ہوتیں تو ان میں ان باتوں کا قطعاً تذکرہ نہیں ہونا چاہیے تھا وہ واقعات تو مسیح (علیہ السلام) کے بعد ان کے شاگرد جمع کرتے اور ان کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہوتی نہ کہ وہ کتاب اللہ کہلانے کے مستحق ہوتے اور یہ جس طرح ان انجیلوں کے مصنّفین کے بارے میں اختلاف ہے اسی طرح ان تصنیفات کے باہم واقعات میں بھی تناقض اور سخت اختلاف پایا جاتا ہے یعنی بعض معجزات و عجیب واقعات ایسے ہیں جو ایک انجیل میں پائے جاتے ہیں اور دوسری انجیل میں ان کا اشارہ تک نہیں ہے یا بعض میں ایک واقعہ جس طرح مذکور ہے دوسری میں کچھ زیادتی یا کمی کے ساتھ ایسے طریقہ پر بیان ہوا ہے کہ پہلی انجیل کے بیان میں اور اس میں صریح تضاد اور خلاف نظر آتا ہے مثلاً صلیب مسیح (علیہ السلام) کا واقعہ اناجیل میں تضاد بیان کے ساتھ منقول ہے۔
یہ بات بھی کم حیرت کے لائق نہیں ہے کہ یہ اناجیل اربعہ جن جن زبانوں میں منقول ہوئی ہیں ان کی عبارات و کلمات کے بقا و تحفظ کی کبھی پروا نہیں کی گئی بلکہ ایک ہی زبان کے مختلف ایڈیشنوں اور اشاعتوں میں بکثرت الفاظ اور جملوں کی تبدیلی ‘ کمی اور بیشی موجود ہے خصوصاً جن مقامات پر علما نصاریٰ اور علما اسلام کے درمیان میں بشارات کے سلسلہ میں یہ بحث آگئی ہے کہ ان کا مصداق خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا حضرت مسیح (علیہ السلام) یا کوئی اور نبی نیز جن مقامات پر الوہیت مسیح (علیہ السلام) کی صراحت میں فرق پڑتا نظر آتا ہو ان کو کافی تختہ مشق بنایا جاتا رہا ہے۔ اگر تحریفات لفظی و معنوی اور تضاد بیان کی تفصیلات و تشریحات کو بہ نظر وسیع مطالعہ کرنا ہو تو اس کے لیے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی اظہار الحق ‘ حافظ ابن قیم کی ہدایۃ الحیاریٰ ‘ باجا جی زادہ کی الفارق بین المخلوق و الخالق اور مولانا آل نبی امروہی کا اظہار حق لائق دید کتابیں ہیں۔
غرض موجودہ چاروں انجیلیں الہامی انجیلیں نہیں ہیں نہ ان کے الہامی ہونے کی روایتی سند ہے اور نہ تاریخی ‘ نہ ان کے مصنّفین کے متعلق قطعی اور یقینی علم حاصل ہے اور نہ زمانہائے تصانیف ہی متعین ہیں بلکہ اس کے خلاف پولوس کے بیانات ‘ ان کتابوں کی تاریخی حیثیت ‘ مضامین و مطالب کا باہمی تضاد و تغیر اسی پر شاہد ہیں کہ یہ ہرگز انجیل مسیح (علیہ السلام) یا اس کا حصہ نہیں ہیں اور یہ کہ انجیل مسیح (علیہ السلام) نصاریٰ کے ہی ہاتھوں اول تحریف لفظی و معنوی کا شکار ہوئی اور اس کے بعد مفقود ہو گئی بلکہ اس چہار گانہ انجیلوں میں سے کوئی بھی اصل نہیں ہے بلکہ یونانی اور اس سے منقول دوسری زبانوں کے تراجم ہیں جو تبدیلی و تغیر اور نقص و ازدیاد کا برابر شکار ہوتے رہے ہیں اور صرف یہی نہیں کہ یہ اناجیل اربعہ انجیل مسیح (علیہ السلام) نہیں ہیں بلکہ کسی علمی تاریخی اور مذہبی سند سے ان کا شاگردان مسیح (علیہ السلام) کی تصنیف ہونا بھی ثابت نہیں ہے بلکہ بعد کے مصنّفین کی تصانیف ہیں البتہ ان تراجم میں مواعظ و نصائح اور مقامات حکمت کے سلسلہ میں ایک حصہ ایسا ضرور ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ارشادات عالیہ سے ماخوذ ہے اس لیے نقل میں کہیں کہیں اصل کی جھلک نظر آجاتی ہے۔

قرآن اور انجیل

[ترمیم]

قرآن عزیز کی بنیادی تعلیم یہ ہے جس طرح خدا ایک ہے اسی طرح اس کی صداقت بھی ایک ہی ہے اور وہ کبھی کسی خاص قوم ‘ خاص جماعت اور خاص گروہ کی وراثت نہیں رہی بلکہ ہر قوم اور ہر ملک میں خدا کی رشد و ہدایت کا پیغام ایک ہی احساس و بنیاد پر قائم رہتے ہوئے اس کے سچے پیغمبروں یا ان کے نائبوں کے ذریعے ہمیشہ دنیا کے لیے راہ مستقیم کا داعی اور مناد رہا ہے اور اسی کا نام ” صراط مستقیم “ اور ” اسلام “ ہے اور قرآن اسی بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے آیا ہے اور یہی وہ آخری پیغام ہے جس نے تمام مذاہب ماضیہ کی صداقتوں کو اپنے اندر سمو کر کائنات ارضی کی ہدایت کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس لیے اب اس کا انکار گویا خدا کی تمام صداقتوں کا انکار ہے اسی بنیادی تعلیم کے پیش نظر اس نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عظمت شان کو سراہا اور یہ اعتراف کیا کہ بلاشبہ انجیل الہامی کتاب اور خدا کی کتاب ہے لیکن ساتھ ہی جگہ جگہ یہ بھی بہ دلائل بتلایا کہ علما اہل کتاب نے اس کی سچی تعلیم کو مٹا ڈالا ‘ بدل ڈالا اور ہر قسم کی تحریف کرکے اس کی تعلیم کو شرک و کفر کی تعلیم بنادیا مگر بعض مقامات پر اہل کتاب کو تورات و انجیل کے خلاف عمل پر ملزم بناتے ہوئے موجودہ تورات و انجیل کے حوالے بھی دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت اصل نسخے بھی اگرچہ محرف شکل میں ہی کیوں نہ ہوں ‘ پائے جاتے تھے بہرحال اس وقت بھی یہ دونوں کتابیں لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریفات سے اس درجہ مسخ ہو چکی تھیں کہ وہ تورات موسیٰ اور انجیل مسیح کہلانے کی مستحق نہ رہی تھیں۔ چنانچہ قرآن نے اصل کتابوں کی عظمت اور اہل کتاب کے ہاتھوں ان کی تحریف اور ان کا مسخ دونوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے :
{ نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ۔ مِنْ قَبْلُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ } [246] ” اے محمد ! اللہ نے تجھ پر کتاب کو اتارا حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے ان کتابوں کی جو اس کے سامنے ہیں اور اتارا اس نے تورات اور انجیل کو (قرآن سے) پہلے جو ہدایت ہیں لوگوں کے لیے اور اتارا فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والی) “
{ وَ یُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ } [247] ” اور سکھاتا ہے وہ کتاب کو ‘ حکمت کو ‘ تورات کو ‘ انجیل کو۔ “ { یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰۃُ وَ الْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْم بَعْدِہٖ اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ } [248] ” اے اہل کتاب ! تم کس لیے ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑتے ہو اور حال یہ ہے کہ تورات اور انجیل کا نزول نہیں ہوا مگر ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد پس کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ “ { وَ قَفَّیْنَا عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ اٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ھُدًی وَّ نُوْرٌ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ ھُدًی وَّ مَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ } [249] ” اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) کو جو تصدیق کرنے والا ہے اس کتاب کی جو سامنے ہے تورات اور دی ہم نے اس کو انجیل جس میں ہدایت اور نور ہے اور جو اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتی ہے اور سر تا سر ہدایت اور نصیحت ہے پرہیزگاروں کے لیے اور چاہیے کہ اہل انجیل اس کے مطابق فیصلہ دیں جو ہم نے انجیل میں اتار دیا ہے اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے موافق فیصلہ نہیں دیتا پس یہی لوگ فاسق ہیں۔ “
{ وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَ } [250] ” اور اگر وہ تورات اور انجیل کو قائم رکھتے (تحریف کرکے ان کو مسخ نہ کر ڈالتے) اور اس کو قائم رکھتے جو ان کی جانب ان کے پروردگار کی جانب سے ہوا ہے تو البتہ وہ (فارغ البالی کے ساتھ) کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے نیچے سے ‘ بعض ان میں میانہ رو صلاح کار ہیں اور اکثر ان کے بد عمل ہیں۔ “ { قُلْ یٰٓــاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ } [251] ” اے محمد ! کہہ دیجئے ‘ اے اہل کتاب تمھارے لیے ٹکنے کی کوئی جگہ نہیں ہے جب تک تورات اور انجیل اور اس شے کو جس کو تمھارے پروردگار نے تم پر نازل کیا قائم نہ کرو (تاکہ اس کا نتیجہ قرآن کی تصدیق نکلے) “ { وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ } [252] ” اور جب میں نے تجھ کو (اے عیسیٰ ! ) سکھائی کتاب ‘ حکمت ‘ تورات اور انجیل۔ “ { اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ } [253] ” (نیکوکار) وہ شخص ہیں جو پیروی کرتے ہیں رسول کی جو نبی امی ہے اور جس کا ذکر اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا پاتے ہیں۔ “ { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ } [254] ” بلاشبہ اللہ نے خرید لیا ہے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات پر کہ ان کے لیے جنت ہے وہ اللہ کے راستہ میں جنگ کرتے ہیں پس قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ سچا ہے جو تورات اور انجیل میں کیا گیا ہے۔ “
غرض یہ مدح و منقبت ہے اس تورات اور انجیل کی جو تورات موسیٰ اور انجیل عیسیٰ کہلانے کی مستحق اور درحقیقت کتاب اللہ تھیں لیکن یہود و نصاریٰ نے ان الہامی کتابوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ اس کا حال بھی قرآن ہی کی زبان سے سنئے : { اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ } [255] ” کیا تم توقع رکھتے ہو کہ وہ تمھاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتا تھا پھر اس کو بدل ڈالتا تھا باوجود اس بات کے کہ وہ اس کے مطالب کو سمجھتا تھا اور دیدہ و دانستہ تحریف کرتے تھے۔ “ { فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْـلًا فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ } [256] ” پس افسوس ان (مدعیان علم) پر جن کا شیوہ یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں تاکہ اس کے معاوضہ میں ایک حقیر سی قیمت دنیوی فائدہ کی حاصل کریں پس افسوس اس پر جو کچھ وہ لکھتے ہیں اور افسوس اس پر جو کچھ وہ اس ذریعہ سے کماتے ہیں وہ اہل کتاب ‘ کتاب اللہ (تورات و انجیل) کے کلمات کو ان کے محل و مقام سے بدل ڈالتے ہیں (یعنی تحریف لفظی اور معنوی دونوں کرتے ہیں) “
ان کے علاوہ ثمن قلیل (معمولی پونجی) کے عوض آیات اللہ کی فروخت کرنے کے متعلق تو بقرہ ‘ آل عمران ‘ نساء ‘ توبہ میں متعدد آیات موجود ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کی بیع دونوں طرح کیا کرتے تھے تحریف لفظی کے ذریعہ بھی اور تحریف معنوی کے سلسلہ سے بھی ‘ گویا سیم و زر کے لالچ سے عوام کی خواہشات کے مطابق کتاب اللہ کی آیات میں لفظی و معنوی تحریف ان کے فروخت کرنے کی حیثیت رکھتی ہے جس سے بڑھ کر شقاوت و بدبختی کا دوسرا کوئی عمل نہیں اور جو ہر حالت میں موجب لعنت ہے۔

