لوری ایسا کوئی بھی گیت یا شاعرانہ جملے، جو عورتیں بچوں کو سلانے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے آہستہ آہستہ سر میں گاتی ہیں۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق، 2 ہزار قبل مسیح میں بھی لوری کا ثبوت ملتا ہے۔ لوری برصغیر میں لوک گیتوں کی طرح رائج رہی ہے۔ جس کی ایک ادبی اور مذہبی حثییت بھی ہے جیسے جھولنا جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچپن کو منظوم انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔
لوری کی تاریخی شہادت جو اب تک دریافت ہوئی ہے، وہ لوری کو دو ہزار قبل مسیح کے دور تک لے جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا میں پہلی بار لوری بچوں کو سلانے کے لیے ہی گائی گئی تھی اور دو ہزار قبل مسیح میں یہ لوری مٹی کے ایک چھوٹے ٹکڑے پر تحریر کی گئی تھی جو کھدائی کے دوران ملا ہے۔
اس ٹکڑے کو لندن کے برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ ہتھیلی میں سما جانے والے مٹی کے اس ٹکڑے پر موجود تحریر ’كيونيفارماسکرپٹ‘ میں ہے جسے لکھائی کی ابتدائی اشکال میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس لوری کو جہاں تک پڑھا جا سکا ہے اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ:
”
جب ایک بچہ روتا ہے تو گھروں کا خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے۔[1]
لوری کے موضوعات مختلف ادوار میں تھوڑی بہت تبدیلی سے گذرے ہیں۔ کچھ ممالک میں لوری کے اندر خوف اور ڈر کا عنصر غالب ہوتا ہے، جن میں بچے کو کسی ان دیکھی مخلوق یا جنگلی جانور سے ڈرایا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال کینیا کی لوریاں ہیں، جن میں بچوں کو لگڑبھگے سے ڈرایا جاتا ہے۔ جو قدیم ترین لوری مانی جاتی ہے اس میں بھی بچے کو دیوتا سے ڈرایا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیا کی لوری میں عام طور پر بچے کے لیے محبت اور دعا کے الفاظ ملتے ہیں، جبکہ کچھ ایسی لوریاں بھی ہوتی ہیں جن میں الفاظ نہیں ہوتے، بلکہ صرف آواز ہوتی ہے جیسے اُوں ہُوں ‘ اُوں ہُوں یا آہا آہا وغیرہ۔
لوری کو باقاعدہ لکھا جاتا رہا ہے۔ ابھی اردو میں اس کی صنف کا رواج ختم ہے۔ اسی طرح کی ایک قسم جھولنا بھی تھی، جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچپن کے واقعات منظوم کیے جاتے تھے۔[2]1870ء میں برطانوی ہند میں ایک انگریز سرجن جنرل ایڈورڈبالفور نے اردو کی لوریوں میں سے کچھ کو لکھ کر لوری نامہ کے نام سے شائع کرایا، جو شاید لوریوں کا پہلا مجموعہ تھا۔ 34 صفحات کے اس کتابچے میں 18 لوریاں شامل ہیں۔[3]