حضرت مسیح (علیہ السلام) اور موجودہ مسیحیت

[ترمیم]

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم حق کا خلاصہ گذشتہ بیانات میں سپرد قلم ہو چکا ہے وہ خدا کے سچے پیغمبر ‘ حق و صداقت کے داعی ‘ دین مبین کے ہادی و مبلغ تھے اور خدا کے تمام سچے پیغمبروں کی طرح ان کی تعلیم بھی پہلی صداقتوں کی موید اور وقت کی انفرادی اور اجتماعی ضروریات کے انقلابات و حوادث کے مناسب حال انجیل کی شکل میں اصلاح و انقلاب کے لیے مناد تھی توحید خالص ‘ معرفت کردگار کے لیے کردگار سے ہی بلا وسیلہ تقرب ‘ محبت و شفقت ‘ رحمت و عفو کی اخلاقی برتری ان کی پاک تعلیم کا نچوڑ تھا لیکن انسانی انقلابات کی ذہنی تاریخ میں اس سے زیادہ حیرت اور تعجب کی غالباً کوئی بات نہ ہو کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی مقدس تعلیم ہی کے نام پر موجودہ مسیحیت ‘ توحید کی جگہ تثلیث ‘ معرفت حق کے لیے ابنیت کا عقیدہ ‘ نجات کے لیے علم و عمل کی درستکاری کی جگہ کفارہ پر ایمان جیسی مشرکانہ اور جاہلانہ بدعات کی تبلیغ اور نشر و اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔

تثلیث ؟

[ترمیم]

بستانی نے دائرۃ المعارف میں اس مسئلہ پر مسیحی نقطہ نظر سے سیر حاصل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عیسائی مذہب نے سب سے پہلے تثلیث کا نام ” رسولوں کے عہد “ میں سنا اس سے قبل مسیحیت اس عقیدہ سے قطعاً ناآشنا تھی اور رسولوں کا عہد سینٹ پال (پولوس رسول) سے شروع ہوتا ہے یہ وہی حضرت ہیں جن کی بدولت دین مسیحی نے نیا جنم لیا اور جن کی یہودیت نے ازراہ تعصب مسیحی صداقت و توحید کے عقیدہ کو وثنیت اور شرک سے آلودہ کرکے کامیابی کا سانس لیا یہ عقیدہ دراصل وثنی (بت پرستانہ) فلسفہ کی موشگافیوں کی پیداوار اور صنم پرستانہ عقیدہ ” اوتار “ کی صدائے باز گشت ہے اور اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ذات یا صفات خداوندی بشکل انسانی کائنات ارضی میں وجود پزیر ہو سکتی ہے گویا یہ عقیدہ فلاسفہ ہیلانییسن اور غنونیین کے عقائد فلسفیانہ کا ایک معجون مرکب ہے چنانچہ تاریخ قدیم سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں انطاکیہ کے بشپ تھیوفیلوس نے سب سے پہلے اس سلسلہ میں ایک یونانی کلمہ ” ثریاس “ استعمال کیا اس کے بعد ایک دوسرے بشپ ترتلیانوس نے اس کے قریب قریب ایک لفظ ترینیت اس ایجاد کیا ‘ یہی وہ یونانی لفظ ہے جو موجودہ مسیحی عقیدہ ” ثالوث “ (تثلیث) کے مرادف اور ہم معنی ہے اگر اس مسئلہ کی حقیقت کو ذرا اور گہری نظر سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو تاریخی حقائق سے یہ بات نمایاں نظر آئے گی کہ ثالوث کا عقیدہ دراصل مسیحیت اور وثنیت کی اس آمیزش کا نتیجہ ہے جو مسیحیت کے غلبہ اور وثنیت کی مغلوبیت کی وجہ سے پیش آیا ‘ خصوصاً جب مصری بت پرستوں نے اس مذہب کو قبول کیا تو انھوں نے اس عقیدہ کو بہت ترقی دی اور فلسفیانہ دقیقہ سنجیوں کے ساتھ اس کو علمی بحث بنادیا۔ مسیحیت قبول کرلینے کے بعدبت پرستوں پر جو رد عمل ہوا اس کے نتیجہ میں سے ایک اہم بات یہ تھی کہ ان کی خواہش ہمیشہ یہ رہی کہ وہ کس طرح گذشتہ و ثنیت کی موجودہ مسیحیت کے ساتھ مطابقت پیدا کریں ؟ تاکہ اس طرح قدیم و جدید دونوں ادیان کے ساتھ ربط قائم رہ سکے چنانچہ بقول مولانا ابوالکلام آزاد ” اسکندریہ کے فلسفہ آمیز اصنامی تخیل سیراپیز سے تثلیثی وحدت کی اصل لی گئی اور ایزیز کی جگہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو اور ہورس کی جگہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دی گئی “ اور اس یونانی اور مصری فلسفیانہ و ثنیت کی بدولت موجودہ مسیحیت میں الوہیت مسیح (علیہ السلام) اور تثلیث ” کلیسا “ کا مقبول عقیدہ بن گیا۔
یہ عقیدہ تثلیث ابھی سن طفولیت ہی میں تھا کہ علما نصاریٰ میں اس کے رد و قبول پر معرکہ آراء بحثیں شروع ہوگئیں ” نیقیہ “ کی کونسل میں مشرقی گرجاؤں میں اور خصوصی اور عمومی مجالس میں جب بحث نے طول کھینچا تو کلیسا نے فیصلہ دیا کہ مسئلہ ثالوث (تثلیث) حق اور اس کے خلاف ” الحاد “ ہے ان ملحد جماعتوں اور فرقوں میں نمایاں فرقہ ” ابیونیین “ ہے جو کہتا ہے کہ حضرت مسیح انسان محض تھے دوسرا ” سابلیین “ ہے جس کا خیال ہے کہ خدا ذات واحد ہے اور اب ‘ ابن ‘ روح القدس ‘ یہ مختلف صورتیں ہیں جن کا اطلاق مختلف حیثیتوں سے ذات واحد ہی پر ہوتا ہے تیسرا فرقہ ” آریوسیین “ ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اگرچہ ” ابن اللہ “ ہیں مگر ” اب “ کی طرح ازلی نہیں ہیں بلکہ کائنات بلندو پست سے قبل ” اب “ کی تخلیق سے مخلوق ہوا ہے اور اس لیے وہ ” اب “ سے نیچے اور اس کی قدرت کے سامنے مغلوب و خاضع ہے اور چوتھا فرقہ ” مقدونیین “ ہے ان کا کہنا ہے کہ ” اب “ اور ” ابن “ دو ہی اقنوم ہیں ” روح القدس “ اقنوم نہیں ہے بلکہ مخلوق ہے۔ کلیسا نے ان کو اور اسی قسم کے دوسرے فرقوں کو ” ملحد “ قرار دے کر نیقاوی کونسل منعقدہ 325 ء اور قسطنطنیہ کی کونسل منعقدہ 381 ء کے مطابق ثالوث (تثلیث) کو مسیحی عقیدہ کی بنیاد تسلیم کیا اور فیصلہ دیا کہ ” اب “ ” ابن “ اور ” روح القدس “ تینوں جدا جدا مستقل اقنوم (اصل) ہیں اور عالم لاہوت میں تینوں کی وحدت ہی خدا ہے گویا اس طرح ریاضی اور علم ہندسہ کے اصل اور ناقابل انکار بدیہی مسئلہ کے خلاف یا یوں کہئے کہ بداہۃً عقل کے خلاف یہ تسلیم کر لیا کہ ” ایک “ تین ہے اور ” تین “ ایک اور یہ بھی کہا کہ ” ابن “ ازل ہی میں ” اب “ سے ہوا ہے اور پھر 589 ء میں طلیطلہ کونسل نے یہ ترمیم منظور کرلی کہ ” روح القدس “ کا صدور ” اب “ اور ” ابن “ دونوں سے ہوا ہے اس ترمیم کو ” لاطینی کلیسا “ نے تو بغیر چون و چرا تسلیم کر لیا اور اس کو کلیسا کا عقیدہ بنا لیا لیکن ” یونانی کلیسا “ اول تو خاموش رہا مگر اس کے کچھ عرصہ کے بعد اس ترمیم کو بدعت قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس باہمی اختلاف نے اس قدر شدید صورت اختیار کرلی کہ ” یونانی کلیسا “ اور ” کیتھولک لاطینی کلیسا “ کے درمیان میں کبھی اتفاق و اتحاد پیدا نہ ہو سکا۔
ثالوث یا تثلیث کا یہ عقیدہ دین مسیحی کے رگ و پے میں خون کی طرح ایسا سرایت کر گیا کہ مسیحی کے بڑے فرقوں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان میں سخت بنیادی اختلافات کے باوجود بنیادی طور پر اس میں اتفاق ہی رہا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ قابل حیرت یہ بات ہے کہ لوتھر کی جماعت اور اصلاح پسند کلیساؤں نے بھی ایک عرصہ دراز تک اس کیتھولک عقیدہ کو ہی بغیر کسی اصلاح و ترمیم کے عقیدہ تسلیم کر لیا البتہ تیرھویں صدی عیسوی میں فرقہ لاہوتی کی اکثریت نے اور جدید فرقوں سوسینیائی ‘ جرمانی ‘ موحدین اور عمومیین وغیرہم نے اس عقیدہ کو نقل و عقل کے خلاف کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ [257]
یہ ہے مسیحیت میں عقیدہ تثلیث کی وہ مختصر تاریخ جس سے یہ حقیقت بخوبی آشکارا ہوجاتی ہے کہ دین مسیحی کی حقیقی صداقت کی تباہی کا راز اسی الحاد اور مشرکانہ بدعت کے اندر پوشیدہ ہے جو صنم پرستانہ تخیل کا رہین منت ہے۔ عقیدہ ثالوث کیا شے ہے اور ” اب “ ” ابن “ ” روح القدس “ کی تعبیرات کی حقیقت کیا ہے یہ مسئلہ بھی مسیحیت کے ان مباحث میں سے ہے جن کا فیصلہ کن جواب کبھی نہ مل سکا اور جس قدر اس کو صاف اور واضح کرنے کی کوشش کی گئی اس میں الجھاؤ اور پیچیدگی کا اضافہ ہی ہوتا گیا اور نتیجہ یہ نکلا جس عقیدہ کو مسیحیت میں اساسی اور بنیادی حیثیت حاصل تھی وہی ” معما “ بن کر رہ گیا اور قدیم و جدید علما نصاریٰ کو یہ کہنا پڑا کہ تثلیث میں توحید ہے اور توحید میں تثلیث یہ مذہب کا ایسا مسئلہ ہے جو دنیا میں حل نہیں ہو سکتا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر ہی یہ عقدہ حل ہوگا۔ اس لیے یہاں اس کو عقل سے سمجھنے کی کوشش کرنا فضول ہے بلکہ خوش عقیدگی کے ساتھ قبول کرلینا ہی نجات کی راہ ہے چنانچہ اواخر انیسویں صدی کے مشہور عیسائی عالم پادری فنڈر نے ” میزان الحق “ میں یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاہم اس صنم پرستانہ فلسفہ کی جو تشریحات کی گئی ہیں ان کو مختصر طور پر یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کائنات ہست وبود کو جس میں ہم بس رہے ہیں ” عالم ناسوت “ کہا جاتا ہے اور ملا اعلیٰ جس کا تعلق عالم غیب سے ہے وہ اور اس سے ماوراء جہاں نہ زمین و زماں کا گذر اور نہ مکین و مکاں کا ‘ جہاں سب کچھ ہے لیکن مادیت سے بالاتر اور وراء الوراء ہے اس کا نام ” عالم لاہوت “ ہے تو جب زیرو بالا اور بلندو پست کچھ بھی نہ تھا اور ازل کی غیر محدود وسعت میں ” وقت “ ایک بے معنی لفظ تھا اس وقت تین اقنوم تھے ” باپ “ ” بیٹا “ ” روح القدس “ اور انھی تین اقانیم کی مجموعی حقیقت کا نام ” خدا “ ہے رومن کیتھولک ‘ پروٹسٹنٹ اور ان دونوں سے جدا کلیسا شرقی تینوں ہی اس پر متفق ہیں اور اسی کو دین مسیحیت کی روح یقین کرتے ہیں اور بڑی جسارت کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ کتاب مقدس کی تصریحات اسی کا اعلان کرتی ہیں اس عجوبہ روزگار عقیدہ نے اس حد پر پہنچ کر جو نئے نئے مباحث و افکار پیدا کیے ان کا مطالعہ کرنے سے دیدہ حیرت اور چشم عبرت کے لیے بہت سا سامان مہیا ہوجاتا ہے ‘ بڑی بڑی مذہبی کونسلوں ‘ بڑے بڑے کلیساؤں کے بشپوں اور پاپاؤں نے اس عقیدہ کی تشریح میں یہ عجیب و غریب مباحث پیدا کیے کہ ” اقنوم اول “ باپ سے کس طرح اقنوم ثانی بیٹے کی ولادت ہوئی اور پھر باپ سے یا باپ اور بیٹے دونوں سے کس طرح اقنوم ثالث ” روح القدس “ پھوٹ کر نکلی یا کس طرح اس کا صدور ہوا اور یہ کہ ان کے باہم نسبت کیا ہے اور ان کے جدا جدا کیا القاب وصفات ہیں جو ایک دوسرے کو آپس میں متمائز کرتے ہیں اور پھر جب یہ تثلیث توحید بن جاتی ہے تو اس کی صفات و القاب کی کیا صورت ہو سکتی ہے ‘ نیز یہ جس کو ہم خدا کہتے ہیں اس میں تینوں اقانیم برابر کے شریک ہیں یا کوئی ایک پورا اور دوسرے دو جزوی حصہ دار ہیں اور جزوی شرکت ہے تو کس نسبت اور تعلق سے ہے ؟ غرض خدائے برتر کی مقدس اور پاک ہستی کو معاذ اللہ کمھار کے چاک پر رکھا ہوا برتن فرض کرکے جس طرح اس کو بنایا اور تیار کیا ہے اور توحید خالص کو تباہ و برباد کرکے جس طرح شرک و ترکیب کا نیا سانچہ ڈھالا ہے دنیائے مذاہب وادیان کی تاریخ میں ایسا مذہبی تغیر و انقلاب چشم فلک نے نہ کبھی دیکھا نہ سنا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ [258] بہرحال ” باپ “ ” بیٹا “ ” روح القدس “ کی جدا جدا تفصیلات و تشریحات اور پھر وحدت سے ترکیب اور ترکیب سے وحدت کی عجوبہ زا تعبیرات کی ایک بھول بھلیاں ہیں جس کا کہیں اور چھور نظر نہیں آتا اور جب کہنے والا ہی لفظی تعبیرات کے علاوہ ” حقیقت “ سمجھنے سے عاری ہے تو سننے والا کیا خاک سمجھ سکتا ہے۔

باپ

[ترمیم]

اقانیم ثلاثہ میں ” باپ “ پہلا اقنوم ہے۔ اسی سے اقنوم ثانی کی ولادت ہوئی اور ” عالم لاہوت “ میں یہ کبھی دوسرے اور تیسرے اقانیم سے جدا نہیں ہوتا۔ مگر مسیحی فرقوں میں کنیسہ کی تعلیم کے مطابق اکثر فرقے یہ کہتے ہیں کہ وحدت لاہوت میں تینوں کا درجہ مساوی ہے اور کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے اور آریوسی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ دوسرا اقنوم ” بیٹا “ اقنوم اول کی طرح ازلی نہیں ہے البتہ عالم بالا وپست سے غیر معلوم مدت پہلے اقنوم اول سے پیدا ہوا ہے اس لیے اس کا درجہ ” باپ “ کے بعد اور اس سے کم ہے اور مقدونی فرقہ کہتا ہے کہ صرف دو ہی اقنوم ہیں ” باپ “ اور ” بیٹا “ اور ” روح القدس “ مخلوق ہے اور فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جس کا پایہ تمام ملائکۃ اللہ سے بلند ہے اور طلیطلہ کی کونسل کا فیصلہ یہ ہے کہ روح القدس ” باپ “ اور ” بیٹا “ دونوں سے پھوٹ کر نکلی ہے یا دونوں سے ہی اس کا صدور ہوا ہے مگر قسطنطنیہ کی کونسل روح القدس کو صرف باپ ہی سے صادر ہونا بتلاتی ہے اور قدیم و جدید فرقوں میں سے ایک بڑی جماعت اقنوم ثالث مریم (علیہا السلام) کو تسلیم کرتی اور روح القدس کے اقنوم ہونے کا انکار کرتی ہے۔

بیٹا

[ترمیم]

عربی میں ” ابن “ فرنچ میں ” فی “ اور انگریزی میں ” سن “ (SON ) اور اردو میں ” بیٹا “ کہتے ہیں ‘ یہ اس شکل انسانی پر بولا جاتا ہے جو عام قانون قدرت کے مطابق مرد و عورت کے جنسی تعلقات کا نتیجہ ہوتا ہے مگر عقیدہ ثالوث کے مطابق وہ عالم لاہوت میں ” باپ “ سے جدا بھی نہیں اور پیدا بھی ہے اور پھر بعض کے نزدیک اس کی پیدائش ازلی ہے اور بعض کے نزدیک غیر ازلی ‘ آگے چل کر کہتے ہیں کہ جب ” باپ “ کی مشیت کا فیصلہ ہوا تو اقنوم ثانی ” بیٹا “ عالم ناسوت (کائنات ہست و بود) میں مریم کے بطن سے پیدا ہو کر ” مسیح “ کہلایا اور بعض کا تو یہ دعویٰ ہے کہ خود باپ ہی عالم ناسوت میں بیٹا بن کر مریم کے بطن سے تولد ہوا اور مسیح کی شکل میں روشناس ہوا اور طرفہ تماشا یہ کہ بعض کے نزدیک تو اقنوم ثانی ” ابن “ کو اقنوم اول ” اب “ پر برتری اور تفوق حاصل ہے۔

روح القدس

[ترمیم]

اسی طرح ” روح القدس “ کے متعلق بھی سخت اختلاف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ اقنوم ہی نہیں ہے اس لیے عالم لاہوت میں اس کو الوہیت حاصل نہیں ہے چنانچہ مکدونی اور آریو سی کہتے ہیں کہ وہ ملائکۃ اللہ میں سے ہے اور ان میں سب سے برتر و بلند ہے اور ماراتونیوس کہتا ہے کہ روح القدس کی تعبیر مجاز ہے اور اللہ تعالیٰ کے افعال پر مجازاً اس کا اطلاق کیا جاتا ہے ورنہ الگ سے کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ اس بنا پر اس قول کے قائلین کو ” مجازئین “ کہا جاتا ہے اور علما جدید میں کلارک کہتا ہے کہ الہامی کتابوں عہد نامہ قدیم و جدید میں کسی ایک جگہ بھی روح القدس کو ” الوہیت “ کا درجہ نہیں دیا گیا ‘ فرقہ مکدونی نے الوہیت روح القدس کا انکار کرتے ہوئے شدو مد سے یہ کہا ہے کہ اگر جوہر الوہیت میں روح القدس کو بھی دخل ہوتا تو یا وہ مولود ہوتی ‘ غیر مولود ‘ اگر مولود ہے تو اس کے اور ” ابن “ کے درمیان میں کیا فرق رہا اور اگر غیر مولود ہے تو اس کے اور ” اب “ کے درمیان میں کیا امتیاز ہے۔ ان کے مقابلے میں دوسری جماعتیں کہتی ہیں کہ ” روح القدس “ کو بھی الوہیت حاصل ہے بوسیورومانی کہتا ہے کہ روح القدس کا صدور ” اب “ اور ” ابن “ دونوں سے ہوا اور وہ ان کے جوہر نفس سے ہے اور دونوں کے ساتھ وحدت لاہوت میں ” الٰہ “ ہے اور اثناسیوس کہتا ہے کہ روح القدس کی الوہیت ناقابل انکار ہے اور کتب سماویہ میں روح پر ” الٰہ “ کا اور ” الٰہ “ پر ” روح “ کا اطلاق ثابت و مسلم ہے اور اس کی جانب انھی امور کی نسبت کی گئی ہے جن کا تعلق ذات خدا کے ماسوا اور کسی سے نہیں ہے مثلاً تقدیس ذات ‘ معرفت جمیع حقائق وغیرہ اور یہ عقیدہ قدیم سے چلا آتا ہے جیسا کہ نظم دسولجیا سے ثابت ہے جس کی قدامت تالیف سب کے نزدیک مسلم ہے اس میں الوہیت روح القدس کا اعتراف موجود ہے اور مولٹ لفیلوپیٹرس نے انکار الوہیت روح پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نصاریٰ کے نزدیک خدائے حقیقی کی توحید کا تثلیث میں مضمر ہونا ایک مسلم حقیقت ہے پھر روح کو الوہیت سے خارج کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا اور مکدونیوں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مار ستینیانوس کہتا ہے کہ کتب سماوی میں روح کو ابن نہیں کہا گیا بلکہ روح الاب اور روح الابن کے اطلاقات پائے جاتے ہیں لہٰذا اس کو ” ابن “ یا ” اب “ کہنا صحیح نہیں اور نہ اس کو الوہیت سے نکال کر مخلوق کہنا درست ہو سکتا ہے اور ادراک بشریٰ عاجز ہے کہ ان فلسفیانہ بحثوں سے ” روح القدس “ کی حقیقت تک پہنچ سکے البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فقط تولید (پیدا ہونا) ہی تنہا ایسا واسطہ نہیں جو ” اب “ کے ساتھ قائم ہو بلکہ انبثاق (صدور یا پھوٹ نکلنا) بھی ایک شکل ہو سکتی ہے مگر ہم اس دنیا میں تولید و انبثاق کے درمیان میں فرق ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہیں البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ تولید و انبثاق دونوں کا ” اب “ کے ساتھ ازلی و ابدی اور تلازم کا تعلق ہے پس ہمارے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ فلاسفہ قدیم (فلاسفہ یونان) کی طرح ” روح القدس “ اور ” اب “ کے درمیان میں فلسفیانہ موشگافیوں کے ذریعہ وہ اعتقادات قبول کر لیں جو انھوں نے خدا سے صدور ارواح کے متعلق پیدا کر لیے ہیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ وہ اختلافات بھی پیش نظر رہنے چاہئیں جو گذشتہ سطور میں بیان ہو چکے ہیں کہ بعض کلیسا ” روح القدس “ کا فقط اقنوم اول (باپ) سے صادر ہونا مانتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ” باپ “ اور ” بیٹا “ دونوں سے اس کا صدور ہوا ہے ‘ یہ اختلاف بھی عیسائی فرقوں کے درمیان میں سخت کشاکش کا سبب رہا ہے کیونکہ 381 ء میں منعقدہ کونسل قسطنطنیہ نے ” منشور ایمانی “ میں یہ واضح کر دیا تھا کہ روح القدس کا صدور ” باپ “ ہی سے ہوا ہے اور عرصہ تک یہی عقیدہ مسیحی دنیا میں نافذ رہا لیکن 447 ء میں اول ہسپانیہ کے کلیسا نے پھر فرانس کے کلیسا نے اور اس کے بعد تمام لاطینی رومن کلیساؤں نے اس ترمیم کو جزء عقیدہ بنایا کہ ” روح القدس “ کا صدور اقنوم اول باپ “ اور اقنوم ثانی ” بیٹا “ دونوں سے ہوا ہے عیسائی علما کہتے ہیں کہ دراصل یہ بحث 866 ء میں سب سے پہلے شرق کے بطریق فوتیوس نے اس لیے پیدا کی کہ اس کی اور اس کی جماعت کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح شرق (یونان) کے کلیسا کو غرب (روم) کے کلیسا سے جدا کر دیا جائے اور مشرق و مغرب کے کلیساؤں کا اتحاد باقی نہ رہنے دیا جائے اسی خیال کی تائید وتقویت کے لیے 1٠43 ء میں بطریق میخائیل کرولاریوس نے اس عقیدہ کو بہت جلد شائع کیا اور آخر کار صدیوں تک ان اختلافات نے کلیسا ہائے مشرق و مغرب کے درمیان مخالفانہ کشمکش کو قائم رکھا اور دونوں کلیسا ایک دوسرے پر یہ الزام عائد کرتے رہے کہ مخالف کلیسا نے مسیحیت میں الحادو بدعت کی آمیزش کرکے حقیقی مذہب کو مٹا ڈالا ہے اور رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی بالعموم اور کلیساؤں کے مختلف فرقوں کی بالخصوص کشمکش کا یہ سلسلہ اس وقت تو انتہائی شدت اختیار کرچکا تھا اور باہم ہولناک خونریزیوں اور بہیمانہ مظالم کا جہنم بن چکا تھا جبکہ اسلام اعتقادات کی سادگی ‘ اعمال صالحہ کی پاکیزگی اور اپنی علمی و عملی روحانیت کی شگفتگی کی بدولت ” امن عام “ اور ” رحمت “ کا نیر درخشاں بنا ہوا تھا۔

ازمنہ مظلمہ اور اصلاح کنیسہ کی آواز

[ترمیم]

یہ وہ زمانہ تھا جب عیسائیوں کے مذہبی کلیسا معمولی معمولی اختلافات کی بنا پر پوپ کی حکومت اور پیروان پوپ کی حکومتوں کے ذریعہ ایک دوسری جماعت کو گردن زنی اور کشتنی قرار دیتی اور ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کو وحشت ناک عذابوں میں مبتلا کرکے قتل کر دیا کرتی تھیں اسی بنا پر مورخین تاریخ کے اس دور کو ازمنہ مظلمہ (زمانہ ہائے تاریک) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ قرآن نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جس حقیقت اور صداقت کا اظہار کیا تھا پوپ اور کلیسا سے مرعوبیت نے اگرچہ ایک مدت مدید تک عیسائیوں کو اس طرف متوجہ نہیں ہونے دیا ‘ مگر پھر بھی یہ صدائے حق اثر کیے بغیر نہ رہ سکی ‘ اس کی تفاصیل اگرچہ خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں مذکور ہوں گی لیکن یہاں صرف اس قدر اشارہ کرنا مقصود ہے کہ رومن کیتھولک ‘ پروٹسٹنٹ اور دوسرے فرقوں نے بغیر کسی جھجک کے سینٹ پال کی تحریف (تثلیث) مسیحیت کا بنیادی عقیدہ تسلیم کر لیا تھا اور اگرچہ بعض چھوٹی چھوٹی جماعتوں یا افراد نے کبھی کبھی اس کے خلاف آواز اٹھائی ‘ مگر وہ آواز دب کر رہ گئی اور نقار خانہ میں طوطی کی صدا سے زیادہ اس کی حیثیت نہ بن سکی۔ مثلاً 325 ء اور 381 ء میں جب نیقاوی کونسل اور قسطنطنیہ کونسل نے تثلیث کو دین مسیحی کی بنیاد قرار دیا اس وقت ابونیین نے صاف صاف اعلان کر دیا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) صرف انسان ہیں اور الوہیت کا ان سے کوئی علاقہ نہیں اور سابلیین کہتے تھے کہ اقانیم ثلاثہ تین مختلف جوہر نہیں ہیں بلکہ وحدت لاہوتی کی مختلف صورتیں اور تعبیریں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ صرف اپنی ذات واحد کے لیے اطلاق کرتا ہے تاہم اس وقت تک چونکہ پوپ اور کلیسا کے فیصلے خدائی فیصلے سمجھے جاتے تھے بشپ اور پاپا ” اربابا من دون اللّٰہ “ یقین کیے جاتے تھے اس لیے ان اصلاحی آوازوں کو ” الحاد “ کہہ کر دبا دیا گیا۔ مگر جب صلیبی جنگوں نے عیسائیوں کو مسلمانوں کے اتنا قریب کر دیا کہ انھوں نے اسلام کے اعتقادی اور عملی نظام کا بہت کچھ نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسلام سے متعلق بطارقہ بساقفہ کی غلط بیانی اور بہتان ان پر ظاہر ہونے لگی تب ان میں بھی آزادی فکر نے کروٹ لی اور کو رانہ تقلید کو شکست وریخت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ‘ چنانچہ لوتھر کی آواز پہلی صدائے حق تھی جس نے جرأت کے ساتھ ” اربابا من دون اللّٰہ “ کے بتوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور پوپ کے مقابلہ میں کتاب مقدس کی پیروی کی دعوت دی مگر آپ کو تعجب ہوگا یہ سن کر کہ پوپ کی جانب سے لوتھر کے خلاف جو الحاد اور بددینی کے الزامات لگائے گئے تھے ان میں سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ یہ در پردہ ” مسلمان “ ہو گیا ہے اور پاپا کے خلاف اس کی صدا قرآن کی صدائے بازگشت ہے۔
بہرحال یہی وہ صدائے اصلاح تھی جو بلاشبہ اسلام کی دعوت تفکر و تعقل سے متاثر ہو کر آہستہ آہستہ ” اصلاح کنیسہ “ کے نام سے مسیحی دنیا میں گونج اٹھی اور آگ کی طرح ہر طرف اس کے شعلے نظر آنے لگے۔ انھی اصلاحات میں سے ایک اہم اصلاحی تخیل یہ بھی تھا کہ عقیدہ ثالوث کتاب مقدس (عہد نامہ جدید ) کے قطعاً خلاف ہے ‘ چنانچہ تیرہویں صدی عیسوی میں قدیم لاہوتی فرقہ کے جمہور نے ‘ نسطوری فرقہ کے جماعتی فیصلہ نے اور جدید جماعتوں میں سے سوسینیانیین۔۔ جرمانیین ‘ موحدین اور عمومیین اور دوسری جماعتوں نے تعلیم کلیسا کے خلاف مذہبی بغاوت کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ تثلیث کا عقیدہ نقل و عقل دونوں کے خلاف اور ناقابل تسلیم ہے اور اگرچہ قومی و مذہبی عصبیت نے ان کو اسلامی عقیدہ کا پیرو ہونے سے باز رکھا تاہم انھوں نے عقیدہ تثلیث کی مختلف شکلوں کے ساتھ ایسی تعبیرات کرنی شروع کر دیں جس سے عقیدہ ثالوث باطل ہو کر توحید الٰہی کے پاک اور مقدس جراثیم پیدا ہونے لگے۔ مثلاً سویڈنبرگ نے کہا :
” اقانیم ثلاثہ ‘ ” باپ “ ” بیٹا “ ” روح القدس “ کا تعلق حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ذات کے ماسوا ذات احدیت سے نہیں ہے یعنی مسیح (علیہ السلام) کی ذات اپنی طبع لاہوتی کے پیش نظر ” باپ “ ہے اور عالم ناسوت میں انسانی شکل کی تقیید کی وجہ سے ” بیٹا “ اور ” اقنوم ثانی “ ہے اور اس حیثیت سے کہ روح القدس کا صدور اس سے ہوا ہے وہ اقنوم ثالث ” روح “ ہے غرض ” ثالوث “ کا تعلق صرف حضرت مسیح (علیہ السلام) سے ہے۔ “ اور کانٹ کہتا ہے کہ : ” عقیدہ ثالوث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ” باپ “ ” بیٹا “ ” روح القدس “ بلکہ یہ عالم لاہوت میں خدائے برتر کی تین بنیادی صفات کی جانب اشارہ ہے جو باقی تمام صفات کے لیے مصدر اور منبع کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ ” قدرت “ (اب) ” حکمت “ (ابن) اور ” محبت “ (روح) ہیں یا اللہ کے ان تین افعال کی جانب اشارہ ہے جو ” خلق “ ” حفظ “ اور ” ضبط “ کے نام سے بھی تعبیر کیے جاتے ہیں۔ ہیگن اور شیلنگ نے اس خیال کی کافی اشاعت کی کہ عقیدہ ثالوث حقائق کی طرح کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک تخیلی نظریہ ہے ‘ ان کی مراد یہ ہے کہ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے خدائے برتر کی ذات وحدہ لا شریک لہ ہے اور مسیح (علیہ السلام) مخلوق خدا ‘ لیکن عام خیال و تصور میں جب ہم لاہوتی علم کی جانب پرواز کرتے ہیں تو ہمارا خیال اس عالم میں خدا ‘ مسیح (علیہ السلام) اور روح القدس کو ” اب “ ” ابن “ اور ” روح “ کی تعبیرات دیتا اور ان کے باہم تعلق کو اقانیم ثلاثہ کی حیثیت میں دیکھتا ہے۔ ” عقلیین “ لوتھرین “ اور ” موحدین “ اور ” جرمانیین “ کے علاوہ بھی بہت لوگ ہیں جو ” سابلیین “ کے عقیدہ کو اختیار کرکے ایک بڑی جماعت کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ کی نشاءۃ جدید میں بھی عام طور پر تمام کلیساؤں کا ثالوث (تثلیث) پر ہی عقیدہ ہے اور ان کے نزدیک اس کلمہ کی تعبیر وہی ہے جو چوتھی صدی عیسوی میں متعدد مذہبی کونسلوں نے کی اور جو بلاشبہ شرک جلی اور توحید کے یکسر منافی ہے۔

قرآن عزیز اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)

[ترمیم]

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جلیل القدر اور اولوا لعزم پیغمبروں میں سے ہیں ‘ اور جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء و رسل ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خاتم الانبیاء بنی اسرائیل ہیں ‘ اور جمہور کا اس پر اجماع ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا ‘ اور درمیان میں کا زمانہ جس کی مدت تقریباً پانچ سو ستر سال ہے فترۃ (انقطاع وحی) کا زمانہ ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی جلالت قدر اور عظمت شان کا ایک امتیازی نشان یہ بھی ہے کہ اگر انبیائے بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت کا مقام امامت حاصل ہے تو عیسیٰ (علیہ السلام) مجدد انبیائے بنی اسرائیل ہیں ‘اس لیے کہ قانون ربانی ( توراۃ ) کے بعد بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے انجیل (بائبل) سے زیادہ عظیم المرتبت دوسری کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انجیل کا نزول قانون توراۃ کی تکمیل ہی کی شکل میں ہوا ہے یعنی نزول توراۃ کے بعد یہود نے جو قسم قسم کی گمراہیاں دین حق میں پیدا کرلی تھیں۔ انجیل نے توراۃ کی شارح بن کر بنی اسرائیل کو ان گمراہیوں سے بچنے کی دعوت دی اور اس طرح تکمیل توراۃ کا فرض انجام دیا اور بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فراموش شدہ پیغام ہدایت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی نے دوبارہ یاد دلایا اور تازہ باران رحمت کے ذریعہ اس خشک کھیتی کو دوبارہ زندگی بخشی ‘مزید برآں یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سرور کائنات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑے مناد اور مبشر ہیں اور ہر دو مقدس پیغمبروں کے درمیان ماضی اور مستقبل دونوں زمانوں میں خاص رابطہ اور علاقہ پایا جاتا ہے۔ قرآن عزیز نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مماثلت کے سلسلہ میں جن پاک ہستیوں کے واقعات سے بہت زیادہ بحث کی ہے ان میں حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کی مقدس ہستیاں زیادہ نمایاں نظر آتی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت قرآن کے ” تَذْکِیْر بِاَیَّامِ اللّٰہِ “ میں اس لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے جس دین قویم اور ملت بیضاء کا عروج و کمال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقدیس کے ساتھ وابستہ تھا اور جس ملت کی دعوت و تبلیغ کا محور و مرکز ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بننے والی تھی۔ وہ ملت ابراہیم کے نام سے موسوم ہے { مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ } [259]کیونکہ یہی وہ بوڑھے پیغمبر ہیں جنھوں نے شرک کے مقابلہ میں سب سے پہلے توحید الٰہی کو حنیفیت کا لقب دیا اور آئندہ ہمیشہ کے لیے خدا کی راہ مستقیم کے لیے ” ملت حنیفیہ “ کا امتیاز قائم کر دیا ‘یعنی جو خدا کی پرستش کے لیے مظاہر کائنات کی پرستش کو وسیلہ بناتا ہے وہ ” مشرک “ ہے اور جو خالق کائنات کی یکتائی کا قائل ہو کر براہ راست اسی کی پرستش کرتا ہے وہ ” حنیف “ ہے۔پس اس مقدس پیغمبر نے خدا پرستی کے اس حقیقی تصور کو عملی حیثیت میں اس درجہ نمایاں کیا کہ مستقبل میں ادیان حق کے لیے اس کی پیروی حق و صداقت کا معیار بن گئی اور خدائے برتر کی جانب سے قبولیت کا یہ شرف عطا ہوا کہ یہ مقدس پیغمبر کائنات رشد و ہدایت کا امام اکبر اور مجدد اعظم قرار پا گیا :
{ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا } [260] ” اور پیروی کرو ابراہیم کی ملت کی ‘ جو سب سے کٹ کر صرف خدا کی جانب جھکنے والا ہے۔ “
{ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا } [261]” یہ ملت ہے تمھارے باپ ابراہیم کی ‘ اس نے تمھارا نام ” مسلم “ رکھا نزول قرآن سے قبل اور اس قرآن میں بھی تمھارا نام ” مسلم “ ہے۔ “ (مسلم اور حنیف مفہوم میں متحد ہیں۔ مسلم خدا کا تابعدار اور حنیف سب سے منہ پھیر کر صرف خدا کا ہوجانے والا۔ )
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی مقدس زندگی کا تذکرہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ ان کی دعوت و تبلیغ کے واقعات یعنی قوم کی جہالت و نافرمانی ‘دشمنان خدا سے نبرد آزمائی ‘ پیہم مصائب و آلام پر صبر و استقلال کا دوام و ثبات ‘ اور اسی قسم کے دوسرے کوائف و حالات میں ان کے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان میں بہت زیادہ مشابہت و مناسبت پائی جاتی ہے۔ اور اس لیے وہ واقعات و حالات ‘ قبول و انکار حق اور ان سے پیدا شدہ نتائج کے سلسلہ میں بصیرت و عبرت کا سامان مہیا کرتے اور نظائر و شواہد کی حیثیت رکھتے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کا مقدس ذکر مسطورہ بالا خصوصیات و امتیازات کی بنا پر خاص اہمیت رکھتا ہے۔
غرض قرآن عزیز نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات و واقعات کو بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور ان کی حیات طیبہ کے دیباچہ کے طور پر ان کی والدہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے واقعات زندگی کو بھی روشن کیا ہے تاکہ قرآن کا مقصد ” تَذْکِیْر بِاَیَّامِ اللّٰہِ “ پورا ہو۔
یہ ذکر پاک قرآن عزیز کی تیرہ سورتوں میں ہوا ہے ‘ ان میں سے کسی جگہ نام مبارک عیسیٰ (یسوع) سے یاد کیا گیا ہے اور کسی جگہ ” مسیح “ اور ” عبد اللہ “ کے لقب سے اور کسی مقام پر کنیت ” ابن مریم “ کے اظہار کے ساتھ۔ نقشہ ذیل اس حقیقت کا کاشف اور ارباب مطالعہ کی بصیرت کے لیے ممدو معاون ہے :
شمار سورة وآیات عیسیٰ مسیح عبد اللہ ابن مریم تعداد آیات

  1. البقرۃ 87‘ 136‘ 137‘ 138‘ 253 3 ٠ ٠ 2 5
  2. آل عمران 42 تا 59‘ 84 5 1 ٠ 1 19
  3. النساء 156 تا 159‘ 163‘ 171‘ 172 3 3 ٠ 2 7
  4. المائدہ 17‘ 46‘ 72‘ 75‘ 78‘ 11٠‘ 118 6 5 ٠ 1٠ 14
  5. الانعام 85 1 ٠ ٠ ٠ 1
  6. التوبہ 3٠‘ 31 ٠ 1 ٠ 1 2
  7. مریم 16 تا 36 1 1 1 1 21
  8. المومنون 5٠ 1 ٠ ٠ 1 1
  9. الاحزاب 7‘ 8 1 ٠ ٠ 1 2
  10. الشوریٰ 13 1 ٠ ٠ ٠ 1
  11. الزخرف 57 تا 65 1 ٠ ٠ 1 9
  12. الحدید 27 1 ٠ ٠ 1 1
  13. الصف 6‘ 14 2 ٠ ٠ 2 2


قرآن اور عقیدہ تثلیث

[ترمیم]

نزول قرآن کے وقت جمہور مسیحی جن بڑے بڑے فرقوں میں تقسیم تھے ثالوث کے متعلق ان کا عقیدہ تین جدا جدا اصولوں پر مبنی تھا ‘ ایک فرقہ کہتا تھا کہ مسیح عین خدا ہے اور خدا ہی بشکل مسیح (علیہ السلام) دنیا میں اتر آیا ہے اور دوسرا فرقہ کہتا تھا کہ مسیح ابن اللہ (خدا کا بیٹا) ہے اور تیسرا کہتا تھا کہ وحدت کا راز تین میں پوشیدہ ہے ‘ باپ ‘ بیٹا ‘ مریم۔ اور اس جماعت میں بھی دو گروہ تھے اور دوسرا گروہ حضرت مریم کی جگہ ” روح القدس “ کو اقنوم ثالث کہتا تھا۔ غرض وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ثالث ثلاثہ (تین میں کا تیسرا) تسلیم کرتے تھے اس لیے قرآن کی صدائے حق نے تینوں جماعتوں کو جدا جدا بھی مخاطب کیا ہے اور یکجا بھی اور دلائل وبراہین کی روشنی میں مسیحی دنیا پر یہ واضح کیا ہے کہ اس بارے میں راہ حق ایک اور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ مسیح (علیہ السلام) حضرت مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا شدہ انسان اور خدا کا سچا پیغمبر اور رسول ہے ‘ باقی جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ باطل محض ہے۔ خواہ اس میں تفریط ہو جیسا کہ یہود کا عقیدہ ہے کہ العیاذ باللہ وہ شعبدہ باز اور مفتری تھے یا افراط ہو جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ خدا ہیں اور خدا کے بیٹے ہیں یا تین میں کے تیسرے ہیں۔ قرآن عزیز نے صرف یہی نہیں کیا کہ نصاریٰ کے تردیدی پہلو کو ہی اس سلسلہ میں واضح کیا ہو بلکہ اس کے علاوہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی شان رفیع کی اصل حقیقت کیا ہے اور عنداللہ ان کو کیا قربت حاصل ہے اس پر بھی نمایاں روشنی ڈالی ہے تاکہ اس طرح یہود کے عقیدہ کی بھی تردید ہوجائے اور افراط وتفریط سے جدا راہ حق آشکارا نظر آنے لگے۔

حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا کے مقرب اور برگزیدہ رسول ہیں

[ترمیم]

{ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا۔ وَّ بَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ َو یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا۔ } [262] ” مسیح (علیہ السلام) نے کہا ” بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس نے مجھ کو نبی بنایا ہے اور مجھ کو مبارک ٹھہرایا جہاں بھی رہوں اور اس نے مجھ کو نماز کی اور زکوۃ کی وصیت فرمائی جب تک بھی زندہ رہوں اور اس نے مجھ کو میری والدہ کے لیے نیکوکار بنایا اور مجھ کو سخت گیر اور بدبخت نہیں بنایا ‘ مجھ پر سلامتی ہو جب میں پیدا ہوا ‘ جب میں مرجاؤں اور جب حشر کے لیے زندہ اٹھایا جاؤں۔ “ { اِنْ ہُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنَاہُ مَثَـلًا لِّبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ۔ وَلَوْ نَشَائُ لَجَعَلْنَا مِنْکُمْ مَـلَائِکَۃً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ۔ وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَـلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوْنِ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ } [263] ” وہ (مسیح (علیہ السلام)) نہیں ہے مگر ایسا بندہ جس پر ہم نے انعام کیا اور میں نے اس کو مثال بنایا ہے بنی اسرائیل کے لیے ‘ اور اگر ہم چاہتے تو کردیتے ہم تم میں سے فرشتے زمین میں چلنے پھرنے والے اور بلاشبہ وہ (مسیح (علیہ السلام)) نشان ہے قیامت کے لیے ‘ پس اس بات پر تم شک نہ کرو اور میری پیروی کرو ‘ یہی سیدھا راستہ ہے۔ “ { وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ } [264] ” اور (وہ وقت یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل ! بلاشبہ میں تمھاری جانب اللہ کا رسول ہوں تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے تورات اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام ” احمد “ ہے۔ “

حضرت مسیح (علیہ السلام) نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے

[ترمیم]

{ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّھْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّہٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَ لِلّٰہِ مَلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَھُمَا یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} [265] ” بلاشبہ ان لوگوں نے کفر اختیار کر لیا جنھوں نے یہ کہا ” بے شک اللہ وہی مسیح بن مریم ہے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ یہ ارادہ کرلے کہ مسیح بن مریم ‘ مریم اور زمین پر جو کچھ بھی ہے سب کو ہلاک کر ڈالے تو کون شخص ہے جو اللہ سے (اس کے خلاف) کسی شے کے مالک ہونے کا دعویٰ کرسکے اور اللہ کے لیے ہی بادشاہت ہے آسمانوں کی اور زمین کی ‘ وہ جو چاہتا ہے اس کو پیدا کرسکتا ہے اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “ { لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ } [266] ” بلاشبہ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا جنھوں نے کہا : بلاشبہ اللہ وہی مسیح بن مریم ہے حالانکہ مسیح نے یہ کہا : اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا پروردگار ہے بے شک جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے پس یقیناً اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔ “ { وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ } [267] ” اور انھوں نے کہا : اللہ نے ” بیٹا “ بنا لیا ہے ‘ وہ ذات تو ان باتوں سے پاک ہے ‘ بلکہ (اس کے خلاف) اللہ کے لیے ہی ہے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے ہر شے اللہ کے لیے تابعدار ہے۔ “ { اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ ادَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ } [268] ” بلاشبہ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے کہ اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کہا : ہوجا تو وہ ہو گیا۔ “ { یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا } [269] ” اے اہل کتاب اپنے دینی معاملہ میں حد سے نہ گزرو اور اللہ کے بارے میں حق کے ماسوا کچھ نہ کہو بلاشبہ مسیح ابن مریم اللہ کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم پر ڈالا (یعنی بغیر باپ کے اس کے حکم سے مریم کے بطن میں وجود پزیر ہوئے) اور اس کی روح ہیں پس اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین (اقانیم) نہ کہو اس سے باز آجاؤ تمھارے لیے بہتر ہوگا بلاشبہ اللہ خدائے واحد ہے ‘ پاک ہے اس سے کہ اس کا بیٹا ہو ‘ اسی کے لیے ہے (بلاشرکت غیر ے) جو کچھ بھی ہے آسمانوں اور زمین میں اور کافی ہے اللہ ” وکیل “ ہو کر۔ “ { بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ} [270] ” وہ (خدا) موجد ہے آسمانوں اور زمین کا ‘ اس کے لیے بیٹا کیسے ہو سکتا ہے اور نہ اس کے بیوی ہے اور اس نے کائنات کی ہر شے کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔ “ { مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَ اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَاْکُلٰنِ الطَّعَامَ } [271] ” مسیح بن مریم نہیں ہیں مگر خدا کے رسول ‘ بلاشبہ ان سے پہلے رسول گذر چکے ہیں ‘ اور ان کی والدہ صدیقہ ہیں ‘ یہ دونوں کھانا کھاتے تھے (یعنی دوسرے انسانوں کی طرح کھانے پینے وغیرہ امور میں وہ بھی محتاج تھے) “ { لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ وَ مَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُھُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا } [272] ” ہرگز مسیح اس سے ناگواری نہیں اختیار کرے گا کہ وہ اللہ کا بندہ کہلائے اور نہ مقرب فرشتے (حتیٰ کہ نہ روح القدس ” جبرائیل “ ناک بھوئیں چڑھائیں گے) اور جو عبادت سے ناگواری کا اظہار کرے اور غرور اختیار کرے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی جانب اکٹھا کرے گا (یعنی جزا و سزا کے دن سب حقیقت حال کھل جائے گی)۔ “ { وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ } [273] ” اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے ‘ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ‘ ریس کرنے لگے اگلے کافروں کی بات کی ‘ اللہ ان کو ہلاک کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔ “ { قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ 5 وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔ } [274] ” اے محمد کہہ دیجئے اللہ ایک ہے ‘ اللہ بے نیاز ہستی ہے ‘ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کائنات میں کوئی اس کا ہم سر نہیں ہے۔ “
قرآن نے اس سلسلہ میں اپنی صداقت اور اصلاح عقائد و اعمال کا جو مدلل اور واضح اعلان کیا اس کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ موجودہ کتاب مقدس کے محرف اور مسخ کر دیے جانے کے باوجود جس شکل و صورت میں آج موجود ہے وہ کسی مقام پر بھی ” ثالوث “ کے اس عقیدہ کا پتہ نہیں دیتی جس کی تفصیلات و تشریحات ابھی سطور بالا میں علمائے نصاریٰ ‘ مذہبی کونسلوں اور کلیساؤں سے نقل ہو چکی ہیں اور بجز تعبیر کے جگہ جگہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے خدا کو ” باپ “ اور خود کو ” بیٹا “ ظاہر کیا گیا ہے اس کے لیے اور کوئی ثبوت واضح اور مصرح طور پر مہیا نہیں ہے پس اگر ہم اس سے قطع نظر بھی کر لیں کہ یہ تعبیرات ” تحریفی “ اور ” صنم پرستی “ کے تخیل کی رہین منت ہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیں کہ خدائے برتر کی جانب سے سچی الہامی انجیل میں بھی یہ تعبیرات موجود تھیں تب بھی ان سے نصاریٰ کا عقیدہ ” تثلیث “ کسی طرح صحیح ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ” ابن “ کا لفظ اگرچہ حقیقی معنی کے لحاظ سے اس انسان پر بولا جاتا ہے جو کسی کی صلب یا کسی کے بطن سے مادہ منویہ کے ذریعہ پیدا ہوا ہو ‘ تاہم محاورات زبان اور اہل زبان کے استعمالات و اطلاقات شاہد ہیں کہ یہ لفظ کبھی مجاز کے طور پر اور کبھی تشبیہ یا کنایہ کے طریق سے اور بھی مختلف معانی پر بولا جاتا ہے ‘ مثلاً ایک بڑی عمر کا شخص اپنے سے چھوٹے کو مجازاً ” ابن “ (بیٹا) کہہ دیا کرتا ہے یا بادشاہ اپنی رعایا کو اولاد کہہ کر خطاب کرتا ہے یا استاد اپنے شاگردوں کو ” بیٹا “ کہہ کر پکارتا ہے یا جو شخص کسی علم و ہنر کا ماہر یا اس کی خدمت میں سرشار ہوتا ہے تو اس کو کنایۃً اس علم و ہنر کا بیٹا کہہ کر یاد کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں ” ابن القانون “ ” ابن الفلسفہ “” ابن الفلاحۃ “ ” ابن الحدادہ “ یا دنیا طلبی کی حرص و آرزو میں اگر حد سے گذر چکا ہے تو اس کو ” ابن الدراہم “ ” ابن الدنانیر “ کہہ دیا کرتے ہیں ‘ اسی طرح مسافر کو ” ابن السبیل “ مشہور شخصیت کو ” ابن جلا “ بڑے ذمہ دار انسان کو ” ابن لیلہا “ آنے والے دن سے بے پروا شخص کو ” ابن یومیہ “ دنیا ساز ہستی کو ” ابن الوقت “ کہتے ہیں یا جس کے اندر کوئی وصف نمایاں طور پر موجود ہوتا ہے تو اس وصف کی جانب لفظ ” ابن “ کو منسوب کرکے ذات موصوف کو یاد کرتے ہیں مثلاً صبح کو ” ابن ذکاء “ کہتے ہیں اور ان تمام مثالوں سے زیادہ یہ کہ انبیائے بنی اسرائیل اپنی امتوں کو ابناء اور اولاد کے ساتھ ہی خطاب کرتے اور نصائح و مواعظ میں ظاہر فرماتے ہیں کہ امم و اقوام انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کی روحانی اولاد ہوتی ہیں۔
اور یہی حال ” اب “ اور ” باپ “ کے اطلاقات و استعمالات کا ہے۔ ایک چھوٹا اپنے بڑے کو ‘ ایک ضرورت مند اپنے مربی کو ‘ ایک شاگرد اپنے استاد کو ‘ ایک امتی اپنے نبی رسول کو ” اب “ اور ” باپ “ کہنا فخر سمجھتا ہے۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے تمام اطلاقات مجاز ‘ کنایہ اور تشبیہ کے طور پر کیے جاتے ہیں اسی طرح بے نظیر مقرر اور خطیب کو ” ابوالکلام “ بہترین انشاء پرداز کو ” ابوالقلم “ ماہر نقاد کو ” ابو النظر “ ڈراؤنی اور ہیبت ناک شے کو ” ابوالہول “ سخی کو ” ابو النجاد “ فن کاشتکاری کے ماہر کو ” ابو الفلاحہ “ صنعت و حرفت کے حاذق کو ” ابو الصنع “ شب و روز بولتے رہتے ہیں۔ تو ان اطلاقات کے پیش نظر بآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ کتاب مقدس میں ذات احدیت پر اب (باپ) کا اطلاق رب حقیقی کی حیثیت میں اور حضرت مسیح پر ابن (بیٹا) کا اطلاق محبوب و مقبول الٰہی کی حیثیت میں ہوا ہے۔ یعنی جس طرح باپ اور بیٹے کے درمیان محبت و شفقت کا رشتہ مضبوط و مستحکم ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ محبت و شفقت کا وہ رشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اور اس کے مقدس پیغمبر مسیح (علیہ السلام) کے درمیان میں قائم ہے۔ ایک صحیح حدیث میں بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس استعارہ اور تشبیہ کو استعمال فرماتے ہوئے کہا ہے ” اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ “ (تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے)۔
پس روزمرہ کے محاورات و اطلاقات کو نظر انداز کرکے کتاب مقدس کے لفظ ” اب “ اور ” ابن “ کے ایسے معانی و مطالب مراد لینا جو صریح شرک کے مرادف ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ قباحت و شناعت کے ساتھ خدا کی ہستی کو تین اقانیم سے مرکب ظاہر کرتے اور خدا کے حصے بخرے بناتے ہوں ‘ کسی طرح بھی جائز نہیں ہو سکتا اور صریح ظلم اور اقدام شرک ہے ” تَعَالَی اللّٰہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا “ بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ انھی اناجیل میں بصراحت حضرت مسیح (علیہ السلام) کے انسان اور مخلوق خدا ہونے پر نصوص موجود ہوں مثلاً یوحنا کی انجیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ ارشاد مذکور ہے : ” میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ تم آسمان کو کھلا ہوا اور خدا کے فرشتوں کو اوپر جاتے اور ابن آدم (مسیح (علیہ السلام) ) پر اترتے دیکھو گے۔ “ [275] اور باب 13 میں بصراحت خود کو ” رسول “ کہا ہے :
اور یہی حال ” اب “ اور ” باپ “ کے اطلاقات و استعمالات کا ہے۔ ایک چھوٹا اپنے بڑے کو ‘ ایک ضرورت مند اپنے مربی کو ‘ ایک شاگرد اپنے استاد کو ‘ ایک امتی اپنے نبی رسول کو ” اب “ اور ” باپ “ کہنا فخر سمجھتا ہے۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے تمام اطلاقات مجاز ‘ کنایہ اور تشبیہ کے طور پر کیے جاتے ہیں اسی طرح بے نظیر مقرر اور خطیب کو ” ابوالکلام “ بہترین انشاء پرداز کو ” ابوالقلم “ ماہر نقاد کو ” ابو النظر “ ڈراؤنی اور ہیبت ناک شے کو ” ابوالہول “ سخی کو ” ابو النجاد “ فن کاشتکاری کے ماہر کو ” ابو الفلاحہ “ صنعت و حرفت کے حاذق کو ” ابو الصنع “ شب و روز بولتے رہتے ہیں۔ تو ان اطلاقات کے پیش نظر بآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ کتاب مقدس میں ذات احدیت پر اب (باپ) کا اطلاق رب حقیقی کی حیثیت میں اور حضرت مسیح پر ابن (بیٹا) کا اطلاق محبوب و مقبول الٰہی کی حیثیت میں ہوا ہے۔ یعنی جس طرح باپ اور بیٹے کے درمیان محبت و شفقت کا رشتہ مضبوط و مستحکم ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ محبت و شفقت کا وہ رشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اور اس کے مقدس پیغمبر مسیح (علیہ السلام) کے درمیان میں قائم ہے۔ ایک صحیح حدیث میں بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس استعارہ اور تشبیہ کو استعمال فرماتے ہوئے کہا ہے ” اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ “ (تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے) پس روزمرہ کے محاورات و اطلاقات کو نظر انداز کرکے کتاب مقدس کے لفظ ” اب “ اور ” ابن “ کے ایسے معانی و مطالب مراد لینا جو صریح شرک کے مرادف ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ قباحت و شناعت کے ساتھ خدا کی ہستی کو تین اقانیم سے مرکب ظاہر کرتے اور خدا کے حصے بخرے بناتے ہوں ‘ کسی طرح بھی جائز نہیں ہو سکتا اور صریح ظلم اور اقدام شرک ہے ” تَعَالَی اللّٰہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا “ بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ انھی اناجیل میں بصراحت حضرت مسیح (علیہ السلام) کے انسان اور مخلوق خدا ہونے پر نصوص موجود ہوں مثلاً یوحنا کی انجیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ ارشاد مذکور ہے :
” میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ تم آسمان کو کھلا ہوا اور خدا کے فرشتوں کو اوپر جاتے اور ابن آدم (مسیح (علیہ السلام) ) پر اترتے دیکھو گے۔ “ [276] اور باب 13 میں بصراحت خود کو ” رسول “ کہا ہے :

لائق توجہ بات

[ترمیم]

یہ بات کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ ادیان ملل سابقہ کے مسخ و تحریف میں تحریف کرنے والوں کو اس سے بہت زیادہ مدد ملی کہ بنیادی عقائد میں صراحت اور وضاحت کی جگہ وقت کے معبروں ‘ مفسروں اور ترجمانوں نے کنایات ‘ استعارات اور تشبیہات سے بہت زیادہ کام لیا ان تعبیرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ان مذاہب حق کا صنم پرستوں اور فلسفیوں سے واسطہ پڑا اور انھوں نے کسی نہ کسی طرح اس دین حق کو قبول کر لیا تو اپنے فلسفیانہ اور مشرکانہ افکار و خیالات کے لیے انھی استعارات اور تشبیہات کو پشت پناہ بنایا اور آہستہ آہستہ ملت حقیقی کی شکل و صورت بدل کر اس کو معجون مرکب بنا ڈالا۔ اسی حقیقت کے پیش نظر قرآن عزیز نے وجود باری ‘ توحید ‘ رسالت ‘ الہامی کتب ‘ ملائکۃ اللہ ‘ غرض بنیادی عقائد میں ذومعنی الفاظ ‘ پرپیچ تشبیہات اور توحید میں خلل انداز استعارات و کنایات کی بجائے واضح ‘ صریح اور غیر مبہم اطلاقات کو اختیار کیا ہے تاکہ کسی ملحد ‘ زندیق اور مشرک فلسفی کو توحید خالص میں شرک اور اوہام و ظنون کی نکتہ آفرینیوں کا موقع ہاتھ نہ آنے پائے اور اگر کوئی شخص اس کے باوجود بے جا جسارت کرے تو خود قرآن عزیز کی نصوص صریحہ ہی اس کے الحاد کو پاش پاش کر دیں۔

کفارہ

[ترمیم]

موجودہ مسیحیت کا دوسراعقیدہ جس نے دین مسیحیت کی حقیقت کو برباد کر ڈالا ” کفارہ “ کا عقیدہ ہے۔ اس کی بنیاد اس تخیل پر قائم ہے کہ تمام کائنات ” جس میں نیکوکار اور انبیا و رسل سبھی شامل ہیں “ ابتدائے آفرینش سے ہی گناہ گار ہے ‘ آخر رحمت الٰہی کو جوش آیا اور اس کی مشیت نے ارادہ کیا کہ بیٹے کو کائنات ارضی میں بھیجے اور وہ مصلوب ہو کر اول و آخر تمام کائنات کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے اور اس طرح دنیا کو نجات اور مکتی حاصل ہو سکے لیکن اس عقیدے کے قوام بنانے کے لیے چند ضروری اجزاء کی ضرورت تھی جن کے بغیر یہ عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی تھی اس لیے ” عہدِ رسول “ میں سب سے پہلے مسیحیت نے یہودیت کے اس عقیدے کو تسلیم کر لیا کہ ان کو صلیب پر بھی چڑھایا گیا اور مار بھی ڈالا گیا اور اس کو شرف قبولیت دینے کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ ” الوہیت “ کے باوجود مسیح (علیہ السلام) کا صلیب پانا اور قتل ہونا اپنے لیے نہیں بلکہ کائنات کی نجات کے لیے تھا۔ چنانچہ جب اس پر یہ حادثہ گذر گیا تو اس نے پھر الوہیت کی چادر اوڑھ لی اور عالم لاہوت میں باپ اور بیٹے کے درمیان میں دوبارہ لاہوتی رشتہ قائم ہو گیا۔ پس جب مذہب میں خدائے برتر کے ساتھ صحت عقیدہ اور نیک عملی مفقود ہو کر نجات کا دار و مدار عمل و کردار کی بجائے ” کفارہ “ پر قائم ہوجائے ‘ اس کا حشر معلوم ؟ قرآن نے اسی لیے جگہ جگہ یہ واضح کیا ہے کہ نجات کے لیے عقیدہ کی صحت یعنی صحیح خدا پرستی اور نیک عملی کے ما سوا کوئی دوسری راہ نہیں ہے اور جو شخص بھی اس ” راہ مستقیم “ کو ترک کرکے خوش عقیدگی اور اوہام و ظنون کو اسوہ بنائے گا اور نیک عملی اور صحیح خدا پرستی پر گامزن نہ ہوگا بلاشبہ گمراہ ہے اور راہ مستقیم سے یکسر محروم : { اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ } [277] ” جو لوگ اپنے کو مومن کہتے ہیں اور جو یہودی ہیں اور جو نصاریٰ ہیں اور جو صابی ہیں ان میں سے جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آیا اور اس نے نیک عمل کیے تو یہی وہ شخص ہیں جن کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے ‘ نہ ان پر خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “
یعنی قرآن کی دعوت اصلاح ادیان و ملل کا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہودی ‘ نصرانی ‘ صابی گروہوں کی طرح ایک نیا گروہ مومنون کے نام سے اس طرح اضافہ کر دے کہ گویا وہ بھی ایک قومی ‘ نسلی یا ملکی گروہ بندی ہے کہ خواہ اس کی خدا پرستانہ زندگی اور عملی زندگی کتنی ہی غلط اور برباد ہو یا سرے سے مفقود ہو ‘ مگر اس گروہ بندی کا فرد ہونے کی وجہ سے ضرور کامیاب اور خدا کی جنت و رضا کا مستحق ہے ‘ قرآن کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ اعلان کرنے آیا ہے کہ اس کی دعوت حق سے پہلے کوئی شخص کسی بھی گروہ اور مذہبی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اگر اس نے (قرآن کی تعلیم حق کے مطابق) خدا پرستی اور نیک عملی کو اختیار کر لیا ہے تو بلاشبہ وہ نجات یافتہ اور کامیاب ہے ورنہ تو وہ اگر مسلمان گھر میں پیدا ہوا پلا اور بڑھا اور اسی سوسائٹی میں زندگی گزار کر مرگیا مگر قرآن کی دعوت حق کے مطابق خدا پرستی اور نیک عملی دونوں سے محروم رہا یا مخالف تو اس کے لیے نہ کامیابی ہے اور نہ فوز و فلاح۔ باقی رہا مسیحیت کے کفارہ کا خصوصی مسئلہ تو قرآن نے اس کے ابطال اور تردید کے لیے یہ راہ اختیار کی کہ جن بنیادوں پر اس کو قائم کیا گیا تھا ان کی ہی جڑ کاٹ دی۔ چنانچہ گذشتہ سطور میں صلیب اور قتل مسیح (علیہ السلام) کے انکار ‘ رفع الی السماء کے اثبات کے مبحث میں اس پر کافی روشنی پڑچکی ہے۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. عنوان : Марьям
  2. عنوان : Иса ибн Марьям
  3. صحیح البخاری - نزول عيسى إبن مريم (ع) - أحاديث الأنبياء - رقم الحديث : 3193
  4. (صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم) (کتاب الانبیاء)
  5. (النساء : 4/159)
  6. ابوداؤد ‘ نسائی ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ
  7. (ترمذی باب نزول عیسیٰ بن مریم)
  8. (تفسیر ابن جریر ج 5)
  9. (کتاب الاسماء و الصفات صفحہ 3٠1 و کنز العمال ج 7 ص 268)
  10. (تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 578۔ 583)
  11. (تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 587 و 583)
  12. (تفسیر ابن کثیر جلد 1 سورة آل عمران)
  13. (البدایہ والنہایہ ج 2 ص 56)
  14. (البدایہ والنہایہ جلد 2)
  15. (فتح الباری ج 6 ص 364)
  16. فتح الباری ج 6 ص 365
  17. (آل عمران : 3/33 تا 37)
  18. تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 36٠
  19. روح المعانی سورة آل عمران
  20. (ترجمان القرآن ج 2 ص 443)
  21. (آل عمران : 3/37)
  22. (آل عمران : 3/42‘ 43)
  23. (آل عمران : 3/44)
  24. (آل عمران : 3/42)
  25. (آل عمران 3/42)
  26. (النحل : 16/43)
  27. (المائدۃ : 5/75)
  28. (النحل : 16/68)
  29. (مریم : 19/19)
  30. (یوسف : 12/1٠9)
  31. (النحل : 16/68)
  32. (الانعام : 6/112)
  33. (ھود : 11/71 تا 73)
  34. (ھود 11/73)
  35. (مریم : 19/19)
  36. (مریم : 19/58)
  37. صحیح البخاری ‘ کتاب الفضائل اصحاب النبی ‘ باب فضل عائشہ (رض) ‘ حدیث 3769۔
  38. (البقرۃ : 2/253)
  39. الفصل فی الملل والاہواء و النحل ‘ مطبوعہ مصر 1348 ھ جلد 5 صفحہ 12‘ 13‘ 14 یہ بحث فتح الباری جلد 6 صفحہ 347‘ 348 و 368 مطبوعہ مصر میں بھی قابل مراجعت ہے۔
  40. (الشوریٰ : 42/51)
  41. (فتح الباری ج 6 کتاب الانبیاء)
  42. ؎ فتح الباری ج 6 ص 368۔
  43. (آل عمران 3/42)
  44. (الدخان : 44/32)
  45. (باب 33 آیت 1۔ 2)
  46. (مرقس ‘ باب 1 آیت 2‘ 3)
  47. (باب 2 آیات 1۔ 6)
  48. (باب 21 آیات 1۔ 5)
  49. (باب 1 آیات 19۔ 23)
  50. (لوقا باب 2 آیات 15۔ 16)
  51. (آل عمران : 3/39)
  52. (آل عمران : 3/45 تا 49)
  53. (مریم : 19/16 تا 21)
  54. (البدایہ والنہایہ ج 2)
  55. (الانبیاء : 21/91)
  56. (التحریم : 66/12)
  57. (مریم : 19/22 تا 33)
  58. (تفسیر ابن کثیر)
  59. (المومنون : 23/5٠)
  60. (تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 246)
  61. (تفسیر ابن کثیر)
  62. (تاریخ ابن کثیر جلد 2 صفحہ 77 و انجیل متی باب 2 آیات 1 تا 12)
  63. (البقرۃ : 2/87‘ 88)
  64. (المائدۃ : 5/11٠)
  65. (آل عمران : 3/5٠ تا 52)
  66. (الحدید : 57/27)
  67. (المائدۃ : 5/11٠)
  68. (الصف : 61/6)
  69. (الانفال : 8/17)
  70. (الانعام : 6/149)
  71. (الانعام : 6/83)
  72. (النساء : 4/165)
  73. (النساء : 4/17٠)
  74. (یوسف : 12/24)
  75. (النحل : 16/125)
  76. (النساء : 4/113)
  77. (الاعراف : 7/73)
  78. (الانبیاء : 21/91)
  79. (بنی اسرائیل : 17/1٠1)
  80. (البقرۃ : 2/253)
  81. (المائدۃ : 5/11٠)
  82. (القصص : 28/32)
  83. (المائدۃ : 5/67)
  84. (طہ 2٠/7٠)
  85. (انعام : 6/7)
  86. (الانفال : 8/17)
  87. (بنی اسرائیل : 17/9٠ تا 94)
  88. (الحجر : 15/14‘ 15)
  89. (الانعام : 6/25)
  90. (النساء : 4/15٠)
  91. (البقرۃ : 2/2٠8)
  92. (الانعام : 6/83)
  93. (انبیا 21/69)
  94. (الانبیاء : 21/7٠)
  95. (اعراف : 7/12٠۔ 122)
  96. (شعرا : 26/34)
  97. (القصص : 28/36)
  98. (المائدۃ : 5/11٠)
  99. (البدایہ والنہایہ ج 2 ص 82)
  100. (آل عمران : 3/49)
  101. (البقرۃ : 2/73)
  102. (البقرۃ : 2/259)
  103. (البقرۃ : 2/26٠)
  104. (آل عمران : 3/59)
  105. (ترجمان القرآن جلد 2 صفحہ 445)
  106. (آل عمران : 3/48 تا 51)
  107. (المائدۃ : 5/11٠)
  108. (الصف : 61/6)
  109. (الزخرف : 43/63 تا 65)
  110. (الصف : 61/6)
  111. (آل عمران : 3/52‘ 53)
  112. (المائدۃ : 5/111)
  113. (الصف : 61/14)
  114. (الصف : 61/14)
  115. (باب 13 آیات 21۔ 27)
  116. (یوحنا ‘ باب 13‘ آیات 36۔ 38)
  117. (متی باب 26 آیت 56)
  118. (المائدۃ : 5/112 تا 115)
  119. (تفسیر ابن کثیر جلد 2 ص 116۔
  120. مگر یوحنا کی انجیل باب 6 میں تو یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ” عید فسح “ کے موقع پر پیش آیا۔
  121. (مائدہ 5/113)
  122. (موضح القرآن سورة مائدہ)
  123. (تفسیر ابن کثیر جلد 2 سورة مائدہ)
  124. (باب 11 آیات 47 تا 51)
  125. (باب 14 آیت 1۔ 2)
  126. (باب 26 آیات 63 تا 75 و باب 27 آیات 1 تا 5٠)
  127. ؎ انجیل متی ‘ باب 26 آیت 39
  128. (انجیل یوحنا باب 19 آیات 33۔ 42 و باب 2٠ آیات 1 تا 22)
  129. (آل عمران : 3/54)
  130. (آل عمران : 3/55)
  131. (المائدۃ : 5/11٠)
  132. (النساء : 4/157‘ 158)
  133. (آل عمران 3/55)
  134. (المائدۃ : 5/11٠)
  135. (النساء : 4/157‘ 158)
  136. (النمل : 27/48 تا 53)
  137. (المائدۃ : 5/11٠)
  138. صحیح البخاری - نزول عيسى إبن مريم (ع) - أحاديث الأنبياء - رقم الحديث : 3193
  139. رواہ ابن أبي الدنيا – كما عزاہ إليہ الذهبي في "ميزان الاعتدال" (2/562) - وابن الجوزي في "العلل المتناهية" (2/915) وفي "المنتظم" (1/126)، وفي "الوفا" (2/714) أيضا : من طريق عبد الرحمن بن زياد بن أنعم الإفريقي
  140. "اخرجہ ابن كثير في تفسير آل عمران"۔ 14 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2017 
  141. (آل عمران 3/55)
  142. (آل عمران 3/55)
  143. (آل عمران 3/55)
  144. (الزمر : 39/42)
  145. (الانعام : 6/6٠)
  146. (الانعام : 6/61)
  147. (النساء : 4/15)
  148. (البقرۃ : 2/281)
  149. (النحل : 16/111)
  150. (البقرۃ : 2/111)
  151. (النساء : 4/97)
  152. (الانعام : 6/61)
  153. (سجدۃ : 32/11)
  154. (الانفال : 8/5٠)
  155. (الملک : 67/2)
  156. (الفرقان : 25/3)
  157. (البقرۃ : 2/26٠)
  158. (روم : 3٠/19)
  159. (البقرۃ : 2/164)
  160. (آل عمران : 3/49)
  161. (الشورٰی : 42/9)
  162. (آل عمران : 3/54)
  163. (المائدۃ : 5/11٠)
  164. (آل عمران : 3/55)
  165. (حم السجدۃ : 41/42)
  166. (یونس : 1٠/39)
  167. (النازعات : 79/27‘ 28)
  168. (النجم : 53/9)
  169. (نساء 4/157)
  170. (نساء 4/157)
  171. (نساء 4/157)
  172. (النساء : 4/157)
  173. واقعات کی یہ تفصیلات تاریخ ابن کثیرجلد 2 اور کتب تفسیر میں منقول ہیں
  174. (نساء 4/157)
  175. (نساء 4/157)
  176. (النساء 4 : 159)
  177. (النساء : 4/159)
  178. (آل عمران : 3/185)
  179. (تفسیر ابن کثیر جلد اول)
  180. (فتح الباری شرح بخاری ج 6 ص 3٠4)
  181. (المومن : 4٠/83 تا 85)
  182. (النساء : 4/18)
  183. (النساء : 4/159)
  184. (مائدہ : 5/75)
  185. (صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم)
  186. (کتاب الانبیاء)
  187. (النساء : 4/159)
  188. (کتاب الانبیاء)
  189. ابوداؤد ‘ نسائی ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ
  190. (ترمذی باب نزول عیسیٰ بن مریم)
  191. (تفسیر ابن جریر ج 5)
  192. (کتاب الاسماء و الصفات صفحہ 3٠1 و کنز العمال ج 7 ص 268)
  193. (تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 578۔ 583)
  194. (تفسیر ابن کثیر جلد اول ص 587 و 583)
  195. (الاسراء : 17/81)
  196. (الفتح : 48/28)
  197. (العنکبوت : 29/26)
  198. (آل عمران : 3/185)
  199. (القصص : 28/88)
  200. (فتح الباری ج 1)
  201. (آل عمران : 3/81)
  202. (تفسیر ابن کثیر ج 1)
  203. (الصف : 61/6)
  204. (زخرف : 43/61)
  205. (النساء : 4/159)
  206. (الزخرف : 43/85)
  207. (الانعام : 6/31)
  208. (الاعراف : 7/187)
  209. (ماخوذ از صحیح احادیث عن ابن عساکر فی تاریخہ)
  210. (تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 584)
  211. (المائدۃ : 5/1٠9)
  212. (النساء : 4/41)
  213. (الزمر : 39/69)
  214. (تفسیر ابن کثیر جلد 1)
  215. (عقیدۃ الاسلام ص 165)
  216. (المائدۃ : 5/116 تا 118)
  217. (المائدۃ : 5/119)
  218. (المائدۃ : 5/119)
  219. (المائدۃ : 5/116)
  220. (المائدۃ : 5/116)
  221. (المائدۃ : 5/117)
  222. (المائدۃ : 5/117)
  223. (المائدۃ : 5/118)
  224. (المائدۃ : 5/119)
  225. (مائدہ 5/1٠9)
  226. (مائدہ 5/119)
  227. (الانعام : 6/27)
  228. (الانعام : 6/3٠)
  229. (سبا : 34/53۔ 51)
  230. (السجدۃ : 32/12)
  231. (المائدۃ : 5/117)
  232. (المائدۃ : 5/116)
  233. (المائدۃ : 5/116)
  234. (تفسیر ابن کثیر جلد 1 سورة مائدہ)
  235. (المائدۃ : 5/116)
  236. 1 ؎ تفسیر ابن کثیر جلد 1 سورة مائدہ
  237. (ترجمان القرآن جلد دوم صفحہ 443)
  238. (الفارق بین المخلوق والخالق جلد اول ص 2٠ ماخوذ از کتاب جرجیس زوین لبنانی مطبوعہ بیروت)
  239. (الفارق ص 316)
  240. (قصص الانبیاء للنجار ص 477۔ 479)
  241. 1 ؎(قصص الانبیاء ص 477)
  242. 2 ؎قصص الانبیاء ص 477
  243. 1 ؎ قصص الانبیاء ص 477
  244. 2 ؎ایضََا مطبوعہ 1844 ء
  245. 3 ؎ الفارق ص 341۔ 342
  246. (آل عمران : 3/3‘ 4)
  247. (آل عمران : 3/48)
  248. (آل عمران : 3/65)
  249. (المائدۃ : 5/46‘ 47)
  250. (المائدۃ : 5/66)
  251. (المائدۃ : 5/68)
  252. (المائدۃ : 5/11٠)
  253. (الاعراف : 7/157)
  254. (التوبۃ : 9/111)
  255. (البقرۃ : 2/75)
  256. (البقرۃ : 2/79)
  257. (دائرۃ المعارف للبستانی جلد 6 ص 3٠5 کلمہ ” ثالوث “ )
  258. (ص : 38/5)
  259. (حج 22/78)
  260. (آل عمران : 3/95)
  261. (الحج : 22/78)
  262. (مریم : 19/3٠ تا 33)
  263. (الزخرف : 43/59 تا 61)
  264. (الصف : 61/6)
  265. (المائدۃ : 5/17)
  266. (المائدۃ : 5/72)
  267. (البقرۃ : 2/116)
  268. (آل عمران : 3/59)
  269. (النساء : 4/171)
  270. (الانعام : 6/1٠1)
  271. (المائدۃ : 5/75)
  272. (النساء : 4/172)
  273. (التوۃ : 9/3٠)
  274. (اخلاص : 112/1 تا 4)
  275. (باب 1 آیت 51)
  276. (باب 1 آیت 51)
  277. (البقرۃ : 2/62)

بیرونی روابط

[ترمیم]